قرآنی تحدیوں اور پیشگوئیوں کی حکمت اور فلسفہ کا پرشوکت و پرازمعارف بیان
جلسہ سالانہ پردوسری تقریر31؍ دسمبر1897ء
حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹیؓ
اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعو ا شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صادقین۔ فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارہ اعدت للکافرین‘‘
میں اس آیت کی ترتیب میں غور کرتا تھا کہ ا س مقدس کتاب کی تعلیم میں جوھدی للمتقین ہے اس مقام پر ضرورت کیا ہے۔ تدبر کرنے سے یہ بات دل میں ڈالی گئی کہ جب اللہ تعالیٰ نے ذالک الکتاب لاریب فیہ کہہ کر دعویٰ کیا اور اس کا ثبوت ھدی للمتقین دیا تو یہ ایک نظری اور عقلی ثبوت تھا۔ اور ایسا دقیق ثبوت تھا کہ مستقیم فراست اور طلب حق کی قوت کے بغیر سمجھ میں نہیں آ سکتا تھا گویا اس کی ہدایت اور مخاطبت کی انتہا متقین ہی تک تھی۔ لیکن نفس الامر میں قرآن کریم کا مخاطب کل دنیا اور ساری عقلوں سے تھا اس لئے صرفھدی للمتقین پر و ہ کفایت نہیں کر سکتا تھا بلکہ یہ ایک ضروری اور لازمی امر تھا کہ وہ قائل کرنے کی وسعت بھی کرتا ۔ اور ہر قسم کی مخلوق اور ہر قسم کی عقل رکھنے والے کو اپنے متکلم کی عظمت اور جلالت دکھا دیتا۔ اور ہر طبقہ کے مدعیوں کو زیر کر کے دم لیتا۔ اس کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ اس تحدی کے اندر کونسا ایسا لفظ رکھا ہے جس سے ذلک الکتاب لا ریب فیہ کا پورا پورا ثبوت ہے کہ اس کتاب میں کسی قسم کے شک و شبہ کے شائبہ کی گنجائش نہیں ۔ درحقیقت یہ صحیفہ مطہرہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ کوئی لفظ ایسا ہو جس سے راستہ کھلے۔ اور پتہ لگے کہ یہ تحدی دوسرے لفظوں میں نہ ہو سکتی تھی۔ آخر یہ بات سمجھ میں آئی اور یہ تفہیم ہوئی کہ من مثلہ کے لفظ میں غور کرو۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کریم اس طر ف متوجہ کیا چاہتا ہے کہ عام طور پر دیکھو جس قدر قدرتی اشیاء تمہارے سامنے ہیں۔ ہاں وہ اشیاء جن کو انسان کی دانشمندی کا ہاتھ نہیں لگا۔ اپنی ہر حالت اور ہر پہلو میں بے نظیر اور بے مثل ہیں۔ کیا مطلب کہ انسان ان کی نظیر بنانے پر قادر نہیں۔ قدرتی چیز خواہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو اورمصنوعی چیز خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہواس قدرتی کامقابلہ ہرگز نہ کر سکے گی۔ پس من مثلہ میں اشارہ ہے کہ اس کتا ب کی مثال بنانے پر کوئی قادر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر اس کی مثل بنا سکو تو سمجھ لو کہ خدا کی طرف سے نہیں۔ لیکن اگر مثال نہ بنا سکو اور تم جانتے ہو کہ آج تک کسی مصنوعی چیز کا مقابلہ قدرتی چیز سے نہیں ہوا اور نہیں ہو سکتا۔ تو پھراس سے بہ بداہت ثابت ہو جائے گا کہ یہ کتاب بھی خدا کی طرف سے ہے جس کی نظیر کوئی دوسرا فرداً یا کلاً بنانے پر قادر نہیں۔
دنیا میں اس تحدی پر بہت لوگوں کی نظر تھی۔ ایک قوم تو وہ ہے جنہوں نے سچی فراست سے دیکھ بھال کر ملاحظہ اور تدبر کر کے بہزار خوشی اس کو منجانب اللہ سمجھ لیا۔ اور پورے انشراح صدر کے ساتھ اس کو خدا کا اعجازی کلام سمجھ لیا۔ اور قرآن کے مختلف شعبوں کی خدمت میں مصروف ہو کر اس کی صداقت کا کچھ اور بھی مزا پا لیا۔ لیکن بعض سفہا نے نہ بطور اصول موضوعہ کے بلکہ ان کی تحریر کے میلان اور طبائع کی افتاد سے اس مقدس کتاب کے مقابلہ میں ان چگلی ہوئی قوموں نے حریری اور متنبی کو مقابلہ کے لئے پیش کیا۔ خود تو کچھ نہ کر سکے پرائی چھاچھ پر مونچھیں منڈوا لیں ۔ لیکن افسوس ان غبی اور بلیدالطبع قومو ں کو یہ نہ سوجھا کہ باوجود اس کے حریری اور متنبی کو خود کبھی نہ سوجھا کہ ان کی تصنیفات قرآن کریم کے برابر اور ہمسایہ ہو گئی ہیں۔ اور وہ مسلمان ہی رہے ۔ وہ قرآن کی فصاحت اور بلاغت کے ویسے ہی قائل اور عاشق تھے پھر میں نہیں سمجھتا کہ یہ نادان کس خیال اور امید کی بناء پر متنبی اور حریری کو قرآن کریم کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں۔
بعض نے شیکسپئر اور ملٹن کے ورکس کو پیش کیا اور کہا کہ ا ن کی کوئی نظیر نہیں ۔کاش اس سے پیشتر کہ وہ شیکسپئر اور ملٹن کو مقابلے کے لئے پیش کرتے۔ وہ اتنا تو دیکھ لیتے کہ وہ ہیں کیا چیز۔ شیکسپئر نے کیا لکھا ؟ ڈرامہ کھیل ۔ وہ تو پلیزہی کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے (کوئی دکھلائے ) کہاں تحدی کی ہے؟ کیا کسی کو مقابلہ کے لئے بلایا ؟ بڑے بڑے شرفاء اور خدا کی معرفت میں شناوری کرنے والوں کو ضرورت ہی کیا پڑی تھی کہ اخلاق فاضلہ کا مقابلہ کرتے ۔ میں نے غو ر کیا اور بہت سوچا کہ جس قسم کے الفاظ کی خوبیوں میں اس مہیمن کتاب نے تحدی کی ہے اس سے بہتر کہیں ممکن ہی نہیں۔ بہتر کیا برابر بھی نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی ساری عمر سر پٹکے بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ا ن الفاظ کے بغیر دوسرے الفاظ میں بھی یہ تحدی ممکن نہیں۔ پھر نادان کیوں کہتا ہے کہ فلانی کتاب بے نظیر ہے۔ احمق! پہلے زبان پر پوری حکومت تو حاصل کر! اس کی لغت اور وسعت کو تو دیکھ! پھر پتا لگے گا کہ قرآن کیا ہے؟
کتنا بڑا دعویٰ ہے فصحاء کو کہا جاؤ فصاحت کی شاخ میں میرا نظیر لاؤ۔ بلغاء کو بلاغت کی شا ن میں۔ شاعروں کو ان شاعرانہ ٹکروں کی شان میں ۔ منطقیوں اور طبیبوں اور طبعی کے شعبوں کی طرف۔ اور خشک فلسفی کو سچے فلسفہ کے مقابلہ کے لئے بلا کر کہا جاؤ! میرے مقابلہ میں استدلال لاؤ۔ قرآن نے اللہ اللہ من مثلہ کہہ کر کسی خاص شاخ اور شعبہ کو مقید اور محدود نہیں کر دیا ۔ جس سے پایا جاتا ہے کہ قرآن کا بیان کرنے والا کسی خاص فن میں اپنی مشاقی اور مہارت کی مشاقی پر لحاظ کر کے نہیں کہتا کہ فلاں شعبہ میں مقابلہ کرو۔ بلکہ من مثلہ کہہ کر کہا کہ بہ ہیئت مجموعی مقابلہ کرو یا بہ ہیئت انفرادی کرو۔ غرض جس طرح بن پڑتا ہے مقابلہ کرو اور مقابلہ بہ ہیئت انفرادی کے لئے یہ دلیل ہے کہ من مثلہ میں من کا جو لفظ ہے وہ اس امر کی وضاحت بتلاتا ہے کہ قرآن کریم میں جو لا انتہا عجائبات ہیں اور بے شمار اعجازی اوصاف پر وہ مشتمل ہے اس میں سے خواہ کسی ایک میں بھی مقابلہ کرو تو کامیاب نہ ہو سکو گے۔ پہلے بہ ہیئت مجموعی پھر بہ ہیئت انفرادی ۔
میں نے من مثلہ پر غور کیا تو معلوم کیا کہ یہ استدلال اشارۃ النص اور عبارۃ النص سے بخوبی ثابت ہے۔ قرآن کریم کا لانے والا دلی شعور کے ساتھ تحدی کرتا اور دنیا کو چیلنج کرتا ہے کہ اس کا مقابلہ کرو۔ اس پر خیال پیدا ہوا کہ مقابلہ کس بات میں ہے۔ آیا کسی خاص طرز عبارت یا اس میں جو اس کے اندر ہے تو وادعوا شھداء کم نے بتلا دیا کہ شھداء کم کا لفظ اس وسوسہ کو خوب دور کرتا ہے۔ کوئی خاص مقابلہ زیر نظر ہوتا تو وادعوا شعراء کم و بلغا کم وغیرہ اس قسم کے الفاظ مستعمل ہوتے اور بہت سے الفاظ ہو سکتے ہیں۔ شھداء کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ شہداء بمعنے مشہود آیا ہے ۔ یعنی ہر ایک شخص جو تمہارے اندر مشہود ہے یہ ایک بدیہی بات ہے کہ سامعین حالت تحت میں ہوتے ہیں۔ اور متکلم فوق کی حالت میں۔ اور ممبر یا سٹیج کے بنانے کی فلاسفی بھی یہی ہے ۔ کیونکہ جو شخص فیض رساں ہو وہ تب ہی فیض رساں ہو سکتا ہے جبکہ وہ فوقیت رکھتا ہو۔ مشہود کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے مجموعوں میں جو کوئی مشار الیہ ہے یا جس جس شخص کو جس جس فن یا علم میں درک ہے۔ تکلم میں سہی۔ شعر میں ہو،نثر میں ہو، فلاسفی یاطبعی میں ہو ۔ غرض کسی بات میں پوری دسترس ہو اور وہ اس فن میں مشہود ہو ، یعنی تم اپنے تمام مشہودوں کو جن کی بابت دنیا گواہی دے سکتی ہے کہ وہ ہر فن میں مشہود ہیں۔ ان کو مقابلہ کے لئے بلا لو۔ اور پھر دیکھ لو کہ خدا کی زبردست ہستی کا ہاتھ کس کے ساتھ ہے؟ اور اگر اس تحدی کو دیکھ کر بھی دل تاریکئ تعصب میں مبتلا ہیں اور نظر آسمان پر نہیں جاتی کہ بے شک اس قدر طاقت خدا ہی میں ہے اور یہ اس کی ہی طرف سے ہو سکتا ہے تو کم از کم اس انسان کی طرف دیکھ کر کسی عمدہ نتیجہ پر پہنچ جاؤ کہ وہ عام انسانوں کی طرح ہے ۔ بشریت کے تمام لوازم کے ساتھ لوازما ت رکھتا ہے لیکن پھر بھی اپنی ذا ت کی نسبت پوری بصیرت رکھتا ہے ۔ اور کس قدر قابلیت تمام فنون میں رکھتا ہے کہ اتنا بڑا زبردست دعویٰ وادعو ا شھداء کم کرتا ہے۔
دنیا کی کل کتابوں کو ٹٹولو، تمام مراسلات اور ملفوظات کو جو دنیا دکھلا سکتی ہے ایک بار پڑھ جاؤ اور بتلاؤ کہ کیا کسی میں ایسی عظیم الشان اور دل کو کپکپا دینے والی تحدی کی ہے؟ وید ، تورات وغیرہ پڑھو اور ان میں کہیں دکھاؤ کہ ایسے دعوے کئے ہوں؟ ان کتابوں میں کیا دنیا کی کسی کتاب میں تحدی نہیں کی گئی۔ اس پر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کیا بات ہے جو خدا نے یہ روش اختیار کی ۔ممکن تھا کہ دوسری کتابوں مثل تورات انجیل میں بھی تحدی ہوتی۔ قرآن کریم نے ہی کیوں تحدی کی ؟ تو اس کا جواب جیسا کہ امام صادق نے فرمایا یہی ہے کہ چونکہ قرآن کریم کل دنیا کے لئے تا بقیامت آیا ہے ۔ جس عرصہ دراز میں دنیا میں بڑی بڑی مناظرہ کرنے والی قومیں پید ا ہو جائیں گی۔ اس لئے اس تحدی کو رکھ کر کہا کہ اس شخص کی قلبی حالت اور استقامت کو دیکھیں کہ وہ کیونکر اپنی عاجز ہستی کی بناء پر اور صرف اپنے قواء پر بھروسہ کر کے اس قسم کی بینظیر اور بارعب تحدی کر سکتا ہے ۔ جب تک کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کے زبردست تعلق نہ ہوں۔ اب دیکھو کہ ہزار ہا قسم کے علوم و فنون نکلے ہیں۔ اور قلب کے متعلق بہت سے علوم اور تحقیقاتیں نکلی ہیں۔ اور اس سائنس اور ایجادات کے پرفتن زمانہ میں بڑے بڑے دعوے لوگوں نے کئے ہیں کہ انسانوں کو کلام میں ان کے بشروں سے ان کی قلبی حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔میں اس وقت ان دعووں کی تفرید (اینیلائیز) اور تحقیق کی طرف نہیں جانا چاہتا ۔ کیونکہ ان پر بحث کرنے کے لئے ایک کافی وقت بکار ہے۔ اور میرے اس مختصر بیان کو بہت طول ہوگا ۔ اس لئے اس کو یہیں چھوڑ کر اپنے مطلب کی طرف آتا ہوں۔ یقیناًیقیناًیہ ایک فوق العادت بات معلوم ہوتی ہے کہ کیونکر رسول اللہﷺ کی پوزیشن کا انسان اس قسم کا فوق العادت اور ہیبت و جلال سے بھرا ہو ا دعویٰ کر سکتا ہے۔ کہ اللہ کے سوا اپنے تمام شہداء کو بلا ؤ۔ میری روح میں جو نئی باتوں کی تحقیقات کی عاشق ہے یہ بات پیدا ہوئی کہ من دون اللہ کا لفظ کیوں کہا؟ سو یاد رکھوجیسا میرے مکرم مخدوم مولانا سید محمد احسن صاحب نے فرمایا اس کے ضمن میں یہ دکھانا مقصود تھا کہ یہ تو اللہ کی طرف سے ہے اور تم اس کے مقابلہ میں تمام دنیا کو بلا لو۔ گویا اس میں شعور قلبی اور اس بصیرت کو دکھانا مقصود تھا جو ہمارے سید و مولا رسول اللہ ﷺ کو اپنی نسبت تھی کہ اللہ کی طرف سے تو ہوئے ہم باقی دنیا تمہاری ہے اس کو مدد کے لئے بلاؤ۔ مگر استقلال اور جرأت سے غرض اس تحدی سے جو اس وقت زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گی سلیم الفطرت انسان یقین کرنے کا موقع پاتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے کسی انسانی دماغ کا نتیجہ نہیں۔ غرض اس تحدی کی یہی ہے جو میں نے اوپر بیان کی۔
خدا مولوی حسن علی مرحوم پر اپنا رحم اور برکت نازل کرے۔ میں یہ دعا اس لئے بھی کرتا ہوں کہ اس کا خاتمہ بالخیر ہو۔ اور وہ قابل رشک خاتمہ ہے کہ وہ امام الزماں کی محبت اور اس کے تعلق کو آخری دم تک ساتھ رکھتا تھا ۔ میری دلی تمنا اور سچی پیاس ہے کہ میرا ایمان مرزا صاحب کی محبت کو آخری دم تک رکھے اورمیر ا خاتمہ اسی صادق امام کی محبت میں ہو۔ حسن علی اس غدار دنیا سے اٹھ گیا اور اس کے ایمان کا بھی اس کے ساتھ ہی خاتمہ ہوا۔ لیکن کس قدر خوشی کی بات ہے کہ غداری کا داغ اس نے نہ لیا۔ وہ ابتلاؤں اور ٹھوکروں سے محفوظ رہا۔ اور اسی ایمان پر وصال پا گیا۔ خدا ایسا ہی خاتمہ میرا اورمیرے دوسرے بھائیوں بلکہ کل مسلمانوں کاکرے۔ آمین
غرض ۱۸۹۳ء کا مذکور ہے جبکہ ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس علی گڈھ میں تھا۔ میں اور سید تفضل حسین ڈپٹی کلکٹر اور سیٹھ عبدالرحمن بھی علی گڈھ میں تھے۔ حسن علی مرحوم مجھے الگ لے گئے۔ اور بڑے سوز دل سے سوال کیا کہ آپ مرزا صاحب کی صداقت کی کوئی ایسی دلیل بتلائیں کہ میرا دل تڑپ ہی تو اٹھے۔ میرا دل صوفیوں کے مذاق کا ہے۔ اس لئے آپ ایسی ہی دلیل دیں ۔ میرے دل میں تھوڑی سی فکر ہوئی معاً یہ بات آئی کہ مولوی صاحب جس دلیل سے رسول اللہ ﷺ کی رسالت ثابت ہے اسی دلیل سے مرزا صاحب کی صداقت ثابت ہو سکتی ہے۔ اور میں نے رسالت کی صداقت کے لئے دو معیار مقرر کئے ہیں۔ اول یہ کہ کیا رسول اللہ ؐ کو خود اپنی رسالت پر ایمان تھا یانہیں۔ دوسرے ان کی خلوت و جلوت میں بیٹھنے والے ا ن کو رسول اللہ مانتے تھے یا نہیں۔
امر اول کے لئے جو دلائل قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں ان کو اس وقت میں بیان نہیں کرنا چاہتا۔ بلکہ علی وجہ البصیرت جو بڑی مستحکم دلیل میخ فولاد کی طرح میری روح میں اتری ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کو حکم ہوتا ہے ۔ اقم الصلوٰۃ آپ کے منہ سے نکلتا ہے۔ ا ب دیکھو اگر صرف قوم کے بنا لینے کی خاطر نعوذباللہ یہ ایک افترا ہوتا یا تراشیدہ بات ہوتی تو کیا یہ ہو سکتا تھا کہ یہ لفظ کہنے والا خود بھی اس کا پابند ہو جاتا۔ لوگوں کی طرف دیکھو کہ و ہ بڑے بڑے لیڈر اور ریفارمر کہلا کر خود بھی اپنی باتوں پر پورے کاربند اور عامل نہیں ہوتے۔ مگر ادھر اس اقم الصلوٰۃ کہنے والے کو دیکھو کہ اس کی تعمیل میں راتوں کو جاگتا ہے ۔ دنیا آرام کرتی ہے اور وہ کھڑا تسبیح اور تہلیل میں مصروف ہے ۔ پاؤں سوج سوج جاتے ہیں لیکناقم الصلوٰۃ کی تعمیل ان کی پرواہ تک بھی تو نہیں کرنے دیتی۔ تاریک راتوں میں نصف اللیل کواُٹھ کر روتا اور چیخیں مارتا ہے۔ اور بعض اوقات تعمیل ارشاد الٰہی میں سورہ البقرہ ، آل عمران اور النساء تک بھی پڑھ جاتا ہے۔ میدان حرب میں بھی اس حکم کی تعمیل کا خیال دل سے محو نہیں ہوتا۔ کیا جب تک کہ یہ حکم کسی واجب الاطاعت حاکم کی طرف سے نہ ہوتا تو اس قدر پابندی اپنے عیش و آرام کو قربان کر کے کیوں کرتے؟ کیا کوئی اپنے خود تراشیدہ حکم کا اتنا مطیع ، حتی کہ تعمیل مجسم ہو جاتا ہے ، نہ ٹلنے والا مطیع اپنے خیالوں اور باتوں کا کوئی نظر نہ آئے گا۔ مگر اس مجسم اطاعت کی یہ پابندی اوقات نماز کو دیکھ کر دل اس کی صداقت کے لئے جھک جاتا ہے۔ جس طرح وہ اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ کہہ کر دوسروں کو ایمان اور شہادت کی ہدایت کرتا ہے۔ ایسا ہی خود بھی رطب اللسان ہے۔ جس طرح ہم خدا تعالیٰ کی سچی تعلیم ، ایمان اور ایقان سے کہتے ہیں۔ اسی طرح خود و ہ مقدس ذات سچے عرفان سے جس کا احاطہ بھی نہیں کر سکتے۔ اشھد ان محمدا رسول اللہ کہتا ہے۔ جب انہوں نے اپنے طریق عمل سے ظاہر کیا ۔
رسو ل اللہ ﷺ نے جو تعمیل احکام اوامر و نواہی میں کی ہے اس کی نظیر بھی دنیا میں نہیں ہے۔ دنیا نے ہزارہا اعتراض اسلام اور بانی اسلام پر کئے ہیں۔ مگر میں خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ کسی منکر رسالت کے کلام میں کیا کسی نے یہ بھی پڑھا ہے کہ اس نے یہ کہا ہو کہ رسول کہتا ہے پر کرتا نہیں۔ اعتراضوں کے طومار ہیں مگر ان میں نہیں تو یہ نہیں کہ لم تقولون ما لا تفعلون۔ غور کی بات ہے کہ کیا کوئی شخص اپنی خود تراشیدہ باتوں کا مطیع و نقاد ہو سکتا ہے۔ ہم خود اچھی اچھی باتیں بتلاتے ہیں۔ ہم سے زیادہ متکلمین، پولیٹیکل، ریلیجئس اصول بتلاتے ہیں۔ مگرتم نے سرسری نگاہ میں ہی دیکھ لیا ہوگا کہ و ہ خود کر ہی نہیں سکتے ۔ رسول اللہﷺ کا تئیس سال تک پابند رہنا۔ اور حضور کے ہم کاسہ و ہم نوالہ دوستوں کا تین سال تک اس پر قائم رہنا اور یقین رکھنا ایسا شاہد ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو پوری شعور قلب سے اپنے نبی ہونے کا یقین تھا۔ دوسری بات کہ رسول اللہﷺ کے صحبتی اور خلوت و جلوت میں رہنے والے بھی اس کو رسول اللہ مانتے تھے ۔ اس کے لئے مجھے صرف عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مثال دینی ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک قسم کا تکلف درمیان سے اٹھ گیا تھا۔ بایں ہمہ کیا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کو استخفاف کی نظر سے دیکھتی تھیں۔ میری نظر میں بے تکلفی ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کا حسن وقبح کھل سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر بے تکلفی کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔ بجز عورت اور مرد کے تعلقات کے۔ کیونکہ بے تکلفی کی فلاسفی جماع سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔ یعنی جماع ہی بے تکلفی ہے۔ ایسے وقت میں بڑے بڑے علماء اور فضلاء اور انبیاء تک ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کبھی ممکن نہیں۔ اس وقت عورت خوب جان سکتی ہے کہ وہ کیا ہے؟ وہ عورت بھی اگر اس کی نبوت کا ثبوت دے تو یقیناًجان لو کہ وہ بالکل سچا نبی ہے۔ میں نے دیکھا کہ جب افک اور بہتان صدیقہ پر باندھا گیا ۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ پر بھی دلشکنی کا بوجھ آ پڑا۔ آخر رسول اللہ نے عائشہؓ سے کہا اپنے باپ کے گھر چلی جاؤ۔ غرض خواہ باجازت یاخود آپ اپنے با پ کے گھر تشریف لے گئیں۔ آنحضرتﷺ کی مستمرہ عاد ت تھی کہ روز ابوبکر کے گھر جایا کرتے تھے ۔ عائشہ فرماتی ہیں کہ جب آتے تو سرسری سی نظر سے یہ بھی پوچھ لیا کرتے تمہاری لونڈیا کا کیا حال ہے؟ اور اس سے زیادہ التفات نہ تھی۔ ایک دن آ پ ہنستے ہوئے تشریف لائے اور میر ی ماں کو پکار کر کہا ، عائشہ کہاں ہے۔ میں نے سمجھ لیا کہ آج کچھ بات بنی۔ عائشہ کہتی ہیں کہ میری ماں اور باپ کو از حد خوشی ہوئی ۔ اب عائشہ سے کہا کہ تو چل۔ اسے اب ناز ہو گیا جو بالکل بجا تھا ۔ وہ مچل پڑیں۔ کیونکہ وہ فطرۃً پاک تھیں۔ اور اب تو خدا نے آپ اس کی بریت کر دی۔ غرض رسول اللہ ﷺ خود تشریف لائے۔ وہ نہ اٹھیں۔ ساری آیتیں جب ان کو سنائی گئیں اس وقت ابوبکر نے کہا عائشہ اٹھ اور رسو ل اللہ کا شکریہ ادا کر۔ عائشہ نے کیا کہا؟
لا بحمدہ ولا بحمد اصحابہ بل بحمدللہ
اس کا اور اس کے صحابہ کا کوئی شکریہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ہے ۔ میں نے اس قصہ اور واقعہ کو سرسری نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ غور و خوض کے لئے میری روح ڈوب گئی۔ آخر جس رسول نے کہا تھا کہ اپنے باپ کے گھر چلی جا آج وہی کہتا ہے کہ اپنے گھر اٹھ کر چل۔ القصہ جو لوگ کتب سیر سے واقف ہیں وہ ہزارہا نظیریں لے سکتے ہیں۔ اور میں نے کہا جس طرح خود حضرت نے اپنی عملی زندگی سے اپنے ایمان بالرسالت کا ثبوت دیا اسی طرح عائشہ صدیقہ بھی جو آپ کی حرم تھیں آپ پر پورا ایمان اور یقین رکھتی تھیں۔ اب اسی طرح ہمارے امام سیدنا میرزا صاحب کا حال دیکھ لیں۔ مجھے جب حضرت کے پاس بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا تو مجھے یہ نکتہ معلوم ہوا اور سوجھا کہ کیا خود بھی میرزا صاحب کو اپنے آپ پر یقین ہے۔ مجھے خوب یاد ہے۔ آئینہ کمالات جب شروع ہوا تو الہام ہوا۔ ایک منذر الہام تھا۔ اس میں بڑا بھاری انذار تھا۔ صبح کا وقت تھا نماز پڑھ کر اندر تشریف لے گئے۔ میں حافظ احمد اللہ والی کوٹھڑی میں رہتا تھا۔ میر زا صاحب دوڑے ہوئے آئے اور آپ کے چہرہ سے خوف کے آثار ہویدا تھے۔ اور میں نے اس قدر خوف آپ کے چہرہ سے ترشح ہوتا ہوا کبھی نہیں دیکھا تھا اور کہا کہ یہ الہام ہوا ہے ۔ اب بتلاؤ کہ کیا میرزا صاحب نے یہ ٹھان لیا تھا کہ عبدالکریم کے دل میں ایک وجہ ثبوت یہ بھی ہے ۔ اگر کوئی باور کر سکتا ہے تو وہ یقیناًجان لے کہ یہ اسی طرح الہام کی وقعت کرتا ہے جس طرح خود رسول اللہ ﷺ کرتے تھے ۔ پس جیسا میں نے آپ کو منذر الہام کی حالت میں ترساں و لرزاں دیکھا ہے، ایسا ہی تبشیر اور بشارت میں نہایت ہی خوش دیکھا ہے۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ جب کہ تبشیر کا الہام ہوا ہے تو مرزا صاحب نے ایک ممتاز دعوت دی ہے اور دو دو بکرے ذبح کر کے خاص دعوت کھلائی ہے۔ ایک مومن کے لئے بڑے دلچسپ نظارے ہیں۔ میرے دل میںیقین ہو گیا ہے کہ اس کے دل میں واقعی یقین ہے۔ اس کے پاس بیٹھنے والے بھی میں جانتا ہوں کہ علی وجہ البصیرت اس پر یقین رکھتے ہیں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ ام المومنین جناب میرزا صاحب کی بیوی بھی اس کو منجانب اللہ مانتی ہے۔ اس کے بیان کی ضرورت نہیں۔ اور عورتیں بھی جو اندر رہتی ہیں علی قدر عقولہن ہیں مانتی اور یقین کرتی ہیں۔ ایک ایسی عورت کی بات ہے کہ جو پیرے کی طرح میں سمجھتا ہوں مکلف نہیں۔ اگر وہ مکلف ہو تو وہ بھی ہوگی۔ گرمی کے دنوں میں آپ برآمدہ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ دریچہ میں سے گذر کر غسلخانہ ہے جہاں عورتیں نہا لیتی ہیں۔ اس نے قریباً برہنہ بدن ہو کر غسلخانہ میں جانا چاہا ۔ایک دوسری نے کہا ’’ تینوں دسدا نہیں مرزا بیٹھا ہے‘‘۔ اس نے کہا ’’مرجے نوں کچھ لبھدا ہے ‘‘۔ یہ وہ گواہی ہے مرزا کے غض بصر کی اب اس عورت کے قویٰ میں کیسا شعور ہے کہ شہادت دیتی ہے اور کیسی عظیم الشان گواہی ہے ۔ اگر ہماری گواہی کسی قابل ہے اور خدا کے فضل سے ہم قابل بھی ہیں اور ہم حقدار بھی ہیں کیونکہ اس وقت سے ہم مرزا صاحب کے ساتھ ہیں (یہ راز بھی ابھی کھلا کہ حضرت اقدس جو اپنے مخالفوں کو پاس رہنے کی دعوت کرتے ہیں اس میں یہی مصلحت ہے کہ یہاں رہ کر انکو معلوم ہو جائے گا کہ اس کی زندگی کس طرح گز رتی ہے۔ ایڈیٹر)۔ جب سے کہ آپ نے پبلک لائف میں قدم رکھا ہے تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر گواہی دیتا اور یہ بڑی بھاری شہادت ہے کہ حضرت مرزا صاحب اس طرح صادق ہیں جیسے ابوبکر صدیقؓ کے نزدیک رسول کریم صادق ۔
میں نے دیکھا ہے کہ جس قدر بے تکلفی ہوئی اسی قدر مہابت سے ملی ہوئی محبت ہوئی۔ اندر بیٹھ کر اٹھنا بیٹھنا دیکھا اور ہر روز اور ہر فعل میں مجھے ثبوت ملا کہ یہ شخص نہ تکلف اور بناوٹ سے بلکہ اضطراراً اسی راہ پر قدم مارتا ہے جس پر رسول اللہ ؐ نے قدم مارا ہے۔ میں جب اس حد تک پہنچا تو دیکھا کہ مولوی صاحب کی حالت پر ایک عجیب اثر تھا اور ایک وجدان سا ان پر طاری تھا۔ وہ اس وجد کی حالت میں کود کر آئے اور میرے گھٹنوں کو پکڑ لیا اور کہا جزاک اللہ ، جزاک اللہ۔ اس سے بڑھ کر اور کسی دلیل کی ضرورت اور حاجت نہیں غفراللہ لہ۔ غرض تحدی اس بات کی طرف انسان کو متوجہ کر دیتی ہے کہ کبھی ایسا ہواہے کہ کوئی پاگل ہزارہا پیشینگوئیاں کرتا پھرے اور ان کو اپنی صداقت کی دلیل ٹھہراوے ۔ ہرگز نہیں۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص تعلق اور علاقہ نہ ہو ممکن نہیں کہ ایسا ہو سکے اسی زبردست طاقت کے بھروسہ پر رسول اللہ وادعوا شھداء کم کہتا ہے۔
اس ترکیب سے زیادہ کوئی درست پیرایہ نہیں۔ ادعوا کے معنے دہائی دینا ہے۔ اور دہائی اس سے بگڑا ہوا ہے۔ عرب میں قاعدہ تھا کہ اگر کسی قبیلہ کے کسی شخص کو کوئی تکلیف پیش آتی تھی تو اپنی قوم کا نام لے کر آل فلان کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ اس وقت قوم پر فرض ہو جاتا تھا کہ کہ خواہ وہ کسی کام میں مصروف ہوں ا ن کو چھوڑ کر ان کے پاس آتے تھے ۔ کوئی شخص ایسا نہ تھا کہ جو اس دہائی کو قومی اور ملتی فرض نہ سمجھتا ہو۔ اس لئے قرآن کہتا ہے کہ وادعوا شھداء کم۔ ذرا دہائی دے کر اپنے معاونین کو بلاؤ تو سہی۔ اور پھر دیکھو کہ تم کیسے میرے مقابلہ میں ذلیل ہوتے ہو۔ دہائی دو اور دیکھ لو کہ راستبازوں کا مقابلہ کرنے والے کیونکر ذلیل اور خوار ہو جاتے ہیں۔ اس کو پڑھ کر اور سن کر روح کانپ اٹھتی ہے کہ کیونکر یہ قوت آ سکتی ہے جب تک کہ پشیمانی نہ ہو۔ضرور ت تحدی پر میں بہت کچھ کہہ چکا ۔ اب بعض الفاظ کی ترتیب پر غور کرتے ہیں ان کنتم فی ریب مما نزلنا کی ترکیب سے یہ معلوم دیتا ہے کہ خدا اس کو غیر مصنوعی اور قدرتی چیز ثابت کرنا چاہتا ہے اور پھر کہا کہ یا ایھا الناس اعبدوا ربکم ۔۔۔الی الاٰیہ۔
یہ نہیں کہا کہ اپنے اپنے خیالوں اور منصوبوں کے موافق عبادت کرو۔ ان کنتم شروع کر دیا اس سے بڑا رد ضرورت الہام کے منکروں کا مطلوب ہے۔ بعضوں نے لکھا ہے کہ رائے موہن رائے ہی برہم سماج کا بانی ہوا ہے مگر نہیں برہمووں کا وجود قرآن میں بھی پایا جاتا ہے اور امام فخرالدین را زی نے بھی کہاہے ھکذا قال براھمۃ الھند۔
انسان کا عبادت کرنا خود تراشیدہ اصول کی بناء پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کے لئے وہ راہیں ہونی چاہئیں جو خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہوں اور اس کی مرضی بغیر اس کی کتاب کے معلوم نہیں ہو سکتی۔ اور خدا کی کتاب جب ہی ثابت ہوگی جب وہ لیس کمثلہ شئ اپنے متکلم کی طرح بے نظیر ہو ۔پھر ایک اور بات میرے دل میں آئی کہ یہاں ہو سکتا تھا ان کنتم فی ریب ذ لک من الکتاب لیکن الکتاب کی بجائے ما کا لفظ استعمال کرنے کی کیا وجہ تھی ۔ ما ہزار ہا تعظیم اور صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے اور تمام شعبوں کی طرف اشارہ ہے ۔ ایک شخص کہتا ہے میں بہادر ہوں ۔ تو ایک شعبہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یا شاطر ، فصیح، بلیغ ہوں۔ اور کوئی شخص کہے کہ میں جو کچھ ہوں اسے کون جانتا ہے۔ اس سے ہر شخص ڈر جاتا ہے۔ چونکہ یہاں بھی تحدی کی ہے اور کسی خاص شخص سے نہیں بلکہ شہداء سے تحدی کی ہے ۔ اس لئے مطلق اور مفید عام لفظ رکھا جاتا ہے تا کہ ہر ایک اپنے اپنے فن میں زیر تحدی آ جاوے۔
علیٰ عبدنا میں ایک بڑی رمز جو آ ج اس مجدد ایدہ اللہ الاحد نے پر زور تقریروں میں اشارے کئے ہیں مخفی معلوم ہوتے ہیں۔ بہت لوگوں کو شک رہا اور اعتراض کئے ہیں کہ کیا خصوصیت ہے کہ ایک بشر سے کلام کرے ۔ چنانچہ بعض نے کہا لو لا یکلمنا اللہ۔ اور بعض نے کہا لو لا نزل ھذا القرآن علیٰ رجل من قریتین عظیم۔ یا اگر مخاطبہ ہو تو ایک انسان بھی عظیم الشان شان کا ہونا چاہئے۔ آج بھی یہ شبہ ہے کہ نذیر حسین یا فلاں شخص سے خدا کیوں نہیں بولا۔ ہمارے جیسے شکل و شباہت کا انسان کہتا ہے کہ میں نے وحی سنی پس عبد کے لفظ میں یہ راز ہے کہ یہ عبدیت کے درجہ پر ہے یعنی تکلم کے لئے عبد ہونا چاہئے عبودیت کاملہ ہی پر الوہیت کا پرتو پڑتا ہے۔
عبد کے معنے میں پست اور ذلول جسے الوہیت کی عظمت کے مقابلہ میں ڈال رکھا تھا جعل لکم الارض فراشا جو خدا کی شان کے مقابلہ میں اپنے آپ کو ذلیل کر ر کھتا ہے خدا اسے رفع دیتا ہے اور عزت بخشتا ہے۔ جو خود کچھ بھی باقی نہیں رکھتا ۔ پھر خدا اسے اپنے مخاطبہ سے مشرف کرتا ہے۔ اس سے ایک بشارت ملتی ہے صراط الذین انعمت علیھم۔ اس دعا کو مونہہ سے نکالنے اور سچے مفہوم کو معلوم کرنے سے بشارت ملتی ہے کہ جو لوگ عبودیت کے درجہ پر پہنچ جائیں تو رویائے صادقہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا شرف ملتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ ان پر انعام او ر برکت پر برکت نازل کرتا ہے ۔ عبد کے لفظ میں ایک اور بات بھی مرکوز ہے یا یہ کہو کہ اس میں ایک دھمکی ہے کہ یہ تو غلا م اور عبد ہے ۔ہمارا غلام ہے۔ اس کے معنے میں میں نے غور کیا تو سورہ جن میں لما قام عبداللہ یدعوہ کادوا یکونون علیہ لبدا۔ قرآن کے ایک ایک لفظ سے فائدہ اٹھانا چاہئے کیسے پیارے لفظ ہیں لما قام رسول اللہ یا نبی اللہ نہیں کہا اور عبداللہ کہا جس سے اس محبت کی طرف اشارہ ہے جو انسان پوری طور پر خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے قویٰ اور طاقتوں کو رکھ دینے سے حاصل کرتا ہے یعنی عبداللہ اٹھا۔ تو قریب تھا کہ اس کی تکا بوٹی کر ڈالتے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی الحکیم العزیز المقدرت ذات کبھی چھوڑ سکتی تھی۔ بڑا بھاری ذلیل کرنا علاوہ مقابلہ کے ہتک بھی ہے۔ اگر ایک نے دوسرے کی گال پر طمانچا مارا اور دوسرے نے ڈانگ ماری تو یہ کہیں گے کہ مقابلہ بجا ہے کیونکہ اس نے یہی تو تھپڑ مارا ہے مگر خدا کہتا ہے کہ یہ عبداللہ، یہ عاجز انسان جو مقابلہ کرنے والا ہی نہیں کمبخت اس کے مقابلہ کو دوڑتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہونگے کہ یہ شخص انتقامی طورپر بھی مقابلہ کرنے والا نہیں۔ کیونکہ عبداللہ کا لفظ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جو عبودیت الٰہی کے پورے اوصاف اپنے اندر رکھتا ہے۔ اور جس کی طاقتیں اللہ ہی کے لئے وقف ہو چکی ہوں۔ پھر شریر اور فتنہ پرداز انسانوں کے مقابلہ کے لئے تو اس کے پاس کچھ رہتا ہی نہیں۔ ٹھیک اسی خیال پر جم کر وہ چاہتے ہیں کہ اس کا مقابلہ کر کے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں مگر وہ نہیں جانتے کہ خدا اپنی مراد کو بہتر جانتا ہے۔ غرض یہ ہے ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا۔ جیسا بڑا بھاری Exciting اور اکسانے والے پردہ میں جیسے میرا اصول ہے یہ تحدی کی جاتی ہے اور یہ تو ہمارا بندہ ہے۔ اورتم چونکہ ہمارے بندہ کے مقابلہ کے لئے اٹھے ہو اس لئے او عبادالشیطان یاد رکھو۔ اور پھر یاد رکھو کہ یہی شخص جو ہمارا بندہ ہے تم پر غالب آ جاوے گا۔ کیونکہ اس پر تو ہم نے یہ اتارا ہے ۔ اب تم شیطانوں کے فرزند روح اور راستی سے مونہہ پھیرنے والے ان خبیث روحوں سے القا لے کر مقابلہ کرو۔ کیسی تہتک کرنے والی طنز ہے۔ مشرکین عرب کے لئے جو ذرا ذرا سی بات پربھڑک اٹھتے تھے ۔ ایسے لب و لہجہ میں تحدی کرنے سے بھی کوئی حرکت پیدا نہیں ہوئی۔
پھر اسی تحدی کے ضمن میں کہا فاتو ا بسورۃ من مثلہ میں حسب عادت ا س ٹکڑے کی ترتیب پر بھی سوچتا رہا۔ جس سے یہ بات میرے دل میں آئی کہ فاتو ا بآیۃ مں مثلہ بھی تو ہو سکتا تھا۔ اور قرآن میں دوسرے مقام پر آیا بھی ہے لیکن اس تحدی میں بسورۃ من مثلہ کیوں کہا؟ تو مجھے معاً یہ بات سوجھ گئی کہ سور فصیل اور حد باندھنے والی چیز کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی اصطلاح میں سورہ معین ہی نہیں بلکہ ایک ایک آیت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ آیۃ کا لفظ بڑا بھاری تھا جس میں بہت نشانات آیات۔ خوارق عادات شامل ہیں۔ اس لئے اس لفظ کو استعمال نہیں کیا۔ کیونکہ وہ تو اول ہی ٹھان لیا ہے کوئی حد باندھ لو، کوئی شعبہ لے لو۔ چھوٹے سے چھوٹے ٹکڑے کا ہی مقابلہ کر کے دکھاؤ۔ مگر یہ بھی کس قدر عظیم الشان نشان ہے کہ قرآن نے پہلے ہی سے ٹھہرا لیا ہے کہ وہ مقابلہ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ فرمایا ان لم تفعلوا و لن تفعلوا۔ کیا کوئی انسان ہاں منصوبہ باز اور اپنی پیش نظر باتوں پر بھروسہ کرنے والا انسان اس قسم کے الفاظ جن میں کامل یقین اور ہمہ تن اعتماد کی روح کام کر رہی ہو بول سکتا ہے کہ اگر تم نے مقابلہ نہ کیا ۔ اور ہم کہہ دیتے ہیں کہ نہ کر سکو گے۔ پھر اس آگ سے بچو جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ میں تو بار بار کہتا ہوں اور ان الفاظ پر جوں جوں غور کرتا ہوں میری روح ایک نئی لذت اور نیا ذوق احساس کرتی ہے کہ ایک ایک لفظ میں نادان منکروں کو جو خدا سے لڑنا چاہتے ہیں غیرت دلائی ہے اور اکسایا ہے کہ وہ کسی طرح راہ پر تو آئیں۔ مگر وہاں کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ تو ایک مرے ہوئے کیڑے ہیں۔ ا ن میں حس و حرکت پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ اور کیونکر بھلا عبادالشیطان عبداللہ پر کبھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کے تقویٰ اور عبودیت کا رعب ہی ان کو ہلاک کئے دیتا ہے۔ بہرحال اس النار کے لفظ میں میں تدبر کرتا ہوں کہ ان کا کون سا فعل اپنے فعل میں ایسی فطرت رکھتا ہے کہ اس کی سزا نار ہی ہے۔
میں نے خوب غور کی ہے اور بڑے تدبر کے بعدیہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن کی جزاؤں کو اعمال کے ساتھ پوری مناسبت ہے۔ اسی لئے تو قرآن الحکیم کہلاتا ہے ۔ کسی مقنن سے اگر یہ پوچھیں کہ اس جرم کی سزا تین ماہ قید کیوں ہے توہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ وہ نہ بتلا سکے گا۔ لیکن ہمارا ایمان اور دعویٰ ہے کہ قرآن کی جزاؤں کو افعال سے رابطہ تامہ ہے۔ تدبر کا مقام ہے کہ النار کیوں کہا القرآن ایک مقام پر کہتا ہے ذھب اللہ بنورھم۔ اس کتاب کے اندر نورہے جو ایمانی نگاہ سے دیکھتا ہے اسے نور ہی نور نظر آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن احمق جو اس نور سے مقابلہ کرتا ہے اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ نور ا س کے لئے نار ہو جائے کیونکہ وہ ضد اور ہٹ سے باز نہیں آتا اسی لئے تو اس کی سزا نار ہو جاتی ہے۔
ایک اور لطیف تحقیق بھی اس النار کے متعلق میں نے کی ہے۔ جو میرے مذاق اور سائنس اور آجکل کے فلسفہ دانوں کے لئے بہت کچھ ایمان کا موجب ہو سکتی ہے اگر وہ تدبر کریں ۔ نار عربی زبان میں لڑائی کا اشارہ بھی ہے۔ علم تعبیر الرویا میں اگر کوئی شخص دیکھے کہ آگ لگی ہوئی ہے تو لڑائی ہوگی۔ چونکہ تعبیر الرویا بھی قرآن کے فیوض اور برکات کا ایک شعبہ ہے جس سے پایا جاتا ہے کہ یہ تعبیر قرآن سے ہی لی گئی ہے۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام جب اپنی اہلیہ کے ساتھ واپس آئے ہیں تو ان کو بھی آگ دکھلائی جاتی ہے جس میں اشارہ تھا کہ فرعون کے ساتھ جنگ عظیم ہوگی۔ غرض جیسا میں نے ابھی کہا معتبرین نے یہ اصول قرآن سے لئے ہیں اس لئے النار کا اشارہ لڑائی کی طرف ہے اور یہ سائنس کا ایک مسلمہ مسئلہ ہے کہ آگ رگڑ سے پیدا ہوتی ہے اور یہ ایک بدیہی بات ہے کہ رگڑ دو چیزوں کے مقابلہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ اب چونکہ تم مقابلہ کے لئے اٹھے ہو اور ہر مقابلہ کے اندر رگڑ ہے پس اس رگڑ سے جو آگ پیدا ہوگی اس کا شرارہ اسی کو بھسم کر ے گا جو کمزور اور سوختنی ہے۔ اب تم کوڈرنا چاہئے فا تقوا النا ر کے بجائے فاتقوا جہنم اور فاتقوا السعیر اور بہت کچھ الفاظ ہو سکتے تھے ۔ اور بہت سے مختلف الفاظ اس کے ادا کرنے کے لئے مل سکتے تھے۔ لیکن یہ فصیح و بلیغ لفظ رکھنے والا قرآن النار کیوں کہتا ہے اس لئے کہ اس میں ایک پیشگوئی دکھلائی ہے کہ یہ سب کے سب حرب میں بھسم ہونگے۔ اب واقعات پر نظر کرو اور دیکھو کہ مصیبتوں اور تکلیفوں کے لئے ایک لمبے سلسلہ کے بعد وہ سب کے سب مارے گئے۔ اور لڑائی میں مارے گئے اور بد ر اور احد وغیرہ کی جنگوں میں ا ن کو نار الحرب کا طعمہ بنا دیا۔
میں پھر ذرا پیچھے رجوع کر کے عبدنا کے لفظ کی طرف آپ کی توجہ لے جاتا ہوں۔ عبدنا کے لفظ میں یہ بھی اشارہ تھا کہ اللہ کے ساتھ تعلق لگانا ہزارہا علوم کا مورد بن جانا ہے۔ اس پر بڑا بھاری فلسفہ ہے جس پر آج بھی دنیا لگی ہوئی ہے اور وہ پہنچ نہیں سکتی۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ عبداللہ ہو کر بھی تو ہزار ہا صداقتوں اور علوم کو پا لیتا ہے ۔ ہم جو تمہیں کہتے ہیں کہ تم مقابلہ نہ کر سکو گے۔ اس کے لئے ایک بین دلیل یہ ہے کہ تمہارا تعلق الحجارۃ کے ساتھ ہے۔ اسی لئے اس آیت میں الحجارہ کا لفظ آیا نہ الاصنام کا ۔الاصنام کا لفظ بھی تو قرآن میں ہے وہ کیوں نہ آیا۔ الحجر کے معنے ہیں پتھر اور روک کر دینا اور الحجر سے مراد ہے یہ پتھر اور غیر معبود چیزیں جو تمام ترقیات کی مانع ہیں۔ میں نے خوب خوب غور کر کے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ بت پرستی سے بڑھ کر علوم کی دشمن کوئی چیز نہیں۔ پتھروں کا پجاری وسوسوں میں بند ہوتا اور علم حقہ کی تحصیل نہیں کر سکتا۔ بلکہ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ پتھر پوجا سے بزدلی پیدا ہوتی ہے اور شجاعت نہیں آ سکتی جو علوم کے لئے ضروری ہے۔
خدا تعالیٰ کی قدرت ہے جیسے یہ تقاضا کیا کہ ذات الغیب ہے۔ اور اس کی حکمت نے اس کو غیب ہی میں رکھنا چاہا ہے مثلاً اگر خواص الاشیاء مشہود ہوتی ، علوم نہ ہوتے۔ اور ہزارہا علوم کا نکلنا خواص الاشیاء کا نکلنا خواص الاشیاء کا مخفی رہنا ہی تو اس کا باعث ہے۔ اسی لئے تو کھود کھود کر علوم کو نکالا جاتا ہے۔ آلے بناتے بناتے ایک اور بات پیدا ہو جاتی ہے اس لئے تو سر توڑ ترقی کے باوجود خواص الاشیاء کے علم کا کوئی دعویدار نہیں ہے۔ خدا نے اپنی ذات کو علوم کا سرچشمہ بنایا ہے اور اسی کو مخزن علوم رکھا ہے۔
عارف پر تجلی ہوتی ہے ۔ ایک چیز مشاہدے میں آ جاو ے تو بچہ بھی ہٹ جاتا ہے کھلونے کو دیکھ کر دو تین دن بعد اس کی طبیعت اس سے سیر ہو جاتی ہے۔ اس لئے اور کی طرف خواہش کرتا ہے۔ غرض فطرتاً انسان مشاہدات پر قناعت نہیں کرتا بلکہ تجربات پر حریص ہوتا ہے۔ اگر سو کوٹھڑیوں کو بند رکھا جاوے اور ۹۹ کو ٹھڑیوں کو سلسلہ وار کھولنا شروع کریں تو وہ سوویں کوٹھڑی کے بھی کھلنے کا آرزومند رہے گا خواہ اس میں گندگی ہی کیوں نہ رکھی ہوئی ہو۔ اگر یہ بھول گیا ہے اور راستہ سے بھول گیا ہے تو یہ بھولنا بھی اس کے لئے ہے بقول حضرت سیدنا میرزا صاحب
گمرہی گر ہست بہر کوئے اوست
غرض یہ تعلق ایسا ہے جو الناس کا لحجارۃ کے ساتھ ہے تو وہ نار اسی تعلق سے پیدا ہوئی ہے۔ ایک حکیم نے کہا ہے کہ عقل ہو تو یہ ہو سکتا ہے۔ دولت ہو تو یہ ہو سکتا ہے اگر کچھ نہ ہو تو مرنا بہتر ہے۔ اب جس میں کسی قسم کی معقولیت نہیں اور علوم حقہ سے واقفیت نہیں اسے ایندھن ہی ہوناچاہئے۔ اس لئے فرمایا کہ جو انسانی طاقتوں اور ذہنی قویٰ سے کام نہیں لیتے اور انہوں نے عقل اور فکر کو بالکل بیکار اور معطل چھوڑا ہوا ہے وہ اسی قابل ہیں کہ کاٹ کر جلا دئے جا ئیں۔ ان کے لئے ہی ان الذین کفروا سواء علیھم وارد ہوا۔ اب یہ کافر اپنی فطرت ہاں الکافر اپنے وجودوں میں تقاضا کر رہے ہیں کہ وہ آگ کا طعمہ بنائے جائیں۔
بالآخر یاد رکھو او ر یہی کہہ کر میں اس بیان کو ختم کر دونگا کہ راست بازوں اور صادقوں کا مقابلہ کرنے والے آخر نار جہنم کا طعمہ بنتے ہیں۔ اور ہلاکت کا سامان اپنے ہاتھوں خرید لیتے ہیں ۔ پس جہاں تک ہو سکے صادقوں کے مقابلہ سے دستکش رہنا چاہئے او ر ان کے ساتھ ان فیوض اور برکات سے حصہ لینا چاہئے جو ان کے پا ک وجود پر نازل ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس قابل بنا دے۔ و اٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍اکتوبر ۱۹۹۷ء تا ۱۶؍اکتوبر ۱۹۹۷ء)