اسلام میں خلافت کا نظام
حضرت مرزا بشیر احمدؓ، ایم اے
خلافت کا مضمون موٹے طور پر مندرجہ ذیل شاخوں میں تقسیم شدہ ہے۔ (۱) خلافت کی تعریف (۲) خلافت کی ضرورت (۳) خلافت کا قیام (۴) خلافت کی علامات (۵) خلافت کے اختیارات (۶) خلافت سے عزل کا سوال اور (۷) خلافت کا زمانہ۔ میں ان سب کے متعلق مختصر فقرات میں جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ واللہ الموفق والمستعان۔
خلافت کی تعریف
سب سے اول نمبر پر خلافت کی تعریف کا سوال ہے یعنی یہ کہ خلافت سے مراد کیا ہے اور نظام خلافت کس چیز کا نام ہے؟ سو جاننا چاہئے کہ خلافت ایک عربی لفظ ہے جس کے لغوی معنی کسی کے پیچھے آنے یا کسی کو قائم مقام بننے یا کسی کا نائب ہو کر اس کی نیابت کے فرائض سرانجام دینے کے ہیں۔ اور اصطلاحی طور پر خلیفہ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اول وہ ربانی مصلح جوخدا کی طرف سے دنیا میں کسی اصلاحی کام کے لئے مامور ہوکر مبعوث کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس معنی میں تمام انبیاء اور رسول خلیفۃ اللہ کہلاتے ہیں کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے نائب ہونے کی حیثیت میں کام کرتے ہیں اور انہی معنوں میں قرآن شریف نے حضرت آدم ؑ اور حضرت داؤد ؑ کو’’ خلیفہ‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ دوم وہ برگزیدہ شخص جو کسی نبی یا روحانی مصلح کی وفات کے بعد اس کے کام کی تکمیل کے لئے اس کا قائم مقام اور اس کی جماعت کا امام بنتا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ؑ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما خلیفہ بنے۔
خلافت کی ضرورت
دوسرا سوال خلافت کی ضرورت کا ہے یعنی نظام خلافت کی ضرورت کس غرض سے پیش آتی ہے؟۔ سو اس کے متعلق جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت و دانائی کے ماتحت ہوتا ہے۔ چونکہ اس کے قانون طبعی کے ماتحت انسان کی عمر محدود ہے لیکن اصلاح کا کام لمبے زمانہ کی نگرانی اور تربیت چاہتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے نبوت کے بعد خلافت کا نظام مقرر فرمایا ہے تا کہ نبی کی وفات کے بعد خلفاء کے ذریعہ اس کے کام کی تکمیل ہو سکے ۔ گویا جو تخم نبی کے ذریعہ بویا جاتا ہے اسے خدا تعالیٰ خلفاء کے ذریعہ اس حد تک تکمیل کو پہنچا نے کا انتظام فرماتا ہے کہ وہ ابتدائی خطرات سے محفوظ ہو کر ایک مضبوط پودے کی صورت اختیار کر لے۔ ا س سے ظاہر ہے کہ خلافت کا نظام دراصل نبوت کے نظام کی فرع اور اس کا تتمہ ہے۔ اسی لئے ہمارے آقا ﷺ حدیث میں فرماتے ہیں کہ ہر نبوت کے بعد خلافت کا نظام قائم ہوتا ہے۔
خلافت کا قیام
چونکہ خلافت کا نظام نبوت کے نظام کی فرع اور اور اس کا تتمہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے قیام کو نبوت کی طرح اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تا کہ خدا کے علم میں جو شخص بھی حاضر الوقت لوگوں میں سے اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہو وہی مسند خلافت پر متمکن ہو سکے۔ البتہ چونکہ نبی کی بعثت کے بعد مومنوں کی ایک جماعت وجود میں آ چکی ہوتی ہے اور وہ نبوت کے فیض سے تربیت یافتہ بھی ہوتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ خلافت کے انتخاب میں مومنوں کو بھی حصہ دار بنا دیتا ہے تا کہ وہ اس کی اطاعت بجا لانے اور اس کے ساتھ تعاون کرنے میں زیادہ شرح صدر محسوس کریں۔ اس طرح خلیفہ کا انتخاب ایک عجیب وغریب مخلوط قسم کا رنگ رکھتا ہے کہ بظاہر مومن انتخاب کرتے ہیں مگر حقیقۃً خدا کی تقدیر پوری ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ مومنوں کے دلوں پر تصرف فرما کر ان کی رائے کو اہل شخص کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ اسی لئے قرآن شریف میں ہر جگہ خلفاء کے تقرر کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے اور باربار فرمایا ہے کہ خلیفہ میں بناتا ہوں۔ اور اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے متعلق حدیث میں فرماتے ہیں کہ میرے بعد خدا اورمومنوں کی جماعت ابوبکرؓ کے سوا کسی اور شخص کی خلافت پر راضی نہیں ہونگے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی رسالہ الوصیت میں یہی نکتہ بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے خود حضرت ابوبکرؓ کو کھڑا کر کے مسلمانوں کی گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیا اور حضرت ابوبکرؓ کی مثال پر خود اپنے متعلق بھی فرماتے ہیں کہ میرے بعد بعض اور وجود ہونگے جو خدا کی دوسری قدرت کا مظہر ہونگے۔ ان حوالوں سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ گوبظاہر خلافت کے تقرر میں مومنوں کی رائے کا بھی دخل ہوتا ہے لیکن حقیقۃً تقدیر خدا کی چلتی ہے۔
خلافت کی علامات
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلافت کی علامات کیا ہیں جس سے ایک سچے خلیفہ کو شناخت کیا جا سکے؟ سو جاننا چاہئے کہ جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ برحق کی دو بڑی علامتیں ہیں۔ ایک علامت وہ ہے جو سورہ نور کی آیت استخلاف میں بیان کی گئی ہے یعنی:
(لیمکنن لھم دینھم الذی ارتضیٰ لھم و لیبدلنھم من بعد خوفھم امناً۔ یعبدوننی لا یشرکون بی شیئاً)
یعنی ’’سچے خلفاء کے ذریعہ خدا تعالیٰ دین کی مضبوطی کا سامان پیدا کرتا ہے اور مومنوں کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دیتا ہے۔ یہ خلفاء صرف میری ہی عبادت کرتے ہیں اور میرے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہیں ٹھہراتے‘‘۔ پس جس طرح ہر درخت اپنے ظاہری پھل سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح سچا خلیفہ اپنے اس روحانی پھل سے پہچانا جاتا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ ازل سے مقدر ہوچکا ہے۔
دوسری علامت حدیث میں بیان کی گی ہے جو یہ ہے کہ استثنائی حالات کو چھوڑ کر ہر خلیفہ کا انتخاب مومنوں کی اتفاق رائے یا کثرت رائے سے ہونا چاہئے کیونکہ گو حقیقۃً تقدیر خدا کی چلتی ہے مگر خدا نے اپنی حکیمانہ تدبیر کے ماتحت خلفاء کے تقرر میں بظاہر مومنوں کی رائے کا بھی دخل رکھا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے تعلق میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ (یدفع اللہ و یأبی المومنون) یعنی نہ تو خدائی تقدیر ابوبکرؓ کے سوا کسی اور کو خلیفہ بننے دے گی اور نہ ہی مومنوں کی جماعت کسی اور کی خلافت پر راضی ہوگی۔ پس ہر خلیفہ برحق کی یہ دوہری علامت ہے کہ (۱) وہ مومنوں کے انتخاب سے قائم ہو اور (۲) خدا تعالیٰ اپنے فعل سے اس کی نصرت اور تائید میں کھڑا ہو جائے اور اس کے ذریعہ دین کو تمکنت پہنچے۔ اس کے سوا بعض اور علامتیں بھی ہیں مگر اس جگہ اس تفصیل کی گنجائش نہیں۔
خلافت کی برکات
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے خلافت کا نظام ایک بہت ہی مبارک نظام ہے جس کے ذریعہ آفتاب نبوت کے ظاہری غروب کے بعد اللہ تعالیٰ ماہتاب نبوت کے طلوع کا انتظام فرماتا ہے۔ اورالٰہی جماعت کواس دھکے کے اثرات سے بچا لیتا ہے جو نبی کی وفات کے بعد نوزائیدہ جماعت پر ایک بھاری مصیبت کے طور پر وارد ہوتا ہے۔ نبی کا کام جیسا کہ قرآن شریف کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے تبلیغ ہدایت کے ساتھ ساتھ مومنوں کی جماعت کی دینی تعلیم ، ان کی روحانی و اخلاقی تربیت اور ان کی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے۔ اور یہ سارے کام نبی کی وفات کے بعد خلیفہ وقت کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں جس کا وجود جماعت کو انتشار سے بچاکر انہیں ایک مضبوط لڑی میں پروئے رکھتا ہے ۔ علاوہ ازیں نبی کا وجود جماعت کے لئے محبت اور اخلاص کے تعلقات کا روحانی مرکز ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ اتحاد اور یک جہتی اور باہمی تعاون کا زریں سبق سیکھتے ہیں اور خلیفہ کا وجود اس درس وفا کو جاری اور تازہ رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے جماعت کے وجود کو جو ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی وجہ سے خلیفہ کے وجود کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ایک بہت بڑی نعمت قرار دیا ہے اور اسے انتہائی اہمیت دی ہے اورجماعت میں انتشار پیدا کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’من شَذَّ شُذَّ فی النار ‘‘ ۔یعنی جو شخص جماعت سے کٹتا ہے اور اس کے اندر تفرقہ پیدا کرتا ہے وہ اپنے لئے آگ کا راستہ کھولتا ہے۔ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں ’’علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء المھدیین‘‘ یعنی اے مسلمانو! تم پر تمام دینی امور میں میری سنت پر عمل کرنا اور میرے بعد میرے خلفاء کے زمانہ میں ان کی سنت پر عمل کرنا بھی واجب ہوگا۔ کیونکہ وہ خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہونگے۔ پس خلافت کا نظام ایک نہایت ہی بابرکت نظام ہے جس کے ذریعہ جماعتی اتحاد اور مرکزیت کے علاوہ جس کی ہر نوزائیدہ جماعت کو بھاری ضرورت ہوتی ہے نبوت کا نور جماعت کے سر پر جلوہ افروز رہتاہے اور یہ ایک بہت بڑی نعمت اور بہت بڑی برکت ہے۔
خلافت کے اختیارات
اگلا سوال خلافت کے اختیارات سے تعلق رکھتا ہے ۔ سو اس سوال کے جواب کو سمجھنے کے لئے بنیادی نکتہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خلافت ایک روحانی نظام ہے جس میں حکومت کا حق اوپر سے نیچے کو آتا ہے۔ اور چونکہ خلافت کا نظام نبوت کے نظام کی فرع ہے اور دوسری طرف شریعت ہمیشہ کے لئے مکمل ہو چکی ہے اس لئے جس طرح شریعت کے حدود کے اندر اندر نبوت کے اختیارات وسیع ہیں اسی طرح شریعت و سنت نبوت کی حدود کے اندر اندر خلافت کے اختیارات بھی وسیع ہیں یعنی ایک خلیفہ اسلامی شریعت کی حدود کے اندر اندر اور اپنے نبی متبوع کی سنت کے تابع رہتے ہوئے الٰہی جماعت کے نظم و نسق میں وسیع اختیارات رکھتا ہے۔ موجود ہ زمانہ کے جمہوریت زدہ نوجوان اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ ایک واحد شخص کے اختیارات کو اتنی وسعت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن انہیں سوچنا چاہئے کہ اول تو خلافت کسی جمہوری اور دنیوی نظام کا حصہ نہیں بلکہ روحانی اور دینی نظام کا حصہ ہے جس کا حق خدا تعالیٰ کے ازلی حق کا حصہ بن کر اوپر سے نیچے کوآتا ہے اور خدا کا سایہ خلفاء کے سر پر رہتا ہے ۔ دوسرے جب ایک خلیفہ کے لئے شریعت کی آہنی حدود معین ہیں اور نبی متبوع کی سنت کی چاردیواری بھی موجود ہے تو ان ٹھوس قیود کے ماتحت اس کے اختیارات کی وسعت پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ نبی کے بعد خلیفہ کا وجود یقیناً ایک نعمت اور رحمت ہے اور رحمت کی وسعت بہرحال برکت کا موجب ہوتی ہے نہ کہ اعتراض کا۔ بایں ہمہ اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ چونکہ خلیفہ کے انتخاب میں بظاہر لوگوں کی رائے کا بھی دخل ہوتا ہے اس لئے اسے تمام اہم امور میں مومنوں کے مشورہ سے کام کرنا چاہئے۔ بے شک وہ اس بات کا پابند نہیں کہ لوگوں کے مشورہ کو ہر صورت میں قبول کرے لیکن وہ مشورہ حاصل کرنے کا پابند ضرور ہے تا کہ اس طرح ایک طرف تو جماعت میں ملی اور دینی سیاست کی تربیت کا کام جاری رہے اور دوسری طرف عام کاموں میں مشورہ قبول کرنے سے جماعت میں زیادہ بشاشت کی کیفیت پیدا ہوا۔ لیکن خاص حالات میں ’’فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکّلْ عَلَی اللّہ ‘‘ کا مقام بھی قائم رہے۔یہ ایک بہت لطیف فلسفہ ہے ’’وَلکِن قَلِیلاً مَا یَتَفَکّرُون‘‘۔
خلافت سے عزل کا سوال
جن لوگوں نے خلافت کے مقام کو نہیں سمجھا وہ بعض اوقات اپنی نادانی سے خلیفہ کے عزل کے سوال میں الجھنے لگتے ہیں۔ وہ دنیا کے جمہوری نظاموں کی طرح خلافت کو بھی ایک دنیوی نظام خیال کر کے حسب ضرورت خلیفہ کے عزل کا رستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک انتہادرجہ کی جہالت کا خیال ہے جو خلافت کے حقیقی مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔حق یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے خلافت ایک روحانی نظام ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص تصرف کے ماتحت نبوت کے تتمہ اور تکملہ کے طور پر قائم کیا جاتا ہے۔ اور گو اس میں مصلحت الٰہی سے بظاہر لوگوں کی رائے کا بھی دخل ہوتا ہے مگر حقیقۃً وہ خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر کے ماتحت قائم ہوتا ہے اور پھر وہ ایک اعلیٰ درجہ کا الٰہی انعام بھی ہے۔ پس اس کے متعلق کسی صورت میں عزل کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا ۔ اسی لئے حضرت عثمانؓ کی خلافت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ :
’’ خدا تجھے ایک قمیص پہنائے گا مگر منافق لوگ اسے اتار نا چاہیں گے لیکن تم اسے ہر گز نہ اتارنا‘‘اس مختصر ارشاد میں خلافت کے بابرکت قیام اور عزل کی ناپاک تحریک کا سارا فلسفہ آ جاتا ہے۔ پھر نادان لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر باوجود اس کے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اس کے عزل کا سوال اٹھ سکتا ہے تو پھر نعوذباللہ ایک نبی کے عزل کا سوال کیوں نہیں اٹھ سکتا؟ پس حق یہی ہے کہ خلفاء کے عزل کاسوال بالکل خارج از بحث ہے اور انبیاء کی طرح ان کے مزعومہ عزل کی ایک ہی صورت ہے کہ خدا انہیں موت کے ذریعہ دنیا سے اٹھا لے۔ خوب یاد رکھو کہ خلافت کے عزل کا سوال خلافت کے قیام کی فرع ہے نہ کہ ایک مستقل سوال۔ پس اگر یہ ایک حقیقت ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں اس نے باربار اعلان فرمایا ہے اور جیسا کہ ہمارے آقا ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عثمانؓ کے معاملہ میں صراحت فرمائی ہے تو عزل کا سوال کسی سچے مومن کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اسلام تو اس ضبط و نظم کا مذہب ہے کہ اس نے دنیوی حکمرانوں کے متعلق بھی جو محض لوگوں کی رائے سے یا ورثہ کی صورت میں قائم ہوتے ہیں تعلیم دی ہے کہ ان کے خلاف سر اٹھانے اور ان کے عزل کی کوشش کرنے کے درپے نہ ہو ’’ اِلاّ اَنْ تَروا کْفراٰ بَوا حاً‘‘(سوائے اس کے کہ تم ان کے رویہ میں خدائی قانون کی صریح بغاوت پاؤ)۔ تو کیا وہ خدا کے بنائے ہوئے خلفاء اور نبی کے مقدس جانشینوں کے متعلق عزل کی اجازت دے سکتا ہے؟ھَیھَاتَ ھَیھَاتَ بِمَا تُومَرُون۔
خلافت کا زمانہ
بالآخر اس بحث میں خلافت کے زمانہ کا سوال پیدا ہوتا ہے سو ظاہر ہے کہ جب خلافت خدا کا ایک انعام ہے اور وہ نبوت کے کام کی تکمیل کے لئے آتی ہے تو لازماً اس کے قیام کی دو ہی شرطیں سمجھی جائیں گی۔ اول یہ کہ خدائے حکیم و علیم کے علم میں مومنوں کی جماعت میں اس کی اہلیت رکھنے والے لوگ موجود ہوں اور دوسرے یہ کہ نبوت کے کام کی تکمیل کے لئے اس کی ضرورت باقی ہو۔ اور چونکہ یہ دونوں باتیں خدا تعالیٰ کے مخصوص علم سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے کسی دور میں خلافت کے زمانہ کا علم بھی صرف خدا کو ہی ہو سکتا ہے۔ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نبوت کے متعلق فرماتا ہے ’’ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ‘‘ یعنی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے سپرد کرے گا۔ اور چونکہ خلافت کا نظام بھی نبوت کے نظام کی فرع ہے اس لئے اس کے لئے بھی یہی قانون نافذ سمجھا جائے گا جو اس لطیف آیت میں نبوت کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔ اب چونکہ ’حیث‘ کا لفظ جو اس آیت میں رکھا گیا ہے ۔ عربی زبان میں ظرف مکان اور ظرف زمان دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اس لئے اس آیت کے مکمل معنی یہ بنیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس بات کو بہتر جانتا ہے کہ نبوت اور اس کی اتباع میں خلافت پر کسی شخص کو فائز کرے اور پھر کس عرصہ تک کے لئے اس انعام کو جاری رکھے؟ پس جب تک کسی الٰہی جماعت میں خلافت کی اہلیت رکھنے والے لوگ موجود رہیں گے اور پھر جب تک خدا کے علم میں کسی الٰہی جماعت کے لئے نبوت کے کام کی تکمیل اور اس کی تخمریزی کے نشوونما کی ضرورت باقی رہے گی خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اور اگر کسی وقت ظاہری اور تنظیمی خلافت کا دور دبے گا تو اس کے مقابل پر اسلام کی خدمت کے لئے روحانی خلافت کا دور ابھر آئے گا اور اس طرح انشاء اللہ اسلام کے باغ پر کبھی دائمی خزاں کا غلبہ نہیں ہوگا۔ ذالک تقدیر العزیز العلیم ولا حول و لا قوةالا باللہ العزیز العظیم۔
الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍مئی ۱۹۹۷ء تا ۲۹؍مئی ۱۹۹۷ء