حضرت ابولُبابہ بن عبدِالمنذِرؓ
حضرت ابولُبابہؓ بن عبدِالمنذِرایک اور صحابی ہیں ان کا ذکر بھی کچھ کروں گا۔ حضرت ابولُبابہؓ کے نام کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان کا نام بعض بشیر بتاتے ہیں۔ اور ابن اسحاق کے نزدیک ان کا نام رَفَاعَہ ہے۔ علامہ زمخشری کے نزدیک ان کا نام مروان ہے۔ بہرحال یہ انصار کے قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے اور بارہ نقیبوں میں سے تھے اور بیت عقبہ میں شامل ہوئے۔
غزوہ بدر کے موقع پر مدینہ سے نکلتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم کو مدینہ کا امیر مقرر کیا لیکن جب آپ رَوْحَاء مقام کے قریب پہنچے جو مدینہ سے 36میل کے فاصلہ پر ہے تو غالباً اس خیال سے کہ عبداللہ ایک نابینا آدمی ہے اور لشکر قریش کی آمد کی خبر کا تقاضا ہے کہ آپ کے پیچھے مدینہ کا انتظام بھی مضبوط رہے آپ نے حضرت ابولُبابہ بن منذر کو مدینہ کا امیر مقرر کر کے واپس بھجوا دیا اور حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم کے متعلق حکم دیا کہ وہ صرف امام الصلوۃ رہیں مگر انتظامی کام حضرت ابولُبابہ سرانجام دیں۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 354)۔ بہرحال اس طرح یہ آدھے راستے سے واپس چلے گئے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت میں ان کا حصہ مقرر کیا۔‘‘ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 7 صفحہ 290 ابو لبابہ بن عبد المنذرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ اور حضرت ابولُبابہؓ تینوں باری باری اونٹ پر سوار ہوتے تھے۔ حضرت علی اور حضرت ابولُبابہؓ نے بڑے اصرار سے عرض کیا کہ ہم پیدل چلتے ہیں اور حضور سوار رہیں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ تم دونوں چلنے میں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں اور نہ ہی میں تم دونوں سے اجر کے بارے میں زیادہ بے نیاز ہوں۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 353) (الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ15-16 غزوہ بدر مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء) غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ کو اہل مدینہ کو خوشخبری پہنچانے کے لئے روانہ کیا۔ حضرت زیدؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر آئے تھے۔ جب وہ مصلی (نماز کی جو جگہ تھی) پہنچے تو آپ نے اپنی سواری سے بلند آواز سے کہا کہ ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ، حجاج کے بیٹے ابوجہل اور ابوالبختری، زمعہ بن الاسود، امیّہ بن خلف یہ سب مارے گئے ہیں اور سہیل بن عمرو اور بہت سارے قیدی بنا لئے گئے ہیں۔ لوگ زید بن حارثہ کی بات پر یقین نہیں کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ زید شکست کھاکر لَوٹے ہیں اور اس بات نے مسلمانوں کو غصہ میں مبتلا کر دیا ہے۔ (منافقین اور مخالفین جو تھے وہ یہ کہا کرتے تھے) اور وہ خود خوفزدہ بھی ہو گئے ہیں (اس لئے یہ باتیں کر رہے ہیں۔) منافقین میں سے ایک شخص نے حضرت اسامہؓ بن زیدؓ سے کہا کہ تمہارے آقا اور ان کے ساتھ جو گئے تھے وہ سب مارے جا چکے ہیں۔ ایک شخص نے حضرت ابولُبابہ سے کہا کہ تمہارے ساتھی اب اس طرح بکھر چکے ہیں کہ دوبارہ کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اور آپ کے چوٹی کے اصحاب شہید ہو چکے ہیں اور یہ آپ کی اونٹنی ہے اور ہم اسے جانتے ہیں۔ مخالفین کہنے لگے کہ زید کو تو رعب کی وجہ سے خود ہی پتہ نہیں کہ یہ کیا کہہ رہا ہے اور شکست کھا کے لوٹا ہے۔ حضرت ابولبابہ نے کہا اللہ تعالیٰ تمہاری بات کو جھٹلائے گا۔ یہود بھی یہی کہتے تھے کہ زیدؓ ناکام و نامراد اور شکست کھا کر لوٹا ہے۔ حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے علیحدگی میں دریافت کیا کہ اے ابّا آپ جو کہتے ہیں کیا وہ سچ ہے۔ حضرت زیدنے کہا اے میرے بیٹے اللہ کی قسم! جو میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔ حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ اس سے میرا دل مضبوط ہو گیا۔ (کتاب المغازی جلد اوّل صفحہ 114 بدر القتال مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2004ء) حضرت ابولُبابہؓ کی سادگی اور فدائیتِ رسول کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ 5ہجری میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے فارغ ہو کر شہر میں واپس تشریف لائے تو ابھی آپ بمشکل ہتھیار وغیرہ اتار کر نہانے دھونے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کشفی رنگ میں یہ بتایا گیا کہ جب تک بنو قریظہ کی غداری اور بغاوت کا فیصلہ نہیں ہو جاتا آپ کو ہتھیار نہیں اتارنے چاہئیں۔ آپ نے صحابہ میں اعلان کر دیا کہ سب لوگ بنو قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہو جائیں اور نماز عصر وہیں پہنچ کر ادا کی جائے گی۔ شروع شروع میں تو یہودی لوگ سخت غرور اور تمرّد ظاہر کرتے رہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کو محاصرہ کی سختی اور اپنی بے بسی کا احساس ہونا شروع ہوا (کہ مسلمانوں نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا تھا) اور بالآخر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ (بہرحال) انہوں نے یہ تجویز کی کہ کسی ایسے مسلمان کو جو اُن سے تعلقات رکھتا ہو اور اپنی سادگی کی وجہ سے ان کے داؤ میں آ سکتا ہو اپنے قلعہ میں بلائیں اور اس سے یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے متعلق کیا ارادہ ہے تا کہ وہ اس کی روشنی میں آئندہ طریق عمل تجویز کر سکیں۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ایلچی روانہ کر کے یہ درخواست کی کہ ابولُبابہؓ بن منذر انصاری کو ان کے قلعہ میں بھجوایا جاوے تا کہ وہ اس سے مشورہ کر سکیں۔ آپ نے ابولُبابہؓ کو اجازت دی اور وہ ان کے قلعہ میں چلے گئے۔ اب رؤوسائے بنو قریظہ نے یہ تجویز کی ہوئی تھی کہ جونہی ابولُبابہؓ قلعہ کے اندر داخل ہو سب یہودی عورتیں اور بچے روتے چلّاتے ان کے گرد جمع ہو جائیں اور اپنی مصیبت اور تکلیف کا ان کے دل پر پورا پورا اثر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ ابولُبابہؓ پر یہ داؤ چل گیا اور بنوقریظہ کے سوال پر کہ اے ابولبابہ! تو ہمارا کیا حال دیکھ رہا ہے؟ کیا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر اپنے قلعوں سے اتر آویں؟ ابولبابہ نے بے ساختہ جواب دیا ہاں اتر آؤ۔ مگر ساتھ ہی اپنے گلے پر ہاتھ پھیر کر اشارہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے قتل کا حکم دیں گے۔ حضرت ابولبابہ کہتے ہیں کہ جب یہ خیال آیا کہ میں نے خدا اور اس کے رسول کی خیانت کی ہے (یا جو اشارہ کیا ہے تو غلط طریقہ سے کر دیا ہے) تو میرے پیر لڑکھڑانے لگے۔ آپ وہاں سے مسجدنبوی میں آئے (ابولبابہؓ مسجدنبوی میں آئے) اور مسجد کے ایک ستون سے اپنے آپ کو باندھ دیا (کہ یہ میری سزا ہے) اور کہا کہ جب تک خدا تعالیٰ میری توبہ قبول نہ کرے گا اسی طرح بندھا رہوں گا۔ حضرت ابولبابہ کہتے ہیں کہ میرے بنو قریظہ جانے اور جو کچھ مَیں نے وہاں کیا اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اس کے بارے میں جو چاہے گا فرمائے گا۔ اگر وہ میرے پاس آتا تو میں اس کے لئے بخشش طلب کرتا۔ جب وہ میرے پاس نہیں آیا اور چلا گیا ہے تو اسے جانے دو۔ حضرت ابولُبابہؓ کہتے ہیں کہ میں پندرہ دن اس ابتلا میں رہا۔ آپ کہتے ہیں کہ میں نے ایک خواب دیکھا تھا اور میں اسے یاد کرتا تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم نے بنوقریظہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور گویا میں ایک بدبودار کیچڑ میں ہوں۔ مَیں اس سے نکل نہیں سکتا اور قریب تھا کہ مَیں اس کی بدبو سے ہلاک ہوجاتا۔ پھر میں نے ایک نہر دیکھی جو بَہہ رہی تھی۔ پھر میں نے دیکھا کہ میں اس میں غسل کر رہا ہوں یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ کو پاک صاف کیا اور تب مجھے خوشبو آ رہی تھی۔ آپ حضرت ابوبکرؓ کے پاس اس کی تعبیر پوچھنے کے لئے گئے تھے تو حضرت ابوبکر نے اس کی تعبیر یہ کی کہ تمہیں ایسا معاملہ پیش آئے گا جس کی وجہ سے تمہیں غم پہنچے گا پھر تمہیں اس سے نجات دی جائے گی۔ حضرت ابولُبابہؓ کہتے ہیں کہ میں بندھا ہوا حضرت ابوبکرؓ کی بات کو یاد کرتا تھا اور امید رکھتا تھا کہ میری توبہ قبول کی جائے گی۔ حضرت اُمّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ ابولُبابہؓ کے توبہ کی قبولیت کی خبر میرے گھر میں نازل ہوئی۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ وحی اس وقت ہوئی)۔ کہتی ہیں کہ میں نے سحر کے وقت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنستے دیکھا۔ میں نے عرض کیا اللہ آپ کو ہمیشہ مسکراتا رکھے آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابولُبابہؓ کی توبہ قبول ہو گئی۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں ان کو آگاہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتی ہو تو کر دو۔ حضرت اُمّ سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے حجرہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا(یہ پردے کے احکام نازل ہونے سے قبل کی بات ہے) کہ اے ابولُبابہؓ خوش ہو جاؤ۔ اللہ نے آپ پر فضل کرتے ہوئے آپ کی توبہ قبول کر لی ہے۔ لوگ دوڑ کر حضرت ابولُبابہؓ کو کھولنے لگے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مجھے کھولیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے تو اپنے دست مبارک سے ان کو کھولا۔ حضرت ابولُبابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں اپنے آبائی گھر کو جہاں مجھ سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے چھوڑتا ہوں۔ یہ بہت بڑی غلط بات مجھ سے ہو گئی اس لئے میں اپنا گھر بار چھوڑتا ہوں اور میں اپنے مال کو اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ صرف ایک تہائی مال کا صدقہ کرو۔ حضرت ابولبابہ نے ایک تہائی مال صدقہ کیا اور آپ نے اپنا آبائی گھر چھوڑ دیا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 597 تا 599) (اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 261-262 ابو لبابہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، کتاب المغازی جلد 2 صفحہ 11-12 غزوہ بنی قریظہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2004ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس تفصیل کے علاوہ بھی اس واقعہ کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ بنو قریظہ کا معاملہ طے ہونے والا تھا۔ ان کی غداری ایسی نہیں تھی کہ نظر انداز کی جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آتے ہی اپنے صحابہ سے فرمایا کہ گھروں میں آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے پہلے بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ جاؤ اور پھر آپ نے حضرت علی کو بنو قریظہ کے پاس بھجوایا کہ وہ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے معاہدہ کے خلاف یہ غداری کیوں کی ہے۔ (بیچ میں چھوڑ کے چلے گئے تھے)۔ بجائے اس کے کہ بنوقریظہ شرمندہ ہوتے یا معافی مانگتے یا کوئی معذرت کرتے انہوں نے حضرت علی اور ان کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کی مستورات کو گالیاں دینے لگے اور کہا ہم نہیں جانتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا چیز ہیں۔ ہمارا ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں۔ حضرت علی ان کا یہ جواب لے کر واپس لوٹے تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ یہود کے قلعوں کی طرف جا رہے تھے۔ چونکہ یہود گندی گالیاں دے رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور بیٹیوں کے متعلق ناپاک کلمات بول رہے تھے۔ حضرت علیؓ نے اس خیال سے کہ آپ کو ان خیالات سے تکلیف ہو گی عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ ہم لوگ اس لڑائی کے لئے کافی ہیں۔ آپ واپس تشریف لے جائیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم یہ نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! بات تو یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا ہوا اگر وہ گالیاں دیتے ہیں۔ موسیٰ نبی تو ان کا اپنا تھا ان کو اس سے بھی زیادہ انہوں نے تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ یہ کہتے ہوئے آپ یہود کے قلعوں کی طرف چلے گئے مگر یہود دروازے بند کرکے قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی حتی کہ ان کی عورتیں بھی لڑائی میں شریک ہوئیں۔ چنانچہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کچھ مسلمان بیٹھے تھے کہ ایک یہودی عورت نے اوپر سے پتھر پھینک کر ایک مسلمان کو مار دیا۔ لیکن کچھ دن کے محاصرہ کے بعد یہودنے یہ محسوس کر لیا کہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تب ان کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ وہ ابولُبابہؓ انصاری کو جو اُن کے دوست اوس قبیلہ کے سردار تھے ان کے پاس بھجوائیں تا کہ وہ ان سے مشورہ کر سکیں۔ آپ نے ابولُبابہؓ کو بھجوا دیا۔ ان سے یہودنے یہ مشورہ پوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مطالبہ کو کہ فیصلہ میرے سپرد کرتے ہوئے تم ہتھیار پھینک دو۔ ہم یہ مان لیں؟ ابولُبابہؓ نے منہ سے تو کہا ہاں لیکن اپنے گلے پر اس طرح ہاتھ پھیرا جس طرح قتل کی علامت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ابولُبابہؓ نے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کے جرم کی سزا سوائے قتل کے اور کیا ہو گی بغیر سوچے سمجھے اشارے کے ساتھ ان سے ایک بات کہہ دی جو آخر ان کی تباہی کا موجب ہوئی۔ چنانچہ یہودنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کرنے سے انکار کر دیا۔ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مان لیتے تو دوسرے یہودی قبائل کی طرح ان کو زیادہ سے زیادہ یہی سزا دی جاتی کہ ان کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا جاتا مگر ان کی بدقسمتی تھی کہ انہوں نے کہا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ ہم اپنے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعدؓ بن معاذ کا فیصلہ مانیں گے۔ جو فیصلہ وہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا۔ لیکن اس وقت یہود میں اختلاف ہو گیا۔ یہود میں سے بعض نے کہا کہ ہماری قوم نے غداری کی ہے اور مسلمانوں کے رویّے سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مذہب سچا ہے۔ وہ لوگ اپنا مذہب ترک کر کے اسلام میں داخل ہو گئے۔ ایک شخص عمرو بن سعدی نے جو اس قوم کے سرداروں میں سے تھا اپنی قوم کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے غداری کی ہے کہ معاہدہ توڑا ہے۔ اب یا تو مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ پر راضی ہو جاؤ۔ یہودنے کہا نہ مسلمان ہوں گے نہ جزیہ دیں گے کہ اس سے قتل ہونا اچھا ہے۔ پھر ان سے اس نے کہا کہ میں تم سے بری ہوتا ہوں اور یہ کہہ کر قلعہ سے نکل کر باہر چل دیا۔ جب وہ قلعہ سے باہر نکل رہا تھا تو مسلمانوں کے ایک دستہ نے جس کے سردار محمد بن مَسلمہؓ تھے اسے دیکھ لیا اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ مَیں فلاں ہوں۔ اس پر محمد بن مسلمہؓ نے فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنِیْ اِقَالَۃَ عَثَرَاتِ الْکِرَامِ۔ یعنی اپنی سلامتی سے چلے جائیے اور پھر اللہ سے دعا کی کہ الٰہی مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے کبھی محروم نہ کیجیو۔ یعنی یہ شخص چونکہ اپنے فعل پر اور اپنی قوم کے فعل پر پچھتاتا ہے تو ہمارا بھی اخلاقی فرض ہے کہ اسے معاف کر دیں اس لئے میں نے اسے گرفتار نہیں کیا اور جانے دیا۔ خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایسے ہی نیک کاموں کی توفیق بخشتا رہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے محمد بن مسلمہؓ کو سرزنش نہیں کی کہ کیوں اس یہودی کو چھوڑ دیا بلکہ اس کے فعل کو سراہا۔‘‘ (ماخوذ ازدیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 282 تا 284)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی جو کہا جاتا ہے کہ آپ نے زیادتیاں کیں اور ظلم کئے اور یہودی قبائل کو قتل کیا تو یہ تو خود اپنی تباہی کے ذمہ وار تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کروانے کے بجائے انہوں نے اپنے ایک سردار سے، دوسرے قبیلہ کے سردار سے جو مسلمان ہو چکے تھے ان سے فیصلہ کروایا اور پھر ان کی کتاب کے مطابق یہ فیصلہ ہوا۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی الزام نہیں۔ نہ صحابہ پر ہے کہ انہوں نے کوئی ظلم کیا۔
علامہ ابن سعدنے لکھا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ غزوہ قینقاع اور غزوہ سویق میں بھی حضرت ابولُبابہؓ کو مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا شرف حاصل ہوا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ22 باب غزوہ قینقاع و غزوہ سویق مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء) حضرت ابولبابہؓ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔ انصار کے قبیلہ عمرو بن عوف کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت ابولُبابہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگوں میں شریک رہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 349 واخوھما ابو لبابہ بن عبد المنذرؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1990ء) ان کی وفات کے بارے میں بعض کے نزدیک حضرت ابولُبابہؓ حضرت علیؓ کے زمانہ خلافت میں فوت ہوئے۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد وفات پائی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ 50ہجری کے بعد تک زندہ رہے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جلد 7 صفحہ 290 ابو لبابہ بن عبد المنذرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) سعید بن مُسَیّب روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابولُبابہؓ بن عبد المنذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن بارش کی دعا کی اور فرمایا اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا۔ اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا۔ اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا۔ کہ اے اللہ ہم پر بارش برسا اے اللہ! ہم پر بارش برسا اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ ابولُبابہؓ کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ پھل باغوں میں ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آسمان میں ہمیں کوئی بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! ہم پر بارش برسا یہاں تک کہ ابولُبابہؓ ننگے بدن اپنے کھلیان میں پانی کا سوراخ اپنے کپڑے سے بند کرے۔ کہتے ہیں کہ دعا کے بعد آسمان سے پانی برسنا شروع ہو گیا۔ بادل آئے۔ بارش شروع ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ راوی کہتے ہیں کہ انصار حضرت ابولُبابہؓ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ اے ابولُبابہ! اللہ کی قسم یہ بارش اس وقت تک نہیں رکے گی جب تک تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ننگے بدن اپنے کپڑے کے ذریعہ اپنے کھلیان سے پانی کے نکاس کا راستہ نہیں روکو گے۔ چنانچہ حضرت ابولُبابہؓ اپنے کپڑے کے ذریعہ نکاس کا راستہ بند کرنے کھڑے ہو گئے اور اس کے بعد بارش رک گئی۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 3 صفحہ 500 کتاب صلاۃ الاستسقاء باب الاستسقاء بغیر صلاۃ و یوم الجمعۃ علی المنبر حدیث 6530 مطبوعہ مکتبہ الرشد بیروت 2004ء) حضرت ابولبابہ اپنے نواسے عبدالرحمن بن زید (جو حضرت عمرؓ کے بھتیجے تھے) کو ایک کھجور کی چھال میں لپیٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے ابولبابہ تمہارے پاس کیا ہے؟ حضرت ابولبابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ میرا نواسہ ہے۔ میں نے اس جیسا کمزور نومولود کبھی نہیں دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نومولود کو اٹھایا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی۔ اس دعا کی برکت سے جب عبدالرحمن بن زید لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑے ہوتے تو قد میں سب سے لمبے نظر آتے تھے۔ حضرت عمر نے ان کی شادی اپنی بیٹی فاطمہ سے جو حضرت اُمّ کلثوم کے بطن سے تھیں اور حضرت اُمّ کلثوم حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی بیٹی تھیں، کروائی تھی۔ (امتاع الاسماع جلد 6 صفحہ 146 فصل فی ذکر اسلافہﷺ من قبل حفصۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1999ء) حضرت انس بن مالک نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کے گھر سب سے زیادہ دور تھے۔ ایک حضرت ابولُبابہ بن عبدالمنذر کا۔ ان کا گھر قبّا میں تھا اور حضرت ابوعَبْس بن جبر۔ یہ قبیلہ بنوحارثہ میں رہتے تھے۔ وہ دونوں عصر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ (مستدرک علی الصحیحین جلد اوّل صفحہ 309 کتاب الصلوٰۃ باب مواقیت الصلوٰۃ حدیث 703 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)