قرآنی تحدیوں اور پیشگوئیوں کی حکمت اور فلسفہ کا پرشوکت و پرازمعارف بیان
جلسہ سالانہ پرپہلی تقریر 29 دسمبر 1897ء
حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹیؓ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ محمد و اٰلہ اجمعین ۔ اما بعد (و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتو بسورۃ من مثلہ وادعوا شھدائکم من دون اللہ ان کنتم صادقین۔ فان لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقواالنار التی وقودھا الناس والججارۃ اعدت للکافرین)
میرے دل میں بہت دفعہ خیال آیا کہ اگر اخلاقی تعلیم ہی قرآن شریف کا مقصود بالذات تھا اور بظاہر آسانی سے سمجھ میں بھی یہی آتا ہے کہ انسان کے لئے اخلاقی تعلیم ہی مفید ہے تو پھر قرآن کریم نے ایسی تحدیاں پیشینگوئیوں کے رنگ میں کیوں کیں۔ اس خیال نے جو متعدد مرتبہ میرے دل میں پیدا ہوا مجھے اس جسمانی گورنمنٹ کے نظام کی طرف متوجہ کیا کہ دیکھو اگر گورنمنٹ کے لئے اتنا ہی کافی ہو کہ وہ نئی نئی مشینیں اور کلیں ایجاد کرتی ہے او ر عجیب عجیب قسم کی توپ و تفنگ اور سامان حرب بناتی ہے توکیا یہ انتظام ملک کے لئے اس کا کلوں کا ایجاد کرنا اور میکینیکل پاور کا بہت وسیع ہونا اس کو دوسری سیاست مدن کے اصولوں سے مستغنی کر دے گا اور باقاعدہ فوجوں اور پولیس کا رکھنا قلعوں کا بنانا ضروری نہ رہے گا۔ محض ایک خیال پر کہ وہ کلیں بنا کر اور اپنی دانشمندی کے کرشمے دکھا کر لوگوں کے دلوں کو مسحور اور مرعوب کر لیتی ہے۔ میں کیا ، ہر ایک دانشمند آدمی ذرا سے فکر کے بعد کہہ دے گا کہ اگر اتنا ہی ہوتا تو پھر بہت سے آدمی ایجادات میں ترقی کر سکتے تھے اور امن عامہ میں خلل ڈال سکتے تھے ۔ اس خرابی کو دور کرنے کے لئے ہی تو باقاعدہ فوجوں اور متحصّن قلعوں کی ضرورت پڑی۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ انسان کی فطرت چاہتی ہے کہ رعب، سطوت، جبروت اور جلال کے بغیر وہ عادتاً تعمیل نہیں کر سکتا۔ دیکھو اگر ایک رقعہ اعلیٰ سے اعلیٰ نفیس کاغذ پر اپنے ایک دوست کو لکھوں تو اس کی تعمیل میں خواہ میرا اتحاد اس کے دل خوش کن اور موثر الفاظ اور ظاہری صورت کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ وہ قصور اور تکاہل کا کام فرما سکتا ہے۔ لیکن وہ جیل خانوں کے چھپے ہوئے منحوس کاغذ سمن یا وارنٹ جس کی بیہودہ اوربھدی تحریر اور خراب چھپائی اس کی طرف دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دیتی۔ اگر آ جاتا ہے تو اس کودیکھ کر تمام بدن میں رعشہ سا پڑ جاتا ہے اور جب تک اس کی تعمیل نہ ہو لے بدن کے تمام اعضاء پر ایک زلزلہ سا پڑا رہاتا ہے اور سو کام چھوڑ کر بھی دل اسی کی تعمیل کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔ کیوں؟ میرا رقعہ تو بلحاظ ظاہر ی مراتب کے اس سے بدرجہا بہتر اور قابل دید تھا ۔ لیکن اس کی تعمیل میں وہ فوری جوش، اور و ہ دل کو کپکپا دینے والی حالت پیدا نہیں ہوتی۔ ا س منحوس اور بیہودہ تحریر میں کیا بات ہے جو تعمیل ہی کی طرف دل کوکھینچے لئے چلی جاتی ہے۔
اس کا جواب ہے وہی سطوت، رعب، جلال اور جبروت جس کو انسان فطرتاً تعمیل کے لئے چاہتا ہے ۔ میرے رقعہ میں جبروت اور شوکت کے علاوہ وہ انتقامی مقدرت نہ تھی جو ایک سمن یا وارنٹ کی عدم تعمیل کی صورت میں نظر آتی ہے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے کہ اس نے انسان کے اندر یہ ودیعت رکھ دی کہ وہ اسی کام کے کرنے کی طرف زیادہ جوش سے متوجہ ہوتا ہے جس کے نہ کرنے پر سزا کا اثر مرتب ہونے والا ہو۔اور جس کا اسے یقین واثق ہو ۔ اسی طرح سے یہ اخلاقی تعلیم ہے جو انسانی ذہن تصور بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن خدا تعالیٰ کی غیب الغیب ذات ہر ایک انسان سے براہ راست کچھ نہیں کہہ سکتی۔ اس لئے جو کچھ خدا تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے وہ ان فطرتوں کے موافق جن پر اس کا اظہار مقصود ہوتاہے ، کلام الٰہی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جو ایسے سعید الفطرت انسانوں سے کیا جاتا ہے جو اس کلام کے متحمل ہونے کا مادہ اوراستعداد رکھتے ہوں۔ اب چونکہ کلام الٰہی جیسا ابھی ذکر کیا براہ راست ہر ایک انسان سے نہیں ہوتا اس لئے اگر وہ ایسی ہی صاف صاف اور بغیر کسی قسم کی تحدی کے ہو تو عام انسان بھلا اسے ماننے ہی کیوں لگے؟ جو خدا کی ذات اور اس پاک وجود ہی کی بابت ہزار شکوک اور وساوس پیش کرتے ہیں ۔
اس کی مثال توپھر وہی میرے رقعہ کی سی سمجھ لو۔ خواہ کیسے ہی خوشنما اور نفیس کاغذ پر کیوں نہ لکھا ہوا ہو۔ لیکن اس کی تعمیل ذرا مشکل ہی سے ہوگی۔ پس بجز اس صورت کے کہ تحدی کے رنگ میں پیشینگوئی کی جاوے۔ اور اس کلام کے سننے والوں کو معلوم ہو جاوے کہ اس کا متکلم صاحب جلال و جبروت ہے۔ اور اس میں یہ مادہ بھی ہے کہ اس کی تعمیل نہ ہونے پر وہ حسب دلخواہ انتقام لے سکتا ہے اور ہم اس کے مقابلہ سے بھی عاجز ہیں تو اس کی تعمیل کی طرف ممکن نہیں کہ توجہ نہ ہو۔ کلام الٰہی کی عظمت اور سطوت کی طرف جو لوگوں کی توجہ میں بہت کم پاتاہوں اس کی وجہ یہی ہے کہ و ہ ا س پر غور نہیں کرتے اور تدبر کرنے کی عادت نہیں ڈالتے ۔ ورنہ ان کو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں یہ سلسلہ اور سنت اختیار کی ہے کہ لوگوں کو یہ بتلانے کے لئے کہ اس میں انتقام کی طاقت اور قوت ہے۔ اور اس غرض سے کہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں۔ ایسے مواقع پر مقابلہ کرنے والوں کے ذلیل و خوار ہو کر نامراد ہو جانے کی پیشنگوئیاں کی ہیں اور اپنے پرشوکت جلالی اسماء ذوانتقام ۔العزیز الغالب القہار ۔وغیرہ استعمال کئے ہیں تا کہ انسان کے دل میں جو فطرتاً بارعب احکام کی تعمیل کرنی چاہتا ہے تعمیل اور فرمانبرداری کا مادہ پیدا ہو۔ دیکھو جب گورنمنٹ کو نظام عالم جسمانی کے لئے باوجود بیش قرار تحقیقاتوں اور جدید کلوں کے ایجاد و اختراع کے پھر بھی متحصن قلعوں اور قواعد دا ن باقاعدہ فوجوں اور پولیس کا انتظام کرنا ہوتاہے، اسی طور پر اللہ تعالیٰ نے روحانی نظام کا انتظام کرنا چاہا ہے اور یہ ا س لئے تا انسا ن کو اس کے سمجھنے میں اشکال اور دقتیں پیدا نہ ہوں۔ ادھر چونکہ مشہودی طور پر انتظام کے اصول اور سیاست مدن کے قاعدوں کو دیکھتا ہے اس لئے دوسری طرف روحانی عالم میں ایک صاحب بصیرت تو فی الفور سر تسلیم رکھ دیتا ہے۔لیکن نادان احمق ان باتوں کا خیال تک بھی نہیں کرتا ۔ جیسے بدمعاش اور اوباش لوگ باوجود آنکھوں سے دیکھنے کے سرکاری قوانین اور احکام کی پرواہ نہیں کرتے ۔ اس طرح پر نظام روحانی میں بھی شورہ پشت اور اندھے اور بہرے لوگ اسی طرح پر اکڑتے اور سر پھیرتے ہیں اور آخر ایسے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں جس کے خیال سے بھی رونگٹے کھڑے ہو تے ہیں۔
پس اس سے یہ نتیجہ نکالنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ چونکہ انسان کے لئے اخلاقی تعلیم تھی مقصود بالذات اور اس کی تعمیل بجز تحدیانہ پیشینگوئیوں کے مشکل کیا محال تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے وہی طریق اختیار کیا جس کا انسان عادی ہے ۔ پس میں نے ایک عرصہ کے غور اور تدبر کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ بجز اس کے اخلاقی تعلیم یقیناًچل ہی نہیں سکتی اور اگر یہ طریق استعمال نہ کیا جاتا تو یقیناًسمجھو کہ فلاسفروں کی تھیوریوں سے زیادہ رنگ اسے نہ آتا۔ فلاسفروں کی کتابوں کو جنہوں نے پڑھا ہے ۔ جنہوں نے یونانیوں کے عجیب و غریب سلسلہ میں ان کے فلاسفروں کے اقوال اور تعلیمیں پڑھی ہیں۔ یا کسی اور قوم کے فلاسفروں خشک حکیموں کے ملفوظات کو دیکھا ، سنا، یا پڑھا ہے کیا کوئی قوم متنفس ان کی نسبت یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ اپنی صورت میں ایک مرتب اور منظم نظام رکھتے ہیں۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کوئی ایسا نہ ہوگا جو ا س قسم کا دعویٰ کرے۔ ہاں ایک بھی نہ ہوگا۔ میں نے خوب غور کر کے دیکھا ہے اور خوب فکر کر کے گھنٹوں اور پہروں سوچ سوچ کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عجیب عجیب باتیں کرنے والے اپنی طلاقت لسانی اورجادو بیانی سے ایک حالت طاری کرنے والے بہت ہوئے ہیں لیکن کیا کوئی پتہ دے سکتا ہے کہ ان کی باتوں کو کوئی وقعت حاصل ہوئی ہو اور وہ جڑھ پکڑ کر راسخ ہو گئی ہوں۔ میں جانتا ہوں کوئی نہیں ۔
سوال ہو سکتا ہے کہ کیوں وہ پاک تعلیموں کی مد میں داخل نہیں کی گئیں یا کم از کم نہیں ہو سکیں۔ یا اس سے بھی کم اور ادنیٰ درجہ پر موثر نہیں ہو سکیں۔ میں تویہی کہوں گا اور نہ میرا کہنا صرف سرسری اور معمولی طور پر ایک مونہہ کی بات ہے۔ نہیں ۔ میں نے تجربہ کر لینے کے بعد ایک عرصہ تک سوچ سمجھ کر نتیجہ نکال کر یہ رائے قائم کی ہے کہ اب جس کے صحیح ہونے کا خدا کے فضل سے مجھے ایسا یقین ہو گیا ہے جیسے دو اور دو چار ہوتے ہیں کہ ان میں وہ اعجاز اور استغناء کی فوق الفوق قوت نہیں پائی جاتی جو عمل کے لئے بلا انفکاک ساتھ ہونی چائیے ۔ میں اپنی روح کا وجدان اور ذوق بیان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کی عظمت اور سطوت اس سے معلوم ہوتی ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے وجود باوجود میں باوجود انسان کے ہمہ تن فروتنی اور بیکسی کے خدا تعالیٰ کی اس قوق الفوق نمونے اور شہادت کو دکھلایا ہے جس سے زیادہ متصور اور ممکن نہیں۔ خیال ہو سکتا ہے کہ اگر خدا کا یہی منشا تھا اور یہ بات اس امر کی مقتضی تھی تو براہ راست اپنی الوہیت کی ہر صفت کو ظاہر کر دیتا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے وجود میں ظاہر کیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف ایک عاجز انسان فروتنی اور بے کسی کی مجسم تصویر اس پر اس سے وہ عجوبی اور اخلاقی نمونے ظاہر ہوں کہ خدا کی شان کا رنگ نظر آوے۔
بات یہ ہے کہ اس کی فروتنی اور تباہ ہونے والی حالت خود اس امر کی مقتضی پڑی ہوئی ہے کہ اس کو بچا لیا جاوے۔ دیکھو ایک طرف مخالفین و مشرکین مکہ کی سرتوڑ کوششیں آنحضرت ﷺ کے خلاف مجموعی طور پر ہو رہی ہیں۔ اور دوسری طرف وہی عاجز انسان اپنی کامیابی اور اپنے بچ جانے کی پیشینگوئیاں کر رہا ہے اور پھر ایسے وقت میں کہ جدھر نظر اٹھاتا ہے مخالف ہی مخالف نظر آتے ہیں۔ مگر وہ کون سی چیز ہے جو اس کے ارادوں کو پست نہیں ہونے دیتی۔ وہ کیا شے ہے جو اس کو لوگوں کی مخالفانہ باتوں کی طرف ذرا بھی توجہ کرنے نہیں دیتی۔ وہ اسی فوق الفوق طاقت کا سہارا اور اطمینان ہے جو اس کو اپنے غیبی ہاتھ سے سنبھالے ہوئے ہے۔ اب ایسی حالت میں اور ایسی مخالفت عظیم میں اس کا بچ نکلنا اورمخالفوں کا ذلیل و تباہ ہونا بھی ایک الٰہی رنگ میں اخلاقی اعجاز ہے۔ میرے دل میں یہ بات ایک آہنی میخ کی طرح گڑ گئی ہے کہ اگر اقتداری پیشینگوئیوں کا سلسلہ اور اقتداری خوارق نہ بھی ہوتی تو بھی اخلاقی خوارق کا سلسلہ اس قدر وسیع اور موثر ہے کہ وہ ایک مستعد طبیب کے لئے بہت کچھ سیری اور اطمینان کا سامان مہیا کر سکتا ہے۔ لیکن نادان منکر ان باتوں کو دیکھ کر بھی منکر کے منکر ہی رہتے ہیں۔ ممکن نہیں کہ دنیا کی کتابیں کسی صداقت سے خالی ہوں۔ ان میں بھی صداقتیں ہیں۔ لیکن قرآن کریم نے اخلاقی تعلیم کے سلسلہ کو ایسا موکد کیا ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔
اس کی وجہ مجھے یہ بھی معلوم ہوئی ہے کہ چونکہ ابتدائے آفرینش سے لے کر ہمارے سید و مولا آنحضرت ﷺ تک ہر ایک قسم کی ضرورتیں پیدا ہو گئی تھیں اور درجہ کمال تک پہنچ گئی تھیں اس لئے آپ ہادی کامل ہو کر آئے اور جو صفات الٰہیہ مختلف واقعات میں مختلف نبیوں کے ذریعہ خاص طور پر ظاہر ہوئیں وہ آپ میںیکجائی طور پر مجتمع ہو گئیں۔ یہ ہے راز ختم نبوت کا اور سیدالمرسل ہونے کا۔ اور چونکہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہنے والا ہے ا سلئے اس کی زندگی اور بقا کے لئے آنحضرت ﷺ کے نمونے آتے رہیں گے۔ میں نے یہ بھی خیال کیا کہ قرآن کریم میں اخلاقی خوارق پر زیادہ زور کیوں دیا گیا اور اخلاقی تعلیم ہی کو موکد کرنے کے پر بہت لحاظ رکھا تو یہ بات میرے دل میں ڈالی گئی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مبعوث ہونے کے وقت دنیا بھر کی اخلاقی حالت بگڑرہی تھی۔ اور موریلیٹی اور سوسائٹی کے اصول زیر نظر نہ تھے بلکہ مطلق نہ تھے۔ اس لئے اس سلسلہ پر زیادہ زور قرآن کریم میں دیا گیا۔ ایک اور لطیف بات بھی میری سمجھ میں آئی ہے۔ کہ دنیا میں ہر ایک قسم کے کبیرہ اور صغیرہ گناہ بداخلاقی ہی کی نوع سے ہیں۔ اور نفس گناہ بلحاظ صغیرہ کبیرہ کے خود ایک بداخلاقی ہے۔
پس گناہ کو زائل کرنے کے لئے خدا کو روپ دھار کر صلیب لینے کی ضرورت نہ تھی (تعالیٰ شانہ) گناہ کا علاج کسی بے گناہ کا خون نہ تھا۔ اور نہیں ہو سکتا تھا۔ بلکہ ام الجرائم یعنی گناہ کی جڑ ھ کو کاٹنا تھا۔ اور اس کی جگہ صلاحیت اور پاکیزگی کو پیدا کرنا تھا ۔ پس وہ درجہ وہ طریق اگر دنیا میں کامل طور پر کسی کتاب نے سکھایا ہے تو وہ قرآن ہے۔ وہ معلم جس نے گناہ کی فلاسفی دنیا پر ظاہر کی وہ عرب جیسی صحرا نشین اقوام کا ایک امی عربی تھی ۔فداہ ابی و امی، جس کا نام ہے محمد ﷺ۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اخلاقی تعلیم اور اخلاقی خوارق ہی ہمارے اور ہمارے مخالفین کے درمیان ما بہ الامتیاز ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ان دنوں بھی بڑے بڑے لیڈروں اور قومی ریفارمیشن کے مدعیوں نے اخلاقی تعلیم کی ضرورت محسوس کی ہے۔ اور ایجوکیشنل ڈیپارٹمنٹ کے آفیسرز نے بھی اسی ضرورت کو محسوس کر کے اخلاقی تعلیم کی تحریک کی ہے اور پرزور الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ اخلاقی حالت بگڑ رہی ہے۔ موریلیٹی اور اخلاقی تعلیم پر کتابیں لکھوائی جا رہی ہیں۔بزرگوں کا لحاظ اٹھ گیا ہے ۔سوسائٹی کے آداب فراموش ہو گئے ۔ اب ضرورت آ پڑی ہے کہ اخلاقی تعلیم کا سلسلہ مرتب ہو کر جاری ہو۔ میں مانتا ہوں کہ ایسے سلسلے جاری ہو سکتے ہیں۔ اور کوئی روک ان کے اجراء میں نہیں ہو سکتی لیکن سوال یہ ہے کہ تعمیل کیونکر ہو؟ میں تو دیکھتا ہوں کہ اخلاقی تعلیم کا مدارس میں خاص لحاظ رکھا جاتا ہے۔ ان کی درسی کتب میں اخلاق آموز مضامین درج ہیں۔ لیکن تعمیل میں وہی تکاہل اور تساہل ہے جو پہلے سے ہو رہا ہے۔
مجھے تو وہی اپنے رقعہ کا مضمون یاد آتا ہے کہ جس چیز نے میرے دوست کو اس کی تعمیل میں تکاہل کی چٹان بنا دیا وہی تعمیل میں سستی کا موجب یہاں ہو رہا ہے۔ لیکن مایوس ہونے کی جگہ نہیں ، گھبرانے کا مقام نہیں۔ ایک امام آیا ہے، آسمانی معلم اترا ہے جو اپنے نمونہ سے جو آج سے تیرہ سوبر س پیشتر آنے والے انسان کامل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کامل نمونہ ہے۔ اخلاقی اور یقینی طاقت کو طاقت دینا چاہتا ہے۔ مجھے خوب یاد ہے اور میں نے اپنی نوٹ بک میں اس کو لکھ رکھا ہے کہ جالندھر کے مقام پر ایک شخص نے حضرت اقدس امام صادق حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں سوال کیا کہ آپ کی غرض دنیا میں آنے سے کیا ہے؟ مجھے خوب یاد ہے اور وہ سماں میری آنکھوں کے سامنے ہے اور میں صادق ہوں اس لئے مجھے اس کی نقل کرنے میں کوئی تامل نہیں ہو سکتا۔ اس امام برحق نے جس لب و لہجہ میں اس سوال کا جواب دیا اس کا ذوق کچھ میری ہی روح احساس کر سکتی ہے ۔(جس کو ایک ایک بات کی طرف اپنے مذاق کے موافق خیال رہتاہے) غرض آپ نے فرمایا کہ میں اس لئے آیا ہوں تا لوگ قوت یقین میں ترقی کریں۔ جو لوگ سچائی کی روح اپنے اندر رکھتے ہیں اور جو روشنی او ر راستی کے فرزند ہیں وہ ا س جواب پر ذراغور کریں۔ خدا کے لئے سوچیں کہ یہ الفاظ کس شخص کے مونہہ سے نکل سکتے ہیں۔ کیا کسی عام عقل کے انسان کے خود تراشیدہ خیالات کا نتیجہ ہو سکتے ہیں یاکسی آسمانی عقل اور آسمانی نور اپنے دماغ میں رکھنے والے معلم کے مونہہ سے نکلتے ہیں۔
انیس سو سال پیشتر یہودیوں کی اصلاح کے لئے آنے والا ناصری معلم بھی یہی کہتا ہے کہ ایمان کی قوت کو پیدا کرنے کے لئے آیا ہوں اور یہ اسی کے قدم پر آنے والا ابن مریم بھی اسی ضرورت کو اپنا مشن قرار دیتا ہے۔ سنو! سنو!ابھی ایک اور بات بھی ہے جو میرے نوٹ بک میں درج ہے اور وہ واقعہ بھی اسی جالندھر کا ہے۔ ہماری جماعت کے ایک آدمی ہمارے بھائی منشی محمد اروڑا صاحب نے سوال کیا کہ حضرت ایمان کتنی طرح کا ہوتا ہے ؟ آپ نے جو جواب اس کا فرمایا بہت ہی لطیف اور سلیس ہے ۔ کہا ایمان دو قسم کا ہوتا ہے موٹا اور باریک۔ موٹا ایما ن تو یہی ہے کہ دین العجائز پر عمل کرے اور باریک ایمان یہ ہے کہ میرے پیچھے ہو لے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس فقرہ کو سن کر میری روح تڑپ اٹھی اور وجد کی سی حالت طاری ہو گئی۔ یہ فقرہ سنتے ہی معاً یسوع ناصری کے ملفوظات پر نظر پھرنے لگی تو اسے بھی یہی کہتے پایا کہ اپنی صلیب اٹھا کر میرے پیچھے ہولے۔ اللہ اللہ کس قدر تشابہہ ہے ۔ میرے پیچھے ہولے۔ یہی تو ایمانی طاقت کا نشوونما ہے ۔ الغرض اخلاقی طاقت کو بڑھانے اور اخلاقی تعلیم کی تعمیل کے لئے عادتاً اس بات کی ضرورت ہے کہ متکلم کے کلام میں ایک سطوت اور جلال چمکتا ہو جب تک کہ متکلم کی ا نتقامی طاقت پر ایمان نہ ہو، ممکن نہیں کہ اس کی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش ہو سکے ۔ یہی تو وجہ ہے کہ جھوٹے ریفارمروں اور مصنوعی لیڈروں کی باتیں اسی وقت تک اثر رکھتی ہیں جب تک کہ وہ سٹیج پر کھڑے ہو کر اپنی تقریروں سے لوگوں کو مسحور کرتے ہیں۔
اس نظام کو ہم انسان کی اپنی حالت میں بھی دیکھتے ہیں کہ جب کوئی صفت انسانی جذبات اور حیوانی جوشوں کی حرکت میں آتی ہے تو معاً سا ئے کی طرح سے ایک تنبیہی تازیانہ اندر ہی سے ندامت کا لگتا ہے اسی طرح ہمہ اعتماد ، ہمہ امید اور شاید گستاخ کرنے والی امید کے ساتھ اگر رونگٹے کھڑے کرنے والا قول ’’ان عذابی ھوالعذاب الالیم‘‘ اگر ساتھ نہ ہوتا تو میں نہیں کہہ سکتا کوتاہ بین انسان کس اندھے کنویں میں گر جاتا ۔
قدرت کا علی الانتقام ثابت کرنے کے لئے اور کیا ہو ۔ کیا خدا خدا کی آواز آ وے۔ یا سورج کی چمک کی طرح بلا واسطہ یہ کہا جاوے کہ یہ واقعہ یوں ہے۔ نہیں تقاضا قدرت یوں نہیں۔ پھر وہ کن رنگوں میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ رنگ ان پیشینگوئیوں ہی کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔
دیکھو ہمارے سید و مقتدا رسول کریم ﷺ عجز و انکساری کا جامہ پہن کر مکہ میں کھڑے ہوئے ۔ اس سے بڑھ کر عجز کی تصویر ممکن نہیں کھنچ سکے۔ اگر کسی قسم کا سامان حضور کر میسر تھا تو کوئی بتلائے ۔ والدین کا سایہ سر پہ نہیں، کوئی رفیق اور دوست نہیں، سارا عرب ان کی مخالفت پر تلا ہوا ہے۔ اور یہ مرد خدا یکہ و تنہا ان ہمہ تن شرارت اور شرک مجسم باشندوں کو ایک خدا کی طرف بلاتا اور اپنی رسالت کی دعوت کرتا ہے۔ مخالفت بھی کوئی معمولی مخالفت نہیں بلکہ مذہبی رنگ کی مخالفت ۔اور پھر مذہبی اختلاف بھی کوئی رسمی اختلاف نہیں۔ ایسا اختلاف کہ اس سے بڑھ کر اختلاف بھی ممکن نہیں۔ الغرض وہ عجز کی تصویر، ناتوانی اور بیکسی کی تصویر جو خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے رحمتہ للعالمین ہو کر آئی ہے جو ایک عرب نہیں ربع سکولز کے لئے مبعوث ہوا ہے ۔ اس بے حد مخالفت کی اثنا ء میں پکار کر کہتا ہے ’’ سیھزم الجمع و یولون الدبر‘‘ اے میرے نہیں بلکہ حق کے مخالفو! سن رکھو! کہ عنقریب وقت آتا ہے کہ ساری جماعتیں نابود اور پراگندہ ہو جائیں گی۔ اللہ اللہ کس قدر استقلال اور استقامت ان الفاظ میں موجود ہے۔ ایک احمق اس بیکسی کی حالت میں ان باتوں کو سنکر ہنستا ہے اور تمسخر میں اڑ ا سکتا ہے۔ مگر وہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی عزت اپنے بندوں یعنی عبادالرحمن کے لئے کیونکر جوش مارتی ہے اور کس طرح پر حق کے مخالفوں کو زور آور حملوں کے ساتھ اپنی چمکار دکھاتی ہے۔
غرض اس ناتوانی اور بیکسی کے عالم میں وہ ہادی کامل ان کو پکار کر کہتاہے کہ عنقریب جماعتوں کے پراگندہ اور نیست و نابود ہونے کا وقت آتا ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ اور ترتیب بھی کیسی جامع ہے۔ دیکھو یہاں الجمع کا لفظ فرمایا۔ ساری جماعتیں ہو سکتا تھا کہ الشعراء، الفقراء، البطال، القتالون، السفاک۔ اس موقع پر استعمال کرتے مگر کیوں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا ۔ جو کسی خاص گروہ کو مخصص کردیتا ۔ یہ تو اس صورت میں ہو سکتا کہ اس رسول کو اپنی قوت پر بھروسہ ہوتا مگر یہاں تو وہ بات ہی نہیں۔ اپنی ذات میں تو وہ کچھ بھی نہیں۔ ایک عاجز و بیکس انسان۔ اس کی نظر تو آسمان کی وحی پر ہے۔ اور خدائے تعالیٰ کی فوق الفوق قدرتوں کے نظارے اس کے سامنے مجسم ہو ہو کر پھر رہے ہیں۔ اگر وہ رسول اپنے خیال اور اپنے دلی جذبہ سے رسالت جیسا عظیم الشان دعویٰ کر بیٹھتا اور وہ قطع نظر اس بات کے کہ جھوٹے مدعی رسالت خود بخود ہی ضائع ہو جاتے ہیں تو ایسا ممکن تھا کہ اپنی قوت اور آئندہ کے آثار اور قرائن کو دیکھ کر کہہ دیتا کہ جب قوت حاصل ہو جائے گی تو ہلاک کر دے گا۔ اور بازی لے جا کر اپنی صداقت کی دلیل ٹھہرا لے گا۔ مثلاً قصائد کی مشق شروع کر دی اور ادب میں مہارت پیدا کر کے دس بیس دن یا چار سال بعد فصیحوں کو کہہ دیا کہ تم میرا مقابلہ فصاحت میں نہ کر سکوگے ۔ اسی طرح دوسرے فنون میں مہارت پیدا کرنے کے بعد اس فن کے مدعیوں کو چیلنج کر دیا کہ تم میرا مقابلہ نہ کر سکو گے۔ اگر طاقت ہے تو آؤ کرو۔ ایسا گمان ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں ممکنات سے ہیں۔ لیکن بتلاؤ تو سہی ایک انسان محدود القویٰ ایک احساس کے ساتھ ہاں ایک اطلاق کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ’’سیھزم الجمع‘‘ تمام جماعتیں خواہ کسی رنگ میں ہوں عنقریب نابود ہو جائیں گی اور شکست پا جائیں گی۔ عیسائی اپنے علموں اور رہبانیت کو لے کر دعا کی قبولیت کو لے کر آ جائیں۔ وہ میرے مقابلہ میں فائز المرام نہ ہو سکیں گے۔
اور پھر دیکھو کتنا عظیم الشان دعویٰ ہے ایک آدمی کسی خاص متنفس کو نہیں کہا۔ کل جماعتیں ہر ایک جماعت میں جس قدر شریک ہیں وہ سب کے سب، لیکن میرے مقابلہ میں نامراد ہو کر رہ جائیں گے۔ فصیح اپنی فصاحت اور لسانی طلاقت کے حربہ میں مقابلہ کو آئیں وہ میرے مقابلہ میں گونگے ہو جائیں گے۔ کوئی ہو، میرے مقابلہ میں آ کر وہ شکست کھا جائے گا۔ ایک دہریہ اور میٹریلسٹ کے لئے جو انسانی قویٰ کی حدود کو جانتا ہے اور ٹنل نکالنے کے لئے سامان اور کدال ہی ایک ذریعہ سمجھتا ہے اس آواز میں اگر وہ سوچے ایک زبردست ہستی کی صدا سنائی دے سکتی ہے۔ اس ظاہری حالت میں کہتاہے کہ کوئی سازو سامان نہیں ’’فکیدو نی جمیعا‘‘جس قدر طاقتیں تم میرے مقابلہ کے لئے رکھتے ہو سب خرچ کر لو اور پھر دیکھو کہ تم کو کہاں تک کامیابی ہوتی ہے۔
ہمار ے ملک میں تو پھکّڑپر بھی مکھی نہیں چلتی۔ یہاں عرب العرباء کو جو ذرا ذراسی بات پر بگڑ بیٹھتے اور قبائل تک کی صفائی کر دینے کو تیار ہو جاتے تھے چیلنج کیا جاتا ہے اور پھر چیلنج بھی یہ کہہ کر ’’ ثم لا تنظرون‘‘ پھر تم پر حرام ہے۔ یہ تمہاری غیرت اور حمیت پر ایک داغ اور دھبّہ ہے اگر مجھے مہلت دو ۔ ایک طرف عاجز اور بیکس انسان کوئی سامان نہیں رکھتا ایک چیونٹی کو بھی مسلنے کا مصالحہ پاس نہیں۔ لیکن ایک بڑے وثوق اوربھاری شعور کے ساتھ اور پورے اطمینان اور اعتماد سے ایک شیر ببر کو چھیڑتاہے اور مقابلہ کے لئے اکساتا ہے اور تعدی کے طور پر کہتا ہے کہ ’’فکیدونی جمیعا‘‘۔
اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک گھڑی کا پتہ دیتا ہوں جو آنے والی ہے۔ مبارکبادی اور خوشی کی گھڑی نہیں بلکہ تلخ کلامی اور مصیبت کی ساعت جبکہ سب حیران ہونگے ۔ آمین۔
یہ مصیبتیں اور تلخ کلامیاں کہاں سے ٹوٹ پڑیں۔ ان کا تو بظاہر نام و نشان تک نہ تھا ۔ پھر وہ مصائب اور ناکامیوں کا دبہ اگر پانچ چھ ماہ بعد ان پر آ پڑتا تو کیسے ریشہ دوانی اور سازش کا خیال ہو سکتا تھا۔ دراز سلسلہ مصائب کا چلتا ہے اور چند غلاموں کا نیست و نابود ہونا بھی ساتھ ہے۔ ایسے ہزارہا فتن کے بعد ایسا ہی ظہور میں آ یا جیسا کہ منشاء تھا اس سے ثابت ہوا جس نے کہا تھا سیھزم الجمع وہ کوئی فتنہ پرداز منصوبے باز سازشی انسان نہ تھا بلکہ ایک مقدس اور آسمانی معلم تھا ۔ لاریب وہ اللہ کا رسول اور اسی کا مرد تھا۔ جس نے اس قدر دعویٰ اور پورے اعتماد سے کہا سیھزم الجمع ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی قادر اور برتر ہستی اور زبردست ہاتھ تھا اور ہے جس کے سہارے سے وہ بولتا ہے۔ اس زمانہ میں بھی ایک ایسی ہی آواز سنائی دی۔ اور بڑی شد و مد سے لیکن مجھے ان نادانوں پر سخت افسوس آتا ہے جو جانتے ہیں۔ یہی الفاظ بولنے والا ایک صادق من علیہ التحیۃ و التسلیم زمانے کو دکھا چکا ہے کہ یہ لفظ کسی معمولی انسان کی طاقت سے باہر ہیں۔ اور ان میں ایک ہیبت اور جلال کے آثار نظرآتے ہیں۔ مگر اس وقت جب ایک صادق بولتا ہے تو اس کو اسی نظر سے نہیں دیکھتے ۔ افسوس ہے ان پر جو اس نامبارک ساعت کا انتظار کرنا چاہتے ہیں اور مبارک ہیں وہ لوگ جو اٰمنا و صدقنا کہہ کر فاکتبنا مع الشاھدین کہتے ہوئے وجد کر اٹھتے ہیں۔ ایک شخص نے اپنے زعم میں خیال کر کے کہ عقل کے مدارج پر پہنچ گیا اور بڑے بڑے حقائق عالیہ بیان کرتاہے۔ اور درحقیقت بعض لوگوں میں یہ دھوکہ سرایت کر گیا ہے کہ وہ بڑا عالی خیال ہے۔
تین سال پیشتر ایک شخص نے جس کو چودھویں صدی میں خوش وقت پڑھا ہوگا خط لکھ کر امام الوقت کا اقتدا کیا جا وے۔ اس نے کہا ا س زمانہ میں معقولی تحریر کرنا سید احمد خان پرختم ہوا۔ اور تقویٰ ۔ورع سید احمد بریلوی پر تمام ہو گیا۔ اب ہمارے لئے کسی دوسرے امام کی تقلید ضروری نہیں۔ اور خدا تعالیٰ کی وحی کی بابت یہ ہے کہ وہ دل سے پھوٹتی ہے، دل پر پڑتی ہے ۔ جس طرح سے ایک فوارہ زمین سے پھوٹ کر اس کے مونہہ پر تھپڑ مارتا ہے۔ احمقوں کی اس بات کو سن کر ایک خدا شناس اور دریائے معرفت الٰہی کے شناور کا دل تڑپ اٹھتا ہے کہ کیا کیفیت وحی الٰہی کی بیان کی ہے۔ میرے دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ دیکھو حضرت یوسف علیہ السلام کو اس وقت جبکہ ان کے بے رحم بھائیوں کا گندا منصوبہ ان کی ہلاکت کے لئے ہورہا تھا کیا خبر تھی کہ وہ ایک اندھے کنویں میں بغرض ہلاکت ڈالے گئے۔ ابھی بچہ ہی تھے ۔ بمشکل ان کی عمر دس بارہ سال کی ہوگی اور اس امر کا پتہ لگانے کے لئے کہ وہ کس عمر کے تھے مجھے کسی تاریخ کی ضرورت نہیں ۔ خود قرآن کریم کے الفاظ ہی بتلا دیتے ہیں کہ وہ ابھی سن تمیز کو نہ پہنچے تھے چنانچہ فرمایا ’’ ارسلہ معنا غداً یرتع و یلعب‘‘ اے ابا جان ! اس یوسف کو ہمار ے ساتھ بھیج دیجئے ذرا چرے چگے گا اور کھیلے کودے گا۔ اورہم اس کے بچاؤ کے لئے کافی ہیں۔
ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آپ قوت دماغ بھی نہ رکھتے تھے ۔ بلکہ معصوم تھے ۔ جیسی حالت دماغ اور دل کے چھوٹے بچوں کی ہوتی ہے ویسی ساخت ان کی تھی۔ عمر کے لحاظ سے بھی جیسا کہ ابھی کہا کہ جس کی تحقیق کے لئے کسی دوسری تاریخ یا کتب کی ضرورت نہیں بلکہ خود کتاب مجید سے ہی اور ان مذکورہ بالا الفاظ سے ہی پتہ لگتا ہے کوئی ایسے باوقعت نہ تھے بلکہ کھیل کود سے زیادہ مطلب نہ رکھتے تھے ۔ اسی بچپن کے زمانہ پر غور کرو کہ سوسائٹی کے خیالات کہاں تک ایک بچہ اپنے اندر رکھ سکتا ہے ۔ آپ ایسا بھولا بھالا بچہ ناعاقبت اندیش بھائیوں کی منصوبہ سازی سے اندھے کنویں میں ڈالا جاتا ہے جہاں اسے آواز آتی ہے کہ ’’لتنبئنھم بامر ھم ھذا و ھم لا یشعرون‘‘ سن او یوسف! یہ معاملہ جو تیرے نامہربان اور ناعاقبت اندیش بھائیوں نے کیا ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تو عظمت اور جلال کی کرسی پر بیٹھے گا اور ان کو تیرے سامنے نادم کریں گے۔ دیکھئے ! بامرھم میں وہ اس عظمت اور جلال کا بھی اشارہ رکھ دیا جو بعد میں حضرت یوسف ؑ کی عملی زندگی میں دیکھا گیا۔ بامرھم میں تو یہ اشارہ ہے اور ناسزا بھائیوں کی کرتوت دکھائی ہے۔ اور ھم لا یشعرون میں بتلایا ہے کہ اس وقت زرق برق اور شان و شوکت ایسی ہوگی کہ وہ پہچان نہ سکیں گے کہ وہ عاجز بچہ جو ایک تاریک کنویں میں ڈالا گیا ، کہاں؟ اور یہ جاہ و جلال کہاں؟اب ان عقلمندوں سے جو وحی الٰہی کو صرف دل ہی کی ایک کیفیت بتلاتے ہیں، کوئی پوچھے کہ کیا یہ دل سے پھوٹ کر دل ہی پر پڑتی تھی ۔ اس اندھے کنویں میں کون سے نظارے تھے اور کون سے تعویذ باز تھے جو اس نے رمال اور قرعہ اندازوں سے یہ بات حاصل کر لی تھی۔
ذرا سوچو تو سہی کہ کیا کوئی خیالی بات یا وہمی اثر تھا۔ آخر کار ایک عجیب سلسلہ چلتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ جس سے یہ تسلی اور سکینت سے بھرے ہوئے الفاظ حضرت یوسف ؑ کو اندھے کنویں میں بشارت کی صورت میں سنائے۔ وہ وہ ذات تھی جو پوری متصرف اور قادر ہے ۔ وہ وہ تھا جو ذات پر پورا م متصرف اور قادرہے۔ ممکن تھا کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جاتی جس سے نشان پا گم ہو جاتے اور نقش قدم کا پتہ نہ لگتا۔ اور یا کارواں جو چین یا کسی اورملک سے آتا اور اس کنویں تک نہ پہنچ سکتا۔ یا کارواں اسے ایسی طرف لے جاتا جہاں اس نور کے فرزند کو کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔ لیکن کیا بات ہے کہ مصر کی طرف قافلہ کیوں جاتا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قدرت ، تدبر اور تصرف اس ہستی میں ہے جس نے یہ الفاظ کان میں ڈالے تھے ۔ ایسے تصرفات کو معلوم کرنے کے لئے جب تک ایمان ، ایقان اور عرفا ن کی راہوں میں قدم نہ رکھا جاوے تو عدم تعمیل کا زلزلہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ مومن کا دل خدا کی انگلی میں ہوتا ہے۔ لیکن کیا کبھی کسی نے محسوس کیا ہے ۔میں قسم کھا کر کہتاہوں کہ جس طور پر محسوس کرنے کے لئے یہ سلسلہ قائم ہوا ہے میں اس کی نظیر نہیں پاتا۔ اس سلسلہ میں جو تبدیلی میں دیکھتاہوں میں اس کو لفظوں میں بیان کرنے کی طاقت نہیں پاتا ۔ اس لذت اور ذوق کو میری روح محسوس کرتی ہے ۔اور بھلا تم ہی بتلاؤ کہ اس احتظاظ کو میں لفظوں کا لباس پہنا کیونکر سکتا ہوں؟
اب میں پھر حضرت یوسف والے معاملہ کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ قافلہ مصر کو جاتا ہے۔ ممکن تھا کہ وہ کسی ایسے گمنام آدمی کے پاس چلے جاتے جہاں انہیں کوئی نہ پوچھتا۔ مگر نہیں۔ وہ عزیز مصر کے پاس جاتا ہے جہاں اس کی ٹپڑی جمتی ہے۔ خود عزیز مصر کی بیوی اس پر فریفتہ ہوتی ہے۔ آخر قید خانے تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔ اب ایسی حالت میں ذرا اس تسلی دہ الفاظ کو پھر زیر نظر رکھو۔ وہاں تو امارت کی کرسی پر جا ہ و جلال کے ساتھ بیٹھنے کا وعدہ ہے۔ لیکن یہاں اس وقت بظاہر الٹے آثار نظر آتے ہیں۔ کرسی امارت کی بجائے جیل خانہ کی کوٹھڑی میں پڑے ہیں۔ یہی تو تصرف الٰہی کے اثبات اور ایمان کو عرفان کے درجہ تک پہنچانے کی سبیل ہے ۔ اسی جیل میں دو اور قیدی آتے ہیں۔ خدا ان کے سر میں گدگدی پیدا کرتاہے۔ اور خواب نظر آتا ہے۔ اب و ہ سلسلہ شروع ہو تا ہے ۔ اور آثار نظر آنے لگے کہ وہ ایک دن ضرور اسی کرسی امارت و صدارت پر بیٹھیں گے ۔ادھر عزیز مصر کو خواب آتا ہے سارے فلاسفر مصر کے عاجز رہ جاتے ہیں، کوئی دم نہیں مار سکتا ۔ اب دیکھو کیا معاملہ ہے۔ وہ قیدی جو زنداں میں خواب کی تعبیر حضرت یوسف سے پوچھ چکا تھا اور رہا ہو گیا تھا ممکن الوقت بھول جاتا مگر نہیں ۔ وہ حضرت یوسف کا ذکر کرتا اور ان کو بلانے جاتا ہے۔ الغرض ادھر کنعان میں قحط پڑتا ہے چونکہ کنعانیوں کا رجوع طبعاً مصر کی طرف تھا۔ تب پانیوں پر خدا کی روح لہراتی نظر آتی ہے۔ عارفین صاف طور پر خدا کو جنبش کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ تاسف اور آہ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کیسا ناتراشیدہ اور اجڈ وہ آدمی ہے جو فلاسفر ہے۔ ابداً ابداً خلاصہ کلام یہ ہے کہ میرے دل میں یہ بات ایک عجیب ذوق سے جاگزیں ہو گئی ہے کہ خدا کی ہستی کے لئے احکام اور شرائع کی تعمیل اور ذوق سے آمادہ کرنے کے لئے کوئی ذریعہ نہ تھا۔ جیسے اقتداری پیشینگوئیاں ہیں اس لئے یہ پیشینگوئی ’’ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا ۔۔۔ الی الآیہ‘‘ ہے۔
اب میں اپنے مقصد کی طرف آتا ہوں۔ اوراپنے وجدان میں بڑا مزا پاتا ہوں۔ اور اپنے سید و مولا امام کو بڑا محسن پاتا ہوں۔ اس زمانے میں بڑے فصیح البیان اور طلیق اللسان لیکچرار سٹیج پر آ کر لوگوں کی دلبستگیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ سید احمد صاحب خواہ کوئی ہوں ، ایسے ہی تھے اور ہیں۔ اگر ایک مسلمان فصیح بول سکتا ہے یا لیکچر دے سکتا ہے تو ایک آریہ اور برہمو بھی فصاحت سے بولتا ہے۔ لیکن خدا نے اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ قرآن فصاحت و بلاغت ہی میں بے نظیر ہو۔ بلکہ خدا کا سچا اور زندہ مذہب اسلام قادر، مقتدر، منتقم کی اس روش میں پیشینگوئیوں کا سلسلہ ہے جو آج تیرہ سو سال بعد بھی اس رنگ میں دکھایا جاتا ہے۔ آج پھر زمانہ کو معلوم ہوسکتا ہے کیا ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے۔ کہ خدا قادر مقتدر خدا ہے۔ اسی صفت کی وجہ سے عملی حالت کمزور ہو رہی تھی۔ اور بہایم کی طرح سنتی تک نہ تھی۔ یا مفہوم نہ آتا تھا۔ ان اقتداری پیشینگوئیوں سے صاف سمجھ میں آیا ہے کہ قرآن کریم کے لانے والا مقتدر، منتقم خدا کی طرف سے لایا جو مالک یوم الدین ہے۔ اتنا بڑا احسان اس انسا ن کامل کا ہے کہ اگر تمام مسلمان بھی اس کے شکریہ میں پیشانیاں رگڑ رگڑ کر گھسا دیتے تو بھی ایک شمہ ادا نہ کر سکتے ۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ انہوں نے کچھ بھی نہ کیا مگر خدا کا ہزار کیا بے انتہا شکرہے کہ اس نے اس سلسلہ کو پھر دنیا میں قائم کیا اور پھر اپنی زندہ اور مقتدر ہستی کا ثبوت ایک آسمانی معلم کے ذریعہ دینا چاہا ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اس مبارک زمانہ کو پا کر سجدات شکر بجا لانے کے لئے تیار ہو گئے ہیں ۔ میری دلی آرزو اور بڑی تمنا اور سچی پیاس ہے کہ خدا تعالیٰ ہم سب کو اس شکریہ کے لئے تیار کرے اور میری بات یادرکھو اور بحضور دل سن لو کہ اگر ہم شکریہ کے لئے تیار نہیں ہونگے تو ہم پر حجت تمام ہو چکی ۔
و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔
(الفضل انٹرنیشنل ۳؍اکتوبر ۱۹۹۷ء تا ۹؍اکتوبر ۱۹۹۷ء)