’’الاسلام‘‘ (alislam.org)
امتیاز احمد راجیکی
اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَاءِ
(حصہ چہارم)
اس مضمون کی تیاری میں سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اور خلفائے عظام کے اقوالِ زرِّیں کے علاوہ انفرادی انٹرویوز، ایم -ٹی -اے کے پروگراموں اور سلسلہ کے لٹریچر سے استفادہ کیا گیا ہے۔
دریا کوزے میں بند ہونے لگے
مسیحؑ کی آمدِ ثانی کے ساتھ انتشارِ علوم کا جو سلسلہ وابستہ تھا وہ بیسویں صدی کے اختتام پر نئی نئی جولانیاں دکھانے لگا۔ قلم و کتاب اور کتابت و طباعت سے بڑھتے بڑھتے بات کمپیوٹر اور اس کی پیچیدہ جھلی دار زبان پر پھیلنے لگی۔ ’’بین الارضی بافتگری‘‘ (ورلڈ وائیڈ ویب worldwide web_www) نے عملاً پوری دنیا کو مکڑی کے جالوں کے اندر جکڑ لیا۔ علوم کے خزانے حرکتِ انگشت پر موقوف ہو گئے۔ اور ضخیم کتب خانے چٹکی بھر آلے کی زینت بن گئے۔ یوں فی الحقیقت دریا کو کوزے میں بند کرنے کے سامان مہیا ہونے لگے۔
جماعت کے مخلصین سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ کمپیوٹر سائنس اور تکنیکی معلومات (Information Technology _IT) کے ہر شعبے میں ہمارے نوجوان مہارت کے جوہر دکھانے لگے۔ اور نئے نئے علوم و تجربات سے نہ صرف اپنے کیریر کو نکھارنے میں مصروف ہو گئے؛ بلکہ جماعت کے لیے بھی ایک قیمتی اثاثہ بن گئے۔
’’الاسلام‘‘ (alislam.org) کا آغاز
انہی احباب میں ایک بہت ہی من موہنی شخصیت، حضرت مولانا نذیر علی احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے منجھلے صاحبزادے مکرم مرید احمد نذیر صاحب کی ہے جو 1995 میں مسجد ’’بیت الرحمٰن‘‘ کے قرب و جوار میں آ بسے۔ اس زمانے میں انٹرنیٹ کی آمد آمد بڑے زوروں پر تھی۔ ’’مسلم ٹیلیویژن احمدیہ‘‘ (MTA) اپنی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں سفر اختیار کر چکا تھا؛ تاہم انٹر نیٹ پر جماعت کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ جولائی 1995 میں ابتداً ایک احمدیہ بلاگ یا فورم AMC USA کے نام سے شروع کیا گیا جس میں لوگ تبادلۂ خیالات کرتے اور اپنے تبصرے درج کر دیا کرتے تھے۔ اسی سال موسمِ خزاں میں مرید نذیر صاحب تین اور نوجوانوں، لطیف اکمل، نذیر اور اطہر ملک صاحبان کے ساتھ مل کر ایم۔ٹی۔اے کے لیے ایک سافٹ وئر (software) اور فہرستِ مضامین (’’کیٹیلاگ‘‘ catalogue) کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ مسجد ’’بیت الرحمٰن‘‘ کے احاطے میں سیٹیلائٹ سگنلز کے لیے ’’ارضی مستقر‘‘ (earth station) کی حال ہی میں تنصیب مکمل ہوئی تھی؛ تاہم ابھی تک امامِ جماعت کے خطبات بذریعہ کیسیٹس احبابِ جماعت تک پہنچانے کا سلسلہ جاری تھا۔ اسی منصوبے کی تکمیل کے دوران میں انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ جماعت کی ایک سرکاری ویب سائٹ بنائی جائے جس سے ہمہ وقت استفادہ کیا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے ایک پلان تیار کر کے امیر صاحب محترم حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم کو پیش کیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا سوال یہ سامنے آیا کہ اسے کس نام سے رجسٹر کرایا جائے۔ اُس دور میں ویب سائٹ کا کاروبار نیا نیا تھا اور اپنی پسند کے نام دستیاب ہو سکتے تھے۔ ’’islam.org‘‘ نام لینے کی کوشش کی گئی تو پتا چلا کہ کوئی اور یہ نام لے چکا ہے۔ چنانچہ “islam.com” بھی رجسٹر کروا لیا گیا۔ اُس وقت یہی خیال تھا کہ “.com” کمرشل بزنس کے لیے مخصوص ہے، اسے بعد ازاں جماعت کی کتب کی فروخت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مرید نذیر صاحب نے “alislam.org” جماعت کے نام پر رجسٹر کروا کے ایک مفصل منصوبہ محترم امیر صاحب امریکہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضرت میاں مظفر احمد صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے بڑا علم، بصیرت اور ذہن رسا عطا فرمایا تھا۔ فوری طور پر تمام تفاصیل کو سمجھ کر اس کی اجازت دے دی۔
اُس زمانے میں موجودہ دور کی طرح انتہائی تیز رفتار انٹرنیٹ سسٹم نہیں تھا۔ اسے چلانے کے لیے ایک ’’ڈائیل اپ موڈم‘‘ (Dial up Modem) کی ضرورت پیش آتی تھی۔ چنانچہ ایک کمپیوٹر خرید کر اسے مسجد ’’بیت الرحمٰن‘‘ کے تہ خانے میں نصب کر دیا گیا۔ اور نیٹ کام سے سروس خرید کی موڈم اس کے ساتھ منسلک کر کے ستمبر 1995 کے آخر میں کام شروع کر دیا۔ ’’الاسلام‘‘ کا ابتدائی صفحہ بہت سادہ اور چند لائنوں پر مشتمل تھا کہ احمدیت کے بارے میں اگر کوئی اشتیاق رکھتا ہے تو ان بنیادی معلومات کے بعد فلاں فلاں ذریعے سے رابطہ قائم کرے۔
ایک کمپیوٹراور مستعار شدہ ساؤنڈ کارڈ کی فسوں سازیاں
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے خطبات کی آڈیو کیسیٹس ہر ہفتے احباب کو فراہم کی جاتی تھی۔ ویب سائٹ کے اجرا کے قریباً دو ماہ بعد خیال آیا کہ اگر اسے بھی وہاں ڈال دیا جائے تو احباب براہِ راست فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مرید صاحب بتاتے ہیں کہ اُس وقت آڈیو وڈیو کا باقاعدہ بجٹ نہیں تھا اور انفرادی طور پر بھی اتنی مالی استطاعت نہیں تھی؛ چنانچہ انہیں علم ہوا کہ کسی دوست کے پاس کمپیوٹر میں استعمال کرنے کے لیے ایک ساؤنڈ کارڈ پڑا ہوا ہے، وہ لے کر انہوں نے چند دوستوں سے بیس بیس ڈالرز کے عطیات لیے اور مسجد کی چھت پر ایک ڈش لگانے کے بعد اسے کمپیوٹر سے براہِ راست جوڑ دیا۔ ابتداً صرف حضورؒ کے خطبات کو دسمبر 1995 میں براہِ راست نشر کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس میں دشواری یہ تھی کہ بسا اوقات احباب اپنی کسی مجبوری یا مصروفیت کی بنا پر یہ موقع گنوا دیتے تھے اور خاص طور پر ویسٹ کوسٹ والوں کے لیے تین گھنٹے کے فرق کی بنا پر یہ بہت سخت مجاہدہ تھا۔ اس لیے یہ مطالبات شروع ہو گئے کہ اگر ان کی ریکارڈنگ ویب سائٹ پر ڈال دی جائے تو اپنی سہولت کے مطابق کسی بھی وقت اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ فروری، مارچ سے خطبات ریکارڈ کر کے ویب سائٹ پر ڈالنا شروع کر دئیے گئے۔ مرید صاحب ہر جمعہ کو خطبہ شروع ہونے سے پہلے مسجد آ جاتے اور اپنی نگرانی میں خطبہ کو محفوظ کر لیتے۔ بعد ازاں اور لوگ بھی آنا شروع ہو گئے۔ اس بات کی مسلسل نگرانی کرنا پڑتی تھی کہ بجلی بند ہونے کے باعث یا کسی کے غلطی سے سیوچ آف کر دینے کی وجہ سے ریکارڈنگ اور سروس میں انقطاع نہ پیدا ہو جائے۔ چنانچہ اس نگرانی کے لیے بعد ازاں ایک منظم طریق پر ڈیوٹیاں بھی لگائی جانے لگیں۔
جب یہ سلسلہ کامیابی سے چل پڑا تو اس کی توسیع کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور اختتامِ ہفتہ (weekend) پر اس ویب سائٹ کو مسلسل چلانا شروع کر دیا گیا۔ اس اثنا میں اس نئی ٹیکنالوجی میں ترقی ہوتی گئی۔ سمعی و بصری (audio-video) ہر دو ذرائع سے حضورؒ کے خطباتِ جمعہ کی رواں نشریات بھی ’’ایم۔ٹی۔اے‘‘ سے شروع ہو چکی تھیں۔ چنانچہ 10 مئی 1996 سے انہیں بھی ’’الاسلام‘‘ (alislam.org) کی زینت بنا دیا گیا؛ تاکہ دور دراز کے علاقوں میں جہاں ’’ایم۔ٹی۔اے‘‘ کی نشریات نہیں پہنچ پا رہی تھیں وہاں کے احباب بھی اس سہولت سے استفادہ کر سکیں۔ شروع شروع میں مسجد کے اوپر لگے ہوئے ڈش انٹینا سے براہِ راست تار کھینچ کر کمپیوٹر میں لگا دی جاتی مگر بعض اوقات وہ صحیح طور پر محفوظ نہ ہو پاتی تھیں۔ چنانچہ ’’ایم۔ٹی۔اے‘‘ امریکہ کے انچارج مکرم چوہدری منیر احمد صاحب سے مدد لی گئی کہ وہ حضورؒ کے خطبات کی ایک کی بجائے دو وڈیو ٹیپس تیار کر لیا کریں جسے مرید صاحب کمپیوٹر میں ڈال کر ویب سائٹ کے لیے تیار کرتے۔
حصولِ علم اور تجسسِ حقائق کے سامان
وقت کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح کی دعاؤں اور رہنمائی کے جلو میں یہ سفر آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ نئے نئے نوجوان خدمتگار اپنی نو خیز صلاحیتوں کو پرکھنے کے لیے اس میدان میں اترنے لگے۔ ان میں ایک بہت قیمتی اضافہ کینیڈا کے مکرم مسعود ناصر صاحب کا تھا جنہوں نے 1997 میں ’’الاسلام‘‘ (alislam.org) ویب سائٹ میں اردو حصے کا اضافہ کیا۔ اور ایک اعلیٰ درجے کے منتظم کے طور پر اس سائٹ کی نگرانی بھی شروع کر دی۔ یوں تاریخی دستاویزات اور کتب کو عملِ تقطیع (scanning) کے ذریعے محفوظ (archive) کرنے کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ اور ’’مسلم ٹیلیویژن احمدیہ‘‘ (MTA) کے پروگراموں کی ریکارڈنگ بھی ویب سائٹ پر محفوظ ہونے لگی۔ چنانچہ ذرائع ابلاغ کے یہ دونوں متوازی وسیلے احباب کے حصولِ علم اور تجسسِ حقائق کی تشنگی کی سیرابی کے سامان مہیا کرنے لگے۔ پاکستان، امریکہ اور جہاں جہاں بھی رضاکار میسر ہوتے ان سے جماعت کے لٹریچر کی سکیننگ کروا کے انہیں ویب سائٹ کی لائبریری میں ڈال دیا جاتا۔ آہستہ آہستہ یہ ایک بہت مؤثر آن لائن اسلامک یونیورسٹی کا روپ دھار گئی جس میں قرآن کریم، احادیثِ نبویہ، مسائلِ دینیہ اور اسلام و احمدیت سے متعلقہ تمام علمی مواد اور تراجم کے علاوہ جماعتی سرگرمیوں کی روداد اور پروگراموں اور نظموں کے ریکارڈ بھی موجود تھے۔
1997 میں پہلی بار جلسہ سالانہ امریکہ کے بعض پروگراموں کو ’’رواں برقی بہاؤ‘‘ (live streaming) کے ذریعے مقامی طور پر دکھائے جانے کی ابتدا ہوئی۔ اگرچہ اس وقت بہت کم احباب اس سہولت سے آشنا تھے، لوگوں کے پاس کمپیوٹر لیپ ٹاپ کی اس قدر بہتات نہیں تھی اور سمارٹ فونز تو ابھی عنقا تھے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے رضاکار ٹیکنالوجی کے ہر میدان میں پیش پیش تھے اور بسا اوقات ایسی نئی ایجادات (cutting-edge technology) سے بھی استفادہ کرتے جو ابھی مارکیٹ کی اشیائے صَرف اور مصنوعات (products) کا حصہ نہیں بنی تھیں۔
’’الاسلام‘‘ (alislam.org) ویب سائٹ ابتدا ہی سے روایتی طور پر جماعت احمدیہ امریکہ کی ذمہ داری رہی ہے۔ اگرچہ شروع شروع میں یہ باقاعدہ طور پر کسی شعبے سے منسلک نہیں تھی اور ان چند ایک بے لوث مخلص رضاکاروں کی مرہونِ منت تھی جنہیں امیر صاحب امریکہ کی ہدایت پر مکرم و محترم منور سعید صاحب کی نگرانی میں کام کرنے کی اجازت تھی۔ کبھی اسے تجنید ڈپارٹمنٹ سے منسلک سمجھا جاتا، کبھی یہ کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ یا AMC USA کے نام سے جانی جاتی جس کا جماعت میں کوئی خاص شعبہ نہیں تھا۔ اس ٹیم کے تکنیکی امور کے ماہر حسبِ معمول مکرم مرید نذیر صاحب ہی تھے تاہم انہیں ’’مسلم ٹیلیویژن احمدیہ‘‘ (MTA) کی ٹیم اور خصوصیت سے مکرم پیر حبیب الرحمٰن صاحب شہید مرحوم کا گہرا تعاون حاصل تھا۔ پیر صاحب شہید جماعت کے ایک بڑے مخلص اور بے لوث کارکن تھے۔ انہوں نے ایک لحاظ سے ’’مسلم ٹیلیویژن احمدیہ‘‘ (MTA) کے لیے اپنی زندگی ہمہ وقت وقف کر رکھی تھی۔ مقناطیسی شخصیت کے مالک اس شخص میں بڑی خوبی یہ تھی کہ جو کام انہیں سونپا جاتا ایک سلجھے ہوئے منتظم اور پراجیکٹ مینجر کی حیثیت سے پوری تن دہی سے سر انجام دیتے۔ شعبہ سمعی بصری کے ہر حصے سے ان کا گہرا رابطہ تھا اور بے پایاں تعاون اور انتھک لگن سے جس جگہ کسی کو ضرورت ہوتی مدد کے لیے پہنچ جاتے۔ مرید نذیر صاحب بتاتے ہیں کہ شروع شروع میں ایک بار کسی مجبوری کے باعث مسجد نہ پہنچ پانے کی وجہ خطبہ ریکارڈ کر کے ویب سائٹ پر نہ ڈالا جا سکا۔ جب پیر صاحب شہید کو علم ہوا تو اگلے روز چند خداموں کو ساتھ لے کر ان کے گھر پہنچ گئے اور ڈش انٹینا نصب کر دیا کہ اب گھر ہی سے یہ انتظام ہو جانا چاہیے۔
’’سدِّ آتش مزاحمت‘‘ (fire-wall) کی ضرورت
1997۔1998 میں انٹرنیٹ کا نظام بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے تھا اور جماعت کے نام پر بھی کئی انفرادی ویب سائٹس بننا شروع ہو گئی تھیں جس سے یہ خطرہ پیدا ہو رہا تھا کہ کوئی غیر ذمہ دارانہ اور قابلِ اعتراض مواد بھی نہ در آئے۔ چنانچہ مرکزی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جماعت کے نام پر تمام دوسری ویب سائٹس بند کر دی جائیں۔ صرف ’’الاسلام‘‘ (alislam.org) قائم رہے اور اس میں بھی پہلے سے شائع شدہ مصدقہ مواد وکالتِ تصنیف کی منظوری سے ڈالا جائے۔ اور اس کی حفاظت کے تمام ممکنہ انتظامات کیے جائیں۔ چنانچہ تکنیکی لحاظ (technical side) سے اس کے لیے مضبوط ’’سدِّ آتش مزاحمت‘‘ (fire-wall) اور دیگر رکاوٹوں کا بندوبست کیا گیا اور عِلمی و انتظامی سطح پر بھی تمام امکانی حفاظتی اقدامات کو ملحوظِ خاطر رکھا جانے لگا۔ یہ دَور جماعت کی شدید مخالفت کا تھا۔ اس لحاظ سے بھی بہت احتیاط کی ضرورت تھی کہ ویب سائٹ پر کوئی ایسی بات نہ پھیل جائے جو خاص طور پر پاکستان کے احمدیوں کی پریشانی کا باعث بننے کا موجب ہو۔
تنظیمِ نو—حیاتِ نو
سن 2000 میں اس سلسلے کا ایک اہم موڑ جو فی الحقیقت تاریخی لحاظ سے سنگِ میل ثابت ہوا، اس سارے نظام کا جماعت احمدیہ امریکہ کے پہلے سے موجود شعبہ ’’سمعی بصری‘‘ (audio-video department) سی الحاق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح کی ہدایت پر ’’احمدیہ انٹرنیٹ کمیٹی‘‘ (AMI) تشکیل دی گئی جو ’’الاسلام‘‘ (alislam.org) کا انتظام سنبھالنے لگی۔ اس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کراچی کے سابق امیر حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کے صاحبزادے مکرم و محترم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب ہیں جو پیشہ کے لحاظ سے ایک میڈیکل فزیشن ہیں مگر اپنے والد بزرگوار کی طرح بے پناہ انتظامی صلاحیتوں اور فہم و تدبر کے ایک نہایت اعلیٰ ذوق کے مالک ہیں۔ آپ کی بالعموم سنجیدہ اور متین طبیعت میں صبر اور حوصلے کے ساتھ ساتھ دروں پردہ ظرافت اور خوش خلقی کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے جسے گہرے طور پر سمجھنے کے لیے آپ کے بہت قریب ہونا پڑتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو بالغ نظری اور وسعتِ قلبی کے ساتھ ساتھ ایسی باریک بینی اور وسعتِ نظر عطا فرمائی ہے جو خلافت اور امارت کی منشا کو سمجھ کر پورے تیقّن اور اعتماد کے ساتھ مفوضہ فرائض بروئے کار لانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ آپ کی قیادت میں ذرائع رسل و ابلاغ کے یہ تمام وسائل منضبط و مربوط ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب کا وجود تکنیکی میدان میں کام کرنے والے جاں نثار رضاکاروں اور اعلیٰ انتظامیہ کے درمیان ایک رابطے اور پُل کی حیثیت اختیار کر گیا؛ چنانچہ دنیا بھر سے مختلف صلاحیتوں اور استعدادوں پر مبنی رضاکاروں کا ایک مرکزی نگران جتھہ (core team) بنایا گیا جو مختلف النوع امور کی نگرانی کرتا ہے۔ اس کے اراکین امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ، جرمنی، آسٹریلیا اور دیگر مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں جامعہ کے فارغ التحصیل مربیان بھی ہیں اور مختلف علوم و فنون اور کمپیوٹر سائنس کے ہر میدان کے ماہرین بھی ہمہ وقت خدمت میں مصروف ہیں۔ مکرم مسعود ناصر صاحب جو ٹیکنیکل فیلڈ کے ایک آزمودہ کار ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ علمی اور ادبی ذوق کے مالک ہیں بہت ابتدا سے ’’الاسلام‘‘ (alislam.org) کے منتظمِ اعلیٰ کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ بہت ابتدائی خدمتگزاروں میں مکرم اعجاز خان صاحب، مکرم چوہدری رضوان اکبر صاحب اور مکرم کلیم بھٹی صاحب بحیثیت فوٹو گرافر اور کیمرہ مین دیرینہ خدمات بجا لا رہے ہیں۔ تکنیکی میدان میں منصور ملک، سلمان ساجد اور نوید الاسلام صاحبان اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین کے طور پر ہمہ وقت خدمت میں مصروف ہیں۔ ان کے علاوہ بیسیوں احباب جو بعد ازاں اس ٹیم میں شامل ہوتے گئے وہ گویا اس کا ایک مستقل حصہ اور اٹوٹ انگ بن گئے۔ بغیر کسی اشتہار، کسی بلاوے، کسی ذاتی غرض یا طلب کے ہمیشہ لبیک کہتے ہوئے اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں سے بڑھ کر خدمت کے میدان میں کود پڑتے۔ اور جو ذمہ داری سونپ دی جائے اس کے لیے گویا سب کچھ فدا کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
احمدی احباب کے احساسِ ذمہ داری کا اندازہ اس ہلکے پھلکے دلچسپ واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک بار بالٹی مور کی مسجد میں موسلا دھار بارش کے دوران میں ایک شخص پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟ کہنے لگا:
’’میرے سپرد یہی تو ایک ڈیوٹی ہے۔ مَیں اسے چھوڑ کر ثواب سے کیوں محروم ہوں۔‘‘
بحمد للہ، اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کی سرشت میں خلوصِ نیت، اطاعت، وفا شعاری اور امانت کا تصور اس طرح کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے کہ کسی لمحے بھی نافرمانی یا ضیاع کا شائبہ نہ ہو۔ جماعت کے اموال، اوقات اور وسائل کا کماحقہٗ بہترین استعمال گویا ہر شخص کی حرزِ جاں ہے۔ ’’الاسلام‘‘ (alislam.org) کو ایک مرکزی نظام کے تابع، ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب کے ’’سمعی و بصری‘‘ شعبے کے ماتحت کر دینے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس کا ایک بجٹ مقرر ہو گیا اور اخراجات ایک منظم طریق پر دکھائی دینے لگے اور ابتداً بسا اوقات خدمتگزاروں کو انفرادی طور پر جو مالی بوجھ اٹھانا پڑتا تھا یا بیرونی عطیات پر انحصار کرنا پڑتا تھا اس کا بہتر بندوبست ہو گیا۔ علاوہ ازیں مرکز میں وکالتِ تصنیف بلکہ براہِ راست حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز سے ہدایات لینے کا ایک مؤثر ذریعہ مہیا ہو گیا۔ ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ماتحت کام کرنے والوں کو پوری دلجمعی اور خود اعتمادی کے ساتھ کام کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے اور ان کے کام کی پوری ذمہ داری لے کر اعلیٰ سطح پر ان کی نمائندگی کرتے ہیں اور ایک بھرپور ڈھال اور ڈھارس کا باعث بنے رہتے ہیں۔
سن دو ہزار تین اور چار سے انگلستان کے جلسہ سالانہ کی ریکارڈنگ بھی ویب سائٹ پر ڈالنی شروع ہو گئی۔ کام کی نوعیت اور مقدار میں اضافہ کے باعث یہ ممکن نہ رہا کہ مسجد ’’بیت الرحمٰن‘‘ کے احاطے میں یہ سب کچھ سمٹ سکے؛ چنانچہ 2005 میں ’’ٹائسن کارنر‘‘ (Tyson Corner) اور بعد ازاں سلور سپرنگ (Siver Spring) میں ایک جگہ مستعار لے کر تمام آلات اور دیگر سازو سامان وہاں منتقل کر دیا گیا جہاں بہت اعلیٰ درجے کے تیز رفتار انٹر نیٹ کی سہولت دستیاب تھی۔ یوں اعلیٰ معیار کی تکنیک (high definition _HD) میں وڈیوز بھی ویب سائٹ پر ڈالنے کا موقع میسر آ گیا۔ قادیان کے جلسہ سالانہ اور بعد ازاں دوسرے ممالک کے جلسے اور پروگرامز بھی اس کی زینت بننا شروع ہو گئے۔ انہی دنوں آئی فون (i-phone) اور دوسرے سمارٹ فونز مارکیٹ میں آنا شروع ہو گئے۔ ان کے ’’ایپس‘‘ (app) بھی بنانا شروع کر دئیے گئے۔ تاکہ میڈیا ٹیکنالوجی کا کوئی پہلو ایسا نہ رہ جائے جو ’’اسمعوا صوت السماء۔۔۔ جاء المسیح جاء المسیح‘‘ کی پکار سے نہ گونج رہا ہو۔
مرید نذیر صاحب بتاتے ہیں کہ جب 2003 میں ربوہ سے ’’الفضل‘‘ ویب سائٹ پر ڈالنے کا پروگرام بنا تو ایک بہت بڑے سائز کا سکینر لے کر پیر حبیب الرحمٰن صاحب شہید کے ہاتھ وہاں بھجوایا گیا جس میں پورا اخبار بیک وقت سکین ہو سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے رسائل اور میگزین بھی شامل ہوتے گئے۔ اس کا ایک ذاتی فائدہ انہیں یہ ہوا کہ سکیننگ کی نگرانی کے دوران میں انہیں جماعت کے ضخیم لٹریچر کے مطالعے کا موقع بھی ملتا رہا جو ان کی علمی پیاس بجھانے کا باعث بنا۔
خلافتِ خامسہ کی برکات اور رہنمائی کا عہدِ زرّیں
فی الحقیقت خلافتِ خامسہ کے قیام کے ساتھ ہی اس میدان میں بڑی سرعت سے ترقی ہونا شروع ہو گئی اور جدید ذرائع اور آلات سے لیس ہو کر سن 2005 میں ’’الاسلام‘‘ (alislam.org) نے ایک مستقل اور مربوط شکل ڈھال لی جس میں بعد ازاں روز بروز اضافہ ہوتا رہا۔ مختلف ذیلی تنصیبات بننے لگیں اور آئندہ سالوں کی منصوبہ بندی کے لیے فوری رابطوں کے علاوہ پندرہ بیس احباب پر مشتمل ’’ہراول دستے‘‘ (core team) کی ایک بار سالانہ میٹنگ بھی منعقد ہوتی۔ علاوہ ازیں سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز کی قدم قدم پر براہِ راست رہنمائی اور شفقت ساتھ ساتھ شاملِ حال رہی۔ مرید نذیر صاحب جب بڑے بڑے چارٹوں اور منصوبے کے ڈیزائن کی تفصیلات کے ساتھ حضورِ انور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے بڑی گہری دلچسپی اور توجہ سے ساری صورتحال کا جائزہ لیا اور ایک ایک امر پر سیر حاصل رہنمائی فرمائی۔ مرید صاحب کہتے ہیں کہ وہ خود کو اس فیلڈ کا ماہر سمجھتے تھے مگر حضور کے سامنے خود کو طفلِ مکتب محسوس کرنے لگے۔
اس مستقل سیٹ اپ کے ساتھ ساتھ کسی دوسری جگہ لے جانے کے لیے ایک مکمل تیار شدہ موبائل یونٹ ہر وقت موجود رہتا ہے جس میں ضرورت کی ہر شے بڑے منظم طریق پر پائی جاتی ہے چاہے وہ ’’سٹریمنگ‘‘، ’’کنیکٹویٹی‘‘، ’’ٹرانسلیشن‘‘ اور ’’پروڈکشن‘‘ ہو یا ’’ریکارڈنگ‘‘ اور ’’اپ لوڈنگ‘‘ کا سامان ہو۔ ہر حاجت براری کا سامان اللہ تعالیٰ کے فضل سے میسر ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی بیان کی جا سکتی ہے کہ ’’ہیومینیٹی فرسٹ‘‘ کے ’’ٹیلی تھان‘‘ (telethon) کی ’’لائیو سٹریمنگ‘‘ بھی اسی موبائل یونٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اب انٹرنیٹ کی کوالٹی اور ’’ہائی ڈیفینیشن‘‘ (HD) کے استعمال سے ٹرانسمیشن اتنی اعلیٰ ہو چکی ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ وڈیو براہِ راست سیٹیلائٹ سے آ رہی ہے یا انٹرنیٹ کے ذریعے۔ جلسہ سالانہ امریکہ کے اکثر پروگرام اسی طریق پر لندن نشر کرنے کے لیے 4k کوالٹی پر بھیجے جاتے ہیں۔ میکسیکو اور گوئٹے مالا سے پروگرام بھی اسی ذریعے سے بجھوائے جاتے رہے ہیں۔ اور اس کا سارا ریکارڈ اب ’’کلاؤڈ‘‘ (cloud) میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کا وجود کسی ایک ملک یا مقام پر نہیں کہ اُس جگہ اگر کوئی آفت آ جائے تو سب کچھ تباہ ہو جائے۔ خیر یہ تو وہ ممکنہ تدابیر ہیں جنہیں اختیار کرنے کا انسان کو حکم ہے وگرنہ اصل حفاظت تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کی ہے۔
زمین کے کناروں تک
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ’’الاسلام‘‘ (alislam.org) ’’تبادلۂ معلومات و پیغامات‘‘ (انٹرنیٹ internet) کی دنیا میں مسلمہ طور پر ایک مستحکم اور معروف نام ہے جسے بجا طور پر آن لائن اسلامک یونیورسٹی کا نام دیا جاتا ہے اور اسے علومِ دینیہ پر ایک اتھارٹی کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی ابتدا بھی ایک ادنیٰ سے بوند بھر قطرے سے ہوئی۔ ایک معمولی سے کمپیوٹر، مستعار لیے ہوئے ساؤنڈ کارڈ اور بیس بیس ڈالر کے چند عطیات سے ایک نوجوان نے اپنے دو چار ساتھیوں کے مشوروں کے ہمراہ تمام نا موافق حالات کے باوجود عزم سے ایک بیڑا اٹھایا اور یقین و توکل کی باگیں تھامے اندیکھے مہیب منجدھار میں کود پڑا۔ ایک سچے ولولے، عشق اور استقامت سے لبریز جدوجہد نے ہزار غرقابیوں کے باوجود اس کے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے دی۔ آقائے زمان کی دعائیں بھی اس کے ساتھ ہو گئیں اور اکابر افسرانِ بالا کی دلداریاں بھی اس کے ہمرکاب ہو گئیں۔ یوں وہ:
’’میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں۔‘‘
کی بشارت کی تعبیر بنے آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا۔
آج اس کارہائے نمایاں کی تفاصیل میں اس سے بڑھ کر کیا کہا جا سکتا ہے کہ کون کون سے کتب و رسائل، کیسی کیسی قرآن و احادیث کی تفاسیر، کیسے کیسے علم و عرفان کے خزانے، کن کن زبانوں اور موضوعات کے مخزن ایک ویب سائٹ ’’الاسلام‘‘ (alislam.org) کی زینت نہیں بن گئے اور ایک حرکتِ انگشت کے تابع ہو کر ”وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ“ کے تحت ’’یُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَآءِ‘‘
کی تفسیر بنے یہ پیغام دینے لگے:
’’اِسۡمَعُوۡا صَوۡتَ السَّمَاءِ۔۔۔ جَاءَ الۡمَسِیۡح جَاءَ الۡمَسِیۡح‘‘