الحاج مولانا نذیر احمد صاحب علی
رئیس التبلیغ مغربی افریقہ
الحاج مولوی نذیر احمد علی صاحب حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ کے فرزند تھے۔ ۱۰؍ فروری ۱۹۰۵ ء کو پیدا ہوئے۔ آپ پہلی مرتبہ ۲۲؍ فروری ۱۹۲۹ء کو گولڈ کوسٹ (گھانا، مغربی افریقہ) تبلیغ اسلام کے لئے بھجوائے گئے جہاں مسلسل پانچ سال تک تبلیغی جہاد میں مصروف رہے اور ۱۵؍مئی ۱۹۳۳ء کو قادیان تشریف لائے۔ ازاں بعد یکم فروری ۱۹۳۶ء کو دوبارہ گولڈ کوسٹ تشریف لے گئے۔
ڈیڑھ سال بعد حضرت مصلح موعود ؓ کی ہدایات کے مطابق آپ سیرالیون میں نئے مشن کی بنیاد کے لئے ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو گولڈ کوسٹ سے روانہ ہو کر ۱۳؍اکتوبر ۱۹۳۷ء کو سیرالیون کے دارلحکومت فری ٹاؤن پہنچے۔ سیرالیون میں آپ نے مسلسل آٹھ سال تک شاندار تبلیغی خدمات سرانجام دیں اور باوجود شدید مخالفت کے احمدی جماعتوں میں غیر معمولی ترقی ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۲؍ فروری ۱۹۴۵ء کو آپ قادیان تشریف لائے تو حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کی سرفروشانہ اورمجاہدانہ خدمات کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے آپ کو ایک مجلس عرفان میں ’’کامیاب جرنیل ‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اور جب آپ ۲۶؍ نومبر ۱۹۴۵ء کو عازم مغربی افریقہ ہوئے تو حضور نے آپ کو مغربی افریقہ کا رئیس التبلیغ نامزد کیا اور اعلان فرمایا کہ آئندہ آپ کا نام مولوی نذیر احمد علی ہوگا۔
آپ نے قادیان سے روانگی سے قبل ایک الوداعی تقریب میں فرمایا:
’’آج ہم خدا تعالیٰ کے لئے جہاد کرنے اور اسلام کو مغربی افریقہ میں پھیلانے کے لئے جا رہے ہیں ۔ موت فوت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ہم میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دور دراز حصہ ہے جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے۔ احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ اس تک پہنچیں اوراس مقصد کو پورا کریں جس کی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروں کی شکل میں قبضہ کیا ہوگا۔ پس ہماری قبروں کی طرف سے یہی مطالبہ ہوگاکہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں کہ جس مقصد کے لئے ہماری جانیں صرف ہوئیں اسے وہ پورا کریں‘‘۔
اس دفعہ آپ کے ہمراہ تین اور مجاہد بھی تھے۔ یہ وفد ۲۶؍ فروری ۱۹۴۶ء کو فری ٹاؤن پہنچ گیا۔ مولانا نذیر احمد علی صاحب دوسرے مبلغین احمدیت کو سیرالیون میں متعین کر کے خود پورے مغربی افریقہ کی تبلیغی مہمات کا جائزہ لینے کے لئے ۱۹؍ ستمبر ۱۹۴۶ء کو گولڈ کوسٹ تشریف لے گئے اور اہم خدمات بجالانے کے بعد اپریل ۱۹۵۱ء میں ربوہ واپس تشریف لائے۔ اور کچھ عرصہ نہایت محنت ، فرض شناسی اور عرق ریزی کے ساتھ جامعۃ المبسشرین ربوہ میں پروفیسر کے فرائض سرانجام دینے کے بعد آخری بار ۱۱؍ اپریل ۱۹۵۴ء کو ربوہ سے سیرالیون پہنچے اور ایک لمبی علالت کے بعد سیرالیون کے شہر ’’بو‘‘ میں ۱۹؍ مئی ۱۹۵۵ء کو انتقال کر گئے
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پا ک طینت را
آپ سلسلہ احمدیہ کے چھٹے جانثار مجاہد اور مبلغ تھے جنہوں نے بعہد خلافت ثانیہ ممالک غیر میں فریضہ تبلیغ بجا لاتے ہوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی ۔پہلے پانچ جانثار مبلغ یہ ہیں:
(۱) ۔۔۔حضرت حافظ عبیداللہ صاحب، ماریشس (۷؍ ستمبر۱۹۲۳ء)
(۲) ۔۔۔حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب ایران (۲۲؍ فروری ۱۹۲۸ء)
(۳)۔۔۔مولوی محمد دین صاحب۔ سابق مبلغ البانیہ ۔ آپ بحری جہاز مشرقی افریقہ تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ کا جہاز ڈوب گیا۔ (۲۲؍ نومبر ۱۹۴۲ء)
(۴)۔۔۔ مرزا منور احمدصاحب مبلغ امریکہ(۱۵؍ ستمبر ۱۹۴۸ء)
(۵)۔۔۔ حافظ جمال احمد صاحب روزہل ماریشس (۲۷؍ ستمبر ۱۹۴۹ء)
مولانا نذیر احمد علی صاحب کا مزار سیرالیون کے شہر’’بو‘‘ کی ایک نہایت پرفضاجگہ پر واقع ہے۔
اس جانثار مجاہد کی یہ امتیازی شان ہے کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ پہلے سفر مغربی افریقہ کے دوران ۱۱؍مئی ۱۹۷۰ء کو آپ کے مزار پر دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ حضور کے ہمراہ حضرت سیدہ منصور ہ بیگم صاحبہ ؒ ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر، مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری، امیر جماعت ہائے احمدیہ سیرالیون اور دیگر احباب جماعت بھی تھے۔ دعا کے وقت کا منظر نہایت ہی رقت آمیز تھا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔
مولوی نذیر احمد علی صاحب احمدیت کے ایک ایثار پیشہ ، جانفروش اور مثالی مبلغ تھے اور آپ نے جس والہانہ انداز ، جذبہ فدائیت اور روحِ اخلاص کے ساتھ مجاہدانہ خدمات سرانجام دیں اس کے نقوش اہل افریقہ اورمبلغین افریقہ کے قلوب پر ہمیشہ قائم رہیں گے۔ بالخصوص وہ مجاہدین احمدیت جنہیں آپ کی قیادت ورفاقت میں افریقہ میں اعلائے کلمہ اسلام کی سعادت نصیب ہوئی ۔ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کو سالہا سال تک آپ کی معیت میں کام کرنے کا موقع ملا۔ آپ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’میں مارچ ۱۹۴۰ء میں سیرالیون بھجوایا گیا اور ۱۹۴۴ء کے آخر تک آپ کے ساتھ رہا۔ اس قریباً چالیس سال کی مدت میں سفر و حضر میں آپ کو نہایت قریب سے دیکھنے اور آپ کی سیرت کا گہرا مطالعہ کرنے کا میں نے موقعہ پایا ۔ آپ کا سلوک مربیانہ اور برادرانہ پایا اور مجھے کبھی کوئی شکوہ پیدا نہیں ہوا ۔ آپ جو بھی کام سپرد کرتے اس میں خود بھی حصہ لیتے تھے۔ ابتداء میں آپ میری پوری رہنمائی اور تربیت و اصلاح فرماتے رہے تا کہ آزادانہ طور پر کام سنبھالنے کے قابل ہو سکوں۔ تبلیغی جوش ، سلسلہ کے لئے قربانی ، ایثار، صبر و استقلال ، غیرت دینی، خدا پرستی، توکل اور تقویٰ و طہارت کے لحاظ سے آپ اُسوہ تھے۔ باقاعدہ تہجد گزار تھے۔ کبھی نماز اشراق بھی ادا کرتے تھے۔ سفر وحضر میں صبح کے وقت بلا ناغہ تلاوت قرآن مجید کرتے تھے۔ تلاوت نہایت بلند آواز سے خوش الحانی سے کرتے تھے ۔ فرماتے تھے کہ ’’اِنّ قُرآنَ الفَجرکَانَ مَشھُودَا‘‘ کے مطابق صبح کی تلاوت زیادہ باعث ثواب ہے۔کھلی ہوا میں بآواز بلند تلاوت کرنے سے دوسروں کو بھی تحریک ہوتی ہے نیز صبح کی تازہ ہوا گلے اور پھیپھڑوں اور عام صحت کے لئے مفید ہے۔ سینکڑوں میل کے دورے ہم نے اکٹھے کئے۔ آپ ہر بستی میں داخل ہوتے وقت مسنون دعائیں پڑھتے اور بوقت ضرورت مسنون طریق پر استخارہ بھی کرتے تھے اور آپ مبغلین کو بھی تلقین کرتے تھے کہ کوئی اہم معاملہ بغیر استخارہ کے طے نہ کریں۔ آ پ ماتحتوں سے نرمی کا سلوک کرتے اور عموماً ان کے کام کی تعریف کر کے ان کی ہمت افزائی کرتے تھے ۔ لیکن مفاد سلسلہ کے پیشِ نظر بعض دفعہ آ پ سختی ضروری سمجھتے۔ لیکن بعد میں نادم ہو کر اظہار معذرت کرتے اور استغفار کرتے تھے۔ آپ نے علوم دینیہ بچپن میں سبقاً سبقاً نہیں پڑھے تھے تاہم آپ قرآن مجید ، حدیث شریف اور فقہ میں بہت دسترس رکھتے تھے اور عربی بخوبی بول سکتے تھے ۔ اور عربی سیکھنے کے بہت شائق تھے ۔ آپ علم دوست تھے مطالعہ کا شغف رکھتے تھے ۔ کسی چھوٹے سے بھی حصول علم میں کوئی تردد نہیں کرتے تھے۔ آپ نے مجھ سے عربی ادب اور صرف ونحو پڑھی۔ آپ تفاسیر کا مطالعہ کر کے مشکل آیات کاحل تلاش کرتے اور نوٹ لیتے رہتے۔ او ر زیادتی علم کی خاطر احباب سے تبادلہ خیالات بھی فرماتے۔ رمضان شریف میں درس قرآنِ کریم سن کر مستفید ہوتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ تصانیف آپ کے پاس تھیں۔ آپ طبع اول کی کتب رکھنے کی کوشش کرتے اور کوئی نہ کوئی کتا ب آپ کے زیر مطالعہ رہتی تھی ۔ آپ نے اپنی کتابوں کے صندوق کے ڈھکنے کے اندرونی طرف حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی نظم ’’ نونہالان جماعت ‘‘ لگا رکھی تھی۔ اورجب بھی ٹرنک کھولتے اسے پڑھ کر گنگنانے لگتے۔ اس طرح حضو ر کی ہدایات ہمیشہ مستحضر رہتی تھیں۔ تبلیغی سفروں میں سامان کا قریباً 3/4حصہ کتب پر مشتمل ہوتا تھا۔ خصوصاً ان کتب پر جن کی ضرورت تبلیغی گفتگو اور تقریروں میں ہوتی ہے۔ آ پ کے فرزند مبارک احمد نذیر صاحب نے ایک بار توجہ دلائی کہ اس قدر زیادہ کتب ساتھ لے جاکر آپ بلاوجہ سفری مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی ضرورت کبھی کبھار پڑتی ہے۔ آپ نے کہا میرے عزیز کوان کتب کی قدر وقیمت کیامعلوم۔ میں خدائی فوج کا سپاہی ہوں۔ اور یہ کتب سفر و حضر میں میرا بہترین اسلحہ او رمونس ہیں‘‘۔
جناب مولوی نور محمد نسیم سیفی صاحب سابق رئیس التبلیغ مغربی افریقہ تحریر فرماتے ہیں:
’’آ پ انتھک کام کرنے والوں میں سے تھے۔ اور چاہتے تھے کہ ارد گرد کے تمام احباب کو ہروقت کام ہی کرتے دیکھیں۔ ایک دفعہ ایک مبلغ کی ڈائری پڑھ کر آپ کو احساس ہوا کہ ضرورت سے کم کام کیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ نے ایک پروگرام بنا کر واپسی ڈاک سے مجھے ارسال کر دیا کہ ان مبلغ صاحب سے اس پرعمل کروایا جائے۔ یہ پروگرام تہجد سے لے کر رات کے نو دس بجے تک کے لئے تھا۔ اوراس دوران ورزش ،نمازیں،تلاوت قرآن کریم، ناشتہ اور کھانا ، تبلیغ و آرام وغیرہا ہر قسم کی باتیں درج تھیں۔ اس پروگرام کو دیکھ کر مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا کہ آپ کو نہ صرف کام کی فکر تھی بلکہ کا م کرنے والے کی صحت کا بھی از حد خیال تھا۔ اپنے ماتحتوں کی عزت افزائی اور ان کے کام کوزیادہ سے زیادہ رنگ دے کر اُجاگر کرنے کی آپ کوہمیشہ فکر رہتی تھی۔ اس سلسلہ میں آپ نے مجھے بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ میں اپنے ساتھیوں سے مضامین لکھوا کر ان کی درستی کر کے اخبارات میں شائع کروایا کروں۔ آپ کی خواہش کے پیچھے یہ جذبہ کارفرماتھا کہ ہمیشہ اپنے جانشین پیدا کر نے کی فکر میں رہناچاہئے۔ آخر انسانی زندگی کا کیا بھروسہ ہے؟کون جانے اسے کب پیغامِ اجل آ جائے ۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کسی ایک آدمی کے چلے جانے سے کام کے میدان میں خلا پیدا ہو جائے۔ جب میں نے حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کی وفات پر ایک پمفلٹ شائع کیا تو آپ نے ایک نہایت ہی پیارا دیباچہ لکھا جس میں حضرت نیر صاحب کی بعض نمایاں خوبیوں کا ذکر کر کے اس بات کی خواہش کی کہ ہمیں بھی وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں اور ا ن خوبیوں کو ایک دائمی تسلسل حاصل ہو جانا چاہئے۔
آپ کی خاص خاص خوبیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ آپ تبلیغ کے سلسلہ میں جماعت پر کم سے کم بوجھ ڈالنا چاہتے تھے۔ اور اپنے ساتھ کام کرنے والے مبلغین کو ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ نائجیریا مشن کو کچھ مالی مشکلات پیش آئیں تو آپ نے جو اس وقت ہمارے رئیس التبلیغ تھے مجھے لکھا کہ میں اپنے ساتھ کام کرنے والے مبلغین سے کہوں کہ وہ پھیری لگا کر کپڑا بیچ لیا کریں اور میں خود لیگوس میں ایک دو ٹیوشنیں لے لوں تا کہ اس آمد سے ہم اپنا خرچ بھی برداشت کر سکیں اور مشن کی مزید مدد بھی کر سکیں۔ اگرچہ حالات جلد ہی بدل گئے اورمشن کو مالی آسانی میسر آ گئی لیکن آپ کی نصیحت دل پر ایک نقش چھوڑ گئی‘‘۔
جناب مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم (سابق مبلغ غاناو انچارج احمدیہ مشن امریکہ) کا بیان ہے:
میں نے مولوی نذیر احمد علی صاحب کو غانا میں کام کرتے نہیں دیکھا۔ غانا میں فروری ۱۹۵۱ء میں میری آمد سے چند ماہ قبل آپ پاکستان جاچکے تھے۔ لیکن جن مبلغین اور احباب جماعت سے آپ کے متعلق تذکرہ ہوا ہر ایک کو آپ کے تبلیغی جنون کی تعریف میں رطب اللسان پایا۔ آپ عالم شباب میں ان ممالک میں تشریف لائے اور اعلائے کلمۃ اللہ میں اپنا شباب اور اپنی صحت قربان کر دی اور اسی فریضہ کی ادائیگی میں جام شہادت نوش فرمایا۔
جہاد کبیر میں آپ کو نہ بخار کی پرواہ تھی نہ کسی بیماری کی۔ چونکہ تبلیغ کا خود جنون تھا اس لئے وہ ماتحت کام کرنے والے مبلغین اور دیگر افراد کو بھی اسی رنگ میں رنگین دیکھنا چاہتے تھے اور خواہاں تھے کہ سالوں کا کام مہینوں بلکہ ہفتوں میں تکمیل پذیر ہو سکے۔ اور اس تیزی رفتاری پر کسی کو شکوہ ہو تو اس کی چنداں پروا ہ نہیں کرتے تھے ۔ متعددبار ایسا ہوتاکہ شدت مرض کے باعث آپ تقریر نہیں کر سکتے تھے تو آپ تبلیغی جلسہ میں محض شرکت کر لیتے تا ثواب حاصل کر سکیں۔
میں نے وولٹا ریجن کے سواقریباً ہر ریجن(علاقہ ) میں کام کیا ہے اور مختلف مقامات میں جانے کی کوشش کی ہے وہ علاقے جہاں اب سڑکیں بن چکی ہیں پہلے گھنے جنگل اور دشوارگزار راستوں سے وہاں جانا پڑتا تھا۔ آپ اس عہد میں بھی وہاں پہنچے ۔ دوسری بار آپ تشریف لائے تو اسی تبلیغ جنون کے صدقے اپنے ساتھ الحاج مولوی نذیر احمد صاحب مبشر فاضل کو لائے تا کہ ان کے ذریعہ مقامی افریقن مبلغین تیار کر کے تبلیغ کی توسیع کی جائے اور بفضلہ تعالیٰ آپ کی یہ سکیم بہت کامیاب ہوئی اور آج کل کے افریقن مبلغین میں سے سوائے چند کے دیگر تمام ہی مبشر صاحب کے ذریعہ تربیت یافتہ ہیں۔
چنانچہ مولوی صاحب اور افریقن مبلغین کی مساعی سے اس ملک کے مشرق و مغرب اور شمال وجنوب میں احمدیت کا بیج بویا گیا اور متعدد جماعتیں قائم ہوئیں‘‘۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد ۱۸)
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳؍اپریل ۱۹۹۸ء تا۹؍اپریل ۱۹۹۸ء)