حیض کے ایام میں عورتوں کا تلاوتِ قرآن کریم کرنا منع ہے
۔
(۱۰ مارچ ۲۰۲۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تحریراً فرمایا ہے:
خواتین کے مخصوص ایام میں قرآن کریم کی تلاوت کے بارے میں آنحضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ لَا تَقْرَأُ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شیئًا مِنَ الْقُرْآن یعنی حائضہ اور جنبی قرآن کریم کا کوئی حصہ نہ پڑھیں۔ (سنن ترمذی، کتاب الطہارة، باب ما جاء فی الجنُب والحائض أنہما لا یقران القرآن)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس بارے میں بھی یہی فیصلہ ہے۔ چنانچہ حضرت ام ناصرؓ ، حرمِ اول حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ، روایت کرتی ہیں کہ میں اور چند دیگر خواتین حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب، خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے جایا کرتی تھیں۔ ایک خاتون کو ماہواری تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کے سامنے سے جب ہم قرآن مجید لے کر گزریں، تو حضرت اماں جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا ’’اس حالت میں قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز ہے‘‘ آپ نے فرمایا: ’’جب خدا تعالیٰ نے ان دنوں میں چھٹی دے دی تو ہم کیوں نہ دیں۔ ان سے کہہ دو کہ ان دنوں میں قرآن مجید نہ پڑھیں۔‘‘ (سیرت المہدی، جلد دوم، صفحہ 243، روایت نمبر 1419، مطبوعہ مئی 2008ء)
اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ، قرآن کریم کی آیت فَکُلِیۡ وَاشۡرَبِیۡ وَقَرِّیۡ عَیۡنًا ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الۡبَشَرِ اَحَدًا ۙ فَقُوۡلِیۡۤ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لِلرَّحۡمٰنِ صَوۡمًا فَلَنۡ اُکَلِّمَ الۡیَوۡمَ اِنۡسِیًّا(سورۃ مریم: 27) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اس سے یہ بھی پتہ لگ گیا کہ نفاس اور حیض کی حالت میں ذکرِ الہی منع نہیں۔ لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی حالت میں دل میں بھی ذکرِ الہی نہیں کیا جا سکتا، حالانکہ اگر ذکرِ الہی منع ہو جائے تو روحانیت بالکل مر جائے بلکہ بعض لوگ تو منہ سے بھی ذکرِ الہی کرنا جائز سمجھتے ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر، جلد ہفتم، صفحہ 229، مطبوعہ یو کے 2023ء)
اسی طرح قیام ربوہ کے بعد 5 اپریل 1949ء کو سر زمین ربوہ پر منعقد ہونے والے پہلے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے افتتاحی خطاب کے دوران بعض قرآنی دعاؤں کو بلند آواز میں پڑھا اور شاملین جلسہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ بھی حضور کی اقتداء میں ان دعاؤں کو ساتھ ساتھ دہراتے جائیں۔ شاملین جلسہ میں چونکہ مستورات بھی موجود تھیں۔ چنانچہ حضور نے ایسی عورتوں کے بارہ میں جو اپنے مخصوص ایام میں تھیں، انہیں ان قرآنی دعاؤں کے پڑھنے کے متعلق اپنا موقف بیان کرتے ہوئے ہدایت درج ذیل فرمائی:
’’عورتوں میں سے جو عورتیں ایسی ہیں کہ ان پر ان ایام میں ایسی حالت ہے کہ وہ بلند آواز سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی چلی جائیں۔ اور جن عورتوں کیلئے ان ایام میں قرآن کریم پڑھنا جائز ہے وہ زبان سے بھی ان آیتوں کو دہرائیں۔ بہر حال جن عورتوں کیلئے ان ایام میں زبان سے پڑھنا جائز نہیں وہ زبان سے پڑھنے کی بجائے صرف دل میں ان آیتوں کو دہراتی رہیں۔ کیونکہ شریعت نے اپنے حکم کے مطابق جہاں مخصوص ایام میں تلاوت قرآن کریم سے عورتوں کو روکا ہے وہاں اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا کہ وہ دل میں بھی ایسے خیالات نہ لائیں۔ یا دل میں بھی نہ دہرائیں بلکہ صرف اتنا حکم ہے کہ زبان سے نہ دہرائیں۔ بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک صرف قرآن کریم کو ہاتھ لگانا منع ہے۔ مگر احتیاط یہی ہے کہ کثرت سے جس بات پر مسلمانوں کا عمل رہا ہے اس پر عمل کیا جائے۔ پس بجائے زبان سے دہرانے کے وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی چلی جائیں۔‘‘ (روزنامہ الفضل ربوه نمبر 298 ، جلد 49/14، مورخہ 25 دسمبر 1960ء صفحہ 5)
پس اس بارہ میں میرا موقف احادیث نبویہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کی روشنی میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ والا ہی ہے اور میں نے پہلے بھی کئی مواقع پر اس بارہ میں بڑی وضاحت سے جواب دیئے ہوئے ہیں کہ عورت کو قرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد ہو ، وہ اسے ایام حیض میں ذکر و اذکار کے طور پر دل میں دہر اسکتی ہے۔ نیز بوقت ضرورت کسی صاف کپڑے میں قرآن کریم کو پکڑ بھی سکتی ہے اور کسی کو حوالہ وغیرہ بتانے کیلئے یا بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کیلئے قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھ بھی سکتی ہے لیکن اسے باقاعدہ تلاوت قرآن کریم نہیں کرنی چاہئیے۔
اسی طرح ان ایام میں عورت کو کمپیوٹر وغیرہ پر جس میں اسے بظاہر قرآن کریم پکڑنا نہیں پڑتا با قاعدہ تلاوت کی تو اجازت نہیں لیکن کسی ضرورت مثلاً حوالہ تلاش کرنے کیلئے یا کسی کو کوئی حوالہ دکھانے کیلئے کمپیوٹر وغیرہ پر قرآن کریم سے استفادہ کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔