حضرت ابوعقیل بن عبداللہ انصاریؓ
عبداللہ بن ثعلبہ ان کے والد کا نام تھا۔ ان کی وفات 12ہجری میں جنگ یمامہ میں ہوئی۔ ان کا نام عبدالرحمن اِراشی بن عبداللہ تھا۔ ان کا پرانا نام عبدالعُزَّی تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبدالرحمٰن رکھا۔ آپ کا تعلق قبیلہ بَلِیّ کی ایک شاخ بنو اُنَیف سے تھا اور آپ انصار کے خاندان بنو جَحْجَبَا بن کُلفہ کے حلیف تھے۔ آپ کی کنیت ابوعقیل ہے اور آپ اسی سے مشہور ہیں۔ غزوہ بدر، اُحد، خندق غرض تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ جنگ یمامہ میں بارہ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت میں شہید ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 248-249مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) ان کے قبولیت اسلام کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو ایک دن ایک نوجوان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ قبول ایمان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کا شرف حاصل کیا اور بتوں سے سخت نفرت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ عبدالعُزَّی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ آج سے تمہارا نام عبدالرحمن ہے۔ انہوں نے ارشادنبوی کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا اور سب لوگوں سے کہہ دیا کہ میں اب عبدالعُزَّی نہیں بلکہ عبدالرحمن ہوں۔ آپ کے اجداد میں ایک شخص اِراشہ بن عامر تھا اس کی نسبت سے انہیں اِراشی بھی کہا جاتا ہے۔ (آسمان ہدایت کے ستر ستارے از طالب ہاشمی صفحہ 491-492 مطبوعہ البدر پبلی کیشنز اردو بازار لاہور) آپ ان صحابہ کرام میں سے تھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کرنے کا حکم فرماتے تو ساری رات یہ کام کرتے اور جو کچھ ملتا وہ صدقہ کر دیتے۔ چنانچہ بخاری میں آپ کے متعلق آتا ہے کہ حضرت ابو مسعود بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں صدقہ کا حکم ہوا تو ہم اس وقت مزدوری پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔ حضرت ابوعقیل آدھا صاع کھجور مزدوری کے پیسوں میں سے لے کر آئے۔ ایک اور شخص ان سے زیادہ لایا تو اس پر منافق کہنے لگے کہ اللہ تو اس شخص کے صدقے سے بے نیاز ہے اور اس دوسرے شخص نے جو صدقہ کیا وہ محض دکھاوے کے لئے ہے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُھْدَھُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْھُمْ۔ سَخِرَ اللّٰہُ مِنْھُمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ (التوبۃ: 79) یہ منافق ہیں جو مومنوں میں سے خوشی سے بڑھ بڑھ کر صدقے دینے والوں پر طنز کرتے ہیں اور ان پر بھی جو سوائے اپنی محنت کی کمائی کے کوئی طاقت نہیں رکھتے۔ سو باوجود اس قربانی کے منافق ان پر ہنسی کرتے ہیں اور اللہ ان میں سے اشد مخالفوں کو ہنسی کی سزا دے گا اور ان کو دردناک عذاب پہنچے گا۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر باب الذین یلمزون المطوعین … الخ جلد 10 صفحہ 371 حدیث 4668 شائع کردہ نظار اشاعت ربوہ)
اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ان کےعجیب عجیب نظارے ہیں۔ کس طرح یہ کوشش کرتے تھے اور ان لوگوں کے انہی نمونوں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بعد میں آنے والوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین فرمائی۔
اس واقعہ کی تفصیل علامہ ابن حجر عسقلانی یوں بیان فرماتے ہیں کہ انہیں صاحب الصاع بھی کہتے ہیں یعنی حضرت ابو عقیل کو صاحب الصاع بھی کہا جاتا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اپنا آدھا مال لے کر آئے۔ انصار کے غریب مسلمانوں میں سے ایک شخص ابو عقیل آگے بڑھے اور کہنے لگے یارسول اللہ میں کھجور کے دو صاع کے عوض رات بھر کنوئیں سے ڈول کھینچتا رہا اور ایک صاع میں نے اپنے گھر والوں کے لئے رکھ دیا ہے اور دوسرا صاع یہ ہے۔ بعض روایتوں میں ایک صاع میں سے نصف صاع دینے کا ذکر ہے۔ یعنی آدھا میں نے گھر رکھ لیا اور آدھا لے کر آیا ہوں۔ تو منافقوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابو عقیل کے صاع سے غنی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُھْدَھُمْ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 233مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) یعنی یہ منافق ہیں جو مومنوں میں سے خوشی سے بڑھ بڑھ کر صدقہ دینے والوں پر طنز کرتے ہیں اور ان پر بھی جو کہ سوائے اپنی محنت کی کمائی کے کوئی طاقت نہیں رکھتے۔ آپ ہی وہ انصاری صحابی تھے جنہوں نے مسیلمہ کذاب پر آخری وار کیا تھا۔ چنانچہ ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے دن مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت ابوعقیل اُنَیفی زخمی ہوئے۔ ان کو کندھوں اور دل کے درمیان تیر لگا تھا جو لگ کر ٹیڑھا ہو گیا تھا جس سے وہ شہیدنہ ہوئے۔ پھر وہ تیر نکالا گیا۔ ان کی بائیں جانب اس تیر کے لگنے کی وجہ سے کمزوری ہو گئی تھی۔ یہ شروع دن کی بات ہے۔ پھر انہیں اٹھا کر ان کے خیمہ میں لایا گیا۔ جب لڑائی گھمسان کی ہونے لگی اور مسلمانوں کو شکست ہوئی یہاں تک کہ مسلمان پیچھے ہٹتے ہٹتے اپنی قیام گاہوں سے بھی پیچھے چلے گئے۔ اس وقت حضرت ابو عقیل زخمی تھے۔ انہوں نے حضرت مَعْن بن عدی کی آواز سنی وہ انصار کو بلند آواز سے لڑنے کے لئے ابھار رہے تھے کہ اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ پر بھروسہ کرو اور اپنے دشمن پر دوبارہ حملہ کرو۔ اور حضرت معن لوگوں کے آگے آگے تیزی سے چل رہے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ انصار کہہ رہے تھے کہ ہم انصار کو دوسروں سے الگ کر دو۔ ہم انصار کو دوسروں سے الگ کر دو۔ چنانچہ ایک ایک کر کے انصار ایک طرف جمع ہو گئے اور مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ جم کر لڑیں گے اور بہادری سے آگے بڑھیں گے اور دشمن پر حملہ کریں گے اس سے تمام مسلمانوں کے قدم جم جائیں گے اور حوصلے بڑھ جائیں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ پھر حضرت ابوعقیل انصار کے پاس جانے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ زخمی حالت میں تھے، بہت کمزوری تھی لیکن کھڑے ہو گئے۔ میں نے کہا کہ اے ابو عقیل آپ کیا چاہتے ہیں آپ میں لڑنے کی طاقت تو ہے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس منادی نے میرا نام لے کر آواز لگائی ہے۔ میں نے کہا کہ وہ تو انصار کو بلا رہا ہے نہ کہ زخمیوں کو۔ وہ تو ان لوگوں کو بلا رہا ہے جو لڑنے کے قابل ہوں۔ حضرت ابو عقیل نے کہا کہ انہوں نے انصار کو بلایا ہے اور میں چاہے زخمی ہوں لیکن میں بھی انصار میں سے ہوں اس لئے میں ان کی پکار پر ضرور جاؤں گا چاہے مجھے گھٹنوں کے بل جانا پڑے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عقیل نے اپنی کمر باندھی اور اپنے دائیں ہاتھ میں ننگی تلوار لی اور پھر یہ اعلان کرنے لگے کہ اے انصار جنگ حنین کی طرح دشمن پر دوبارہ حملہ کرو۔ چنانچہ انصار جمع ہو گئے۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ اور مسلمان بڑی بہادری کے ساتھ دشمن کی طرف بڑھے یہاں تک کہ دشمن کو میدان جنگ چھوڑ کر باغ میں گھس جانے پر مجبور کر دیا۔ مسلمان اور دشمن ایک دوسرے میں گھس گئے اور ہمارے درمیان اور ان کے درمیان تلواریں چلنے لگیں۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوعقیل کو دیکھا ان کا زخمی ہاتھ کندھے سے کٹ کر زمین پر گرا ہوا تھا اور ان کے جسم پر چودہ زخم تھے جن میں سے ہر زخم جان لیوا تھا اور اللہ کا دشمن مسیلمہ قتل ہو گیا تھا وہ بھی ساتھ ہی پڑا تھا۔ حضرت ابو عقیل زمین پر زخمی پڑے ہوئے تھے اور ان کے آخری سانس تھے۔ میں نے جھک کر ان سے کہا اے ابو عقیل! انہوں نے کہا لبّیک حاضر ہوں اور لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے پوچھا کہ فتح کس کو ہوئی ہے؟ میں نے کہا آپ کو خوشخبری ہو کہ مسلمانوں کو فتح ہوئی ہے اور میں نے بلند آواز سے کہا کہ اللہ کا دشمن مسیلمہ کذاب قتل ہو چکا ہے۔ اس پر انہوں نے اللہ کی حمد بیان کرتے ہوئے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور انتقال فرما گئے۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ مدینہ واپس آنے کے بعد میں نے حضرت عمر کو ان کی ساری کارگزاری سنائی تو حضرت عمر نے فرمایا اللہ ان پر رحم فرمائے وہ ہمیشہ شہادت مانگا کرتے تھے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین صحابہ میں سے تھے اور شروع میں اسلام لائے تھے۔ یہ حضرت عمر کے الفاظ ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 249مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)، (حیاۃ الصحابہ از محمد یوسف کاندھلوی جلد اوّل صفحہ 801تا 803 مطبوعہ مکتبۃ العلم لاہور)