حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ
حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کا نام عامر بن عبداللہ تھا اور ان کے والد کا نام عبداللہ بن جَرَّاح تھا۔ حضرت ابوعبیدہؓ اپنی کنیت کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں جبکہ آپؓ کے نسب کو آپؓ کے دادا جَرَّاح سے جوڑا جاتا ہے۔ آپؓ کی والدہ کا نام اُمَیْمَہ بنتِ غَنْم تھا اور آپؓ کا تعلق قبیلہ قریش کے خاندان بَنُو حَارِثْ بِنْ فِہْر سے تھا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء ثالث صفحہ 475، عامر بن عبد اللّٰہ، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2005ء)
حضرت ابوعُبَیْدہؓ کا یہ حلیہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا قد لمبا تھا، جسم نحیف تھا، دبلے پتلے تھے اور چہرے پر کم گوشت تھا۔ سامنے کے دو دانت غزوۂ احد کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار میں پھنسے ہوئے خود کے حلقوں کو نکالتے ہوئے ٹوٹ گئے تھے۔ آپؓ کی داڑھی زیادہ گھنی نہ تھی اور آپؓ خضاب کا استعمال کیا کرتے تھے۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 135، حضرت ابوعبیدہ بن الجَرَّاح، دارالاشاعت اردو بازار کراچی)
حضرت ابوعبیدہ بن جرّاحؓ نے متعدد شادیاں کی تھیں مگر ان میں صرف دو بیویوں سے اولاد ہوئی۔ آپؓ کے دو بیٹے تھے ایک کا نام یزید اور دوسرے کا نام عُمَیر تھا۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2 صفحہ 41)
حضرت ابوعبیدہؓ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی، جن کو عشرہ مبشرہ کہتے ہیں۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد ثالث صفحہ 22، عامر بن عبد اللّٰہ، دارالفکر بیروت، 2003ء)
حضرت ابوعبیدہؓ کا شمار قریش کے باوقار، بااخلاق اور باحیا لوگوں میں ہوتا تھا۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء ثالث صفحہ 477، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2005ء)
حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی تبلیغ سے اسلام قبول کیا۔ اس وقت مسلمان ابھی دارِ ارقم میں پناہ گزیں نہیں ہوئے تھے اس سے پہلے کی بات ہے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کا اسلام لانے میں نواں نمبر ہے۔ (عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 798، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء) (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 124 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر امّت کا ایک امین ہوتا ہے اور میری امّت کے امین ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب ابی عبیدہ بن الجَرَّاحؓ، حدیث نمبر 3744)
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کے مطابق نجران کے لوگ جبکہ صحیح مسلم کی ایک اَور روایت کے مطابق یمن کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے ساتھ کسی ایسے شخص کو بھیجیں جو ہمیں دین سکھائے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ کسی امین شخص کو بھیجیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَیں ضرور تمہارے ساتھ ایک ایسے امین شخص کو بھیجوں گا جو اس کا حق ادا کرنے والا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا ھٰذَا أَمِیْنُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ۔ یہ اس امّت کا امین ہے۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب ابی عبیدہ بن الجَرَّاحؓ حدیث نمبر 3745) (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل ابی عبیدہ بن الجَرَّاحؓ، حدیث نمبر 2419-2420)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکرؓ، عمرؓ، ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ، اُسید بن حضیرؓ، ثابت بن قَیس بن شَمَّاسؓ، مُعاذ بن جَبَلؓ اور مُعَاذ بن عَمْرو بن جَمُوحؓ کتنے اچھے انسان ہیں۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب معاذ بن جبل و زید بن ثابتؓ …..، حدیث نمبر 3795) یعنی آپؐ نے ایک مرتبہ ان کی تعریف فرمائی۔ ایک مجلس میں ان کا ذکرہوا ہو گا جس کی مثال حضرت ابوہریرہؓ بیان کر رہے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کسی کو جانشین بناتے تو کسے بناتے؟ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا حضرت ابوبکرؓ کو۔ لوگوں نے پوچھا اور حضرت ابوبکرؓ کے بعد کسے؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا حضرت عمرؓ کو۔ لوگوں نے پوچھا حضرت عمرؓ کے بعد کسے؟ تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کو۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل ابی بکر الصدیقؓ حدیث نمبر 2385)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبداللہ بن شَقِیْقنے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ میں سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا حضرت ابوبکرؓ۔ اس نے پوچھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے بعد کون؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا حضرت عمرؓ۔ اس نے پوچھا کہ حضرت عمرؓ کے بعد کون؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا حضرت ابوعُبیدہ بن جَرَّاحؓ۔ پھر اس نے پوچھا اس کے بعد کون؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت عائشہؓ خاموش رہیں۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب، باب مناقب ابی بکر الصدیقؓ، حدیث نمبر 3657)
’سیرت خاتم النبیینؐ‘ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ
’’حضرت عائشہؓ کی نظر میں ابوعبیدہؓ کی اتنی قدرومنزلت تھی کہ وہ کہا کرتی تھیں کہ اگر حضرت عمرؓ کی وفات پر ابوعبیدہؓ زندہ ہوتے تو وہی خلیفہ ہوتے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 123)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا کہ اگر آج حضرت ابوعبیدہؓ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلیفہ نامزد کرتا اور اگر میرا رب مجھ سے اس بارے میں پوچھتا کہ تم نے اسے کیوں نامزد کیا ہے تو مَیں عرض کرتا کہ مَیں نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ابوعبیدہؓ اس امّت کا امین ہے۔ اس لیے اسے جانشین بنایا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 315، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2012ء)
جب حضرت ابو عبیدہؓ ایمان لائے تو ان کے والدنے ان کو بہت تکالیف پہنچائیں۔ آپؓ ہجرت حبشہ میں بھی شریک تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ مدینہ ہجرت کر کے آئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انہیں دیکھ کر تمتما اٹھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر معانقہ کیا اور آپؓ نے حضرت کلثوم بن ہِدمؓ کے گھر قیام کیا۔ امّ کلثوم نہیں بلکہ حضرت کلثوم بن ھِدْمؓ کے گھر قیام کیا۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب، جلد 2 صفحہ 11-12) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 313، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2012ء)
حضرت ابوعبیدہؓ کی مؤاخات کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ بعض کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہؓ کی مؤاخات حضرت ابوحذیفہؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالمؓ کے ساتھ فرمائی۔ بعض کے نزدیک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کی مؤاخات حضرت محمد بن مسلمہؓ کے ساتھ قائم فرمائی اور بعض کے نزدیک آپؓ کی مؤاخات حضرت سعد بن معاذؓ کے ساتھ قائم فرمائی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 313، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2012ء) (الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء ثالث صفحہ 476، عامر بن عبد اللّٰہ، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2005ء)
حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ نے غزوۂ بدر، احد اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 313، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 1990ء)
غزوہ ٔبدر کے وقت حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کی عمر41 سال تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 316، ابوعبیدہ بن جَرَّاح، دارالکتب العملیۃ بیروت لبنان، 2012ء)
غزوۂ بدر کے روز حضرت ابو عبیدہ بن جَرَّاحؓ مسلمانوں کی طرف سے میدانِ جنگ میں آئے اور آپؓ کا باپ عبداللہ کفار کی طرف سے میدان میں آیا۔ باپ بیٹا آمنے سامنے ہوئے۔ باپ نے جنگ کے دوران بیٹے کو نشانہ بنانا چاہا مگر حضرت ابو عبیدہؓ طَرح دیتے رہے، ایک طرف نکلتے رہے، بچتے رہے مگر باپ نے پیچھا نہ چھوڑا۔ باپ کی کوشش تھی کہ آپ کو کسی طرح مار دے۔ آپؓ کو بھی موقع تھا، آپؓ بھی یہ کر سکتے تھے لیکن آپؓ یہی کوشش کرتے رہے کہ باپ سے بچتے رہیں۔ نہ اس کو ماریں اور خود بھی بچے رہیں۔ جب حضرت ابو عبیدؓ ہ نے دیکھا کہ باپ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا تو جذبہ توحیدنسبی تعلق پر غالب آیا۔ پھر رشتہ داری کوئی چیز نہیں رہی۔ جب آپؓ نے دیکھا کہ اب تو یہ پکا ارادہ کیے بیٹھا ہے کہ مجھے مارنا ہے اور صرف اس لیے مارنا ہے کہ مَیں توحید پر ایمان لے آیا ہوں اور لکھا ہے کہ جذبہ توحیدنسبی تعلق پر غالب آیا اور جب یہ ہوگیا، جب دیکھا کہ پیچھا نہیں چھوڑ رہا تو پھر عبداللہ جو اُن کا باپ تھا اپنے ہی بیٹے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ آخر اُس کو پھر مجبوراً اِن کو مارنا پڑا۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 124 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
غزوۂ احد کے دن عبداللہ بن قَمِئَہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زور سے پتھر مارا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ٔمبارک زخمی ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید ہو گئے۔ اس پر اس نے نعرہ مارا کہ یہ لو کہ مَیں ابنِ قَمِئَہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرۂ مبارک سے خون صاف کرتے ہوئے فرمایا اللہ تجھے رسوا کرے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ایسا ہوا کہ اللہ نے اس پر ایک پہاڑی بکرا مسلط کر دیا جس نے اسے مسلسل سینگ مارے یہاں تک کہ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جزء ثامن صفحہ 154 حدیث 7596، مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ، 1994ء)
اس واقعے کے بارے میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ بیان فرماتے ہیں کہ غزوۂ احد کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر پتھر مارا گیا تو وہ اتنے زور سے لگا کہ آپؐ کے خَود کے دو حلقے ٹوٹ کر، اس کی کڑیاں جو تھیں وہ ٹوٹ کر آپؐ کے چہرۂ مبارک میں پیوست ہو گئیں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ مَیں دوڑتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا تو مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص اتنی تیزی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھ رہا تھا گویا کہ اُڑ کر آ رہا ہو۔ اس پر مَیں نے دعا کی کہ اے اللہ !اس شخص کو خوشی کا موجب بنا۔ یعنی یہ جو دوڑا جا رہا ہے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی، ہمارے لیے بھی خوشی کا موجب بنے۔ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو مَیں نے دیکھا کہ وہ ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ تھے جو مجھ سے سبقت لے گئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا: اے ابوبکرؓ ! مَیں آپؓ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسارِمبارک سے ان حلقوں کو نکالنے دیں یعنی وہ جو خَود کے اندر جبڑے میں چبھ گئے تھے ان کو نکالنے دیں۔ حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے انہیں ایسا کرنے دیا۔ پس حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ نے خَود کے ان دو حلقوں میں سے ایک کو اپنے دانت سے پکڑا اور اتنے زور سے کھینچا۔ اتنے مضبوطی سے وہ اندر گڑھ گئے تھے کہ جب کھینچ کر نکالا تو آپؓ کمر کے بل زمین پر گر گئے اور آپؓ کا سامنے کا ایک دانت ٹوٹ گیا۔ پھر آپؓ نے دوسرے حلقے کو بھی دانتوں سے پکڑ کر زور سے کھینچ کر باہر نکالا کہ آپؓ کا سامنے کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا۔ غزوۂ احد کے موقعے پر جب لوگ منتشر ہو گئے تھے تو حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثابت قدم موجود رہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 313، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 1990ء)
ذوالقعدہ چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب صلح نامہ لکھا گیا تو اس معاہدے کی دو نقلیں تیار کی گئیں اور بطور گواہ کے فریقین کے متعدد معززین نے ان پر اپنے دستخط کیے۔ مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں سے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ تھے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ 769)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کو کئی سرایا، سریہ کی جمع سرایا مطلب ہے جنگوں میں بھجوایا تھا۔ جو expeditions ہوتی ہیں ان میں بھجوایا تھا۔
ذوالقَصَّہ کی طرف سریہ۔ یہ سریہ ربیع الآخر چھ ہجری میں بھجوایا گیا تھا۔ اس کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے اپنی تصنیف ’سیرت خاتم النبیین‘ میں لکھتے ہیں کہ ربیع الآخر کے مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت محمد بن مسلمہ انصاریؓ کو ذوالقصہ کی طرف روانہ فرمایا جومدینہ سے چوبیس میل کے فاصلہ پر تھا جہاں ان ایام میں بنوثَعْلَبَہ آباد تھے۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ اور ان کے دس ساتھی رات کے وقت وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اس قبیلہ کے سو نوجوان جنگ کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ صحابہ کی جماعت سے یہ پارٹی تعداد میں دس گنا زیادہ تھی۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے فوراً اس لشکر کے سامنے صف آرائی کرلی۔ اگر جنگ کی نیت سے گئے ہوتے تو اتنی تھوڑی تعداد میں نہ ہوتے۔ اور فریقین کے درمیان رات کی تاریکی میں خوب تیراندازی ہوئی۔ اس کے بعد کفار نے صحابہ کی مٹھی بھر جماعت پر دھاوا بول دیا اور چونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی ایک آن کی آن میں یہ دس فدائیان اسلام خاک پر تھے۔ یعنی شہید ہو گئے۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ کے ساتھی تو سب شہید ہوگئے مگر خود حضرت محمد بن مسلمہؓ بچ گئے کیونکہ کفار نے انہیں دوسروں کی طرح مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا اور ان کے کپڑے وغیرہ اتار کر لے گئے۔ غالباً حضرت محمدبن مسلمہؓ بھی وہاں پڑے پڑے فوت ہوجاتے مگر حسنِ اتفاق سے ایک اَور مسلمان کاوہاں سے گزر ہوا اور اس نے حضرت محمد بن مسلمہؓ کوپہچان کرانہیں اُٹھا کر مدینہ پہنچا دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوجب ان حالات کاعلم ہوا تو آپؐ نے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کوجو قریش میں سے تھے اور کبار صحابہ میں شمار ہوتے تھے حضرت محمد بن مسلمہؓ کے انتقام کے لیے ذوالقصہ کی طرف روانہ فرمایا اور چونکہ اس عرصہ میں یہ بھی اطلاع موصول ہوچکی تھی کہ قبیلہ بنوثعلبہ کے لوگ مدینہ کے مضافات پرحملہ کا ارادہ رکھتے ہیں اس لیے آپؐ نے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کی کمان میں چالیس مستعد صحابہ کی جماعت بھجوائی اور حکم دیاکہ راتوں رات سفر کرکے صبح کے وقت وہاں پہنچ جائیں۔ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ نے تعمیلِ ارشاد میں یلغار کر کے عین صبح کی نماز کے وقت انہیں جا دبایا اور وہ اس اچانک حملہ سے گھبرا کر تھوڑے سے مقابلہ کے بعد بھاگ نکلے اور قریب کی پہاڑیوں میں غائب ہو گئے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ نے مالِ غنیمت پرقبضہ کیا اور مدینہ کی طرف واپس لَوٹ آئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 668)
یہ حملہ ظلم کا بدلہ لینے کے لیے یا سزا دینے کے لیے کیا گیا تھا۔
دوسری جو ایک جنگ تھی اس کا نام ذات السلاسل تھا۔ اس سریہ کو ذات السلاسل کہنے کی وجہ یہ ہے کہ دشمنوں نے اس خوف سے آپس میں ایک دوسرے کو زنجیروں سے باندھ لیا تھا کہ وہ اکٹھے ہو کر لڑ سکیں اور کوئی بھاگ نہ سکے۔ ایک صف بنا کر لڑ سکیں یا جس طرح بھی صفیں بنی تھیں اکٹھے اکٹھے رہیں۔ اس کی ایک اَور وجہ بھی ملتی ہے کہ اس جگہ پر ایک چشمہ تھا جس کا نام اَلسَّلْسَلْ تھا۔ بعض کے نزدیک آٹھ ہجری اور بعض کے نزدیک سات ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قبیلہ بنوقُضَاعَہ کے لوگ مدینے پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو تین سو مہاجرین اور انصار کے ساتھ اس کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایا جن کے ہمراہ تیس گھوڑے تھے۔ یہ جگہ مدینے سے دس دن کی مسافت پر تھی۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے بنو قُضَاعَہ کے علاقے میں پہنچ کر وہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے کمک بھیجی جائے، مزید فوج بھیجیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام ملتے ہی دو سو مہاجرین اور انصار کی جماعت حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کی قیادت میں مدد کے لیے روانہ فرما دی اور ہدایت فرمائی کہ عمرو کے ساتھ جا کر ملیں اور اختلاف نہ کریں۔ یعنی جو بھی فیصلہ کرنا ہے ایک ہو کےکیا جائے۔ جب یہ فوج حضرت عمرو بن عاصؓ کی فوج سے مل گئی تو تمام لشکر کی امارت کا سوال پیدا ہوا۔ حضرت ابو عبیدہؓ اگرچہ اپنے مرتبہ کے لحاظ سے امارت کے مستحق تھے مگر جب حضرت عمرو بن عاصؓ نے اصرار کیا کہ مَیں ہی ساری فوج کی قیادت کروں گا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے خوش دلی سے ان کی قیادت قبول کر لی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی تھا کہ اختلاف نہیں کرنا اور ان کی زیرِ امارت نہایت بہادری سے دشمنوں کے خلاف لڑائی لڑے یہاں تک کہ دشمن کو شکست ہو گئی۔ جب کامیابی کے بعد مدینہ واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جَرَّاحؓ کی اطاعت کی کیفیت سنی تو فرمایا رَحِمَہُ اللّٰہُ اَبَا عُبَیْدَہ۔ کہ ابوعبیدہ پر اللہ کی رحمت ہو کہ اس نے یہ اطاعت کا معیار قائم کیا۔ (ماخوذ از رحمت دارین کے سو شیدائی از طالب ہاشمی، صفحہ 33، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2003ء) (شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 357 تا 360، سریہ ذات السلاسل، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 1996ء)
پھر ہے سریہ سِیْفُ الْبَحْر۔ یہ وہ ساری جنگیں ہیں جن کی فوجوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہیں ہوتے تھے۔ یہ سریہ ہیں۔ یہ سریہ آٹھ ہجری میں ساحل سمندر کی طرف روانہ ہوا جہاں بنو جُہَیْنَہ کا ایک قبیلہ آباد تھا۔ اس سریہ کو جَیْشُ الْخَبَطْ بھی کہا جاتا ہے۔ اس نام کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ خوراک کی کمی کے باعث صحابہ ایسے درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے جنہیں خَبَطْ کہا جاتا تھا۔ خَبَطْ کے ایک معنی پتے جھاڑنے کے بھی ہے۔ اس سریہ کا ذکر صحیح بخاری میں ہے اور وہ اس طرح بیان ہوا ہے۔ حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھیجا۔ ہم تین سو سوار تھے۔ ہمارے امیر حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ تھے۔ قریش کے تجارتی قافلے کی نگرانی میں بیٹھ گئے۔ یہاں کوئی جنگ کا ارادہ نہیں تھا۔ قریش کے قافلے کی نگرانی کرنی تھی۔ سمندر کے کنارے ہم آدھا مہینہ ٹھہرے رہے اور ہمیں سخت بھوک لگی۔ یہاں تک کہ ہم نے پتے بھی کھائے۔ بعض مواقع پر جب سریہ میں جاتے تھے تو ان میں جنگوں کی نیت سے نہیں جاتے تھے بلکہ اَور مقصد ہوتے تھے اور بعض دفعہ پھر جنگوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا اس لیے دونوں لحاظ سے یہ سریہ ایسی مہم کہلاتے ہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شریک نہیں تھے۔ بہرحال کہتے ہیں یہاں تک کہ ہم نے پتے بھی کھائے۔ اس لیے اس فوج کا نام جیش الخبط رکھا گیا۔ اس اثنامیں سمندر نے ہمارے لیے ایک جانور جس کو عنبر کہتے ہیں پھینک دیا یعنی سمندر سے ایک جانور مرکے باہر آیا یا ویسے ہی باہر آیا اور خشکی میں آکر وہ پانی کے بغیر رہ نہیں سکا تو مر گیا۔ بہرحال کہتے ہیں سمندر سے ایک جانور آیا۔ وہ مچھلی ہی تھی، بہت بڑی مچھلی۔ ہم اس کا گوشت آدھا مہینہ کھاتے رہے اور اس کی چربی بدن پر ملا کرتے تھے یہاں تک کہ ہمارے جسم پھر ویسے کے ویسے تازہ ہو گئے جیسے پہلے تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی لی اور اس کو کھڑا کیا اور سب سے لمبا شخص جو اُن کے ساتھ تھا اس کو لیا اور سفیان بن عُیَیْنَہ نے اپنی روایت میں یوں کہا کہ ایک بار انہوں نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی لی، اس کو کھڑا کیا پھر ایک آدمی بمع اونٹ کے لیا جو اس کے نیچے سے گزر گیا۔ حضرت جابرؓ نے یہ بھی کہا کہ لشکر میں ایک شخص تھا جس نے لوگوں کے کھانے کے لیے تین دن تین تین اونٹ ذبح کیے۔ پھر حضرت ابوعبیدہؓ نے اس کو روک دیا۔ اور عمرو بن دِینار کہتے تھے کہ ابو صالح ذَکْوَاننے ہمیں بتایا کہ قَیْس بنِ سعدنے اپنے باپ سے کہا میں بھی اسی فوج میں تھا اور ان کو بھوک لگی تو حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا اونٹ ذبح کر لو۔ میں نے اونٹ ذبح کر لیا۔ کہتے تھے پھر ان کو بھوک لگی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا اونٹ ذبح کر لو۔ میں نے اونٹ ذبح کر لیا۔ کہتے پھر ان کو بھوک لگی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا اونٹ ذبح کر لو۔ سواریوں والے جو اونٹ تھے اور ساتھ لے کے گئے تھے۔ ان پر سامان بھی کچھ ہو گا اب ایسے حالات آ گئے کہ انہی کو ذبح کر کے کھا رہے تھے۔ کہتے ہیں مَیں نے اونٹ ذبح کر لیا۔ قیس کہتے تھے پھر ان کو بھوک لگی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ اونٹ ذبح کر لو۔ کہتے تھے اس کے بعد پھر مجھے روک دیا گیا کہ اب اونٹ نہیں ذبح کرنے۔
دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ جَیْشُ الْخَبَط کے ساتھ حملے میں ہم نکلے اور حضرت ابو عبیدہؓ کو امیر بنایا گیا تھا۔ ہمیں سخت بھوک لگی اور سمندر نے ایک مردہ مچھلی پھینک دی۔ زندہ نہیں آئی تھی بلکہ مردہ ہی آئی تھی اور ہم نے ایسی مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ بڑی مچھلی تھی۔ جس طرح اس کا حلیہ بیان کیا جاتا ہے یہ وہیل مچھلی ہو گی۔ اسے عنبر کہتے ہیں۔ ہم اس کا گوشت آدھا مہینہ کھاتے رہے۔ پھر حضرت ابوعبیدہؓ نے اس کی ہڈیوں میں سے ایک ہڈی لی اور سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔ ابن جُرَیْج نے کہا: ابو زبیر نے مجھے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے حضرت جابرؓ سے سنا ہے۔ کہتے تھے کہ حضرت ابو عبیدہؓ نے کہا کھاؤ۔ مچھلی کو کھاؤ۔ بےشک یہ مردہ ہے لیکن کھاؤ کوئی ہرج نہیں۔ جب ہم مدینہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے اس کا ذکر کیا کہ اس طرح ایک مردہ مچھلی آئی تھی اور ہم اس کو کھاتے رہے، ضرورت تھی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو رزق اللہ تعالیٰ نے نکالا ہو اسے تم کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری حالت دیکھ کر تمہیں بھیجا تھا۔ اسے تم نے کھایا تو کوئی ہرج نہیں۔ اور اگر کچھ ہے، اگر اپنے ساتھ کچھ لائے ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ۔ ان میں سے کسی نے آپؐ کو ایک حصہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کھایا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ سیف البحر حدیث 4361-4362) واپسی پر اس کا بچا ہوا گوشت کچھ لے بھی آئے تھے، وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نوش فرمایا۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اس سریہ سِیْفُ البحر کے ضمن میں اپنی شرح میں لکھتے ہیں سِیف البحر یعنی وہی جس کو خبط بھی کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا غزوہ ان غزوات میں سے ہے جن میں کسی سے جنگ کرنا مقصودنہیں تھا بلکہ اس غزوہ میں شامل لوگ قافلہ تجارت کی حفاظت کی غرض سے بھیجے گئے تھے۔ یہ مہم بقول ابن سعد تین سو مہاجر و انصار پر مشتمل تھی۔ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ اس کے امیر تھے اور غزوہ سِیف البحر کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں بحیرہ قلزم کے قریب کاروان چلتے تھے تو کاروانی راستہ کے قریب بحیرہ قلزم کے کنارے حفاظتی چوکی قائم کی گئی تھی۔ قافلوں کا جو رستہ چلتا تھا ان کے قریب بحیرہ قلزم کے کنارے ایک حفاظتی چوکی قائم کی گئی تھی اس لیے غزوۂ سیف البحر سے موسوم ہے۔ یہ فوج بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہاں ایک چوکی قائم کی جائے جو حفاظت کی غرض سے ہو اور آگے پتہ لگے گا کہ حفاظت کس کی کرنی تھی۔ سِیْف کے معنی ساحل کے ہیں۔ ابنِ سعدنے سریۃ الخَبْط کے عنوان سے اس کا مختصر ذکر کیا ہے۔ خَبْط کے معنی ہیں درخت کے پتے۔ زادِ راہ ختم ہونے کی وجہ سے مجاہدین کو پتے کھانے پڑے تھے۔ ابن سعدنے تاریخ وقوع رجب آٹھ ہجری بتائی ہے اور یہ زمانہ ھُدنہ یعنی صلح حدیبیہ کا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دور اندیشی سے کام لیا اور بطور احتیاط مذکورہ بالا حفاظتی دستہ علاقہ سِیف البحر میں بھیجا تھا۔ جو چوکی قائم کروائی گئی تھی وہاں حفاظتی دستہ کے طور پہ بھیجا تا شام سے آنے والے قریشی قافلے سے تعرض نہ ہو، شام سے جو قریش کا تجارتی قافلہ آ رہا تھا اس سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ ہو اور قریش کے ہاتھ میں نقض معاہدہ کا کوئی بہانہ نہ مل جائے۔ صلح حدیبیہ ہو چکی تھی۔ اب یہ تھا کہ یہ نہ ہو وہاں کوئی ان کو چھیڑ دے اور قریش بہانہ بنا دیں کہ دیکھو مسلمانوں نے ہم پر حملہ کیا اس لیے حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہو گیا۔ تو اس لیے آپؐ نے وہ بھیجا تھا۔ وہاں چوکی قائم کر دی تا کہ قریش کے اس قافلے کی حفاظت کرے اور کوئی بہانہ نہ ملے۔ پھر لکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا جگہ بقول ابنِ سعد مدینہ سے پانچ دن کی مسافت پر ہے۔ (ماخوذ از صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ سیف البحر جلد 9 صفحہ 239 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
پس یہ جنگ کے لیے نہیں تھا بلکہ کافروں کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا تھا جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا اور یہ ہے امن کے قیام کی کوشش کہ جب وہاں معاہدہ ہو گیا تو دشمن کی حفاظت کے بھی سامان کیے جائیں تاکہ معاہدہ توڑنے کا کسی قسم کا بہانہ کفار کے ہاتھ نہ آئے لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے کام کرنا تھا۔ معاہدہ اگر ٹوٹا تو کفار کی طرف سے توڑا گیا اور پھر وہ فتح مکہ پر منتج ہوا۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہو گئے۔ حضرت زبیرؓ کو لشکر کے ایک پہلو پر اور حضرت خالد بن ولیدؓ کو لشکر کے دوسرے پہلو پر مقرر فرمایا اور حضرت ابوعبیدہؓ کو پیادہ لوگوں اور وادی کے نشیب کا سردار بنا دیا۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد باب فتح مکہ حدیث 1780)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے جزیہ کی شرط پر صلح کی تھی اور ان پر حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کو امیر مقرر فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہؓ کو وہاں جزیہ لینے کے لیے بھیجا۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ جزیہ لے کر واپس آئے اور لوگوں کو ان کی واپسی کا علم ہوا تو صبح فجر کی نماز سب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھا کر جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ لگتا ہے تمہیں معلوم ہوگیا ہے کہ ابوعبیدہؓ کچھ لائے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: جی یا رسول اللہؐ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس خوش ہو جاؤ اور اس کی امید رکھو جو تمہارے لیے بہتر ہے۔ مَیں تمہارے بارے میں محتاجی سے نہیں ڈرتا بلکہ مَیں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے اور پھر تم بڑھ چڑھ کر حرص کرنے لگ جاؤ۔ (صحیح بخاری کتاب الجزیہ و المواعدہ باب الجزیۃ و المواعدۃ مع اہل الذمۃ و الحرب، حدیث نمبر 3158) جوں جوں دنیاداری میں پڑو گے، دنیاوی آسائشیں تمہیں مہیا ہوں گی میسر آئیں گی تو حرص میں پڑ جاؤ گے اور وہ تمہیں ہلاک کر دے۔ یہ خوف ہے مجھے۔ بھوکے رہنے کا خوف کم ہے۔ یہ خوف ہے کہ دنیا داری میں پڑ کے، حرص کر کے تم کہیں اپنے آپ کو ہلاک نہ کرلو۔ پس یہ تنبیہ ہے جو ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنی چاہیے اور اس کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت جن کے پاس پیسہ آتا جن میں ہمارے لیڈر بھی شامل ہیں وہ اس لالچ میں پیش پیش ہیں۔ ان کی دنیا کی لالچ بےشمار بڑھ چکی ہے۔ خدا کا نام تو لیتے ہیں لیکن فوقیت دنیاوی مال و حشمت کو ہے۔ پس ہمیں اس لحاظ سے اپنی حالتوں کا ہمیشہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مال تو آئیں گے لیکن ہمیں اس مال کی وجہ سے اپنے دین کو نہیں بھول جانا چاہیے۔
دس ہجری میں حجۃ الوداع کے موقعے پر حضرت ابوعبیدہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا۔ (عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 801، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو لوگوں میں بحث ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر لحد والی ہونی چاہیے یا لحد کے بغیر۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ اور حضرت ابوطلحہؓ کی طرف ایک ایک آدمی بھجوایا اور فیصلہ ہوا کہ ان میں سے جو آدمی پہلے آئے گا جو وہ بتائے گا ویسی قبر تیار کی جائے گی۔ حضرت ابوعبیدہؓ اہلِ مکہ کی طرز کے مطابق لحد کے بغیرقبر تیار کرتے تھے جبکہ حضرت ابوطلحہؓ اہلِ مدینہ کی طرز کے مطابق لحد والی قبر تیار کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوطلحہؓ کی طرف بھیجے ہوئے آدمی کو حضرت ابو طلحہؓ مل گئے جبکہ حضرت ابو عبیدہؓ کی طرف بھیجے ہوئے آدمی کو حضرت ابوعبیدہؓ نہ ملے۔ چنانچہ حضرت ابوطلحہؓ آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لحد والی قبر تیار کی۔ (سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 663، حفر القبر، مطبع مصطفٰی بابی الحبلی و اولادہ، مصر، 1955ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد خلافت کے لیے انصار اور مہاجرین کے درمیان جو اختلاف ہوا اس کے بارے میں صحیح بخاری میں بیان ہے۔ یہ پہلے بھی میں ایک صحابی کے ذکر میں بیان کرچکا ہوں لیکن یہاں حضرت ابوعبیدہؓ کے ذکرمیں بھی بیان ہو جائے تو بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انصار حضرت سعد بن عُبَادہؓ کے گھر میں جمع ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے اور ایک امیر تم یعنی مہاجرین میں سے ہو گا۔ ان کی طرف حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ گئے۔ حضرت عمرؓ کچھ کہنے لگے مگر حضرت ابوبکرؓ نے انہیں خاموش کروا دیا۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اس وقت صرف اس لیے بولنا چاہتا تھا کیونکہ مَیں نے ایک تقریر تیار کی تھی جو مجھے بہت پسند تھی اور مجھے ڈر تھا کہ حضرت ابوبکرؓ ویسی بات نہ کہہ سکیں گے لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے تقریر کی تو ایسی شاندار اور فصیح تقریر کی جو تمام تقاریر سے بڑھ کر تھی۔ اسی تقریر میں حضرت ابوبکرؓ نے یہ فرمایا کہ ہم یعنی مہاجرین امیر ہیں اور تم یعنی انصار وزیر ہو۔ اس پر حضرت حُبَاب بن مُنْذِرؓ نے کہا ہرگز نہیں۔ بخدا ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ ایک امیر تم میں سے ہو گا اور ایک امیر ہم میں سے ہو گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: نہیں ہم امیر ہیں اور تم وزیر ہو کیونکہ قریش حسب نسب کے لحاظ سے تم عربوں سے اعلیٰ اور قدیمی ہیں۔ پس حضرت ابوبکرؓ نے دو نام پیش کیے کہ عمرؓ یا ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو، خلیفہ بنا لو۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا نہیں ہم تو آپؓ کی بیعت کریں گے۔ ابوبکرؓ کو کہا کہ ہم تو آپؓ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپؓ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سے سب سے بہتر ہیں اور ہم میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ یہ کہہ کر حضرت عمرؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کی بیعت کی اور اس کے بعد لوگوں نے بھی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب قول النبیؐ لو کنت متخذا خلیلا، حدیث نمبر 3668)
بہرحال حضرت ابوبکرؓ کی نظر میں حضرت ابوعبیدہؓ کا یہ مقام تھا کہ آپؓ کا نام خلافت کے لیے تجویز فرمایا۔ اسی طرح جس طرح پہلےحضرت عمرؓ کے حوالے سے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت عمرؓ نے یہ فرمایا کہ اگر ابوعبیدہؓ زندہ ہوتے تو مَیں انہیں اگلے خلیفہ کے لیے نامزد کرتاکیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق امین تھے۔ جب خلافت کے بارے میں بحث ہوئی تو حضرت ابوعبیدہؓ نے انصار سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے انصار کے گروہ !تم تو وہ لوگ ہو جنہوں نے سب سے پہلے مدد کی تھی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اب تم ہی سب سے پہلے اختلاف پیدا کرنے والے ہو جاؤ۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ از شاہ معین الدین ندوی جلد 2 صفحہ 126-127، دارالاشاعت اردو بازار کراچی پاکستان)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو انہوں نے بیت المال کا کام حضرت ابوعبیدہؓ کے ذمے لگایا۔ 13؍ ہجری میں حضرت ابوبکرؓ نے آپؓ کو شام کی طرف امیرِ لشکر بنا کر بھیجا۔ حضرت عمرؓ نے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ کو بطور سپہ سالار معزول فرما کر حضرت ابوعبیدہؓ کو سپہ سالار مقرر فرمایا۔ (سیر اعلام النبلاء جلد 1 صفحہ 15، ابوعبیدہ بن الجَرَّاح، مطبوعہ دار الرسالہ العالمیہ دمشق 2014ء)
فتح شام کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ 13؍ ہجری میں رومیوں میں کئی اطراف سے لشکر کشی کی گئی۔ ایک دستہ کے قائد حضرت یزید بن ابوسفیان تھے۔ ابوسفیان کے ایک بیٹے کا نام بھی یزید تھا، یہ پہلے فوت ہو گئے تھے، جو اردن کے مشرق کی طرف سے حملہ آور ہوئے۔ دوسرے کے حضرت شُرَحْبِیْل بن حَسَنَہ تھے جو بَلْقَاءکی طرف سے آگے بڑھے۔ تیسرے کے قائد حضرت عمرو بن عاصؓ تھے جو فلسطین کی طرف سے شام میں داخل ہوئے۔ چوتھے دستے کے قائد حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ تھے جو حِمص کی طرف بڑھے۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ جب یہ سب ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں تو حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ سپہ سالار ہوں گے۔ ہر لشکر چار ہزار پر مشتمل تھا جبکہ حضرت ابوعبیدہؓ کا لشکر آٹھ ہزار کا تھا۔ جب لشکر روانہ ہونے لگے تو حضرت ابوبکرؓ نے قائدین لشکر کو فرمایا دیکھو! نہ اپنے پر تنگی وارد کرنا نہ اپنے ساتھیوں پر۔ اپنی قوم اور ساتھیوں پر ناراضگی کا اظہار نہ کرنا۔ ان سے مشورے کرنا اور انصاف سے کام لینا۔ ظلم و جور سے دور رہنا کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتا اور کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھتا۔ اور جب تمہاری دشمن سے مڈھ بھیڑ ہو جائے تو دشمن کو پیٹھ نہیں دکھانا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو اس دن پیٹھ پھیرے گا اس پر خدا کا غضب ٹوٹے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا سوائے اس کے کہ جو لڑائی کے لیے جگہ بدلتا ہے یا اپنے ساتھیوں سے رابطہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ قرآن کریم میں سورۂ انفال میں آیت سترہ میں یہ لکھا ہوا ہے۔ پھر فرمایا کہ دیکھو! جب تم دشمن پر غلبہ پاؤ تو کسی بچے، بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرنا، کسی جانور کو ہلاک نہ کرنا، عہد شکنی نہ کرنا، معاہدہ کر کے اسے خودنہ توڑنا۔
حضرت ابوعبیدہؓ نے سب سے پہلے شام کے شہر مآب کو فتح کیا۔ وہاں کے باشندوں نے جزیہ کی شرط پر صلح کر لی۔ اس کے بعد آپؓ نے جَابِیَہ کا رخ کیا۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ رومیوں کا بڑا لشکر مقابلے کے لیے تیار ہے۔ اس پر حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں مزید مدد کے لیے درخواست کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ جواس وقت عراق کی مہم پر مامور تھے ان سے فرمایا کہ نصف لشکر حضرت مثنّٰی بن حارثؓ کی قیادت میں چھوڑ کر تم حضرت ابوعبیدہؓ کی مدد کو پہنچ جاؤ اور حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو خط لکھا کہ مَیں نے خالد کو امیر مقرر کیا ہے اور مَیں خوب جانتا ہوں کہ تم اس سے بہتر اور افضل ہو۔ پورے خط کا متن یہ ہے کہ اللہ کے بندے عتیق بن ابوقُحَافہ۔ عتیق حضرت ابوبکرؓ کا اصل نام تھا اور ابوقحافہ ان کے والد کا نام تھا۔
اللہ کے بندے عتیق بن ابو قحافہ کا خط ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کے نام۔ تجھ پر خدا کی سلامتی ہو۔ مَیں نے شام کی فوجوں کی کمان خالد کے سپرد کی ہے۔ آپ اس کی مخالفت نہ کرنا اور سننا اور اطاعت کرنا۔ مَیں نے تمہیں اس پر والی مقرر کیا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ تم اس سے افضل ہو لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں، خالد بن ولیدؓ میں، فنِ حرب کی صلاحیت یعنی جنگی معاملات کی صلاحیت تمہاری نسبت بہت زیادہ ہے۔ اللہ مجھے اور تمہیں صحیح راہ پر گامزن رکھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ لکھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے حِیرہ، عراق میں ایک شہر کا نام ہے وہاں سے حضرت ابوعبیدہؓ کو خط لکھا کہ اللہ کی آپؓ پر سلامتی ہو۔ مجھے حضرت ابوبکرؓ نے شام کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا ہے اور فوجوں کی قیادت میرے سپرد فرمائی ہے۔ خدا کی قسم! مَیں نے اس کا کبھی مطالبہ نہیں کیا اور نہ میری خواہش تھی۔ آپؓ کی وہی حیثیت ہو گی جو پہلے ہے۔ ہم آپؓ کی نافرمانی نہیں کریں گے اور نہ آپؓ کو نظر انداز کر کے کوئی فیصلہ کریں گے۔ آپؓ مسلمانوں کے سردار ہیں۔ آپؓ کی فضیلت کا ہم انکار نہیں کرتے اور نہ آپؓ کے مشورے سے مستغنی ہو سکتے ہیں۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2 صفحہ 19تا 21) (عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 804، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء) (سیر الصحابہ جلد 4 صفحہ 457، 459 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) (فرہنگ سیرت صفحہ 110 زوار اکیڈمی پبلیکیشنز کراچی 2003ء)
یہ دیکھیں۔ یہ ہے مومنانہ شان۔ دونوں طرف سے کس طرح عاجزانہ طور پر اطاعت کا اظہار کیا گیا ہے۔
جنگ اَجنادَین۔ جمادی الاول تیرہ ہجری میں اَجنادَین فلسطین کے نواحی علاقے میں سے ایک بستی کا نام ہے۔ اس مقام پر ایک لاکھ رومی فوج سے مسلمانوں کا یہ مقابلہ ہوا۔ روایات میں آتا ہے کہ اجنادَین فوج کا سپہ سالار قیصر روم ہرقل کا بھائی تھیوڈور (Theodore) تھا۔ پینتیس ہزار کے قریب مسلمانوں نے ایک لاکھ کی فوج کو شکست دے کر اجنادَین کو فتح کر لیا۔ (ماخوذ از عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 805، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء) (معجم البلدان جلد 1 صفحہ 129 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اجنادین کی فتح کے بعد مسلمانوں نےدمشق کا محاصرہ کر لیا اور پھر اس کی تفصیل اس طرح ہے۔ یہ شام کا دارالحکومت ہے اور دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ دمشق کا مسلمانوں نے محاصرہ محرم 14؍ہجری میں کیا اور یہ محاصرہ چھ ماہ تک جاری رہا۔ دوسری پارٹی، جو مخالفین تھے، دوسری طرف کی فوج وہ قلعہ بند ہو گئے۔ اپنے علاقے میں تھے اس لیے اپنے قلعے بند کر لیے۔ مسلمانوں کے پانچوں سالار اپنی فوجوں سمیت اس شہر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ اپنی فوج کے ساتھ مشرقی دروازے پر تھے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ ان کے بالمقابل مغربی دروازے پر تھے اور باقی تین سالار بھی، کمانڈر جو تھے مختلف دروازوں پر متعین تھے۔ رومی گاہے بگاہے نکل کر جنگ کرتے مگر پھر واپس چلے جاتے اور قلعہ بند ہو جاتے تھے۔ انہیں امید تھی کہ قیصر روم کمک بھیجے گا مگر اسلامی افواج کی چوکسی نے ان کی امیدیں خاک میں ملا دی تھیں۔ ایک رات جبکہ شہر میں کوئی جشن ہو رہا تھا اور فصیل کے پہرے دار بھی اس جشن کی خوشی میں پہرے داری سے غافل تھے تو حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے کچھ ساتھیوں سمیت شہر کی فصیل پھلانگ کر شہر میں داخل ہو گئے اور دروازہ کھول دیا۔ اس طرح ان کی فوج شہر میں داخل ہو گئی۔ یہ دیکھ کر شہر والوں نے حضرت ابوعبیدہؓ سے صلح کرلی جو کہ شہر کے دوسری طرف تھے مگر حضرت خالدؓ کو یہ خبر نہیں ہوئی اور مسلسل جنگ کر رہے تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس لوگ گئے اور ان سے التجا کی کہ ہمیں خالدؓ سے بچائیے۔ شہر کے درمیان میں ان دونوں سرداروں کا آمنا سامنا ہوا اور پھر جب خالد بن ولیدؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ شہر کے درمیان میں آ کے شہر والوں کے ساتھ ملے تو پھر شہر والوں کے ساتھ صلح کر لی گئی کیونکہ معاہدہ حضرت ابوعبیدہؓ کر چکے تھے۔ (ماخوذ از عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 805-806، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء)
معرکہ فِحْل۔ یہ شام کا ایک شہر ہے۔ دمشق فتح کرنے کے بعد مسلمان آگے بڑھے تو معلوم ہوا کہ رومی بَیْسَان مقام میں جمع ہو کرمسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مسلمان ان کے بالمقابل فحل مقام میں خیمہ زن ہوئے۔ رومی فوج کے سپہ سالار نے صلح کی پیشکش کی خاطر اپنے سفیر کو حضرت ابوعبیدہؓ کی طرف بھیجا۔ وہ جب اسلامی لشکر میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں ایک ہی طرح ادنیٰ اور اعلیٰ، افسر و ماتحت، سپہ سالار اور سپاہی بیٹھے ہیں اور کوئی امتیاز اور فرق دکھائی نہیں دیا۔ آخر اس نے مجبور ہو کر کسی سے پوچھا کہ آپ کا سپہ سالار کون ہے۔ لوگوں نے ایک سیدھے سادھے شخص کی طرف اشارہ کیا جو زمین پربیٹھا ہوا تھا۔ سفیر نے قریب جا کر کہا کہ آپ ہی اس کے سپہ سالار ہیں؟ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ ہاں۔ سفیر نے پیشکش کی کہ اپنی فوج کو یہاں سے واپس لے جائیں اور اس کے بدلے میں آپ کے ہر سپاہی کو فی کس دو اشرفیاں سونے کی ملیں گی۔ سپہ سالار کو ایک ہزار دینار ملیں گے اور تمہارے خلیفہ کو دو ہزار دینار دیے جائیں گے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا ہم پیسے لینے نہیں آئے۔ مال و دولت کی غرض سے نہیں آئے۔ ہم اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے نکلے ہیں۔ سفیر ان کو دھمکیاں دیتا ہوا وہاں سے واپس چلا گیا۔ اس کے یہ تیور دیکھ کر حضرت ابوعبیدہؓ نے فوج کو تیاری کا حکم دیا اور اگلی صبح دونوں فوجوں میں جنگ ہوئی۔ حضرت ابوعبیدہؓ خود فوج کے قلب یعنی درمیان میں تھے اور بڑی حکمت سے فوج کو لڑا رہے تھے یہاں تک کہ مسلمانوں نے باوجود قلیل تعداد ہونے کے رومیوں کو شکست دے دی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردن کا تمام علاقہ مسلمانوں کے پاس آ گیا۔ (ماخوذ از عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 807-808، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء) (ماخوذ از سیر الصحابہ از شاہ معین الدین ندوی جلد 2 صفحہ 128، دارالاشاعت اردو بازار کراچی پاکستان)
فتح حِمْص۔ فِحْل کی فتح کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ نے حِمْص کی طرف پیش قدمی کی جو شام کا ایک مشہور شہر تھا اور جنگی اور سیاسی اہمیت رکھتا تھا۔ راستے میں بَعلبک شہر، جو لبنان کا ایک قدیم شہر ہے، دمشق سے تین راتوں کی مسافت پر ہے۔ وہاں سے گزر ہوا جو ایک قدیم شہر تھا اور یہ بَعل بت کی پرستش کا بہت بڑامرکز رہ چکا تھا۔ وہاں کے رہائشیوں نے حضرت ابوعبیدہؓ کا مقابلہ کرنے کی بجائے صلح کی درخواست کی جو جزیہ کی شرط کے ساتھ منظور کر لی گئی۔ ان سے کوئی لڑائی، جنگ نہیں ہوئی۔ اور قبول ہو گیا کہ وہ جزیہ دیں اور بےشک اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حمص کا رخ کیا اور اس کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ بھی آپؓ کے ساتھ تھے۔ شہر والوں کو قیصر سے فوجی امداد کی امید تھی۔ اس لیے وہ مقابلہ کے لیے تیار ہو گئے۔ مگر جب وہ امداد سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور صلح کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی۔ صلح کے ساتھ انہیں جان و مال کی امان دی گئی اور ان کے عبادت خانے اور مکانات محفوظ قرار دیے گئے۔ مکان بھی محفوظ، عبادت خانے بھی محفوظ اور جو اپنے مذہب پر قائم رہے ان پر جزیہ اور خراج عائد کیا گیا۔ یعنی اپنے مذہب پر بےشک قائم رہو لیکن جزیہ اور خراج دینا پڑے گا جو ایک ٹیکس ہے۔
فتح لَاذِقِیّہ۔ اس کے بعد اسلامی لشکر نے لَاذِقِیّہ جو شام کا ایک شہر ہے اور ساحلِ سمندر پر واقع ہے۔ حمص کے نواحی علاقوں میں اس کو شمار کیا جاتا ہے۔ بہرحال اس کامحاصرہ کر لیا۔ حفاظتی انتظامات کے لحاظ سے لَاذِقِیّہ بہت مستحکم تھا۔ شہر والوں کے پاس رسد کے ذخائر کثرت کے ساتھ موجود تھے جن کی وجہ سے ان کو محاصرہ کی کوئی پروا نہیں تھی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اس کو فتح کرنے کی ایک نئی تدبیر نکالی۔ آپؓ نے ایک رات میدان میں بہت سے گڑھے کھدوائے اور انہیں گھاس سے ڈھانک دیا اور صبح محاصرہ اٹھا کر حِمْص کی طرف روانہ ہو گئے۔ ظاہر یہ کیا کہ ہم واپس جا رہے ہیں۔ گڑھے کھودنے کے بعد گھاس سے ڈھانکنے کے بعد محاصرہ اٹھا لیا اور ساری فوج واپس ہوگئی۔ شہر والوں نے اور شہر میں موجود فوجوں نے محاصرہ اٹھتے دیکھا تو خوش ہوئے اور اطمینان سے شہر کے دروازے کھول دیے۔ دوسری طرف حضرت ابوعبیدہؓ راتوں رات اپنی فوج سمیت واپس آ گئے۔ رات کو ہی واپس آ گئے اور ان غار نما گڑھوں میں چھپ گئے۔ جو غاریں بنائی تھیں۔ tunnels بنائی تھیں۔ یا ٹرینچز (Trenches)بنائی تھیں ان میں چھپ گئے اور صبح جب شہر کے دروازے کھلے تو آپؓ نے یک دفعہ حملہ کر دیا اور شہر میں داخل ہو کر شہر کو فتح کر لیا۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ از شاہ معین الدین ندوی جلد 2 صفحہ 128، دارالاشاعت اردو بازار کراچی پاکستان) (عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 809، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء) (معجم البلدان جلد 5 صفحہ 6 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
جنگِ یرموک جو جنگ تھی وہ یرموک جوشام کے نواحی علاقے میں ایک وادی کا نام ہے اس کے نام کی وجہ سے یہ یرموک تھی۔ 15؍ہجری میں شام میں سب سے بڑا معرکہ یرموک کی وادی میں دریائے یرموک کے کنارے ہوا۔ رومی لوگ بَاھَانْ کی قیادت میں اڑھائی لاکھ کے قریب جنگجو میدان میں لائے جبکہ مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار کے قریب تھی جن میں ایک ہزار صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ان میں ایک سو کے قریب بدری صحابہ تھے۔
مشورے کے بعد مسلمانوں نے عارضی طور پر حِمْص میں سے اپنی فوجوں کو واپس بلایا اور وہاں کے عیسائیوں سے کہا کہ چونکہ ہم عارضی طور پر تمہاری حفاظت سے دست کش ہو رہے ہیں لہٰذا تمہارا جزیہ تمہیں واپس کیا جاتا ہے۔ جو ٹیکس ان سے لیا جاتا تھا واپس کیا جاتا ہے کیونکہ جس مقصد کے لیے یہ جزیہ لیا جا رہا ہے وہ تمہارے کام ہم نہیں کر سکتے۔ چنانچہ حمص والوں کو ان کا جزیہ واپس کیا گیا۔ یہ رقم کئی لاکھ کی تھی۔ جب یہ رقم انہیں واپس کی گئی تو عیسائی مسلمانوں کی حقیقت پسندی اور انصاف کی وجہ سے روتے تھے اور گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر دعائیں کرتے تھے کہ اے رحم دل مسلمان حکمرانو!خدا تمہیں پھر واپس لائے۔ مسلمانوں کے حمص سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے رومیوں کی ہمت اَور بھی بڑھ گئی اور وہ ایک عظیم لشکر کے ساتھ یرموک پہنچ کر مسلمانوں کے مقابلے پر خیمہ زن ہوئے لیکن دل میں وہ مسلمانوں کے جوشِ ایمانی سے خائف بھی تھے اس لیے صلح کے بھی متمنّی تھے، کوشش کر رہے تھے کہ صلح بھی ہو جائے۔ رومیوں کے سپہ سالار بَاھَان نے جارج نامی رومی قاصد کو اسلامی لشکر کی طرف بھیجا۔ جب وہ اسلامی لشکر میں پہنچا تو مسلمان مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اس نے مسلمانوں کو خشوع و خضوع اور خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوتے دیکھا تو بہت متاثر ہوا۔ اس نے حضرت ابوعبیدہؓ سے چند سوالات کیے جن میں سے ایک یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی کہ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ اَلْقٰىہَآ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْہُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ اِنْتَہُوْا خَیْرًا لَّکُمْ اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ کَفٰى بِاللّٰہِ وَکِیْلًا (النساء: 172)
کہ اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ کے متعلق حق کے سوا کچھ نہ کہو۔ یقیناًً مسیح عیسیٰ ابنِ مریم محض اللہ کا رسول ہے اور اس کا کلمہ ہے جو اس نے مریم کی طرف اتارا اور اس کی طرف سے ایک روح ہے۔ پس اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور تین مت کہو۔ باز آؤ کہ اس میں تمہاری بھلائی ہے۔ یقیناً اللہ ہی واحد معبود ہے۔ وہ پاک ہے اس سے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔ اسی کا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور بحیثیت کارساز اللہ بہت کافی ہے۔
پھر اس کے بعد اگلی آیت پڑھی۔ لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الْمَلٰئِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ (النساء: 173)
مسیح ہرگز اس امر کو برا نہیں منائے گا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ متصور ہو اور نہ ہی مقرب فرشتے اسے برا منائیں گے۔
جارج نے جب قرآن کریم کی اس تعلیم کو سنا تو پکار اٹھا کہ بےشک مسیح کے یہی اوصاف ہیں اور کہا کہ تمہارا پیغمبر سچا ہے اور مسلمان ہو گیا۔ جو نمائندہ بن کے آیا تھا اب وہ اپنے لشکر میں واپس نہیں جانا چاہتا تھا لیکن حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا کہ رومیوں کو بدعہدی کا گمان ہو گا اس لیے تم واپس جاؤ اور فرمایا کہ کل جو سفیر یہاں سے جائے گا اس کے ساتھ آ جانا۔ عیسائی لشکر کو حضرت ابوعبیدہؓ نے اسلام کی دعوت دی اور اسلامی مساوات، اخوت اور اسلامی اخلاق کو ان کے سامنے پیش کیا۔ اگلے دن حضرت خالدؓ ان کی طرف گئے مگر نتیجہ لاحاصل رہا اور جنگ کی تیاری شروع ہو گئی۔ لشکر کے پیچھے مسلمان خواتین تھیں جو جنگ میں لشکریوں کو پانی پلاتیں، زخمیوں کی دیکھ بھال کرتیں اور غازیوں کو جوش دلاتی تھیں۔ ان عورتوں میں حضرت اَسماء بنتِ ابوبکرؓ، حضرت ہند بنتِ عُتبہؓ، آپ حضرت ابوسفیانؓ کی بیوی تھیں اور فتح مکہ کے موقعے پر مسلمان ہوئی تھیں، حضرت اُمِّ اَبَان وغیرہ تھیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے جنگ سے پہلے مسلمان خواتین کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے مجاہدات! خیموں کی چوبیں اکھاڑ کر ہاتھوں میں لے لو۔ پتھروں سے اپنی جھولیاں بھر لو اور مسلمانوں کو قتال کی ترغیب دو۔ ان کو کہو آج تمہارا مقابلہ ہے اور تم نے پیٹھ نہیں دکھانی۔ اگر کامیاب ہوتا دیکھو تو اپنی جگہ پر ہی بیٹھی رہنا۔ اگر دیکھو کہ مسلمان پیچھے ہٹ رہے ہیں تو ان کے مونہوں پر چوبیں مارنا اور پتھر برسا کر انہیں میدان جنگ میں واپس بھیجنا اور اپنے بچے اوپر اٹھانا اور ان سے کہنا کہ جاؤ اور اپنے اہل و عیال اور اسلام کی خاطر جانیں دو۔ اس کے بعد آپؓ مردوں سے یوں مخاطب ہوئے۔ اللہ کے بندو! خدا کی مدد کے لیے آگے بڑھو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عطا کرے گا۔ اے اللہ کے بندو! صبر کرو کہ صبر ہی کفر سے نجات کا ذریعہ، خدا کو راضی کرنے کا سبب اور عار کو دھونے والا ہے۔ اپنی صفوں کو مت توڑنا، لڑائی کی ابتدا تم نہ کرنا، نیزوں کو تان لو، ڈھالوں کو سنبھال لو اور زبانوں کو خدا کے ذکر سے تر رکھو تاخدا اپنی منشاکو پورا کرے۔ لڑائی کی ابتدا نہیں کرنی لیکن جب جنگ، حملہ ہو جائے تو پھر پیٹھ نہیں دکھانی۔
دشمنوں کے لشکر کے آگے اس وقت سونے کی صلیب تھی اور ان کے اسلحےکی چمک آنکھوں میں چکا چوند پیدا کر رہی تھی۔ دوسرے وہ سر سے لے کے پیر تک لوہے میں ڈوبے ہوئے تھے یعنی زرہیں پہنی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اس دن اپنے پیروں میں بیڑیاں بھی پہن لی تھیں کہ ہم میدانِ جنگ سے بھاگیں گے نہیں۔ یا مار دیں گے یا مر جائیں گے۔ پادری انجیل کے اقتباسات پڑھ کر انہیں جوش دلا رہے تھے۔ لشکرِ کفار سمندر کی لہروں کی طرح آگے بڑھا۔ دو اڑھائی لاکھ کی فوج تھی۔ یہ صرف تیس ہزار تھے۔ اور جنگ شروع ہوئی۔ ابتدا میں رومیوں کا پلڑا بھاری رہا اور انہوں نے مسلمانوں کو دھکیلنا شروع کیا۔
عیسائیوں نے مخفی طور پر یہ پتہ کرا لیا تھا کہ مسلمانوں میں صحابی کون کون سے ہیں اور پھر انہوں نے اپنے کچھ تیر انداز ایک ٹیلے پر بٹھا دیے اور انہیں ہدایت کر دی کہ وہ اپنے تیروں سے خصوصیت کے ساتھ صحابہ کو نشانہ بنائیں۔ وہ جانتے تھے کہ جب بڑے بڑے لوگ مارے گئے تو باقی فوج کے دل خود بخود ٹوٹ جائیں گے اور وہ میدان سے بھاگ جائیں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کئی صحابہ مارے بھی گئے اور کئی کی آنکھیں بھی ضائع ہو گئیں۔ یہ حالت دیکھی تو عکرمہ، ابوجہل کے بیٹے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہو گئے تھے، جنہوں نے فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کی تھی کہ دعا کیجئے کہ اللہ مجھے تلافیٔ مافات یعنی پہلے گزرے ہوئے واقعات کی تلافی کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ اپنے کچھ ساتھیوں کو ساتھ لے کر حضرت ابوعبیدہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کی کہ صحابہ بہت بڑی خدمات کر چکے ہیں۔ اب ہم جو بعد میں آئے ہیں ہمیں ثواب حاصل کرنے کا موقع دیا جائے۔ ہم لشکر کے قلب میں یعنی درمیان والے حصہ میں حملہ کریں گے اور عیسائی جرنیلوں کو مار ڈالیں گے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا کہ یہ بڑے خطرے کی بات ہے۔ اس طرح تو جتنے نوجوان جائیں گے وہ سب مارے جائیں گے۔ عکرمہؓ نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے مگر اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ کیا آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ ہم نوجوان بچ جائیں اور صحابہ مارے جائیں۔ اب مسلمان ہوئے تو ایک ایمانی جوش تھا۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر جان قربان کرنے کی ایک تڑپ تھی۔ عکرمہؓ نے بار بار یہ اجازت چاہی کہ وہ چار سو سپاہیوں کے ساتھ دشمن کے لشکر کے مرکزی حصہ پر حملہ کریں۔ آخر حضرت ابوعبیدہؓ نے ان کے اصرار پر انہیں اجازت دے دی۔ اس پر انہوں نے لشکر کے مرکزی حصے پر حملہ کیا اور اسے شکست دے دی لیکن اس لڑائی میں ان میں سے اکثر نوجوان شہید ہو گئے اور مسلمان رومیوں کو ان کی خندقوں کی طرف دھکیلتے ہوئے لے گئے جو ان رومیوں نے اپنے پیچھے بنائی ہوئی تھیں۔ چونکہ انہوں نے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھا بھی ہو اتھا تا کہ کوئی دوڑ نہ سکے اس لیے وہ پے در پے ان خندقوں میں گرتے گئے۔ ایک گرتا تھا تو دس اور بھی لے کے ساتھ ہی گرتا تھا۔ اسّی ہزار کفار پیچھے ہٹتے ہوئے دریائے یرموک میں ڈوب کر مر گئے۔ ایک لاکھ رومیوں کو مسلمانوں نے میدانِ جنگ میں قتل کیا۔ مسلمان تین ہزار کے قریب شہید ہوئے۔ یہ تھی جنگ یرموک۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب، جلد 2 صفحہ 21 تا 25)(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد10صفحہ181) (معجم البلدان جلد 5 صفحہ 497 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مصلح موعودؓ خاص طور پر اس کے خاتمے کے وقت کے بارے میں کچھ بیان فرماتے ہیں کہ جب جنگ ختم ہوئی تو مسلمانوں نے خاص طور پر عکرمہؓ اور ان کے ساتھیوں کو تلاش کیا تو کیا دیکھا کہ ان آدمیوں میں سے بارہ شدید زخمی ہیں۔ ان میں ایک عکرمہ بھی تھے۔ ایک مسلمان سپاہی ان کے پاس آیا اور عکرمہ کی حالت دیکھی، بڑی خراب تھی۔ اس نے کہا اے عکرمہ! میرے پاس پانی کی چھاگل ہے تم کچھ پانی پی لو۔ عکرمہؓ نے منہ پھیر کر دیکھا تو پاس ہی حضرت عباسؓ کے بیٹے حضرت فضلؓ زخمی حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ عکرمہؓ نے اس مسلمان سے کہا کہ میری غیرت یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت مدد کی جب مَیں آپؐ کا شدید مخالف تھا وہ اور ان کی اولاد تو پیاس کی وجہ سے مر جائے اور میں پانی پی کر زندہ رہوں۔ ایک دوسرے کی خاطر قربانی کا ایک نیا جذبہ پیدا تھا۔ اس لیے پہلے انہیں یعنی حضرت فضل بن عباسؓ کو پانی پلا لو۔ اگر کچھ بچ جائے تو پھرمیرے پاس لے آنا۔ وہ مسلمان حضرت فضلؓ کے پاس گیا۔ انہوں نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ پہلے اسے پانی پلاؤ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے۔ وہ اس زخمی کے پاس گیا تو اس نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے پہلے اسے پلاؤ پانی۔ اس طرح وہ جس سپاہی کے پاس جاتا وہ اسے دوسرے کے پاس بھیج دیتا اور کوئی نہ پیتا جب وہ آخری زخمی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا۔ وہ واپس دوسرے کی طرف آیا یہاں تک کہ عکرمہ تک پہنچا مگر وہ سب فوت ہو چکے تھے۔ (ماخوذ از ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے، انوار العلوم جلد 26صفحہ 230-231)
شام کے لوگ مختلف مذاہب کے پیرو تھے۔ زبانوں کا اختلاف تھا۔ ان کی نسلیں مختلف تھیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ بن جَرّاح نے ان میں عدل و مساوات قائم کیا۔ داخلی امن و سکون بحال کیا۔ ہر ایک کو مذہبی آزادی دی اور اس اسلامی روح کو جاری کیا کہ تمام لوگ حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں اور سب بھائی بھائی ہیں اور ان میں انسان ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں یعنی بعض دفعہ یہ بھی غلط الزام لگایا جاتا ہے کہ زبردستی مسلمان بنایا۔ آپؓ نے ان رومیوں کو مذہبی آزادی دی۔ قبیلوں کی پہچان کروائی۔ امن سکون قائم فرمایا۔ مذہبی آزادی قائم فرمائی۔ حضرت ابوعبیدہؓ ہی کی کوششوں سے جو عرب لوگ شام میں آباد تھے اور عیسائی مذہب کے پیرو تھے اسلام کی آغوش میں آ گئے۔ تبلیغ سے آئے، طاقت سے نہیں آئے۔ یا اس کے علاوہ مسلمانوں کا نمونہ دیکھ کے آئے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ رومی اور عیسائی بھی آپ کے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام لے آئے۔ یرموک کی فتح سے چند روز قبل حضرت ابوبکرؓ کا وصال ہو گیا، آپؓ کی وفات ہو گئی اور حضرت عمرؓ خلیفہ منتخب ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے شام کی نگرانی اور فوجوں کی قیادت حضرت ابوعبیدہؓ کے سپرد کی۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ کو حضرت عمرؓ کی اس تقریر کا خط پہنچا تو اس وقت جنگ پورے زوروں پر تھی اس لیے حضرت ابوعبیدہؓ نے اس کا اظہار نہ کیا اور حضرت خالد بن ولیدؓ کو جب اس کا علم ہوا کیونکہ حضرت خالد بن ولیدؓ اس وقت کمانڈر تھے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ نے اس کو کیوں چھپائے رکھا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا اس لیے کہ ہم دشمن کے بالمقابل تھے اور مَیں کسی طرح آپ کی دل شکنی نہیں چاہتا تھا۔ جب مسلمانوں کو فتح ہوئی تو حضرت خالد کا لشکر عراق واپس جانے لگا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت خالدؓ کو کچھ دیر اپنے پاس روکے رکھا۔ جب حضرت خالدؓ روانہ ہونے لگے تو انہوں نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ اس امّت کے امین تمہارے والی ہیں یعنی حضرت ابوعبیدہؓ۔ اس پر ابوعبیدہؓ نے فرمایا مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ خالد بن ولید خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ غرض اس طرح محبت اور احترام کی فضا میں دونوں قائد ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2صفحہ 26-27)
یہ ہے مومن کا تقویٰ کہ نہ نام کی خواہش، نہ نمود کی خواہش، نہ کسی افسری اور عہدے کی خواہش۔ مقصد ہے تو صرف ایک کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کی جائے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم کی جائے۔ پس یہ لوگ جو ہیں یہ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔ اور ہر عہدے دار کو بلکہ ہر احمدی کو ان باتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔
فتح بیت المقدس کا واقعہ بیان ہوتا ہے۔ اس کا بھی تعلق حضرت ابو عبیدہؓ کے ساتھ ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ کی قیادت میں اسلامی لشکر فلسطین کی طرف بڑھا۔ انہوں نے جب فلسطین کے شہروں کو فتح کر کے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا تو حضرت ابوعبیدہؓ کا لشکر بھی ان سے آن ملا۔ عیسائیوں نے قلعہ بندی سے تنگ آ کر صلح کی پیشکش کی لیکن شرط یہ رکھی کہ خود حضرت عمرؓ آکر صلح کا معاہدہ کریں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے عیسائیوں کی اس پیشکش کو حضرت عمرؓ تک پہنچایا، حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع دی۔ حضرت عمرؓ حضرت علیؓ کو اپنے پیچھے امیر مقرر فرما کر ربیع الاول 16؍ ہجری کو مدینے سے روانہ ہو کر جابیہ مقام پر جو دمشق کے مضافات میں ایک بستی ہے وہاں پہنچے جہاں قائدین نے آپ کا استقبال کیا، وہاں قائدین موجود تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میرا بھائی کہاں ہے؟ لوگوں نے پوچھا یا امیر المومنینؓ ! آپؓ کی مراد کون ہے؟ آپؓ نے فرمایا ابوعبیدہؓ۔ عرض کیا گیا کہ ابھی آتے ہیں۔ اتنے میں حضرت ابوعبیدہؓ اونٹنی پر سوار ہو کر آئے اور سلام عرض کر کے خیریت دریافت کی۔ حضرت عمرؓ نے باقی سب لوگوں کو جانے کے لیے کہا اور خود حضرت ابوعبیدہؓ کے ساتھ ان کی قیام گاہ پر تشریف لائے۔ گھر پہنچ کر دیکھا کہ وہاں صرف ایک تلوار، ڈھال، چٹائی اور ایک پیالے کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ابوعبیدہؓ !کچھ سامان بھی مہیا کر لیتے۔ گھر میں کچھ تو سامان رکھنا چاہیے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے عرض کی یا امیر المومنین! یہ ہمیں آسائش کی طرف مائل کر دے گا۔ اگرچہ میں سامان تو مہیا کر سکتا ہوں لیکن پھر آسائشوں اور سہولتوں کو دیکھ کر انہی چیزوں میں پڑ جاؤں گا۔ اس لیے مَیں نہیں چاہتا کہ ایسی چیزیں رکھوں۔ اس موقع پر حضرت بلالؓ کی اذان کا ایک روح پرور واقعہ بھی پیش آیا۔ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے۔ حضرت بلالؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اذان نہ دیتے تھے۔ اس موقعے پر ایک دفعہ نماز کا وقت ہوا تو لوگوں نے حضرت عمرؓ سے اصرار کیا کہ وہ حضرت بلالؓ کو اذان دینے کا حکم دیں۔ حضرت عمرؓ کے حکم پر حضرت بلالؓ نے جب اذان دی تو سب آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور لوگوں میں سب سے زیادہ حضرت عمرؓ روئے کیونکہ اس اذان نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد کرا دیا۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2صفحہ 28تا 30) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 106 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
رومیوں کی آخری کوشش کے بارے میں لکھا ہے کہ 17؍ ہجری میں رومیوں نے مسلمانوں سے شام واپس لینے کے لیے ایک آخری کوشش کی اور شمالی شام، الجزیرہ، شمالی عراق اور آرمینیا کے کردوں، بدوؤں، عیسائیوں اور ایرانیوں نے ہرقل سے اپیل کی کہ مسلمانوں کے خلاف ان کی مدد کی جائے۔ انہوں نے اپنی طرف سے تیس ہزار کے لشکر کی پیشکش کی۔ گو کہ اس وقت تک الجزیرہ کا اکثر حصہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے فتح کر لیا تھا مگر تاہم وہاں کے بدوؤں پر ابھی تک ان کا قبضہ نہیں ہوا تھا اور قیصرِروم کی بحری طاقت ابھی برقرار تھی۔ اس نے موقعےکو غنیمت جانا اور ایک بڑی بحری فوج کے ساتھ حملہ کر دیا جبکہ بدوی قبائل کے ایک عظیم لشکر نے حِمص کا محاصرہ کر لیا اور شمالی شام کے کچھ شہروں نے بغاوت کر دی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو امدادی کمک کے لیے لکھا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو فوراً کوفہ سے امدادی فوج بھیجنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نے قَعْقَاع بن عمرو کی زیر ِسرکردگی ایک فوج کوفہ سے روانہ کی مگر اس کے باوجود رومی لشکر اور مسلمانوں کے لشکر کی تعداد میں بہت زیادہ فرق تھا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے لشکر کے سپاہیوں سے ایک جوشیلا خطاب کیا اور فرمایا کہ مسلمانو! آج جو ثابت قدم رہ گیا اور اگر زندہ بچا تو ملک و مال اس کوملے گا اور اگر مارا گیا تو شہادت کی دولت ملے گی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ مشرک نہ ہو تو وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا۔ دونوں گروہوں میں جنگ ہوئی تو مسلمانوں کے مقابلے میں تھوڑی ہی دیر میں رومیوں کے پیر اکھڑ گئے اور وہ مَرْجُ الدِّیْبَاج جو شام کے سرحدی علاقے پر ایک شہر مَصِّیْصَہْ ہے اس سے دس میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی وادی کا نام ہے وہاں تک بھاگتے چلے گئے اور اس کے بعد کبھی قیصر کو شام کی طرف پیش قدمی کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ (عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 816-817، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء) (سیر الصحابہ از شاہ معین الدین ندوی جلد 2 صفحہ 131، دارالاشاعت اردو بازار کراچی پاکستان) (معجم البلدان جلد 5صفحہ 118 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
طاعونِ عَمْوَاسْ: یہ بھی ایک جگہ ہے جو رملہ سے بیت المقدس کے راستے پر چھ میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے۔ کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ اسے طاعون عمواس اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں سے اس مرض کا آغاز ہوا تھا۔ اس مرض سے شام میں لاتعداد اموات ہوئیں۔ بعض کے نزدیک اس سے پچیس ہزار کے قریب اموات ہوئیں۔ اس کی تفصیل بخاری کی ایک روایت میں ملتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ سَرْغْ مقام یعنی سرغ وہ ہے جو شام اور حجاز کے سرحدی علاقے میں وادی تبوک کی ایک بستی ہے جو مدینے سے تیرہ راتوں کی مسافت پر ہے۔ پرانی تاریخوں میں اس طرح ہی لکھا ہوتا تھا۔ اس کا مطلب کوئی ہزار میل کے قریب ہوگا، وہاں پہنچے تو آپؓ کی ملاقات فوجوں کے امراء حضرت ابوعبیدہؓ اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ ان لوگوں نے حضرت عمرؓ کو بتایا کہ شام کے ملک میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے پاس مشورے کے لیے اوّلین مہاجرین کو بلایا۔ حضرت عمرؓ نے ان سے مشورہ کیا مگر مہاجرین میں اختلاف رائے ہو گئی۔ بعض کا کہنا تھا کہ یہاں سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے جبکہ بعض نے کہا کہ اس لشکر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ شامل ہیں اور ان کو اس وبا میں ڈالنا مناسب نہیں۔ حضرت عمرؓ نے مہاجرین کو واپس بھجوا دیا اور انصار کو بلایا اور ان سے مشورہ لیا مگر انصار کی رائے میں بھی مہاجرین کی طرح اختلاف ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے انصار کو بھجوایا اور پھر فرمایا کہ قریش کے بوڑھے لوگوں کو بلاؤ جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے۔ ان کو بلایا گیا۔ انہوں نے ایک زبان ہو کر مشورہ دیا کہ ان لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لَوٹ چلیں اور وبائی علاقے میں لوگوں کو نہ لے کے جائیں۔ حضرت عمرؓ نے ان لوگوں میں واپسی کا اعلان کروا دیا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اس موقع پر سوال کیا کہ اللہ کی تقدیر سے فرار ممکن ہے؟ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ سے فرمایا اے ابوعبیدہؓ ! کاش تمہارے علاوہ کسی اَور نے یہ بات کہی ہوتی۔ ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار ہوتے ہوئے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف جاتے ہیں۔ کیونکہ ایک تقدیر سے دور جا رہے ہیں لیکن دوسری تقدیر بھی اللہ کی ہے اس طرف جا رہے ہیں۔ فرمایا کہ اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ان کو لے کر ایسی وادی میں اترو جس کے دو کنارے ہوں۔ ایک سرسبز ہو اور دوسرا خشک ہو تو کیا ایسا نہیں ہے کہ اگر تم اپنے اونٹوں کو سرسبز جگہ پر چراؤ تو وہ اللہ کی تقدیر سے ہے اور اگر تم ان کو خشک جگہ پر چراؤ تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اتنے میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بھی آ گئے جو پہلے اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس اس مسئلے کا علم ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں کوئی وبا پھوٹ پڑی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر کوئی مرض کسی ایسی جگہ پر پھوٹ پڑے جہاں تم رہتے ہو تو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے باہر بھی مت نکلو۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس لوٹ گئے۔ (صحیح البخاری کتاب الطب باب ما یُذکر فی الطاعون حدیث نمبر 5729)(معجم البلدان جلد 4 صفحہ 177-178 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(معجم البلدان جلد 3 صفحہ 239 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
طاعون عمواس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ
’’حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ جب شام تشریف لے گئے اور وہاں طاعون پڑگئی جو طاعون عمواس کے نام سے مشہور ہے اور حضرت ابوعبیدہؓ اور اسلامی لشکر نے آپ کا استقبال کیا تو اس وقت صحابہؓ نے مشورہ دیا کہ چونکہ اس وقت علاقہ میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس لیے آپ کو واپس تشریف لے جانا چاہیے۔ حضرت عمرؓ نے ان کے مشورہ کو قبول کر کے فیصلہ کر لیا کہ آپ واپس لوٹ جائیں گے۔ حضرت ابوعبیدہؓ ظاہر پر بڑا اصرار کرنے والے تھے۔ انہیں جب اس فیصلہ کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ أَ تَفِرُّ مِنَ الْقَضَاءِکیا آپ قضائےالٰہی سے بھاگ رہے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے کہا أَ فِرُّ مِنْ قَضَاءِ اللّٰہِ اِلٰی قَدَرِ اللّٰہِ۔ مَیں اللہ تعالیٰ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگ رہا ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فیصلہ ہے اور ایک عام فیصلہ۔ یہ دونوں فیصلے اسی کے ہیں۔ کسی اَور کے نہیں۔ پس میں اس کے فیصلہ سے بھاگ نہیں رہا بلکہ اس کے ایک فیصلہ سے اس کے دوسرے فیصلہ کی طرف جا رہا ہوں۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کو جب طاعون کی خبر ملی اور آپؓ نے مشورہ کے لیے لوگوں کو اکٹھا کیا تو آپؓ نے دریافت فرمایا کہ شام میں تو پہلے بھی طاعون پڑا کرتی ہے۔ پھر لوگ ایسے موقعے پر کیا کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب طاعون پھیلتی ہے تو لوگ بھاگ کر اِدھر اُدھر چلے جاتے ہیں اور طاعون کا زور ٹوٹ جاتا ہے‘‘ یعنی بجائے شہر میں رہنے کے ارد گرد کے علاقوں میں باہر کھلی جگہوں پر چلے جاتے ہیں۔ ’’اسی مشورہ کی طرف آپؓ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ایک عام قانون بھی بنایا ہوا ہے کہ جو شخص طاعون کے مقام سے بھاگ کر اِدھر اُدھر کھلی ہوا میں چلا جائے وہ بچ جاتا ہے۔ پس جبکہ یہ قانون بھی خدا تعالیٰ کا ہی بنایا ہوا ہے تو میں اس کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کر رہا بلکہ اس کی قضا سے قدر کی طرف لوٹ رہا ہوں۔ یعنی خدا تعالیٰ کے خاص قانون کے مقابلہ میں اس کے عام قانون کی طرف جا رہا ہوں۔ پس تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں بھاگ رہا ہوں۔ میں صرف ایک قانون سے اس کے دوسرے قانون کی طرف جا رہا ہوں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 5صفحہ 170-171)
حضرت عمرؓ مدینہ واپس آ گئے مگر آپؓ کو طاعون کے پھیلنے کی وجہ سے بہت گھبراہٹ اور پریشانی تھی۔ ایک دن حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو خط بھجوایا کہ مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے اس لیے جب تمہیں یہ خط پہنچے تو فوراً مدینے کے لیے روانہ ہو جانا۔ اگر خط رات کو پہنچے تو صبح ہونے کا انتظار نہ کرنا اور اگر خط صبح پہنچے تو رات ہونےکا انتظار نہ کرنا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے جب وہ خط پڑھا تو کہنے لگے کہ مَیں امیر المومنین کی ضرورت کو جانتا ہوں۔ اللہ حضرت عمرؓ پر رحم کرے کہ وہ اسے باقی رکھنا چاہتے ہیں جو باقی رہنے والا نہیں ہے۔ سمجھ گئے کہ کیا گھبراہٹ ہے؟کس وجہ سے ہے؟ پھر اس خط کا جواب دیا کہ یا امیرالمومنین! میں آپؓ کی منشاکو سمجھ گیا ہوں۔ مجھے نہ بلائیے۔ یہیں رہنے دیجئے۔ مَیں مسلمان سپاہیوں میں سے ایک ہوں۔ جو مقدّر ہے وہ ہو کر رہے گا۔ مَیں ان سے کیسے منہ موڑ سکتا ہوں؟حضرت عمرؓ نے جب وہ خط پڑھا تو آپؓ رو پڑے۔ مہاجرین میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے پوچھا یا امیر المومنین !کیا حضرت ابوعبیدہؓ فوت ہو گئے۔ آپؓ نے فرمایا نہیں لیکن شاید ہو جائیں۔ (سیر اعلام النبلاء جلد 1 صفحہ 18-19، ابوعبیدہ بن الجراح، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت لبنان، 1996ء)
پھر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو لکھا کہ مسلمانوں کو اس خطے سے نکال کر کسی صحت افزا مقام پر لے جاؤ۔ جب بھی کوئی مسلمان سپاہی طاعون سے شہید ہوتا تو حضرت ابوعبیدہؓ رو پڑتے اور اللہ سے شہادت طلب کرتے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس وقت آپؓ یہ دعا پڑھتے کہ اے اللہ!کیا ابوعبیدہ کی آل کا اس میں یعنی شہادت میں حصہ نہیں۔ ایک دن حضرت ابوعبیدہؓ کی انگلی پر ایک چھوٹی سی پھنسی نمودار ہوئی۔ اس کو دیکھ کر آپ نے کہا امید ہے کہ اللہ اس تھوڑے میں برکت ڈالے گا اور جب تھوڑے میں برکت ہو تو وہ بہت ہو جاتا ہے۔
عِرْبَاضبن ساریہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوعبیدہؓ طاعون سے بیمار ہوئے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے میرے سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو طاعون سے مرے وہ شہید ہے۔ جو پیٹ کی بیماری سے مرے وہ شہید ہے۔ جو ڈوب کر مرے وہ شہید ہے اور جو چھت کے گرنے سے دب کر مر جائے وہ شہید ہے۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ کا آخری وقت آیا تو لوگوں سے فرمایا کہ لوگو! مَیں تمہیں ایک وصیت کرتا ہوں اگر قبول کرو گے تو فائدے میں رہو گے۔ نصیحت یہ ہے کہ نماز کو قائم کرنا۔ زکوٰۃ ادا کرنا۔ رمضان کے روزے رکھنا۔ صدقہ دیتے رہنا۔ حج کرنا۔ عمرہ کرنا۔ ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی تاکید کرنا۔ اپنے امراء سے خیر خواہی کرنا۔ انہیں دھوکا نہ دینا۔ دیکھو تمہیں عورتیں تمہارے فرائض سے غافل نہ کر دیں۔ اگر آدمی ہزار سال بھی زندہ رہے تب بھی ایک دن اسے اس دنیا سے رخصت ہونا ہے جیسا میں رخصت ہوا چاہتا ہوں۔ اللہ نے بنی آدم کے لیے موت مقدر کر رکھی ہے۔ ہر شخص مرے گا۔ عقلمند وہ ہے جو موت کے لیے تیار رہتا ہے اور اس دن کے لیے تیاری کرتا ہے۔ امیر المومنین کو میرا سلام پہنچا دینا اور عرض کرنا کہ میں نے تمام امانتیں ادا کر دی ہیں۔ پھر حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا کہ مجھے میرےفیصلہ کے مطابق یہیں دفن کر دینا۔ چنانچہ اردن کی زمین میں وادی بَیْسَانمیں آپؓ کی قبر ہے۔ بعض روایات کے مطابق حضرت ابوعبیدہ بن جَرّاحؓ جَابِیَہ سے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کے لیے جا رہے تھے تو راستہ میں آپؓ کی وفات کا وقت آ گیا اور دوسری روایت کے مطابق آپؓ کی وفات شام کے علاقہ فِحْلمیں ہوئی اور آپؓ کی قبر بَیْسَانمقام کے پاس ہے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے مرض الموت میں حضرت معاذ بن جبلؓ کو اپنا قائمقام مقرر فرمایا۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ کی وفات ہوئی تو حضرت معاذؓ نے لوگوں سے کہا لوگو! آج ہم میں سے وہ شخص جدا ہوا ہے جس سے زیادہ صاف دل، بے کینہ، لوگوں سے محبت کرنے والا اور ان کا خیر خواہ مَیں نے نہیں دیکھا۔ دعا کرو کہ اللہ اس پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ (ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2 صفحہ 31تا 33) (سیر اعلام النبلاء جلد 1 صفحہ 22-23 ابو عبیدہ بن الجراح، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت لبنان 1996ء)
حضرت ابوعبیدہ بن جَرّاحؓ نے 18؍ہجری میں وفات پا ئی۔ اس وقت آپ کی عمر 58سال تھی۔ (استیعاب جلد 2 صفحہ 343 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2010ء)
ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو چار ہزار درہم اور چار سو دینار بھجوائے اور اپنے قاصد سے فرمایا کہ دیکھنا وہ اس مال کا کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ قاصد یہ مال لے کر حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس پہنچا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے ساری رقم لوگوں میں تقسیم کر دی۔ قاصدنے یہ تمام واقعہ حضرت عمرؓ سے بیان کیا جس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اسلام میں ابوعبیدہؓ جیسے پیدا کیے۔
حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنے ساتھیوں سے کہا کسی چیز کی خواہش کرو۔ کسی نے کہا میری خواہش ہے کہ یہ گھر سونے سے بھر جائے اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں اور صدقہ کر دوں۔ ایک شخص نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ یہ مکان ہیرے جواہرات سے بھر جائے اور میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کروں اور صدقہ کر دوں۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا اور خواہش کرو۔ انہوں نے کہا اے امیر المومنین! ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کیا خواہش کریں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میری یہ خواہش ہے کہ یہ گھر حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ اور سالم مولیٰ ابوحذیفہؓ اور حضرت حذیفہ بن یمانؓ جیسے لوگوں سے بھرا ہوا ہو یعنی ایسے وہ لوگ ہوں۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 252 حدیث 5005 کتاب معرفۃ الصحابۃ ذکر مناقب سالم مولیٰ ابی حذیفہ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
پس کیا خوش قسمت ہیں یہ لوگ جو دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے تھے اور اگلے جہان میں بھی اس کی رضا حاصل کرنے والے ہیں۔