جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ ۲۰۱۶ء
خطبہ جمعہ 12؍ اگست 2016ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ انشاء اللہ۔ باقاعدہ رسمی افتتاح شام کو ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سب شامل ہونے والوں کو ان توقعات پر پورا اترنے والا بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شاملین جلسہ سے رکھی ہیں اور تمام شامل ہونے والوں کو ان دعاؤں کا وارث بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں۔ یہ تو ہر احمدی جانتا ہے اور اسے علم ہونا چاہئے اور اس بات کا خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے کہ جلسہ میں شمولیت کسی دنیاوی میلے میں شمولیت نہیں ہے۔ اس لئے ہر شامل ہونے والے کو ان دنوں میں اپنی توجہات کا مرکز دینی، علمی اور روحانی ترقی کو بنانا چاہئے۔ بلکہ آپ علیہ السلام نے ان لوگوں سے بڑی ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے جو اس سوچ کے ساتھ جلسہ میں شامل نہیں ہوتے۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ395)
جلسے کے پروگرام اس سوچ کے ساتھ بنائے جاتے ہیں اور مقررین کی تقریریں اور ان کے عناوین پر اس سوچ کے ساتھ پہلے ایک کمیٹی غور کرتی ہے جس سے دینی، علمی اور روحانی ترقی میں مدد مل سکے۔ یہ ایک لمبی فہرست ہوتی ہے اور پھر ان عناوین میں سے خلیفہ وقت کے پاس وہ منظوری کے لئے آتے ہیں اور پھر ان میں سے کچھ مضامین، کچھ عناوین تجویز کئے جاتے ہیں جو یہاں مقررین پیش کرتے ہیں تا کہ شامل ہونے والوں کی دینی، علمی اور روحانی ترقی کے لئے بہتر سے بہتر مواد مہیا کیا جا سکے۔
پس جلسہ پر آنے والوں کو جلسہ کے پروگراموں کو جلسہ کے اوقات میں جلسہ کی مارکی میں (یہ جلسہ گاہ جو ہے، اس میں) خاموشی سے بیٹھ کر سننے کو یقینی بنانا چاہئے۔ بعض دفعہ مَردوں کی طرف سے اور عموماً عورتوں کی طرف سے یہ شکایت آتی ہے کہ بجائے خاموشی سے جلسہ گاہ میں بیٹھ کر جلسہ کی کارروائی سنیں بعض لوگ جلسہ کی مارکی کے باہر ٹولیوں میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں وقت گزار رہے ہوتے ہیں اور بچوں کو کھیل کود کا سامان دے کر جلسہ کی مارکی کے ساتھ ہی انہیں کھیلنے کا موقع دیا جا رہا ہوتا ہے۔ اس سے تو بچوں کو بھی احساس نہیں ہو گا کہ دینی مجلس کا تقدّس کیا ہے؟ اگر بچے اتنے چھوٹے ہیں کہ کھیل کود کی عمر ہے اور ان کو بہلانے کے لئے ضروری ہے کچھ دیا جائے تو پھر بچوں کی مارکی میں بچوں کو لے جائیں وہاں بچے کھیلتے رہیں وہاں سامان مہیا ہے۔ لیکن جو مَین مارکیاں ہیں عورتوں کی بھی اور مردوں کی بھی اس کے ساتھ بچوں کا کھیل کود میں مصروف ہونا اور ماں باپ کا ان کے قریب ہی بیٹھ کر ٹولیاں بنا کر باتیں کرنا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے۔ اور جب کارکنان اس بات سے منع کرتے ہیں تو بعض برا بھی مناتے ہیں کہ کیوں ہمیں روکا گیا۔ حالانکہ یہ غلطی مہمانوں کی ہوتی ہے کام کرنے والوں کی نہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ایک کمیٹی تقاریر کے عناوین کے لئے غور کرتی ہے اور پھر مختلف عناوین تجویز کر کے مجھے بھیجتی ہے جن میں سے مَیں حالات کے مطابق سات آٹھ عناوین تجویز کرتا ہوں اور تجویز کے بعد یہ منتخب کئے گئے عناوین مقررین کو بھجوائے جاتے ہیں۔ وہ کئی کئی دن بلکہ بعض تو مہینے سے زیادہ وقت اپنی تقریر کی تیاری میں لگاتے ہیں اور مختصر وقت میں بڑی محنت سے ان عنوانوں پر جامع مضمون پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس ہر ایک کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ مقررین اور علماء اتنا وقت لگا کر محنت کر کے جو مواد تیار کرتے ہیں اسے غور سے سنیں اور پھر یاد بھی رکھیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر سننے والے مرد بھی اور عورتیں بھی ان تقاریر کا پچاس فیصد بھی یاد رکھیں تو اپنے علمی، دینی اور روحانی معیار کو کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ سب کو متوجہ ہو کر تقریروں کو سننا چاہئے۔ فرمایا کہ ’’پورے غور اور فکر کے ساتھ سنو کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا ہے۔ اس میں غفلت، سستی اور عدم توجہ بہت بُرے نتیجے پیدا کرتی ہے۔ جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جاوے تو غور سے اس کو نہیں سنتے ہیں ان کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا‘‘۔ فرمایا ایسے ہی لوگوں کے متعلق کہا جاتا ہے ’’کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں اور دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں۔ پس یاد رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اسے توجہ اور بڑی غور سے سنو کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتا ہے وہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد3 صفحہ143-142۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ایک حصہ خاص طور پر جب بعض دفعہ عمومی شکایتیں آتی ہیں تو وہ جو مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی مارکی کے آخری حصہ میں بیٹھے ہوتے ہیں انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ اگر وہ شکایتیں صحیح ہیں تو اس دفعہ ان کو کارکنوں کو، ڈیوٹی والوں کو شکایت کا موقع نہیں دینا چاہئے۔ ان کو چاہئے کہ وہ جلسہ کی کارروائی کو نہایت سنجیدگی سے سنیں اور اس نیت سے سنیں کہ اس سے ہم نے صرف ذہنی حظّ نہیں اٹھانا یا کسی علمی نکتے کو سن کر وقتی علمی حظّ نہیں اٹھانا بلکہ اس لئے سننا ہے کہ ہمیں مستقلاً علمی اور روحانی فائدہ ہو۔
پھر بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے پسندیدہ مقرر چنے ہوتے ہیں اور صرف انہی کی تقاریر کے لئے جلسہ گاہ میں آتے ہیں۔ ان لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’مَیں اپنی جماعت اور خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے یہی چاہتا اور پسند کرتا ہوں کہ ظاہری قیل و قال جو لیکچروں میں ہوتی ہے اس کو ہی پسندنہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آ کر اس پر ہی نہ ٹھہر جائے کہ بولنے والا کیسی جادو بھری تقریر کر رہا ہے۔ الفاظ میں کیسا زور ہے۔‘‘ فرمایا: ’’مَیں اس بات پر راضی نہیں ہوتا۔ مَیں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلّف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کا ہی یہی اقتضا ہے کہ جو کام ہو اللہ (تعالیٰ) کے لئے ہو۔ جو بات ہو خدا کے واسطے ہو۔‘‘
’’…مسلمانوں میں ادبار اور زوال آنے کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے ورنہ اس قدر کانفرنسیں اور انجمنیں اور مجلسیں ہوتی ہیں اور وہاں بڑے بڑے لسّان اور لیکچرار اپنے لیکچر پڑھتے اور تقریریں کرتے، شاعر قوم کی حالت پر نوحہ خوانیاں کرتے ہیں۔ وہ بات کیا ہے کہ اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ قوم دن بدن ترقی کے بجائے تنزّل ہی کی طرف جاتی ہے۔‘‘ فرمایا: ’’بات یہی ہے کہ ان مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کرنہیں جاتے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 401,399,398۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس آپ نے ان لوگوں کا یہ نقشہ کھینچا ہے جو دنیا دار ہیں۔ جن کے لیکچر، جن کی تقریریں چاہے وہ دین کے نام پر ہوں دنیا کی نام و نمود کی خاطر ہوتی ہیں۔ بلکہ آپ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا کہ یہ تقریریں کرنے والے اکثر بجائے یہ شوق رکھنے کے کہ ہماری تقریر لوگوں کے دلوں پر اثر کر کے ان کی علمی و روحانی بہتری کا باعث بنے، اپنی تقریر کے دوران صرف اس سوچ میں ہوتے ہیں کہ ان کی واہ واہ ہو۔ گویا کہ تقریر کے دوران ایسے مقررین نے اپنے معبود اُن سامعین کو بنایا ہوتا ہے جو اُن کی باتیں سن رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح آپ نے فرمایا شامل ہونے والے بھی اخلاص لے کر جلسوں میں شامل نہیں ہوتے، باتیں نہیں سنتے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 401۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اگر اخلاص کے ساتھ آئیں تو بالکل ایک اور اثر ہو رہا ہو، مثبت اثر ہو رہا ہو۔ لیکن بہرحال ہمارے جلسوں کے نہ تو مقررین کا یہ مقصد ہے اور نہ عموماً سامعین کا یہ مقصد ہے اور نہ ہی یہ ہونا چاہئے کہ بجائے ان باتوں کو سمجھ کر اپنی اصلاح اور بہتری کا ذریعہ بنائیں، عارضی طور پر حظّ اٹھایا جائے۔ اگر ہمارے اندر بھی کچھ لوگ ایسے ہیں تو انہیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا۔ اس احسان کا حق ہم اسی صورت میں ادا کر سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا اس بات پر ہی ہم حقیقی رنگ میں شکر ادا کر سکتے ہیں جب ہم خالصۃً لِلّٰہ ہر کام کرنے والے ہوں، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر کام کرنے والے ہوں۔ پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں تو اس لئے کہ چند ایک کی کمزوری کی حالت اکثریت کی سوچ نہ بن جائے۔ چند ایک کو دیکھ کر نئی آنے والی نسلیں یہ نہ سمجھ لیں کہ جلسوں میں بیٹھ کر باتیں کرنا اور توجہ نہ دینا جائز ہے۔ اور اگر مَیں اس حوالے سے بات کرتا ہوں تو اس لئے کہ یاددہانی ہوتی رہے اور اگر کوئی کمزوری ہے تو ساتھ کے ساتھ دُور ہوتی چلی جائے تا کہ جیسا کہ مَیں نے کہا ہمارے نئے آنے والے اور ہمارے بچے اور ہمارے نوجوان اس بات کو سامنے رکھیں کہ جلسے کی کیا اہمیت ہے۔ اگر جلسہ ہماری علمی اور روحانی ترقی پر مثبت طور پر اثر اندار نہیں ہو رہا اور بشری کمزوری کے تقاضے کے تحت ہم میں سے کچھ بعض تقریروں اور مقررین سے صحیح استفادہ نہیں کرتے تو یہ قابل فکر بات ہے۔ اللہ تعالیٰ مقررین کی زبان میں بھی برکت ڈالے کہ وہ اپنے ذمہ لگائے گئے مضمون کو سننے والوں کے ذہنوں میں اس طرح ڈال سکیں کہ وہ باتیں جو اللہ تعالیٰ اور رسول کی باتیں ہیں، جو عشق و وفا کی باتیں ہیں، جو تعلق باللہ کی باتیں ہیں، جو محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ہیں، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق مسیح موعود اور مہدی معہود سے تعلق اور اطاعت کی باتیں ہیں، لوگوں کے ذہنوں میں داخل ہو جائیں اور مثبت اثر ڈالنے والی ہوں۔ پس ہر وہ شخص جو جلسے میں آیا ہے اس بات کو یقینی بنائے کہ اس نے ان تین دنوں میں دنیا کے معاملات کو بھول جانا ہے اور بھول کر اپنے دینی اور روحانی معیاروں کو بڑھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
مہمانوں کو، جلسے میں شامل ہونے والوں کو اس طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ مہمانوں کی خدمات کے لئے مَردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی جو کارکنان مقرر کئے گئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لئے بطور کارکن جنہوں نے جلسے کے دنوں میں اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ ان میں کالجوں سکولوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء بھی ہیں اور ایسی تعداد بھی ہے، بہت بڑی تعداد ایسوں کی بھی ہے جو اپنے کاروبار کرتے ہیں یا نوکریاں کرتے ہیں۔ بعض بڑے معزز عہدوں پر بھی ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کا جو جذبہ ہے اس نے ایک سکول کے طالبعلم کو، ایک مزدور کو، ایک کاروبار کرنے والے اور ایک معزز اور دنیاوی لحاظ سے اچھی پوزیشن پر کام کرنے والے کو ایک ہی سطح پر کھڑا کر دیا۔ اس لئے وہ مہمان جو بعض دفعہ کارکنوں کے ساتھ غلط رویّہ دکھا جاتے ہیں انہیں اپنے جذبات پر کنٹرول رکھنا چاہئے اور کارکنوں کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہئے۔ بیشک کارکنوں کو یہی تلقین کی جاتی ہے کہ انہوں نے ہر صورت میں صبر اور حوصلے سے کام لینا ہے لیکن بشری تقاضے کے تحت بعض حالات میں بعض کارکن سخت جواب بھی دے دیتے ہیں۔ پس مہمانوں کا بھی کام ہے کہ کارکنوں کی عزت اور احترام کریں اور کوئی ایسا رویہ نہ دکھائیں جس سے بدمزگی پیدا ہونے کا امکان ہو اور پھر جو بچے اور نوجوان ایک جذبے کے تحت کام کرنے آتے ہیں اور بعض دفعہ مہمانوں کے غلط رویے کی وجہ سے ان میں بددلی بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ غیر از جماعت مہمان اگر کسی تکلیف کی وجہ سے کوئی اظہار کریں جو عموماً وہ نہیں کرتے تو ان کا اظہار تو بہرحال قابل قبول ہے اور ہمیں یہ پوری کوشش بھی کرنی چاہئے کہ ان کی اگر کوئی تکلیف ہے تو ان کو آرام اور سہولت مہیا کی جائے۔ لیکن احمدی جو جلسہ میں شامل ہونے آتے ہیں بیشک وہ ایک لحاظ سے مہمان ہیں لیکن ان کا مقصد مہمان بن کر رہنا نہیں ہونا چاہئے۔ وہ تو اس لئے آتے ہیں کہ جلسہ کی برکات سے حصہ لیں۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ اس سوچ کے ساتھ آنا بھی چاہئے۔ اس لئے ان کی رہائش یا کھانے وغیرہ کے وقت اور اکثریت تو یہاں رہائش بھی نہیں رکھتی، ان کے آنے جانے میں، پارکنگ میں اگر بعض وجوہات کی وجہ سے دقّت بھی ہو تو کھلے دل سے اور حوصلے سے یہ تکلیف برداشت کرنی چاہئے۔ پچھلے جمعہ میں بھی مَیں نے ذکر کیا تھا کہ چند دنوں کے لئے ایک پورا شہر بسایا جاتا ہے اور پھر چند دنوں میں ختم بھی کرنا ہے اور کارکن یہ سارے کام کر رہے ہوتے ہیں تو بہرحال جہاں یہ عارضی سہولتیں مہیا کی جا رہی ہو تو وہاں کچھ نہ کچھ تکلیفیں تو ہوتی ہیں۔ جتنا چاہے بہترین انتظام کرنے کی کوشش کریں پھر بھی بعض انتظامات نہیں ہو سکتے جو مستقل جگہوں پر ہو سکتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ پچھلے سال شامل ہونے والی ایک خاتون نے کہا کہ مارکیوں میں ایئر کنڈیشننگ کا انتظام ہونا چاہئے۔ موسم گرم ہوتا ہے۔ ہمیں علم ہے اور انتظامیہ کو بھی علم ہے لیکن ایئر کنڈیشننگ کا انتظام کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر ایسی صورت ہو تو دروازے کھول دینے چاہئیں تاکہ ہوا آتی رہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک معمولی چیز ہے یا اگر پنکھوں کا بھی انتظام ہے تو یہ معمولی چیز ہے۔ بعض تکنیکی روکیں اور مسائل بھی سامنے آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے انتظام نہیں ہو سکتے۔ پنکھوں کا انتظام بھی بعض دفعہ مشکل ہو جاتا ہے اور پھر اخراجات کو بھی مدّنظر رکھنا پڑتا ہے۔ ربوہ میں جو جلسے ہوتے تھے یا قادیان میں ابھی بھی ہوتے ہیں تو سردیوں میں کھلے میں بیٹھ کر اور بعض دفعہ بارش میں بھی لوگ جلسہ سنتے ہیں اور سردی بھی برداشت کرتے ہیں۔ پس اگر شامل ہونے والوں کو ایسی چھوٹی موٹی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں، گرمی برداشت کرنی پڑے تو برداشت کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر ایسے ہی لوگوں کے بارے میں جو مختلف چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں فرمایا کہ:
’’دیکھو اگر کوئی مہمان یہاں محض اس لئے آتا ہے کہ وہاں آرام ملے گا ٹھنڈے شربت ملیں گے یا تکلّف کے کھانے ملیں گے تو وہ گویا ان اشیاء کے لئے آتا ہے۔ حالانکہ خود میزبان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حتی المقدور ان کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ کرے اور اس کو آرام پہنچاوے اور وہ پہنچاتا ہے۔ لیکن مہمان کا خود ایسا خیال کرنا اس کے لئے نقصان کا موجب ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 372۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس مہمان ان دنوں میں جیسی بھی سہولت ہو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور ان کارکنوں کا شکر ادا کریں جو رات دن ایک کر کے ہر شعبہ میں مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جلسے کے تین دن مہمانوں کو اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے کس طرح سامان کرنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے یہ دن گزاریں۔ اس کی خیر مانگتے ہوئے گزاریں اور ہر شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہوئے یہ دن گزاریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی جگہ رہائش اختیار کرتے ہوئے یا عارضی پڑاؤ ڈالتے وقت یہ دعا مانگے کہ ’’مَیں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں اور ہر شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں‘‘ تو فرمایا کہ ایسے شخص کو اس رہائش کو چھوڑنے یا وہاں سے چلے جانے تک (اگر عارضی رہائش بھی ہے تو چلے جانے تک) کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔ (مسلم کتاب الذکر و الدعاء … باب التعوذ من سوء القضاء…حدیث2708)
پس ان دِنوں میں خاص طور پر یہ دعا مانگیں کہ دنیا کے جو حالات ہیں اور کوئی پتا نہیں کس وقت کوئی شریر کیا شرارت کرنے والا ہے، کس قسم کے نقصان پہنچانے کی بعض ظالم منصوبہ بندی کرتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ ہمیں پناہ دے۔ پھر بیماری وغیرہ کی تکلیفیں ہیں۔ بچوں کے ساتھ لوگ آئے ہوئے ہیں اور بڑے جذبے سے اکثریت لوگوں کی آتی ہے تو یہ دن بچوں کے لئے بھی موسم کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے تکلیف کا باعث ہو جاتے ہیں اور آنے والے لوگ جو بچوں والے ہیں، وہ پرواہ بھی نہیں کرتے۔ بچے نازک ہوتے ہیں۔ کوئی بھی تکلیف ان کو پہنچ سکتی ہے۔ اس لئے یہ ساری دعائیں جب کی جائیں تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کی تکلیفوں اور شرارتوں سے بچاتا ہے۔ پس ہر قسم کی تکلیف سے بچنے کے لئے ہمیں دعائیں مانگتے رہنا چاہئے۔
اور یہ بھی ہر ایک جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کے لئے عبادت کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ پس ان دنوں میں اس لحاظ سے بھی اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور صرف ان دنوں میں نہیں بلکہ پھر یہ جو عادت پڑے یہ ہر ایک کی زندگی کا مستقل حصہ بن جائے۔
میں نے بچوں کے ساتھ آنے والوں کی بات کی۔ مجھے پتا چلا ہے کہ رات کو بعض لوگ آئے اور انتظامیہ کے پاس بستروں یا میٹرسوں (mattresses) کی کمی ہو گئی تھی اور بعض چھوٹے بچوں والوں کو اس وجہ سے تکلیف بھی ہوئی۔ بچوں کو تو بعضوں نے اپنے ساتھ لائے ہوئے کمبلوں میں لپیٹ کر سلا دیا۔ لوگ جوش اور جذبے کے تحت اپنے چھوٹے بچوں کو بھی لے آتے ہیں۔ نو دس ماہ کے بچے یا سال دو سال کے بچے ہیں وہ بھی ساتھ آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے یہیں ٹینٹوں میں یا مارکی میں رہائش رکھی ہے اور اگر انہیں کہا جائے کہ یہاں صحیح انتظام نہیں ہے، ٹھنڈ بہت زیادہ ہے اور کہیں اَور چلے جائیں تو یہی کہتے ہیں کہ نہیں، ہم برداشت کر لیں گے۔ اور ہمارے بچے بھی برداشت کر لیں گے۔ ہم نے یہیں راتیں گزارنی ہیں تا کہ جلسہ کے ماحول سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے۔ تو اگر ایسے لوگ ہیں جو آرام اور سہولت کے لئے کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں کی اکثریت ایسی بھی ہے جو کہتی ہے کہ ہم جلسہ سننے آئے ہیں۔ کوئی بات نہیں اگر تھوڑی بہت تکلیف بھی برداشت کرنی پڑی تو کر لیں گے۔ بڑے سخت جان ہیں اور بچوں کو بھی سخت جان بنانا چاہتے ہیں۔ بہرحال ایسے مہمان ہیں جو رحمتیں لے کر آنے والے ہیں اور ایسے مہمانوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ میزبانوں کے کام بھی آسان کر دیتا ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بعضوں کو رات کو تکلیف ہوئی۔ مجھے امید ہے کہ گزشتہ رات جو تکلیف ہوئی اور میٹرسوں اور بستروں کی کمی ہوئی یا مہمانوں کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچی، آج رات انتظامیہ اس کو دُور کر لے گی اور مہمانوں کو کل جو تکلیف پہنچی تھی امید ہے انشاء اللہ آج نہیں ہو گی۔
جلسے میں شامل ہونے والے اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ نمازوں کے اوقات میں وقت پر آ کر بیٹھ جایا کریں تا کہ بعد میں آنے کی وجہ سے شور نہ ہو۔ اگر کھانے کی وجہ سے دیر ہو رہی ہے تو کھانا کھلانے کی انتظامیہ، جلسہ گاہ کی انتظامیہ یا جس کے سپردنماز کے اوقات کا انتظام ہے انہیں اطلاع کر دیں کہ ابھی مہمان کھانا کھا رہے ہیں، نماز میں دس پندرہ منٹ انتظار کر لیا جائے اور وہ مجھے اطلاع کر دیں تو اس کا انتظار کر لیا جائے گا۔ مجھے بھی باوجود کوشش کے مصروفیت کی وجہ سے چند منٹ دیر ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ زیادہ دیر بھی ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر جب باہر کے مہمان، غیر از جماعت مہمان آئے ہوں، ان کی ملاقاتیں ہو رہی ہوں تو دیر ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مَیں نے دیکھا ہے کہ میرے آنے کے بعد اور نماز شروع ہونے کے بعد بھی کافی تعداد میں لوگ اندر آتے ہیں اس لئے اس طرف مہمانوں کو بھی اور تربیت کے شعبہ کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے بعد میں آنے اور لکڑی کے فرشوں پر چلنے کی وجہ سے شور ہوتا ہے۔ باوجود اس کے کہ جس حد تک اس شور کو دور کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے، کی جا رہی ہے لیکن پھر بھی آوازیں آتی ہیں۔ اگر پہلے بھی آ گئے ہیں تو دعائیں اور ذکر الٰہی کرتے رہیں۔ اس کا بھی ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا ثواب دیتا ہے۔ مسجد میں انتظار میں بیٹھے رہنے کا بھی ایک ثواب ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل صلاۃ الفجر فی جماعۃ حدیث651)
پس اس ثواب کو بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے اور یہی ان تین دنوں کا صحیح استعمال بھی ہے۔ بجائے اس کے کہ باہر کھڑے اِدھر اُدھر کی باتوں میں مصروف ہوں اور جب میں آ جاؤں اور نماز شروع ہو جائے تو پھر اس کے بعد اندر آنا شروع ہوں تو جیسا کہ میں نے کہا اس وقت پھر لکڑی کے فرش کی وجہ سے جو نمازی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں ان کی نماز ڈسٹرب ہوتی ہے۔
اسی طرح نمازوں کے اوقات میں اور جلسہ کے اوقات میں اپنے فون بند کر لیا کریں یا کم از کم گھنٹی کی آواز بند کر لیا کریں۔ اگر کسی کو یہ خیال ہے کہ میرے ہنگامی فون ہیں یا ہنگامی فون آ سکتے ہیں تو گھنٹی کی آواز تو کم از کم بند کر لیں۔ اس سال کیونکہ انتظامیہ نے یہاں موبائل کے انتظام کو بہتر کیا ہے اور اس شعبہ کا دعویٰ ہے کہ یہاں بھی اس طرح فون کے سگنل آئیں گے جس طرح شہر میں آتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان کی یہ بات سن کر بہت سے لوگوں نے ان کے سِم (SIM) ڈلوائے ہوں۔ اس لئے یہ نہ ہو کہ جو سہولت یہاں خاص موقع کے لئے مہیا کی گئی ہے وہ ہر فون کی گھنٹی بجنے کی وجہ سے جلسہ کے دوران بھی اور نمازوں کے دوران بھی لوگوں کو ڈسٹرب کر رہی ہو، ایک اور مسئلہ کھڑا ہو جائے۔
اسی طرح شامل ہونے والوں کو جو اپنی کاروں پر آ رہے ہیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے مکمل تعاون کریں تا کہ انتظامیہ کو کسی قسم کی دقّت نہ ہو۔ اس دفعہ انتظامیہ نے کوشش کی ہے کہ پارکنگ کے لئے جو انتظام ہے اس کو بہتر سے بہتر کیا جائے لیکن انتظام اسی وقت بہتر ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے جب لوگوں کا تعاون ہو۔ پس کسی بھی انتظام کی بہتری کے لئے جلسہ پر آنے والوں کا تعاون ضروری ہے۔ سکیننگ کے شعبہ میں مکمل تعاون کریں۔ یہ تمام انتظامات شامل ہونے و الوں کی سہولت اور حفاظت کے لئے بھی کئے جاتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی خوبصورتی یہی ہے کہ ہر احمدی انتظام کا حصہ ہے، چاہے وہ کارکن ہے یا غیرکارکن جو جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آتا ہے۔ پس خاص طور پر پارکنگ، سکیننگ، کھانے کی جگہیں اور جلسہ گاہ میں ہر وقت ہر ایک کو ہوشیار اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ماحول پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں بھی کوئی غیر معمولی چیز دیکھیں یا کسی کی غیر معمولی حرکت دیکھیں فوری طور پر انتظامیہ کو بھی ہوشیار کریں اور خود بھی ہوشیار ہو جائیں۔ لیکن ہر حالت میں panic بالکل نہیں ہونا چاہئے۔
جو لوگ اپنے پرائیویٹ خیموں میں ہیں یا اجتماعی رہائش کی مارکی میں ہیں وہ بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنی رقم اور قیمتی چیزیں اپنے ساتھ رکھیں۔ خاص طور پر عورتیں یاد رکھیں کہ اگر ان کے پاس کوئی زیور وغیرہ ہے تو اسے پہن کر رکھیں۔ اوّل تو جلسہ پہ زیور وغیرہ قسم کی چیزیں لانی ہی نہیں چاہئیں۔ دینی ماحول میں دن گزارنے کے لئے آتی ہیں، کوئی دنیاوی فنکشن کے لئے تو نہیں آتیں۔ اس لئے ایک تو آنے والی جو زیور لے کے آگئیں ان کو احتیاط کرنی چاہئے۔ لیکن جو روزانہ آنے والی ہیں وہ بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنے زیور اور کپڑوں کی طرف توجہ دینے کی بجائے جلسہ کے ان دنوں میں اپنی روحانی ترقی کاخیال رکھیں۔ جلسہ کے دنوں میں بعض شعبوں نے اپنی نمائشیں بھی لگائی ہوئی ہیں جس میں شعبہ تاریخ اور آرکائیو (archive) نے بھی نمائش کا انتظام کیا ہوا ہے۔ اسی طرح ریویو آف ریلیجنز نے بھی قرآن کریم کے نسخوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کفن کے حوالے سے نمائش کا اہتمام کیا ہے جس طرح گزشتہ سال کیا تھا۔ اس سال شاید اس سے بہتر ہو۔ یہ دونوں اپنے دائرے میں بڑی معلوماتی نمائشیں ہیں۔ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے وقت مقرر ہیں، اس سے بھی استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ اور پھر دوبارہ میں کہوں گا کہ خاص طور پر ان دنوں میں دعاؤں کی طرف توجہ رکھیں۔ اور نمازوں اور نوافل کے علاوہ ذکر الٰہی اور درود شریف پڑھنے اور دوسری دعائیں کرنے میں وقت گزاریں۔ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور ہم سب کی دعائیں قبول فرمائے اور ہر شر سے ہمیں محفوظ رکھے۔
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب شامل ہونے والوں کو ان توقعات پر پورا اترنے والا بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شاملین جلسہ سے رکھی ہیں اور تمام شامل ہونے والوں کو ان دعاؤں کا وارث بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں۔ جلسہ میں شمولیت کسی دنیاوی میلے میں شمولیت نہیں ہے۔ اس لئے ہر شامل ہونے والے کو ان دنوں میں اپنی توجہات کا مرکز دینی، علمی اور روحانی ترقی کو بنانا چاہئے۔
جلسہ پر آنے والوں کو جلسہ کے پروگراموں کو جلسہ کے اوقات میں جلسہ کی مارکی میں خاموشی سے بیٹھ کر سننے کو یقینی بنانا چاہئے۔
ہر ایک کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ مقررین اور علماء اتنا وقت لگا کر محنت کر کے جو مواد تیار کرتے ہیں اسے غور سے سنیں اور پھر یاد بھی رکھیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر سننے والے مرد بھی اور عورتیں بھی ان تقاریر کا پچاس فیصد بھی یاد رکھیں تو اپنے علمی، دینی اور روحانی معیار کو کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔ ہمارے جلسوں کے نہ تو مقررین کا یہ مقصد ہے اور نہ عموماً سامعین کا یہ مقصد ہے اور نہ ہی یہ ہونا چاہئے کہ بجائے ان باتوں کو سمجھ کر اپنی اصلاح اور بہتری کا ذریعہ بنائیں، عارضی طور پر حظّ اٹھایا جائے۔ اگر ہمارے اندر بھی کچھ لوگ ایسے ہیں تو انہیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
اگر جلسہ ہماری علمی اور روحانی ترقی پر مثبت طور پر اثر اندار نہیں ہو رہا اور بشری کمزوری کے تقاضے کے تحت ہم میں سے کچھ بعض تقریروں اور مقررین سے صحیح استفادہ نہیں کرتے تو یہ قابل فکر بات ہے۔ پس ہر وہ شخص جو جلسے میں آیا ہے اس بات کو یقینی بنائے کہ اس نے ان تین دنوں میں دنیا کے معاملات کو بھول جانا ہے اور بھول کر اپنے دینی اور روحانی معیاروں کو بڑھانا ہے۔
احمدی جو جلسہ میں شامل ہونے آتے ہیں بیشک وہ ایک لحاظ سے مہمان ہیں لیکن ان کا مقصد مہمان بن کر رہنا نہیں ہونا چاہئے وہ تو اس لئے آتے ہیں کہ جلسہ کی برکات سے حصہ لیں۔ پس مہمان ان دنوں میں جیسی بھی سہولت ہو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور ان کارکنوں کا شکر ادا کریں جو رات دن ایک کر کے ہر شعبہ میں مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جلسے کے تین دن مہمانوں کو اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے کس طرح سامان کرنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے یہ دن گزاریں۔ اس کی خیر مانگتے ہوئے گزاریں اور ہر شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہوئے یہ دن گزاریں۔ دعاؤں کی قبولیت کے لئے عبادت کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ پس ان دنوں میں اس لحاظ سے بھی اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور صرف ان دنوں میں نہیں بلکہ پھر یہ جو عادت پڑے یہ ہر ایک کی زندگی کا مستقل حصہ بن جائے۔
نمازوں کے اوقات میں اور جلسہ کے اوقات میں اپنے فون بند کر لیا کریں یا کم از کم گھنٹی کی آواز بند کر لیا کریں۔ کسی بھی انتظام کی بہتری کے لئے جلسہ پر آنے والوں کا تعاون ضروری ہے۔ یہ تمام انتظامات شامل ہونے و الوں کی سہولت اور حفاظت کے لئے بھی کئے جاتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی خوبصورتی یہی ہے کہ ہر احمدی انتظام کا حصہ ہے، چاہے وہ کارکن ہے یا غیر کارکن جو جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آتا ہے۔ پس خاص طور پر پارکنگ، سکیننگ، کھانے کی جگہیں اور جلسہ گاہ ان میں ہر وقت ہر ایک کو ہوشیار اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ماحول پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں بھی کوئی غیر معمولی چیز دیکھیں یا کسی کی غیر معمولی حرکت دیکھیں فوری طور پر انتظامیہ کو بھی ہوشیار کریں اور خود بھی ہوشیار ہو جائیں۔ لیکن ہر حالت میں panic بالکل نہیں ہونا چاہئے۔
عورتیں یاد رکھیں کہ اگر ان کے پاس کوئی زیور وغیرہ ہے تو اسے پہن کر رکھیں۔ اوّل تو جلسہ پہ زیور وغیرہ قسم کی چیزیں لانی ہی نہیں چاہئیں۔ دینی ماحول میں دن گذارنے کے لئے آتی ہیں کوئی دنیاوی فنکشن کے لئے تو نہیں آتیں۔ اپنے زیور اور کپڑوں کی طرف توجہ دینے کی بجائے جلسہ کے ان دنوں میں اپنی روحانی ترقی کاخیال رکھیں۔ پھر دوبارہ میں کہوں گا کہ خاص طور پر ان دنوں میں دعاؤں کی طرف توجہ رکھیں۔ اور نمازوں اور نوافل کے علاوہ ذکر الٰہی اور درود شریف پڑھنے اور دوسری دعائیں کرنے میں وقت گزاریں۔ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور ہم سب کی دعائیں قبول فرمائے اور ہر شر سے ہمیں محفوظ رکھے۔
فرمودہ مورخہ 12؍اگست 2016ء بمطابق12ظہور 1395 ہجری شمسی بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ2016ء، بمقام حدیقۃ المہدی۔ آلٹن(Alton)۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔