جو آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔ جس کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی آنکھ ہو وہ دیکھے
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑ
’’ایک شخص عبد الحق نام جو اپنے آپ کو صوفی ابوالخیر صاحب کے مرید بتلاتے تھے، چند طالب علموں کے ساتھ آئے۔ اَور بھی دہلی والے آموجود ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا کہ کیا تم سب دہلی کے ہو؟ انہوں نے کہا۔ ہاں۔ پھر میاں عبد الحق صاحب نے سوال کیا کہ مَیں تشفّی کے واسطے ایک بات پوچھتا ہوں۔ حضرت نے اجازت دی۔
عبد الحق: کیا آپ اُس مسیح اور مہدی کو یا ددلانے والے ہیں جو کہ آنے والا ہے یا کہ آپ خود مسیح اور مہدی ہیں؟
حضرت اقدس: مَیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ قرآن اور حدیث کے مطابق اور اس الہام کے مطابق کہتا ہوں جو خد اتعالیٰ نے مجھے کہا۔ جو آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔ جس کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی آنکھ ہو وہ دیکھے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے اور پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رؤیت کی گواہی دی۔ دونوں باتیں ہوتی ہیں قول اور فعل۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا قول اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے۔ شبِ معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کو دیگر گزشتہ انبیاء کے درمیان دیکھا۔ ان دو شہادتوں کے بعد تم اور کیا چاہتے ہو؟ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے صدہا نشانات سے تائید کی۔ جو طالبِ حق ہو اور خوف خدا رکھتا ہو اس کے سمجھنے کے واسطے کافی سامان جمع ہو گیا ہے۔ ایک شخص پہلی پیشگوئی کے مطابق، قال اللہ اور قال الرسول کے مطابق عین ضرورت کے وقت دعویٰ کرتا ہے۔یہ وہ وقت ہے کہ عیسائیت اسلام کو کھا رہی ہے۔ خدا تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے جو بات پیش کی ہے اس سے بڑھ کر کوئی اَور بات نہیں ہو سکتی۔ انیس سو سال سے عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ خدا ہے اور معبود ہے اور چالیس کروڑ عیسائی اس وقت موجود ہے۔ اس پر پھر مسلمانوں کی طرف سے اُن کی تائید کی جاتی ہے کہ بیشک عیسیٰ اب تک زندہ ہے، نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محتاج ۔ سب نبی مر گئے پر وہ زندہ آسمان پر بیٹھا ہے۔ اب آپ ہی بتلائیں کہ اس سے عیسائیوں پر کیا اثر ہوگا۔
عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح ہتھیار
عبد الحق: عیسائیوں پر تو کوئی اثر ہو نہیں سکتا جب تک کہ شمشیر نہ ہو۔
حضرت اقدس: یہ بات غلط ہے۔ تلوار کی اب ضرورت نہیں ہے اور نہ تلوار کا اب زمانہ ہے۔ابتدا میں بھی تلوار ظالموں کے حملہ کے روکنے کے واسطے اٹھائی گئی تھی ورنہ اسلام کے مذہب میں جبر نہیں۔ تلوار کا زخم تو مل جاتا ہے پر حجت کا زخم نہیں ملتا۔ دلائل اور براہین کے ساتھ اس وقت مخالفین کو قائل کرنا چاہیے۔ مَیں آپ لوگوں کی خیر خواہی کی ایک بات کہتا ہوں۔ ذرا غور سے سنو۔ ہر دو پہلوئوں پر توجہ کرو۔ اگر عیسائیوں کے سامنے اقرار کیا جائے کہ وہ شخص جس کو تم خدا اور معبود مانتے ہو بیشک وہ اب تک آسمان پر موجود ہے۔ ہمارے نبی تو فوت ہو گئے پر وہ اب تک زندہ ہے اور قیامت تک رہے گا۔ نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محتاج۔ اگر ہم ایسا کہیں تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ اور اگر ہم عیسائیوں کے سامنے یہ ثابت کر دیں کہ جس شخص کو تم اپنا معبود اور خدا مانتے ہو وہ مر گیا۔ مثل دوسرے انبیاء کے فوت ہو کر زمین میں دفن ہے اور اس کی قبر موجود ہے، اس کا کیا نتیجہ ہوگا۔ بحثوں کو جانے دو اورمیری مخالفت کے خیال کو چھوڑو۔ میں پروا نہیں کرتا کہ مجھے کوئی کافر کہے، دجّال کہے یا کچھ اور کہے۔ تم یہ کہو کہ ان ہر دو باتوں میں سے کونسی بات ہے جس سے عیسائی مذہب بیخ و بنیاد سے اُکھڑ جاتا ہے۔
اس تقریر کا میاں عبد الحق صاحب پر بہت اثر ہوا؛ چنانچہ فوراً کھڑا ہو کر حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ چومے اور کہا: میں سمجھ گیا۔ آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ترقی دے۔ انشاء اللہ ضرور آپ کی ترقی ہو گی۔ یہ بات صحیح ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 492-494۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)