الاسراءوالمعراج

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسمانی رفع ثابت کرنے کے لئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جسمانی طور پر معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ چنانچہ کسی انسان کا جسم سمیت آسمان پر جانا ممکن ہے۔ اس دعویٰ کے برعکس قرآن و حدیث کے مندرجہ ذیل دلائل یہ ثابت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج جسمانی نہیں بلکہ روحانی تھا۔ احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ اسراءاور معراج دو الگ الگ واقعات تھے۔ معراج یعنی آسمان پر جانے کا واقعہ 5 نبوی میں ہوا جب آپ خانہ کعبہ یعنی مسجدِ حرام میں سورہے تھے جبکہ اسراءیعنی بیت المقدس جانے کا واقعہ 11 نبوی میں ہوا جب آپ اپنی چچا زاد بہن امّ ہانی ؓ کے گھر سورہے تھے۔ دونوں واقعات میں سونے کی حالت کا مشترک ہونا بتاتا ہے کہ یہ واقعات جسمانی نہیں بلکہ روحانی تھے۔

آنکھ نے نہیں دل نے دیکھا:

اگر معراج جسمانی ہوتا تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کو جسمانی آنکھ سے دیکھتے لیکن قرآن و حدیث میں ذکرہے کہ جو کچھ بھی دیکھا گیا دل سے دیکھا گیا۔ مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی‏ (النجم 53:12)

”اور دل نے جھوٹ بیان نہیں کیا جو اس نے دیکھا “

وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ

اور وہ خواب جو ہم نے تجھے دکھایا اُسے ہم نے نہیں بنایا مگر لوگوں کے لئے آزمائش۔۔۔“ (بنی اسرائیل 17:61)

”عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ قَالَ رَاٰہُ بَفُوَٴادِہ مَرَّتَیْنِ “: ابن عبّاس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا۔“ (مسلم کتاب الایمان)

حضرت عا ئشہ ؓ فرماتی ہیں

من زعم ان محمد صلی اللہ علیہ وسلم رای ربہ فقد اعظم علی اللہ القریة۔۔۔ اولم تسمع ان اللہ عزوجل یقول لا تدرکہ الابصار و ھو یدرک الابصار۔۔۔

” جو اس بات کا قائل ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا ۔۔۔ کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنکھیں اس تک نہیں پہنچتیں بلکہ وہ آنکھوں تک پہنچتا ہے۔“ (مسلم کتاب الایمان)

کفارِ مکّہ کا مطالبہ

کفارِ مکّہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہمارے لئے ایک کتاب لے آئیں تب ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ ایسی باتوں سے پاک ہے۔ یعنی وہ کبھی بھی کسی انسان کو جسم سمیت اوپر نہیں لے کرگیا اور میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں۔ لہٰذا اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی طور پر آسمان پر جانے کے عقیدہ کو مانا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ نہ بشر ہیں نہ رسول۔

اَوۡ یَکُوۡنَ لَکَ بَیۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ اَوۡ تَرۡقٰی فِی السَّمَآءِ ؕ وَ لَنۡ نُّؤۡمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیۡنَا کِتٰبًا نَّقۡرَؤُہٗ ؕ قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا

”یا تُو آسمان میں چڑھ جائے۔ مگر ہم تیرے چڑھنے پر بھی ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تُو ہم پر ایسی کتاب اتارے جسے ہم پڑھ سکیں۔ تُو کہہ دے کہ میرا ربّ (ان باتوں سے)  پاک ہے (اور) میں تو ایک بشر رسول کے سوا کچھ نہیں۔“ (بنی اسرائیل 17:94)

مسجدِ حرام میں سوئے ۔ جاگے تو وہیں تھے

صحیح بخاری میں مذکور مندرجہ ذیل حدیث پوری وضاحت سے یہ ثابت کررہی ہے کہ یہ سارا نظارہ روحانی تھا۔ اس حدیث کے شروع میں کہا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ حرام میں سورہے تھے۔ آپ کی آنکھیں تو بند تھیں لیکن دل جاگ رہا تھا۔ پھر اس حدیث کا اختتام ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ پھر حضور جاگ گئے اور آپ مسجدِ حرام میں ہی تھے۔ چنانچہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سارا نظارہ دل نے دیکھا جو جاگ رہا تھا جبکہ آنکھیں سورہی تھیں۔

و ھو نائم فی المسجد الحرام ۔۔۔ یریٰ قلبہ و تنام عینہ ولا ینام قلبہ ۔۔۔ واستیقظ و ھو فی المسجد الحرام

”اور آپ مسجدِ حرام میں سو رہے تھے ۔۔۔ آپ کا دل دیکھ رہاتھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں لیکن دل نہیں سورہا تھا ۔۔۔ اور آپ بیدار ہوئے تو مسجدِ حرام میں تھے۔“ (بخاری کتاب التوحید)

آپ کا جسم غائب نہیں ہوا

حضرت عائشہ صدیقہؓ خدا کی قسم کھا کر بیان فرماتی ہیں کہ معراج میں حضور کا جسم غائب نہیں ہوا تھا۔

’وَ اللّٰہِ مَا فُقِدَ جَسَدَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلٰکِن عُرِجَ بِرُوحِہ (تفسیر کشّاف)

اللہ کی قسم (معراج میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ آپ کی روح کے ذریعے معراج ہوئی تھی۔