حضرت ابواُسَیْد مالکؓ بن ربیعہ ساعدی
حضرت ابو اُسَیْد مالک بن ربیعہ چھوٹے قد کے تھے۔ سر اور داڑھی کے بال سفید ہو گئے تھے۔ آپ کے بال گھنے تھے۔ بڑھاپے میں آپ بینائی سے محروم ہو گئے تھے۔ 60 ہجری میں حضرت معاویہ کے دور میں 75 سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی اور غزوہ بدر میں شامل ہونے والے انصار صحابہ میں سے یہ سب سے آخر میں فوت ہوئے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 5 صفحہ 536 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) (اسد الغابۃ جلد 5 صفحہ 22 مالک بن ربیعہؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت)
حضرت ابو اُسَیْد غزوۂ بدر، اُحد، خندق اور اس کے بعد کی جنگوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ فتح مکہ کے موقع پر ان کے پاس قبیلہ بنو ساعدہ کا جھنڈا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 286 اَبُوْ اُسَیْد الساعدی۔ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو اُسید ساعدی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی شادی میں دعوت دی۔ اس دن ان کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کر رہی تھی اور وہی دلہن بھی تھی۔‘‘ بڑی سادگی سے شادی ہو رہی تھی۔ شادی کی دعوت ہوئی اور دلہن ہی کھانا بھی پکا رہی تھی۔ serve بھی کر رہی تھی۔ حضرت سہل آگے سوال کر کے جواب دے رہے ہیں۔ یہ ان کاانداز ہے۔ کہتے ہیں کہ تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نےکیا پلایا؟ انہوں نے آپ کے لئے ایک برتن میں رات کو کھجوریں بھگو دیں۔ جب آپ نے کھانا کھا لیا تو انہوں نے آپ کو شربت پلایا۔ (صحیح مسلم کتاب الاشربۃ باب اباحۃ النبیذ الذی لم یشتد و لم یصر مسکرا حدیث 5233)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ چند قیدی آئے آپ نے ان میں سے ایک عورت کو روتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز رلا رہی ہے؟ اس نے کہا کہ اس نے میرے اور میرے بیٹے کے درمیان بنو عَبْس میں فروخت کر کے دوری ڈال دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدی کے مالک کو بلایا۔ جب بلایا تو دیکھا کہ وہ ابو اُسَیْد ساعدی تھے۔ آپ نے پوچھا کیا تم نے اس کے اور اس کے بچے کے درمیان دوری ڈالی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ بچہ چلنے سے معذور تھا اور یہ اس کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتی تھیں۔ اس لئے میں نے اس کو بنو عبس میں فروخت کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم خود جا کر اسے لے کے آؤ۔ چنانچہ حضرت ابواُسَیْد جا کر اس بچے کو واپس لائے اور اسے اس کی ماں کو لوٹا دیا۔ (شرف المصطفیٰ جلد 4 صفحہ 400، جامعہ ابواب صفۃ اخلاقہ و آدابہﷺ حدیث 1649 مطبوعہ دار البشائر الاسلامیۃ مکہ۔ 2003ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاہے اس میں طاقت ہے یا نہیں، چاہے وہ قیدی ہو یا لونڈی ہو یا غلام ہو لیکن ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف نہیں دی جا سکتی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ لگوائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جس پر حضرت بلال سوار تھے سب اونٹوں سے آگے نکل گئی۔ اسی طرح آپ کا ایک گھوڑا تھا۔ گھوڑوں کی دوڑ لگوائی اور آپ کے گھوڑے پر ابواُسَیْد ساعدی سوار تھے اور اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ (امتاع الاسماع جلد اول صفحہ 212‘‘حمایۃ النقیع لخیل المسلمین’’۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1999ء)
حضرت سہل بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو اُسَیْد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ان کے بیٹے منذر بن ابی اُسَیْد پیدا ہوئے تو ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ نے اس بچے کو اپنی ران پر بٹھا لیا۔ اس وقت حضرت ابواُسَیْد بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مشغول ہو گئے۔ حضرت ابواُسَیدنے اشارہ کیا تو لوگ منذر کو آپ کی ران پر سے اٹھا کر لے گئے۔ جب آپ کو فراغت ہوئی تو پوچھا کہ بچہ کہاں گیا؟ حضرت ابواُسَیْدنے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے اس کو گھر بھیج دیا ہے۔ آپ نے پوچھا اس کا نام کیا رکھا ہے؟ ابواُسَیْدنے کوئی نام بتایا کہ فلاں نام رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ اس کا نام مُنْذِر ہے۔ آپ نے اس دن اس کا نام منذر رکھا۔ (صحیح البخاری کتاب الادب باب تحویل الاسم الی اسم احسن منہ حدیث 6191)
شارحین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بچے کا نام منذر رکھنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ حضرت ابواُسَید کے چچازاد بھائی کا نام منذر بن عمرو تھا جو بئر معونہ میں شہید ہوئے تھے۔ پس یہ نام تفاؤل کی وجہ سے رکھا گیا تھا کہ وہ بھی ان کے اچھے جانشین ثابت ہوں۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب المغازی جلد7 صفحہ 497 حدیث 4094 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)
حضرت سُلَیمان بن یَسَار سے مروی ہے کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت سے پہلے حضرت ابواُسَیْد الساعدی کی بینائی زائل ہو گئی۔ نظر آنا بند ہو گیا۔ آنکھیں خراب ہو گئیں تو اس بات پر آپ کہا کرتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بینائی سے نوازا اور وہ ساری برکات میں نے دیکھیں اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو آزمائش میں ڈالنا چاہا تو میری بینائی ختم کر دی۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ591 کتاب معرفۃ الصحابۃ حدیث 6189، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
میری نظر ختم ہو گئی تا کہ میں ان بری حالتوں کو نہ دیکھ سکوں۔ حضرت عثمان بن عبیداللہ جو حضرت سعد بن ابی وقاص کے آزاد کردہ غلام تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت ابن عمرؓ، حضرت ابو ہریرۃؓ، حضرت ابو قتادہؓ اور حضرت ابواُسَیدؓ ساعدی کو دیکھا۔ یہ حضرات ہم پر سے گزرتے تھے اس حال میں کہ ہم مکتب میں ہوتے تھے تو ہم ان سے عبیر کی خوشبو محسوس کیاکرتے تھے۔‘‘ یہ خوشبو ہے جو زعفران اور کئی چیزوں سے ملا کر بنائی جاتی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 6صفحہ 216کتاب الادب باب ما یستحب للرجال ان یوجد ریحہ منہ، دار الفکربیروت)
مروان بن الحکم حضرت ابو اُسَید ساعدی کو صدقے پر عامل بنایا کرتے تھے۔ یعنی اکٹھا کرنے کے لئے اور اس کی تقسیم کے لئے۔ حضرت ابواُسَید ساعدی جب دروازے پر آتے تو اونٹ بٹھاتے اور ان کو تمام چیزیں تقسیم کے لئےدیتے۔ آخری چیز جو ان کو دیتے وہ چابک ہوتا۔ اسے دیتے ہوئے یوں کہتے کہ یہ تمہارے مال میں سے ہے۔ حضرت ابواسید ایک مرتبہ زکوۃ کا مال تقسیم کرنے آئےاور جو سامان تھا وہ پورا تقسیم کر کے چلے گئے۔ گھر میں جا کر جو سوئے تو خواب میں انہوں نے دیکھا کہ ایک سانپ ان کی گردن سے لپٹ گیا ہے۔ وہ گھبرا کر اٹھے اور پوچھا کہ اے فلاں ! (خادمہ سے یا بیوی سے پوچھا کہ) کیا مال میں سے کوئی چیز رہ گئی ہے جو تقسیم کرنے کے لئے مجھے دی گئی تھی۔ وہ بولی کہ نہیں۔ حضرت ابواُسَیدنے فرمایا کہ پھر کیا بات ہے کہ سانپ میری گردن میں لپٹ گیا تھا۔ دیکھو شاید کچھ رہ گیا ہو۔ جب انہوں نے دیکھا تو وہ بولی کہ ہاں اونٹ کو باندھنے والی ایک رسی ہے جس کے ساتھ ایک تھیلے کا منہ باندھ دیا گیا تھا۔ چنانچہ حضرت ابواُسَیْدنے وہ رسّی بھی جا کر ان کو واپس کر دی۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد 5 صفحہ 167 حدیث نمبر 3247، مکتبۃ الرشدناشرون ریاض 2003ء)
اللہ تعالیٰ ان صحابہ کو تقویٰ کے باریک ترین معیاروں پر رکھ کر امانت کی ادائیگی کے اعلیٰ ترین معیار قائم کروانا چاہتا تھا اور اسی لئے پھر خوابوں میں بھی ان کی رہنمائی ہو جاتی تھی۔
عُمَارہ بن غَزِیَّہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں کہ کچھ جوانوں نے حضرت ابواُسَید سے انصار کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ فضائل کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انصار کے تمام قبائل میں سب سے اچھے بنو نجار کے گھرانے ہیں۔ پھربنو عبدالْاَشْھَل، پھر بنو حارث بن خزرج، پھر بنو ساعدہ اور انصار کے تمام گھرانوں میں خیر ہی خیر ہے۔ حضرت ابواُسَید اس پر فرماتے تھے کہ اگر میں حق کے سوا کسی چیز کو قبول کرنے والا ہوتا تو میں بنو ساعدہ کے کسی خاندان سے شروع کرتا۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 592 کتاب معرفۃ الصحابہ حدیث 6194 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جگہ تاریخ کے حوالے سے ذکر فرمایا ہے کہ جب عرب فتح ہوا اور اسلام پھیلنے لگا تو کندہ قبیلہ کی ایک عورت جس کا اسماء یا امیمہ نام تھا اور وہ جَوْنِیَہ یا بِنتُ الجَوْن بھی کہلاتی تھی۔ اس کا بھائی لقمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے بطور وفد حاضر ہوا اور اس موقع پر اس نے یہ بھی خواہش کی کہ اپنی ہمشیرہ کی شادی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دے اور بالمشافہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست بھی کر دی کہ میری بہن جو پہلے ایک رشتہ دار سے بیاہی ہوئی تھی اب بیوہ ہے اور نہایت خوبصورت اور لائق بھی ہے آپ اس سے شادی کر لیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ قبائل عرب کا اتحاد منظور تھا اس لئے آپ نے اس کی یہ دعوت منظور کر لی اور فرمایا کہ ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی پر نکاح پڑھ دیا جائے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ ہم معزز لوگ ہیں۔ بڑے رئیس لوگ ہیں یہ مہر تھوڑا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ میں نے اپنی کسی بیوی یا لڑکی کا مہر نہیں باندھا۔ جب اس نے رضامندی کا اظہار کر دیا اور اس نے کہا ٹھیک ہے تو نکاح پڑھا گیا اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ کسی آدمی کو بھیج کر اپنی بیوی منگوا لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواُسَید کواس کام پر مقرر کیا۔ وہ وہاں تشریف لے گئے۔ جونیہ نے ان کو اپنے گھر بلایا تو حضرت اُسَیدنے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں پر حجاب نازل ہو چکا ہے۔ اس پر اس نے دوسری ہدایات دریافت کیں جو آپ نے انہیں بتا دیں اور اونٹ پر بٹھا کر مدینہ لے آئے اور ایک مکان میں جس کے گرد کھجوروں کے درخت بھی تھے لا کر اتارا۔ اس عورت کے ساتھ جس کی شادی ہوئی تھی اس کی دایہ بھی اس کے رشتہ داروں نے روانہ کی تھی۔ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ جس طرح ہمارے ملکوں میں بھی ایک بے تکلف نوکر ساتھ جاتی ہے۔ بڑے لوگ، امیر لوگ بھیجا کرتے تھے اس زمانے میں۔ اب تو یہ رواج نہیں، پرانے زمانے میں ہوتا تھا تا کہ اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ چونکہ یہ عورت جو تھی جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ہوئی تھی یا جس کے بھائی نے رشتہ پیش کیا تھا، شادی کی خواہش کی تھی اور پھر نکاح بھی ہو گیا تھا یہ عورت بڑی حسین مشہور تھی اور یوں بھی عورتوں کو دلہن دیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ محلے کی، قریب کی جو دوسری عورتیں ہوتی ہیں جب کوئی نوبیاہتا دلہن آئے تو انہیں اس کو دیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ مدینہ کی عورتیں بھی اس عورت کو دیکھنے گئیں۔ اس کی خوبصورتی بڑی مشہور تھی اور اس عورت کے بیان کے مطابق کسی عورت نے اس کو سکھا دیا کہ رعب پہلے دن ہی ڈالا جاتا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس آئیں تو تو کہہ دیجیو کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس پر وہ تیرے زیادہ گرویدہ ہو جائیں گے۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ اگر یہ بات اس عورت کی بنائی ہوئی نہیں تو کچھ تعجب نہیں کہ کسی منافق نے اپنی بیوی یا اور کسی رشتہ دار کے ذریعہ یہ شرارت کی ہو۔ غرض جب اس کی آمد کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ اس گھر کی طرف تشریف لے گئے جو اس کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ احادیث میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تو اپنا نفس مجھے ہبہ کر دے۔ اس نے جواب دیا کہ کیا ملکہ بھی اپنے آپ کو عام آدمیوں کے سپرد کیا کرتی ہے؟ ابواُسَید کہتے ہیں کہ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ اجنبیت کی وجہ سے گھبرا رہی ہے اسے تسلی دینے کے لئے اس پر اپنا ہاتھ رکھا۔ آپ نے اپنا ہاتھ ابھی رکھا ہی تھا کہ اس نے یہ نہایت گندہ اور نامعقول فقرہ کہہ دیا کہ میں تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ چونکہ نبی خدا تعالیٰ کا نام سن کر ادب کی روح سے بھر جاتا ہے اور اس کی عظمت کا متوالا ہو جاتا ہے۔ اس کے اس فقرے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً فرمایا کہ تو نے ایک بڑی ہستی کا واسطہ دیا ہے اور اس کی پناہ مانگی ہے جو بڑا پناہ دینے والا ہے اس لئے میں تیری درخواست کو قبول کرتا ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت باہر تشریف لے آئے اور فرمایا کہ اے ابواُسَید اسے دو چادریں دے دو اور اس کے گھر والوں کے پاس پہنچا دو۔ چنانچہ اس کے بعد اسے مہر کے حصہ کے علاوہ بطور احسان دورازقی چادریں دینے کا آپ نے حکم دیا تا کہ قرآن کریم کا حکم وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْپورا ہو۔ یعنی آپس میں احسان کا سلوک بھول نہ جایا کرو۔ اس کے مطابق آپ نے زائد دیا، احسان کیا۔ حضرت مصلح موعود لکھتے ہیں کہ جو ایسی عورتوں کے متعلق ہے جن کو بلا صحبت طلاق دے دی جائے اور آپ نے اسے رخصت کر دیا اور ابواُسَید ہی اس کو اس کے گھر پہنچا آئے۔ اس کے قبیلے کے لوگوں پر یہ بات نہایت شاق گزری اور انہوں نے اس کو ملامت کی۔ مگر وہ یہی جواب دیتی رہی کہ یہ میری بدبختی ہے اور بعض دفعہ اس نے یہ بھی کہا کہ مجھے ورغلایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس آئیں تو تم پرے ہٹ جانا اور نفرت کا اظہار کرنا۔ اس طرح ان پر تمہارا رعب قائم ہو جائے گا۔ معلوم نہیں یہی وجہ ہوئی یا کوئی اور۔ بہرحال اس نے نفرت کا اظہار کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے علیحدہ ہو گئے اور اسے رخصت کر دیا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 533-535 تفسیر سورۃ البقرۃ: آیت 228)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو بیویوں کا الزام لگاتے ہیں کہ خوبصورت عورتوں کے نعوذ باللہ دلدادہ تھے۔ یہ جو سارا واقعہ ہے ان کے لئے کافی جواب ہے۔
حضرت ابواُسَید کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کوئی چیز مانگی جاتی تو آپ نے کبھی انکار نہیں فرمایا۔ (مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 409 کتاب علامات النبوۃ باب فی جودہ حدیث 14179، دار الکتب العلمیۃ بیروت2001ء)