احمدیت کا پیدا کردہ روحانی انقلاب اور ایک عالم دین کا مایوس کن بیان
مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت
باغ مرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر
میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار
(المسیح الموعود)
ملت اسلامیہ کے عالمی زوال کا جو روح فرسا دور سلطنت عباسیہ کی تباہی (جنوری ۱۲۵۸ء) سے شروع ہوا اس نے سقوط غرناطہ ( جنوری ۱۴۹۳ء) کے نتیجہ میں حد درجہ عبرتناک صورت اختیار کرلی یہاں تک کہ مغلیہ سلطنت کے خاتمہ (اکتوبر ۱۸۵۷ء) کے بعد یہ زوال اپنی انتہاء تک پہنچ گیا۔ جس پر خدائے ذوالعرش نے اپنے قطعی وعدہ’’اِنّا لہ لحَافظوُن ‘‘ (الحجر:۱۰) کے مطابق آنحضرت ﷺ کے ایک عاشق صادق کو غلبہ اسلام کے لئے بذریعہ الہام کھڑا کیا۔ میری مراد حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود ومہدی مسعود سے ہے۔ جنہوں نے جنوری ۱۸۹۱ء میں اپنی کتاب ’’ فتح اسلام‘‘ میں مغربی الحاد و مادیت کے خطرناک اور تشویشناک اثرات کا بلیغ نقشہ کھینچتے ہوئے مسلمانان عالم کو خوشخبری دی کہ :
’’خدا تعالیٰ نے اس جادو کو باطل کرنے کے لئے اس زمانہ کے سچے مسلمانوں کو یہ معجزہ دیا کہ اپنے اس بندہ کو اپنے الہام اور کلام اور اپنی برکات خاصہ سے مشرّف کر کے اور اپنی راہ کے باریک علوم سے بہرہ کامل بخش کر مخالفین کے مقابل پر بھیجا اور بہت سے آسمانی تحائف اورعلوی عجائبات اور روحانی معارف و دقائق ساتھ دئے تا اس آسمانی پتھر کے ذریعہ سے وہ موم کا بت توڑ دیا جائے جو سحر فرنگ نے تیار کیا ہے‘‘۔(فتح اسلام صفحہ ۶)
نیز فرمایا:
’’پس ہر ایک کو چاہئے کہ اس سے انکار کرنے میں جلدی نہ کرے تا خدا تعالیٰ سے لڑنے والا نہ ٹھہرے۔ دنیا کے لوگ جو تاریک خیال اور اپنے پرانے تصورات پر جمے ہوئے ہیں وہ اس کو قبول نہیں کریں گے مگرعنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جو ان کی غلطی ان پر ظاہر کر دے گا۔ ۔۔۔۔۔۔ بلاشبہ یہ بات یقینی اور امورمسلمہ میں سے ہے کہ یہ مہم عظیم اصلاح خلائق کی صرف کاغذوں کے گھوڑے دوڑانے سے روبراہ نہیں ہو سکتی ۔ اس کے لئے اسی راہ پر قدم مارنا ضروری ہے جس پر قدیم سے خداتعالیٰ کے نبی قدم مارتے رہے ہیں‘‘۔ (فتح اسلام صفحہ ۱۲ ، ۳۳)
اس سلسلہ میں حضرت اقدس ؑ نے زبردست انتباہ کرتے ہوئے مزید صراحت فرمائی کہ :
’’ بعض کہتے ہیں کہ انجمنیں قائم کرنااور مدارس کھولنا یہی تائیددین کے لئے کافی ہے۔مگروہ نہیں سمجھتے کہ دین کس چیز کا نام ہے اور اس ہماری ہستی کی انتہائی اغراض کیا ہیں اور کیونکر اور کن راہوں سے وہ اغراض حاصل کر سکتے ہیں۔ سو انہیں جاننا چاہئے کہ انتہائی غرض اس زندگی کی خدا تعالیٰ سے وہ سچا اور یقینی پیوندحاصل کرنا ہے جو تعلقات نفسانیہ سے چھوڑا کر نجات کے سرچشمہ تک پہنچاتا ہے ۔ سو اس یقین کامل کی راہیں انسانی بناوٹوں اور تدبیروں سے ہرگز کھل نہیں سکتیں اور انسانوں کا گھڑا ہوا فلسفہ اس جگہ کچھ فائدہ نہیں پہنچاتا ۔ بلکہ یہ روشنی ہمیشہ خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ سے ظلمت کے وقت میں آسمان سے نازل کرتا ہے۔ اور جو آسمان سے اترا وہی آسمان کی طرف لے جاتا ہے۔ سو اے وے لوگو جو ظلمت کے گڑھے میں دبے ہوئے اور شکوک و شبہات کے پنجہ میں اسیر اور نفسانی جذبات کے غلام ہو صرف اسمی اور رسمی اسلام پر نازمت کرواورسچی رفاہیت اور اپنی حقیقی بہبودی اور اپنی آخری کامیابی انہیں تدبیروں میں نہ سمجھو جو حال کی انجمنوں اور مدارس کے ذریعہ سے کی جاتی ہیں۔ یہ اشغال بنیادی طورپر فائدہ بخش تو ہیں اور ترقیات کا پہلا زینہ متصور ہو سکتے ہیں مگر اصل مدّعا سے بہت دور ہیں۔ شاید ان تدبیروں سے دماغی چالاکیاں پیدا ہوں
یا طبیعت میں پرفنی اورذہن میں تیزی اور خشک منطق کی مشق حاصل ہو جائے یا عالمیت اور فاضلیت کا خطاب حاصل کر لیا جائے اور شاید مدت دراز کی تحصیل علمی کے بعد اصل مقصود کے کچھ ممد بھی ہو سکیں۔ مگر تا تریاق از عراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود۔ سو جاگو اور ہوشیار ہو جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ ۔۔۔۔۔۔ پس کمال افسوس کی جگہ ہے کہ جس قدر تم رسمی باتوں اوررسمی علوم کی اشاعت کے لئے جوش رکھتے ہو اس کا عشر عشیر بھی آسمانی سلسلہ کی طرف تمہارا خیال نہیں۔ تمہاری زندگی اکثر ایسے کاموں کے لئے وقف ہو رہی ہے کہ اول تو وہ کام کسی قسم کا دین سے علاقہ ہی نہیں رکھتے اور اگرہے بھی تو وہ علاقہ ایک ادنیٰ درجہ کا اور اصل مدعا سے بہت پیچھے رہا ہواہے۔ اگرتم میں وہ حواس ہوں اور وہ عقل جو ضروری مطلب پر جا ٹھیرتی ہے توتم ہرگزآرام نہ کرو جب تک وہ اصل مطلب تمہیں حاصل نہ ہو جائے ۔ اے لوگو تم اپنے سچے خداوند خدا اپنے حقیقی خالق اپنے واقعی معبود کی شناخت اور محبت اور اطاعت کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ پس جب تک یہ امر جو تمہاری خلقت میں علت غائی سے بین طورپر تم میں ظاہر نہ ہو تب تک تم اپنی حقیقی نجات سے بہت دور ہو۔ اگر تم انصاف سے بات کرو تو تم اپنی اندرونی حالت پر آپ ہی گواہ ہوسکتے ہو کہ بجائے خدا پرستی کے ہر دم دنیا پرستی کا ایک قوی ہیکل بت تمہارے دل کے سامنے ہے جس کو تم ایک ایک سیکنڈ میں ہزار ہزار سجد ہ کر رہے ہو‘‘۔
نیز ارشاد فرمایا :
’’تم نے خدا تعالیٰ کے آسمانی سلسلہ کو بہت ہلکا سمجھ رکھا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے ذکر کرنے میں بھی تمہاری زبانیں کراہت سے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ اوربڑی رعونت اور ناک چڑھانے کی حالت میں ہجو کا حق ادا کرتی ہیں۔ اور تم باربار کہتے ہوکہ ہمیں کیونکر یقین آوے کہ یہ سلسلہ منجانب اللہ ہے۔میں ابھی اس کاجواب دے چکا کہ اس درخت کواس کے پھلوں سے اور نیّرکی روشنی سے شناخت کروگے۔ میں نے ایک دفعہ یہ پیغام تمہیں پہنچا دیا ہے۔اب تمہارے اختیار میں ہے کہ اس کوقبول کرو یا نہ کرو۔اورمیری باتوں کو یادرکھو یا لوح حافظہ سے بھُلا دو۔
جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی پیارو
یاد آئیں گے تمہیں میرے سخن میرے بعد
(فتح اسلام‘‘صفحہ ۶۹ تا ۷۵ طبع اول بحوالہ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۱ تا ۴۴)
ایک صدی قبل سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ نے آسمانی سلسلہ سے وابستہ جس روحانی انقلاب کی خبر دی تھی آج وہ مسلم اور غیر مسلم دنیا کے مفکرین کے نزدیک بھی افق عالم پر صاف دکھائی دے رہا ہے ۔ چنانچہ الحاج ڈاکٹر عبدالوہاب عسکری ایڈیٹر ’’السلا م البغدادیہ‘‘ نے اپنی کتاب ’’مشاہداتی تحت سماء الشرق‘‘ میں جماعت احمدیہ کے عظیم دینی کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’و خدماتہم للدین الاسلامی من وجھۃ التبشیر فی جمیع الاقطار کثیرۃ ۔ و ان لھم دوائر منتظمۃ یدیرھا اساتذہ وعلماۂ۔۔۔۔و ھم یجتھدون بکل الوسائل الممکنہ لاعلاء کلمۃ الدین و من اعمالھم الجبارۃ الفروع التبشیریۃ والمساجد التی اسسوھا فی مدن امریکا و افریقیا و اوربا فھی السنۃ ناطقۃ مما قاموا و یقومون بہ من خدمات ولا شک ان للاسلام مستقبل باہر علی یدھم‘‘۔
(ترجمہ): دین اسلام کے لئے ان کی تبلیغی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ اور ان کے ہاں بہت سے انتظامی شعبے ہیں جنہیں بڑے بڑے ماہرین اورعلماء دین چلاتے ہیں۔ اور وہ دین اسلام کی سربلندی کے لئے تمام ممکن ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے کوشا ں ہیں اور ان کے عظیم الشان کارناموں میں سے ایک عظیم کام یورپ، امریکہ اورافریقہ کے مختلف شہروں میں تبلیغی مراکز اور مساجد کا قیام ہے اور یہ مراکز و مساجد ان کی ان عظیم خدمات کی منہ بولتی تصویر ہیں جو وہ پہلے اوراب بجا لا رہے ہیں اور اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے ہاتھوں اسلام کا ایک تابناک مستقبل مقدر ہوچکا ہے۔ (’’مشاھداتی تحت سماء الشرق ‘‘ تالیف الدکتور الحاج عبدالوہاب العسکری صاحب الجریدۃ السلام البغدادیۃ مطبوعہ ۱۹۵۱ء مطابق ۱۳۷۰ھ دارالحدیث للطباعۃ والنشر والتالیف)
اسی طرح امریکہ کی ریاست پنسلوانیہ میں ولکز کالج کے شعبہ فلسفہ کے صدر جناب پروفیسر سٹینکو ایم ووجیکا (Prof. Stankom Vujika) نے انگلستان کے رسالہ ’’ ایسٹرن ورلڈ‘‘ (Eastern World) کے شمارہ دسمبر ۱۹۶۱ء میں صفحات ۱۶ تا ۲۰ میں ایک مضمون سپرد قلم کیا جس میں جماعت احمدیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے تبلیغی مراکز قائم ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے علاوہ یورپ میں بھی انگلستان ، فرانس، اٹلی، سپین، ہالینڈ،جرمنی، ناروے اور سویڈن میں ان کے باقاعدہ مشن ہیں۔ جنوبی امریکہ کے ممالک میں سے یہ لوگ ٹرینیڈاڈ ، برازیل اور کاسٹاریکا میں موجود ہیں۔ اسی طرح ایشیائی ممالک میں سے سیلون ، برما، فلپائن، انڈونیشیا، ایران، عراق اور شام میں بھی ان کے مبلغ مصروف کار ہیں ۔ افریقی ممالک میں سے مصر، زنجبار، نٹال، سیرالیون،گھانا، نائجیریا، مراکش اور ماریشس میں بھی ان کی جماعتیں قائم ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ اسلامی دنیا مغرب کی لادینی ثقافت کے زیر اثر آ جانے کے باعث ادھر ادھر بھٹک رہی ہے احمدیوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ان کی تحریک اسلام کو اس طور پر پیش کرتی ہے کہ جو دنیائے جدید کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ پھر وہ اسلام کی آخری فتح کے بارے میں نہایت درجہ پُراعتماد ہیں۔ ایسی صورت میں احمدیت ان نئی نسلوں کے لئے دلکش اور جاذب نظر ثابت ہو سکتی ہے جو اصلاح حال کے پیش نظر نئے اندازفکر کی تلاش میں سرگردان ہیں‘‘۔ ( ترجمہ)
نقشہ عالم پر رونما ہونے والا یہ روحانی انقلاب ہے جو احمدیت کی برکت سے ابھر رہا ہے اس کے بالمقابل دوسری طرف امام الزماں کے آسمانی پیغام سے بے نیازی کے نتیجہ میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں مسلمان اور ان کی حکومتیں اور ان کے مذہبی حلقے کس طرح سحرفرنگ کے طوفانو ں میں گھر چکے ہیں؟ اورمادیت کے تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں؟
اس کا ایک تازہ ثبوت میامی ( فلوریڈا۔ امریکہ) کے ایک عالم دین جناب مفتی سید مستفیض الحسن صاحب کاوہ مضمون بھی ہے جو حال ہی میں نیویارک کے ایک ہفت روزہ میگزین ’’اردوٹائمز‘‘ (مورخہ ۱۲؍ جون ۱۹۹۷ء) میں’’ دین کا مستقبل ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوا ہے۔یہ مضمون ادبی چاشنی اور لسانی کمالات و محاسن کے باوجود مایوسی کی مجسم تصویر اور ناکامی کامرقع ہے۔ جس کے لفظ لفظ سے نہ صرف اسلام کے مستقبل کے بارے میں انتہائی یاس اور قنوطیت ٹپکتی ہے۔ بلکہ امام الزماں علیہ السلام کے اس نظریہ کی پوری پوری تائید ہوتی ہے کہ اسلام کی ترقی و سربلندی آسمانی جماعت کے بغیر ناممکن ہے اور اس دور کے اسلامی مدارس اور ان کے فارغ التحصیل نام نہاد علماء اورمبلغین سے غلبہ اسلام کی مہم میں کسی قسم کی توقع سراسرعبث اور فضول ہے۔ جناب مفتی مستفیض الحسن صاحب کے اس نہایت درجہ عبرت انگیز مضمون کے بعض اہم اقتباسات ذیل میں ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں:
(۱)۔۔۔ ’’دنیا ایک بحرانی دور سے گزر رہی ہے ۔ مادیت (Materialism)کا ایک طوفان ہے جو ہر پرانے نظرئیے کو بہائے لئے جا رہا ہے ۔ اس صورت حال نے دین کے مستقبل کے بارے میں ذہنوں میں شکوک پیدا کر دئے ہیں ۔ سیکولرازم (Secularism)کی روزافزوں ترقی اور مقبولیت نے دین کے عقائد کو ایک مسئلہ بنا دیا ہے‘‘۔
(۲)۔۔۔ ’’ خود مسلم ممالک میں دین کے پیش کئے ہوئے حل سے اپنے مسائل کو سلجھانے کارجحان ختم ہو گیاہے اور وہ عملاً سیکولر ہو گئے ہیں ۔ دین اب صرف افراد کی نجی زندگی میں اہمیت رکھتا ہے۔ مذہب کے رہنماؤں او ر خود مذہب کا اثر گھٹ رہاہے اور اب خود اہل دین سیکولر راہنماؤں کی رہنمائی قبول کرنے جا رہے ہیں‘‘۔
(۳)۔۔۔ ’’ جب تک ہم اخلاقی زندگی پر مبنی ایک معاشرہ قائم کر کے دنیا کواس کی برکتوں سے روشناس نہیں کروائیں گے ،دنیا اخلاقی قدروں کو نہیں مانے گی۔ سچائی کی جیت اسی وقت ہوتی ہے جب وہ دماغ و ذہن سے نکل کر محسوسات کی دنیا میں کوئی معقول شکل اختیار نہ کر لے۔ اوراس کے انکار کرنے والے لوگوں کو بھی اس کے مفید پہلوؤں کے نتائج نظرنہ آنے لگیں‘‘۔
(۴)۔۔۔ ’’ ظاہرہے کہ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے اور نہ کسی ایک آدمی کے کرنے کا کام ہے۔ یہ عمل معاشرتی طور پر کیا جائے تو مؤثر ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دینی کاموں کے لئے اجتماعی نظم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے آج دین و مذہب کو ایک مؤثر طاقت بننا ہے تو یہ جماعتی زندگی کے بغیر ممکن نہ ہوگا۔ جماعتی تنظیم اس لئے بھی ضروری ہے کہ سیکولر جماعتوں کے منظم کاموں کا توڑ اجتماعی طورپر کام کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ نیز موجودہ نظام زندگی میں اقتصادی امور اور دولت کی غلط تقسیم کی وجہ سے عام لوگوں کی مادی سطح اس قدر گر گئی ہے کہ وہ بے چارے اپنی روٹی کپڑے اور رہائش کی فکر میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ اور انہیں فرصت نہیں ملتی کہ وہ زندگی کے اعلیٰ اصولوں اور دینی ضرورتوں کے بارے میں سوچیں ۔ بہت کیا تو ایک وقت کی یاجمعہ کی نماز پڑھ لی۔ اور ویک اینڈ (Weekend) پر کوئی جلسہ جلوس ہوا تو اس میں شریک ہو گئے‘‘۔
(۵)۔۔۔ ’’ ذرا سوچئے کہ مسلمان بنیادی طور پر مذہبی ہے مگر روٹی کپڑے کے مسئلے میں الجھا ہے۔ کیونکہ دنیا میں روٹی کپڑا بھی حقیقی ضرورت کی چیزیں ہیں۔ مذہب و اخلاق اگر ان ضروری چیزوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں تو مادی ضرورتوں کے محتاج عوام ان سے قطع تعلق کر لیں گے۔ عملاً آج یہی ہو رہا ہے۔ آج ہمار ے مدرسوں میں مذہب و اخلاق کے جو طالب علم تربیت پارہے ہیں وہ فارغ ہو کراپنی بنیادی ضرورتوں(Basic Needs) کے پورا کرنے کے لئے کیاکریں گے۔ انہیں کچھ معلوم نہیں۔ان کی مادی زندگی کی یہ بے یقینی دوسرے لوگوں کو مذہب اور اخلاق کی ایسی تربیت سے بیزار کر دیتی ہے جس میں آگے چل کر بھیک کی روٹی آدمی کا مقدر بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو میڈیکل، انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس کی ٹریننگ دلاتے ہیں، علم دین سیکھنے نہیں بھیجتے ۔ علم دین سیکھنے میں تو بے چارے یتیم، مسکین اور غریب لوگ جو حالات کے ستائے ہوئے آتے ہیں۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ منتظمین Missionary لوگو ں کو یا تو قوم سے پوری حمایت (Support) ملے تو وہ کام کر سکیں گے ورنہ صرف نظریاتی تقریریں ہوتی رہیں گی اور عملاً اسلا م کا کوئی عملی روپ سامنے نہ آ سکے گا۔
اگر ہمیں مذہب سے پیار ہے اور ہم دین کے مستقبل کے معمار بننا چاہتے ہیں تو ہمیں زندگی کے ان حقائق پر غور کر کے ایسا دینی نصاب بنانا ہوگا جس میں مبلغین اور علماء کی روزی روٹی کا بھی انتظام ہو اور انہیں وہ فرصت کے لمحے بھی مل سکیں جو تبلیغ دین کے لئے ضروری ہیں۔ ساتھ ہی ہمیں دینی کاموں کے لئے فنڈ (Funds) مہیا کرنے ہونگے۔ فلاحی کام کرنے ہونگے،خدمت خلق (Social Services) کے ادارے قائم کرنے ہونگے۔ علماء اور مبلغین کے احساس کمتری (Inrferiority Complex) کو دور کرنا ہوگا‘‘۔
مندرجہ بالا بیان میں اصل حقیقت پر دبیزی پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش فرمائی گئی ہے۔ حق یہ ہے کہ دینی مدارس سے نکلنے والی فوج ’’ ظفر موج‘‘ محض احساس کمتری ہی کی دائمی مریض نہیں ۔ مثال کے طور پر مدرسہ دارالعلوم دیوبند کو لیجئے جس کے فرزند آجکل بدقسمتی سے اپنے تئیں ’’ چمنستان ختم نبوت‘‘ کا ’’بلبل‘‘ سمجھے ہوئے ہیں اور ہر جگہ ’’ چہک‘‘ رہے ہیں۔ اس ’’ شہرہ آفاق دینی درسگاہ‘‘ کے تربیت یافتہ طلباء کا اخلاقی کردار کیا ہے؟ اس کا صحیح اندازہ ’’ حضرت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ‘‘ جیسے ثقہ دیوبندی عالم سے بڑھ کر اور کس کو ہو سکتاہے؟ ۷؍ دسمبر ۱۹۴۵ء کا واقعہ ہے کہ علامہ موصوف سے دوران ملاقات ’’ جمعیت علماء ہند‘‘ مولوی حسین احمد مدنی اور دوسرے چوٹی کے کانگرسی دیوبندی علماء نے علی گڑھ کالج کے طلباء کے بعض ناشائستہ حرکات کی شکایت کی جس پر علامہ نے فرمایا:
’’ جن انگریزی خواں طلباء کے رویہ کی آپ شکایت فرما رہے ہیں وہ نہ تو آپ کے مرید ہیں نہ شاگرد۔ نہ انہوں نے کسی دینی ماحول میں تربیت پائی ہے (اور سمجھتے یہ ہیں آپ مسلم قوم کو ہندوؤں کی دائمی غلامی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں) اس کے بالمقابل جو عربی مدارس کے طلباء آپ کے شاگرد ، آپ کے مرید اور دینی ماحول بلکہ مرکزدین و اخلاق میں تربیت پانے والے ہیں ذارا دھر بھی تو دیکھئے کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے طلباء نے جو گندی گالیاں اور فحش اشتہارات اورکارٹون ہمارے متعلق چسپاں کئے ہیں جن میں ہم کو ابوجہل تک کہا گیا او ر ہمارا جنازہ نکالا گیا آپ حضرات نے اس کا بھی کوئی تدارک کیاتھا۔آپ کومعلوم ہے کہ اس وقت دارالعلوم کے تمام مدرسین، مہتمم اور مفتی سمیت(باستثناء ایک دو کے) بالواسطہ مجھ سے نسبت تلمذ رکھتے تھے۔ دارالعلوم کے طلباء نے میرے قتل تک کے حلف اٹھائے اور وہ فحش اور گندے مضامین میرے درواز ے میں پھینکے کہ اگر ہماری ماں بہنوں کی نظر پڑ جائے تو ہماری آنکھیں شرم سے جھک جاتیں۔ کیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر ملامت کا کوئی جملہ کہا۔ بلکہ میں کہہ سکتاہوں کہ بہت سے لوگ ان کمینہ حرکات پر خوش ہوتے تھے ‘‘۔ (مکالمۃ الصدرین۔ صفحہ ۳۲، ۳۳۔ مصدقہ و مرقومہ علامہ عثمانی ۔ ناشر ہاشمی بک ڈپو لاہور)
اُو خویشتن کہ گم است کرا رہبری کند
مسیح دوراں کا روح پرور پیغام دنیائے اسلام کے نام
بالآخر یاد رہے کہ گو مادّی طاقتوں کے ذرائع جماعت احمدیہ کی نسبت کروڑگنے زیادہ ہیں لیکن یہ ایک قطعی اور یقینی بات ہے کہ سورج ٹل سکتا ہے ،ستارے اپنی جگہ چھوڑ سکتے ہیں، زمین اپنی حرکت سے رُک سکتی ہے مگر محمد رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی عالمگیر فتح میں اب کوئی روک نہیں بن سکتا ۔(دیباچہ تفسیر القرآن) چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے خدا سے علم پا کر اپنے رسالہ ’’ فتح اسلام‘‘ میں دین کے مستقبل کی نسبت یہ پرشوکت پیشگوئی فرمائی:
’’سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آ چکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیساکہ پہلے چڑھ چکا ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں۔ ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کواس کے ظہور کے لئے نہ کھودیں اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں۔اسلام کا زندہ ہونا ایک فدہ مانگتاہے۔وہ کیاہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا۔یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی ، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیزہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔اسی اسلام کازندہ کرنا خداتعالیٰ اب چاہتاہے‘‘۔
نیز فرمایا:
’’میں آسمان سے اترا ہوں ان پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے۔جن کو میرا خدا جو میر ے ساتھ ہے میر ے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چپ بھی رہوں اورمیری قلم لکھنے سے رکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اتر ے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اوران کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لئے دئے گئے ہیں‘‘۔
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍جنوری ۱۹۹۸ء تا ۲۹؍جنوری۱۹۹۸ء)