حضرت ارقم بن ابی ارقمؓ
حضرت ارقم بن ابی ارقم کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ حضرت ارقم کی والدہ کا نام اُمَیْمَہ بنت حارث تھا۔ بعض روایت میں ان کا نام تُمَاضِرْ بنتِ حُذَیْم اور صَفْیَہ بنت حارِث بھی بیان ہوا ہے۔
حضرت ارقم کا تعلق قبیلہ بنو مَخْزُوم سے تھا۔ آپ اسلام لانے والے اولین صحابہ میں سے تھے۔ بعض کے نزدیک جب آپؓ ایمان لائے تو آپؓ سے قبل گیارہ افراد اسلام قبول کر چکے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ نے ساتویں نمبر پر اسلام قبول کیا۔ حضرت عُروہ بن زُبیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت ارقم، حضرت ابوعُبَیدہ بن جَرَّاح اور حضرت عثمان بن مَظْعُونؓ اکٹھے ایک ہی وقت میں ایمان لائے۔ حضرت ارقم کا ایک گھر مکہ سے باہر کوہِ صفا کے پاس تھا جو تاریخ میں دارِ ارقم کے نام سے مشہور ہے۔ دارِ ارقم ان کا گھر تھا۔ اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام قبول کرنے والے افراد عبادت کیا کرتے تھے۔ یہیں پر حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تھا۔ ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد یعنی حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں کی تعداد40 ہو گئی تھی اور وہ اس گھر سے باہر نکلےتھے۔ یہ گھر حضرت ارقم کی ملکیت میں رہا۔ پھر آپؓ کے پوتوں نے یہ گھر ابوجعفر منصور کو فروخت کر دیا۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 187 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)، (اصابہ جلد 1صفحہ 197 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)، (مستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 574 حدیث 6127 کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر ارقم بن ابی الارقم مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
اس کے بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ہے تفصیل یہ ہے کہ اسلام کے پہلے تبلیغی مرکز یعنی دارِ ارقم کے بارے میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال پیدا ہوا کہ مکہ میں ایک تبلیغی مرکز قائم کیا جاوے جہاں مسلمان نماز وغیرہ کے لئے بے روک ٹوک جمع ہو سکیں اور امن و اطمینان اور خاموشی کے ساتھ باقاعدہ اسلام کی تبلیغ کی جا سکے۔ اس غرض کے لئے ایک ایسے مکان کی ضرورت تھی جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو۔ چنانچہ آپؐ نے ایک نَومسلم ارقم بن ابی ارقم کا مکان پسند فرمایا جو کوہِ صفا کے دامن میں واقع تھا۔ اس کے بعد تمام مسلمان یہیں جمع ہوتے، یہیں نماز پڑھتے، یہیں متلاشیان حق آتے۔ ‘‘ یعنی جن کو دین کی تلاش تھی اور اسلام کا پیغام سنتے تھے وہ سننے کے لئے اور سمجھنے کے لئے آتے تھے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیضیاب ہونے کے لئے آتے تھے‘‘ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اسلام کی تبلیغ فرماتے۔ اسی وجہ سے یہ مکان تاریخ میں خاص شہرت رکھتا ہے اور دارالاسلام کے نام سے مشہور ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریباً تین سال تک دارِ ارقم میں کام کیا یعنی بعثت کے چوتھے سال آپؐ نے اسے اپنا مرکز بنایا اور چھٹے سال کے آخر تک آپؐ نے اس میں اپنا کام کیا۔ ‘‘ اپنےاس مشن کو جاری رکھا اور ’’مؤرخین لکھتے ہیں کہ دارِ ارقم میں اسلام لانے والوں میں آخری شخص حضرت عمرؓ تھے جن کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور وہ دارِ ارقم سے نکل کر برملا تبلیغ کرنے لگ گئے۔ ‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 129)
مدینہ ہجرت کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مؤاخات حضرت اَبُو طَلْحَہ زَید بن سَہْل کے ساتھ قائم فرمائی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 185 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت اَرْقَم غزوۂ بدر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مال غنیمت میں سے ایک تلوار انہیں دی تھی۔ حضرت اَرْقَم غزوۂ بدر، احد سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو مدینہ میں ایک گھر بھی دیا تھا۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صدقات کی وصولی کے لئے بھی مقرر کر کے بھجوایا تھا۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 198 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)(اصابہ جلد 1صفحہ 187 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
تاریخ میں یہ بھی ہے کہ حضرت ارقم معاہدہ حلف الفضول میں بھی شامل ہوئے تھے۔ (استیعاب جلد 1 صفحہ 131 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء) وہ معاہدہ جو غریبوں کی مدد کرنے کے لئے اسلام سے پہلے مکہ کے رہنے والے بڑے لوگوں نے کیا تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھے۔ حضرت ارقم کے بیٹے عثمان بن اَرْقَم روایت کرتے ہیں کہ میرے والد کی وفات 53 ہجری میں ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر 83 سال تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کی 55 ہجری میں وفات ہوئی۔ عمر کے بارے میں اختلاف ہے کہ اسّی سال تھی یا اس سے کچھ اوپرتھی۔ حضرت ارقم نے وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ پڑھائیں جو صحابی تھے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ عَقِیْق مقام میں تھے اور وہاں سے دور تھے۔ مروان نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی کسی غیر حاضر شخص کی وجہ سے دفن نہ کیا جائے۔ موجود نہیں ہیں اس لئے صحابی کی نعش کو اس وقت تک رکھا جائے جب تک وہ آ نہ جائیں اور چاہا کہ ان کی نماز جنازہ خود پڑھا دیں مگر عُبَید اللہ بن اَرْقم نے مروان کی بات نہ مانی اور سَعْد بن اَبی وقاصؓ کے آنے پر حضرت ارقم کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور جَنَّتُ البقیع میں دفن کئے گئے۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 188 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
ان کے متعلق ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ حضرت ارقم نے بیت المقدس جانے کے لئے رخت سفر باندھا، تیاری کی، جانا چاہتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفر پر جانے کے لئے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تم وہاں بیت المقدس میں کسی ضرورت کے لئے یا تجارت کی غرض سے جا رہے ہو؟ حضرت ارقم نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ کوئی کام نہیں ہے اور نہ تجارت کی غرض سے جانا ہے بلکہ بیت المقدس میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں ایک نماز اَور مسجدوں کی ہزاروں نمازوں سے بہتر ہے یعنی یہاں مدینے میں سوائے کعبہ کے جس پر حضرت ارقم نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 187 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)