حضرت ابوالہیثم بن التَّیِّھَان انصاریؓ
حضرت ابوالہیثم بن التَّیِّھَان انصاری کا اصل نام مالک تھا لیکن اپنی کنیت ابوالہیثم سے مشہور ہوئے۔ آپ کی والدہ لیلی بنت عَتِیک قبیلہ بَلِّی سے تھیں۔ اکثر محققین کے نزدیک آپ قبیلہ اوس کی شاخ بَلِّی سے ہیں جو بَنُو عَبْدُالْاَشْہَلْ کے حلیف تھے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 365 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)، (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 341 ابو الہثیم بن التَّیِّھَان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)، (سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 215 ابو الہثیم بنالتَّیِّھَان مطبوعہ دار الاشاعت کراچی2004ء) محمد بن عمر کہتے ہیں کہ حضرت ابوالہیثم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جاہلیت کے زمانے میں بھی بتوں کی پرستش سے بیزار تھے اور انہیں برا بھلا کہتے تھے۔ حضرت اسعد بن زُرَارَہ اور حضرت ابوالہیثم توحید کے قائل تھے۔ یہ دونوں ابتدائی انصاری ہیں جنہوں نے مکہ میں اسلام قبول کیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 341 ابو الہثیم بنالتَّیِّھان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) بعض کے نزدیک بیعت عقبہ اولیٰ سے قبل جب حضرت اسعد بن زُرَارہ چھ آدمیوں کے ساتھ مکہ سے مسلمان ہو کر مدینہ آئے تو حضرت ابوالہیثم کو اسلام کی دعوت دی۔ چونکہ آپ پہلے ہی دین ِفطرت کی تلاش میں تھے آپ نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ پھر بیعت عقبہ اولیٰ کے وقت جو بارہ آدمیوں کا وفد مکہ گیا تو اس وفد میں آپ شامل تھے۔ مکہ پہنچ کر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی۔ (سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 215 ابو الہثیم بن التَّیِّھَان مطبوعہ دار الاشاعت کراچی2004ء)
سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس بارے میں تحریر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے الگ ہو کر ایک گھاٹی میں ان سے ملے۔ انہوں نے یثرب کے حالات سے اطلاع دی اور اب کی دفعہ سب نے باقاعدہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ بیعت مدینہ میں اسلام کے قیام کا بنیادی پتھر تھی۔ چونکہ اب تک جہاد بالسیف فرض نہیں ہوا تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صرف ان الفاظ میں بیعت لی جن میں آپ جہاد فرض ہونے کے بعد عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے۔ یعنی یہ کہ ہم خدا کو ایک جانیں گے۔ شرک نہیں کریں گے۔ چوری نہیں کریں گے۔ زنا کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ قتل سے باز رہیں گے۔ کسی پر بہتان نہیں باندھیں گے اور ہر نیک کام میں آپ کی اطاعت کریں گے۔ بیعت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم صدق و ثبات کے ساتھ اس عہد پر قائم رہے تو تمہیں جنت نصیب ہو گی اور اگر کمزوری دکھائی تو پھر تمہارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے وہ جس طرح چاہے گا کرے گا۔ یہ بیعت تاریخ میں بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ وہ جگہ جہاں بیعت لی گئی تھی عقبہ کہلاتی ہے جو مکہ اور منٰی کے درمیان واقعہ ہے۔ عقبہ کے لفظی معنی (لکھے ہیں کہ) ’’بلند پہاڑی رستے کے ہیں۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 224-225) حضرت ابوالہیثم ان چھ افراد میں شامل تھے جنہوں نے اپنی قوم میں سے سب سے پہلے مکہ جا کر اسلام قبول کیا اور پھر مدینہ واپس آ کر اسلام کی اشاعت کی۔ ان کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ آپ سب سے پہلے انصاری ہیں جو مکہ جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ آپ بیعت عقبہ اولیٰ میں شامل ہوئے اور تمام محققین کا اس پر اتفاق ہے کہ بیعت عقبہ ثانیہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر انصار میں سے بارہ نقباء منتخب فرمائے تو آپ بھی ان نُقَبَاء میں سے ایک تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 341-342 ابو الہیثم بنالتَّیِّھان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) نقباء نقیب کی جمع ہے جس کا مطلب ہے کہ جو علم اور صلاحیت رکھنے والے لوگ تھے انہیں ان کا سردار یا لیڈر یا نگران مقرر کیا تھا۔
ایک حدیث میں روایت ہے کہ بیعتِ عقبہ کے دوران حضرت ابوالہیثم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اور بعض دیگر قبائل کے درمیان باہمی مدد کے کچھ معاہدے ہیں۔ جب ہم اسلام قبول کر لیں گے اور بیعت کر کے آپ ہی کے ہو جائیں گے تو ان معاہدوں کا معاملہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمائیں گے ویسا ہی ہو گا۔ (ابوالہیثم اس موقع پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ) اس موقع پر میں آپ کی خدمت میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اے اللہ کے رسول! اب ہمارا تعلق آپ سے قائم ہو رہا ہے جب اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے اور آپ کی قوم پر آپ کو غلبہ نصیب ہو تو اس وقت آپ ہمیں چھوڑ کر واپس اپنی قوم میں نہ چلے جائیں اور ہمیں داغِ مفارقت نہ دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا اب تمہارا خون میرا خون ہو چکا ہے۔ اب میں تم میں سے ہوں اور تم مجھ میں سے ہو۔ جو تم سے جنگ کرے گا وہ مجھ سے جنگ کرے گا اور جو تم سے صلح کرے گا وہ مجھ سے صلح کرے گا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 427 حدیث 15891 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مکہ کے بعد حضرت عثمان بن مَظْعُون اور حضرت ابوالہیثم انصاری کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 365 ابن الہیثم بنالتَّیِّھان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری شخص کے پاس گئے اور آپ کے ساتھ آپ کے ایک ساتھی بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس پانی ہو یا آج رات مشک میں رہا ہو تو پلاؤ ورنہ ہم یہیں سے منہ لگا کر پانی پی لیں گے۔ وہاں پانی بہہ رہا تھا۔ وہ شخص اپنے باغ میں پانی لگا رہا تھا۔ اس شخص نے کہا یا رسول اللہ! میرے پاس رات کا پانی ہے آپ جھونپڑی کی طرف چلئے۔ وہ شخص یعنی حضرت ابوالہیثم آپ اور آپ کے ساتھی دونوں کو لے گیا اور ایک پیالے میں پانی ڈالا۔ پھر اس پر گھر کی بکری کا دودھ دھویا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشروب پیا پھر اس شخص نے بھی پیا جو آپ کے ساتھ تھا۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الاشربہ باب شرب اللبن بالماء حدیث 5613)
اسی طرح ایک روایت ہے حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو الہیثم بن التَّیِّھان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو دعوت دی۔ جب سب کھانا کھا چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا۔ اپنے بھائی کو بدلہ بھی دو۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ! ہم اس کا کیا بدلہ دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص کسی کے گھر میں جا کر کھانا کھائے اور پانی پئے تو اس کے لئے دعا کرے۔ یہ اس کے لئے اس کھانے کا بدلہ ہے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الاطعمۃ باب فی الدعاء لرب الطعام اذا اکل عندہ حدیث 3853) یہ ہیں اعلیٰ اخلاق جو ہر مسلمان کے لئے ضروری ہیں۔ حضرت ابوہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں گھر سے باہر نکلے جب عام طور پر کوئی باہر نہیں نکلتا اور نہ کوئی کسی سے ملتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت ابوبکر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے ابوبکر تجھے کیا چیز لے آئی؟ (یعنی گھر سے باہر آئے) تو انہوں نے عرض کیا کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھنے اور اس کو سلامتی بھیجنے کے لئے نکلا ہوں۔ تھوڑی دیر تک حضرت عمر بھی آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے عمر تجھے کیا چیز لے آئی؟ عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھوک لے آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے بھی کچھ بھوک لگی ہوئی ہے۔ پھر آپ سب لوگ حضرت ابوالہیثم انصاری کے گھر کی طرف چل پڑے۔ ان کے پاس کافی بکریاں اور کھجور کے درخت تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو گھر پرنہ پایا۔ آپ نے ابوالہیثم کی بیوی سے کہا کہ تیرا خاوند کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا کہ وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت ابوالہیثم بھی مشک اٹھائے ہوئے آ گئے۔ انہوں نے مشک ایک طرف رکھ دی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے اور اپنی جان و مال وارنے لگے۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں۔ حضرت ابوالہیثم آپ تینوں کو لے کر اپنے باغ کی طرف گئے اور ایک چادر بچھا دی۔ پھر جلدی سے باغ کی طرف گئے اور کھجور کا پورا خوشہ ہی کاٹ کر لے آئے جس پر کچے پکے ڈوکے بھی تھے اور پکی ہوئی کھجوریں بھی تھیں۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوالہیثم! تم پکی ہوئی کھجوریں یا ڈوکے چن کر کیوں نہیں لائے بجائے جو سارا پورا bunch ہے وہ لے آئے ہو۔ تو عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے چاہا آپ اپنی پسند کے مطابق پکی کھجوریں یا ڈوکے خود چن کر کھا لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے کھجوریں کھائیں اور پانی پیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی قسم! یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں تم قیامت کے دن پوچھے جاؤ گے۔ یعنی ٹھنڈا سایہ اور ٹھنڈا پانی اور تازہ کھجوریں۔ پھر حضرت ابوالہیثم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانے کا انتظام کرنے اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دودھ دینے والی بکری کو ذبح نہ کرنا۔ اس پر انہوں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور سب نے اسے کھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارا کوئی خادم بھی ہے؟ تو حضرت ابوالہیثم نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ہمارے پاس کوئی جنگی قیدی آئے تو ہمارے پاس آنا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو قیدی آئے تو حضرت ابوالہیثم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں میں سے ایک کو پسند کر لو۔ حضرت ابوالہیثم کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ ہی میرے لئے انتخاب فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے۔ (یہ بات بھی خاص طور پہ ہر ایک کے لئے نوٹ کرنے والی ہے کہ جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے اس لئے ہمیشہ اچھا مشورہ دینا چاہئے۔) پھر آپ نے فرمایا کہ یہ خادم لے لو کیونکہ میں نے اسے عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور جو خوبی اس خادم کی بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ عبادت کرتا ہے۔ اللہ کو یاد کرنے والا ہے۔ اس کے دل میں نیکی ہے۔ اس کے ساتھ پھر فرمایا کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ حضرت ابوالہیثم اپنی بیوی کے پاس لوٹے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگیں کہ تم اس نصیحت کا حق پوری طرح ادا نہیں کر سکو گے جو تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے یہی کہ نیک سلوک کرنا۔ اب عورت ذات ہے اور پھر نوکر بھی کوئی نہیں۔ کام کرنے والا جو ملا ہے اس کے بارے میں یہ دیکھیں معیار، مومنانہ شان۔ ان کی اہلیہ ان کو یہ کہنے لگی کہ حق تو تبھی پورا ہو گا کہ تم اس کو آزاد کر دو۔ جو تمہیں ملازم ملا ہے اس کو آزاد کر دو۔ اس پر حضرت ابوالہیثم نے اس کو آزاد کر دیا۔ (سنن الترمذی کتاب الزھد باب ما جاء فی معیشۃ اصحاب النبیﷺ حدیث 2369) یہ شان تھی ان صحابہ کی۔
حضرت ابوالہیثم غزوہ بدر، اُحد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔ غزوہ موتہ میں حضرت عبداللہ بن رواحہ کی شہادت کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوالہیثم کو خیبر میں کھجوروں کے پھل کا اندازہ کرنے کے لئے بھی بھجوایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب حضرت ابوبکر نے آپ کو کھجوروں کے اندازے کے لئے بھجوانا چاہا تو انہوں نے جانے سے معذرت کر دی۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو کھجوروں کے اندازے کے لئے جایا کرتے تھے۔ اس پر حضرت ابوالہیثمؓ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھجوروں کا اندازہ کیا کرتا تھا جب میں اندازے کر کے واپس آتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعا فرماتے تھے۔ اس وقت ان کو وہ خیال آ گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لیتا تھا اور ایک جذباتی کیفیت تھی۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے انہیں نہ بھجوایا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 342 ابو الہثیم مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) تو یہ ایک جذباتی کیفیت تھی جو انہوں نے بیان کی ورنہ یہ لوگ وہ تھے جو ہمیشہ اطاعت کرنے والے تھے۔ نافرمانی کرنے والے نہیں تھے۔ اگر حضرت ابوبکرؓ پھر بھی حکم دیتے تو یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ تعمیل نہ کرتے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کا آپ کو دوبارہ نہ کہنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو بھی ان کی اس جذباتی کیفیت کا خیال آ گیا اور سمجھ گئے۔ اس لئے حکم نہیں دیا۔ پھر جب حضرت عمر نے خبیر کے یہود کو جلا وطن کیا تو حضرت عمرؓ نے ان کی طرف ایسے افراد کو بھیجا جو ان کی زمین کی قیمت لگائیں۔ حضرت عمرؓ نے ان کی طرف حضرت ابوالہیثمؓ اور حضرت فروہؓ بن عمرو اور حضرت زیدؓ بن ثابت کو بھیجا۔ انہوں نے اہل خیبر کی کھجوروں اور زمین کی قیمت لگائی۔ حضرت عمرؓ نے اہلِ خیبر کو ان کی نصف قیمت دے دی جو کہ پچاس ہزار درہم سے زیادہ تھی۔ (کتاب المغازی للواقدی جلد دوم باب شان فدک صفحہ 165 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2004ء) یہاں اب دیکھیں کہ وہ اس جگہ چلے گئے۔ وہ جذباتی کیفیت نہیں تھی۔ اب عرصہ گزر گیا تھا اس لئے ان کو کوئی روک نہیں کوئی ایسا امر مانع نہیں تھا۔
السلام علیکم کہنے کے متعلق بھی ایک روایت ان سے ملتی ہے۔ حضرت ابوالہیثمؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو السلام علیکم کہتا ہے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنے والے کو بیس نیکیاں ملتی ہیں۔ اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ کہنے والے کو تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 366 ابو الہیثم بن التیہان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) حضرت ابوالہیثمؓ کے زمانہ وفات کی بابت مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔ بعض کے نزدیک آپ کی وفات حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہوئی تھی۔ بعض کے نزدیک آپ کی وفات بیس یا اکیس ہجری میں ہوئی تھی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نے جنگ صِفِین سینتیس ہجری میں حضرت علی کی طرف سے لڑتے ہوئے شہادت پائی‘‘۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 342 ابو الہیثم مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)، (اسد الغابہ جلد 5صفحہ 13 ابو الہیثم مالک بن التیہان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)