احیائے موتٰی کی حقیقت
قرآنِ کریم الٰہی پیغام کے منکرین اور مخالفین کو مردہ کہہ کر پکارتا ہے [27:81, 35:23, 8:25] جبکہ نبی کی دعوت کو قبول کرنے والے مومنین اور خدا کی راہ میں اپنی جان دینے والوں کو زندہ قرار دیتا ہے۔ [36:71, 2:155] بدقسمتی سے غیر احمدی مسلمان علماءایسی آیات کی تعبیر و تشریح حقیقی روحانی معنوں کی بجائے ظاہری الفاظ کے مطابق کرتے ہیں۔ ایسی تشریحات کرتے ہوئے یہ علماءقرآنِ کریم کا وہ محکم اصول نظر انداز کردیتے ہیں جس کے مطابق مردے کبھی واپس نہیں آتے اور جو ایک دفعہ فوت ہوجاتا ہے وہ قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ نہیں ہوگا۔ [21:96,23:100 23:101, 36:32, 39:43]
سو سال مرنے کے بعد زندہ
یہ علماءکہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی آیت (2:260) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کو سو سال کے لئے مار دیا اور پھر دوبارہ زندہ کردیا۔اس واقعے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ 586 قبل مسیح میں نوبخت نصر کے ہاتھوں یروشلم کی تباہی کے بعد حزقیل نبی نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ یہ شہر دوبارہ کب آباد ہوگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خواب دکھایا جس میں بتایا گیا تھاکہ یہ شہر سو سال کے بعد دوبارہ آباد ہوگا۔ یہ خواب بائبل میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (حزقیل۔37)۔ یہ قرآنِ کریم کا طرزِ بیان ہے کہ خواب میں دیکھے گئے واقعات (مثلًا حضرت یوسف ؑ کی خواب ۔ 12:5) کو بھی ایسے بیان کیا جاتا ہے گویا کہ وہ حقیقت میں دیکھے جارہے ہیں۔ بصورتِ دیگرحزقیل نبی کو سو سال کے لئے ماردینا اور پھر زندہ کردینا اُن کے سوال کا جواب نہیں ہوسکتا۔اُن کا سوال شہر کے دوبارہ آباد ہونے کے متعلق تھا جس کا جواب انہیں خواب میں نظارہ دکھا کر دے دیا گیا۔ یہ خواب بعد میں ویسے ہی پورا بھی ہوگیا اور ٹھیک ایک سو سال بعد یروشلم دوبارہ آباد ہوگیا۔ اُن کے کھانے کے تازہ رہنے اور گدھے کے زندہ ہونے کی طرف اشارہ کرنے کا بھی یہی مطلب تھا کہ وہ سو سال تک مرے نہیں رہے بلکہ یہ چند گھڑیوں کا ایک خواب تھا۔
ذبح شدہ پرندوں کا دوبارہ زندہ ہونا
بدقسمتی سے سورہ البقرۃ کی آیت (2:261) میں بیان کردہ واقعہ کی بھی ظاہری الفاظ میں تشریح کی جاتی ہے گویا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے ظاہری مردوں کے زندہ ہونے کے متعلق سوال کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے حقیقتًا چار پرندوں کو ذبح کیا، اُن کا قیمہ بنایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کرکے حضرت ابراہیم ؑ کو بتایا کہ اس طرح وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا تھا کہ روحانی طور پر مردہ یہ لوگ کیسے زندہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پرندوں کی مثال کے ذریعے سمجھایا کہ جس طرح پرندوں کو سدھا کراپنے ساتھ مانوس کیا جاتا ہے اور پھر انہیں بلایا جائے تو اگر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی ہوں تو وہ وہاں سے بھی اُن کے پاس آجاتے ہیں۔اسی طرح انسانوں کے ساتھ بھی دلی تعلقات استوار کئے جائیں اور پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بُلایا جائے تو وہ اُس کی طرف آسکتے ہیں۔ اس آیت میں ”فصرھن الیک“ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ عربی زبان کے قواعد کے مطابق اگر ”صُر“ کے ساتھ ”الیٰ“ کا صلہ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب اپنی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ اس صلہ کے بغیر اس کا مطلب کاٹنا ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ یہاں پرندوں کا قیمہ کرنا مراد نہیں بلکہ اپنے ساتھ مانوس کرنا مراد ہے۔
اصحابِ کہف
اصحابِ کہف کا واقعہ بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے جسے قوانینِ قدرت سے بالا اور ایک مافوق الفطرت بات بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اسی سورۃ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہ کیا لوگ اصحابِ کہف کے واقعہ کو کوئی عجیب بات سمجھتے ہیں؟ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ابتدائی دور کے مسیحیوں کو خدائے واحد پر ایمان رکھنے کے باعث بت پرست رومیوں کے ہاتھوں بہت تکالیف اٹھانی پڑیں۔ یہ سلسلہ وقفوں کے ساتھ 300 سال تک جاری رہا یہاں تک کہ کانسٹنٹائن نامی بادشاہ خود عیسائی ہوگیا اور اس نے اپنے نئے مذہب کو روم کا قومی مذہب بنادیا۔ خود کو ان مظالم سے بچانے کے لئے ان بے بس مسیحیوں کو زمین دوز غاروں میں پناہ لینی پڑتی تھی جو ”کیٹاکومبز“ کے نام سے آج بھی روم اور سکندریہ کے گردونواح کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان غاروں کے دہانوں پر ان لوگوں نے کتے رکھے ہوتے تھے جو انہیں خطرے سے خبردار کرتے تھے۔ مسیحی اقوام میں کتے سے محبت اسی دور کی نشانی ہے۔ چنانچہ اصحابِ کہف چند عیسائی نوجوان نہیں بلکہ تین صدیوں تک رومیوں کے مظالم سے بچ کر غاروں میں پناہ لینے والے مؤحد مسیحی تھے۔