حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ
حضرت ملک سیف الرحمن
امام احمد ۱۶۴ھ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد تھا اور دادا کا حنبل۔ آپ اپنے دادا کی نسبت سے ابن حنبل کہلائے۔ امام محمد بن حسن الشیبانی کی طرح آپ کا تعلق بھی قبیلہ شیبان سے تھا۔دادا سرخس کے والی تھے لیکن والد فوج میں ایک معمولی عہدہ پر کام کرتے تھے تاہم وہ بڑے سخی اور مہمان نواز تھے۔ خراسان کی طرف آنے والے عرب وفود کی خوب خاطر تواضع کرتے۔ وہ خراسان سے جب بغداد آئے تو ان کی مالی حالت اچھی نہ رہی اور وہ امام احمد کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد فوت ہو گئے اور احمد کو ان کے چچا نے پالا۔ احمد جب کچھ بڑے ہوئے تو قرآن کریم حفظ کیا۔ اس کے بعد عربی زبان سیکھنی شروع کی۔ پھر حدیث اور صحابہ و تابعین کے آثار سے واقفیت بہم پہنچائی۔ شروع سے ہی بڑے ذہین، پروقار سنجیدہ طبع اور عبادت سے شغف رکھنے والے نوجوان تھے۔ حدیث رسولؐ اور آثار صحابہؓ آپ کا پسندیدہ موضوع تھا اور اس میں آپ نے مہارت حاصل کی۔ ابتدائً امام ابو یوسفؒ سے پڑھا۔ اس کے بعد ۱۸۶ھ میں جبکہ آپ کی عمر ۲۲ سال کے قریب تھی آپ نے بصرہ، کوفہ اور حجاز کے مختلف شہروں میں جاکر مشہور زمانہ محدثین سے حدیث پڑھی۔ انہی سفروں کے دوران آپ مکہ میں امام شافعیؒ سے بھی ملے اور ان سے بڑے متاثر ہوئے۔ پھر جب وہ بغداد آئے تو ان کی شاگردی اختیار کی۔ مکہ میں سفیان بن عینیہ سے بھی حدیث پڑھی۔ یمن جاکر وہاں کے مشہور محدث عبدالرزاق بن الہمام سے ان کی مرویات کا علم حاصل کیا اور سند لی۔ عبدالرزاق صنعاء میں رہتے تھے۔
امام احمد بن حنبل سیرالحج تھے۔ بعض حج بغداد سے مکہ تک پیدل چل کر ادا کئے اور علم بھی حاصل کیا۔ طالب علمی کے ان سفروں میں بڑی بڑی مشکلات بھی پیش آئیں۔ مالی تنگی بھی دیکھی، لیکن علم کی دولت کے مقابلہ میں ان ساری مشکلات کو ہیچ جانا۔ بعض اوقات مزدوری کرکے گزارا کرتے رہے۔ ایک دفعہ جبکہ آپ یمن میں مقیم تھے اور مالی حالات اچھے نہ تھے آپ کے استاد محدث عبدالرزاق نے آپ کی مدد کرنا چاہی، لیکن آپ کسی قسم کی امداد لینے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ آپ ٹوپیاں بُن کر بیچتے اور اس آمدن سے گزارا چلاتے۔ایک دفعہ آپ کے کپڑے چوری ہوگئے۔ کئی روز تک باہر نہ جا سکے، آپ کے ایک طالب علم دوست کو پتہ چلا تو کچھ رقم دینی چاہی، لیکن آپ نے قبول نہ کی، اس نے اصرار کیا کہ کب تک اس طرح گھر دبکے بیٹھے رہیں گے، ادھار لے لیں اور جب آپ کے پاس رقم آ جائے تو واپس کردیں لیکن آپ پھر بھی راضی نہ ہوئے۔ آخر یہ شرط رکھی کہ میں ان کے نوٹس صاف کرکے لکھ دیتا ہوں اس کا معاوضہ آپ دے دیں، غرض اس رقم سے کپڑے بنوائے اور گھر سے باہر آنے جانے لگے۔
آپ بڑے قوی الحافظہ تھے، ہزاروں حدیثیں یاد تھیں۔ اس کے باوجود جو حدیث سنتے لکھ لیتے اور پھر ان لکھے ہوئے نوٹس کو دیکھ کر حدیث روایت کرتے حالانکہ حدیث آپ کو یاد ہوتی ، یہ احتیاط صرف اس وجہ سے کرتے کہ حدیث رسولؐ میں کوئی غلطی نہ رہ جائے۔
آپ نے فقہاء عصر سے فقہ بھی پڑھی۔ صحابہ اور تابعین کے فتاویٰ کا بھی مطالعہ کیا، لیکن زیادہ رجحان حدیث و آثار کی طرف تھا، اسی کے سیکھنے اور سکھانے میں اپنی زندگی وقف کئے رکھی۔
امام احمد فارسی زبان بھی جانتے تھے۔ آپ کا خاندان فارس میں رہا تھا اس وجہ سے گھر میں فارسی بولی اور سمجھی جاتی تھی۔
امام احمدؒ اور درس و تدریس
چالیس سال کی عمر ہوئی تو اپنا حلقہ درس قائم کیا۔ یہ ۲۰۴ھ کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ آپ کے استاد حضرت امام شافعیؒ کا انتقال ہوچکا تھا۔ آپ کے قائم کردہ مدرسۂ حدیث کو بہت شہرت ملی کیونکہ حدیث کی تدریس کے ساتھ ساتھ آپ تقویٰ ، پرہیزگاری اور اعمال صالحہ کے لحاظ سے بھی بڑی امتیازی شان رکھتے تھے۔ طلبہ حدیث کی بہت بڑی تعداد آپ کے مدرسہ سے متعلق تھی۔ سینکڑوں قلم دوات لئے ہر وقت لکھنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
آپ کا گزارا مختصر سی آمدن پر تھا جو مکانوں کے کرایہ سے ہوتی تھی۔ بعض نے اس کی مقدار سترہ درہم ماہوار لکھی ہے۔ جیسا کہ سابقہ سطور میں گزر چکا ہے کہ آپ مزدوری بھی کرلیتے تھے یہاں تک کہ کھیتوں میں کٹائی کے بعد گری پڑی بالیں بھی چن لاتے تھے لیکن خلفاء اور امراء کے کسی قسم کے نذرانے قبول کرنے کے لئے کبھی تیار نہ ہوئے۔
امام احمد احادیث کے علاوہ فقہی آراء اور فتاویٰ لکھنے کے روادار نہ تھے اور کسی کو اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کے سامنے ذکر ہوا کہ عبداللہ بن المبارک تو حنفی فقہ کے مسائل لکھ لیا کرتے تھے یہ سن کر آپ نے فرمایا ابن المبارک لم ینزل من السماء یعنی ابن مبارک آسمان سے نہیں اترے۔ وہی کچھ لکھنا چاہئے جو آسمان سے نازل ہوا ہے۔ تاہم امام احمد کی اس سختی کے باوجود آپ کے شاگردوں نے آپ کی فقہی آراء کو مدون کیا جو کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔
امام احمد کا ابتلاء اور آپؒ کی استقامت
یہ دور مذہبی کلامی اور فلسفیانہ مباحث و مناظرات کا دور تھا۔ معتزلہ جو علم کلام کے بانی تھے غالب آ رہے تھے، ان کی وجہ سے مختلف قسم کے مسائل مثلاً انسان مجبور ہے یا مختار۔ اللہ تعالٰی کی صفات عینِ ذات ہیں یا غیرذات۔ کلام اللہ تعالیٰ کی صفت ہے یا نہیں۔ قرآن کریم قدیم ہے یا مخلوق۔۔۔ زیر بحث رہتے تھے اور مناظرات کا ایک شور مچا ہوا تھا۔ خود مامون الرشید اس قسم کے مباحث سے دلچسپی رکھتا تھا اور معتزلہ اسے اکساتے تھے کہ اس قسم کے عقاید کی ترویج میں سختی سے کام لیا جائے۔ اس وجہ سے سلف پرست علماء کو سخت ابتلاء کا سامنا تھا۔
امام احمد بھی اسی سلسلہ میں زیر عتاب آئے۔ آپ کا مؤقف یہ تھا کہ اس قسم کے عقایدی مباحث نہ صحابہؓ نے اٹھائے اور نہ ان کے شاگردوں نے جو امت میں تابعین کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی پیروی میں ہمیں بھی ان میں نہیں الجھنا چاہئے۔ جو کچھ وہ مانتے تھے اسی پر اکتفا کرنی چاہئے اور اگر اصرار ہی ہے تو پھر کلام اللہ قدیم کہنے میں نجات ہے اسے مخلوق قرار دینا بدعت ہے، لیکن آخر عمر میں مامون الرشید کایہ اصرار بڑھ گیا کہ لوگوں سے زبردستی منوایا جائے کہ قرآن کریم جو کلام اللہ ہے مخلوق ہے۔ اس دار و گیر میں امام احمد اور محمد بن نوح کو گرفتار کیا گیا۔ ان کو مامون الرشید کے سامنے پیش کرنے کے لئے الرقہ یاطرسوس لے جایا جا رہا تھا کہ مامون کی وفات ہوگئی، لیکن مرنے سے پہلے وہ اپنے جانشین المعتصم کو وصیت کرگیا کہ زبردستی کی اس پالیسی کو جاری رکھا جائے۔ محمد بن نوح تو راستہ میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ امام احمد بن حنبل کو پابجولاں واپس بغداد لایا گیا۔ کچھ دن قیدخانے میں رکھنے کے بعد ان کو نئے خلیفہ ابو اسحاق المعتصم کے سامنے پیش کیا گیا۔ معتصم نے ہر طرح کوشش کی اور سمجھایا کہ امام احمد اس کی بات مان لیں لیکن آپ نے اپنے مؤقف پر اصرار کیا۔ اس پر المعتصم کو غصہ آگیا اور اس نے حکم دیا کہ آپ کو کوڑے لگائے جائیں۔ کوڑوں کی تکلیف کی وجہ سے آپ کئی بار بیہوش ہوجاتے تھے لیکن استقامت میں ذرہ بھی فرق نہیں آنے دیا۔ اس طرح آپ نے ۲۸ ماہ کے قریب قید و بند اور کوڑوں کی سختیاں جھیلیں۔ آخر تنگ آکر حکومت نے آپ کو رہا کردیا۔ ان سختیوں کی وجہ سے امام احمد بہت کمزور ہوگئے تھے، ایک عرصہ تک چلنا پھرنا بھی مشکل رہا۔ جب آپ تندرست ہوئے تو پھر سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ ابتلاء کے زمانہ میں صبر و استقامت دکھانے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں آپ کی قدر و منزلت بہت بڑھ گئی اور ہر طرف سے عقیدت کے پھول برسنے لگے تھے۔
المعتصم کی وفات کے بعد الواثق جانشین ہوا۔ شروع شروع میں اس نے بھی یہ سختی جاری رکھی۔ امام احمد کے بارہ میں اس نے حکم دیا کہ وہ نہ کوئی فتویٰ دے سکتے ہیں اور نہ پڑھا سکتے ہیں، کوئی ان کے پاس جا بھی نہیں سکتا، وہ اس شہر میں بھی نہیں رہ سکتے۔ اس وجہ سے آپ نے کچھ عرصہ چھپ کر وقت گزارا۔ آخری عمر میں واثق سختی کی اس پالیسی سے تنگ آگیا تھا۔ بلکہ قرآن مخلوق ہونے کا نظریہ مذاق بن گیا تھا۔ ایک دفعہ ایک مسخرہ واثق کے دربار میں آیا اور کہا میں امیرالمؤمنین کی خدمت میں تعزیت کرنے کے لئے آیا ہوں کیونکہ جو مخلوق ہے اس نے ایک نہ ایک دن فوت بھی ہونا ہے، قرآن کریم فوت ہوگیا تو لوگ تراویح کی نماز کیسے پڑھیں گے؟ واثق چیخ اٹھا اور کہا کمبخت قرآن بھی فوت ہو سکتا ہے؟
ایک دفعہ ایک عالم کو گرفتار کرکے واثق کے سامنے لایا گیا۔ وہاں معتزلہ کا سردار احمد بن ابی داؤد بھی بیٹھا تھا۔ اس عالم نے ابن ابی داؤد سے پوچھا کہ خلق قرآن کا مسئلہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے خلفاء جانتے تھے یا نہیں۔ اگر وہ جانتے تھے اور اس کے باوجود خاموش رہے تو ہمیں بھی خاموش رہنا چاہئے۔ اور اگر نعوذ باللہ یہ لوگ جاہل تھے اور اس مسئلہ کے بارہ میں کچھ نہیں جانتے تھے تو پھر اے کمینے (یا لکع) تم کہاں سے عالم آگئے ہو۔ واثق یہ بات سن کر اچھل پڑا وہ بار بار اس جملہ کو دہراتا اور ابن ابی داؤد کو ملامت کرتا۔ واثق نے اس گرفتار بلا عالم کو رہا کردیا اور اسے شاباش دی۔
غرض امام احمد اور دوسرے علماء کی استقامت اور ان کے صبر نے مسئلہ خلق قرآن کی شورش کو اپنی موت آپ مار دیا اور قریباً چودہ سال کی ہنگامہ آرائی کے بعد حالات پرسکون ہو گئے۔ خلق قرآن کا مسئلہ دراصل ایک لفظی نزاع تھا جس نے تعصب اور ضد کا رنگ اختیار کرلیا تھا لیکن ایک مدت کی سر پھٹول کے بعد اس کا مآل صرف یہ نکلا کہ علم الٰہی کے لحاظ سے قرآن کریم کے معانی قدیم ہیں لیکن اس کے الفاظ جن سے مراد آواز اور حروف ہیں حادث ہیں کیونکہ یہ الفاظ آنحضرت ﷺ نے جبریلؑ سے سنے اور آپؐ کے صحابہؓ نے اور اس کے بعد ساری امت نے سنے اور ان کی تلاوت کی۔
الواثق کے بعد المتوکل خلیفہ مقرر ہوا تو اس نے سختی کی پالیسی بالکل ترک کردی۔ معتزلہ کو دربار سے نکال دیا اور فقہاء اور محدثین کی رضاجوئی کا خواہشمند ہوا اور اس طرح ملک کا امن و امان بحال ہوگیا۔
امام احمد حدیث اور فقہ کے ماہر تھے۔ صبر و استقامت کا پہاڑ، بلند ہمت، کریم السجیہ طلق الوجہ شدید الحیا، بڑے متقی عابد اور زاہد تھے۔ آپ کا درس لائق شاگردوں کے دل موہ لیا کرتا تھا۔ جب آپ ۲۴۱ھ میں ۷۸ سال کی عمر میں فوت ہوئے تو سارا بغداد ماتم کدہ بن گیا۔ لاکھوں آدمی آپ کے جنازہ میں شریک ہوئے اور لوگوں نے محسوس کیا کہ آج ان کا ایک بہت بڑا امام ان سے رخصت ہوگیا ہے۔
امام احمد کی فقہی آراء
عقاید اور سیاست کے بارہ میں آپ کا نظریہ سلف صالحین کے آراء کے تابع تھا۔ آپ کا کہنا تھا کہ عقاید میں سیدھا مسلک یہی ہے کہ قرآنی تصریحات کی پابندی کی جائے۔ احادیث سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے اسی پر اکتفا کی جائے۔ سیاسی لحاظ سے حکام وقت کی اطاعت واجب ہے۔ ان کے خلاف تلوار اٹھانا منع ہے کیونکہ تلوار نظم و نسق ، امن و امان کو تباہ کر دیتی ہے۔ البتہ حسب موقع و محل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، وعظ و تلقین اور کلمتہ الحق کہنے میں کوئی کمی نہیں آنے دینا چاہئے۔ یہ ہر حال میں واجب ہے۔
امام احمد امام الحدیث اور فقیہ السنۃ تھے تاہم بعض علماء نے ان کے فقیہہ ہونے سے انکار کیا ہے۔ امام جریر طبری نے اختلاف الفقہاء کے موضوع پر کتاب لکھی جس میں امام احمد کا ذکر نہ کیا تو لوگوں نے اعتراض کیا۔ آپ نے کہا امام احمد محدث تھے فقیہہ نہ تھے اسی لئے ان کا ذکر فقہاء کے ضمن میں نہیں کیا گیا، اس پر لوگ مشتعل ہوگئے۔ ابن جریر کے مکان پر پتھراؤ کیا۔ بڑی مشکل سے جان بچی۔ اس سب کچھ کے باوجود امام احمد کی فقہی آراء اور آپ کے فتاویٰ کا ایک بڑا مجموعہ حنبلیوں کے ہاں مقبول ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کی صحت سے انکار کیا جائے۔ البتہ یہ درست ہے کہ آپ کی فقہ پر حدیث و آثار کا رنگ غالب تھا۔
مسند امام احمدؒ
حدیث میں آپ کا کارنامہ ’المسند‘ کی شکل میں موجود اور مشہور ہے۔ اس کتاب میں تیس اور چالیس ھزار کے درمیان احادیث اور آثار صحابہ ہیں۔ آپ کی یہ کتاب بعد میں آنے والے محدثین کے لئے بطور بنیاد کے سمجھی گئی۔ امام بخاریؒ ، امام مسلمؒ اور دوسرے بزرگ محدثین نے اپنے اپنے مجموعے مرتب کرتے وقت اس کتاب کو بھی سامنے رکھا اور صحیح احادیث کے انتخاب میں اس سے قابل قدر مدد لی۔
مسند میں مضامین کی بجائے راویوں کی ترتیب سے احادیث جمع کی گئی ہیں۔ مثلاً پہلے حضرت ابوبکرؓ سے مروی احادیث اس کے بعد حضرت عمرؓ کی مرویات اور اس کے بعد حضرت عثمانؓ کی علیٰ ھٰذالقیاس ترتیب وار تمام صحابہؓ کی مرویات درج کتاب ہیں۔
مضامین کے لحاظ سے ترتیب کی بعد میں کئی کوششیں ہوئیں لیکن ابھی تک مکمل شکل میںیہ مقصد زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوسکا۔
اس میں شک نہیں کہ مسند میں مروی بعض احادیث ضعیف ہیں لیکن علماء نے تصریح کی ہے کہ مسند میں کوئی موضوع روایت نہیں ہے۔ امام احمد کا مسلک یہ تھا کہ قرآن و سنت کے بعد احادیث آحاد مأخذ شریعت ہیں خواہ وہ صحیح ہوں یا ضعیف ،متصل ہوں یا مرسل۔ اقوالِ صحابہ کو بھی آپ حجت مانتے تھے، تابعین کی آراء کا بھی لحاظ رکھتے تھے۔ اس کے بعد بامر مجبوری شاذ طور پر قیاس، مصالح مرسلہ اور استصواب وغیرہ سے بھی کام لیتے تھے۔ صحابہ کے اجماع کے علاوہ وہ کسی اور اجماع کی شرعی حیثیت کے قائل نہ تھے کیونکہ ان کی رائے میں اجماع کا دعویٰ درست نہیں کیونکہ بہت ممکن ہے کہ کوئی مخالف ہو جس کا ہمیں علم نہ ہوسکا ہو۔
حنبلیوں کے نزدیک نص کی عدم موجودگی کی صورت میں قیاس سے کام لینا ضروری ہے لیکن ان کے ہاں حنفیوں اور شافعیوں کے مقابلہ میں قیاس کا مفہوم زیادہ وسیع ہے۔ اس میں استحسان مصالحہ مرسلہ ذرائع اور استصحاب سبھی وجوہِ استنباط شامل ہیں۔ مثلاً حنفیوں کے نزدیک بیع سلم کا جواز غیر قیاسی ہے کیونکہ یہ نص’’ لا تبع ما لیس عندک‘‘کے خلاف ہے اور بیع معدوم کے حکم میں ہے لیکن حنبلیوں کے نزدیک اس بیع کا جواز قیاسی ہے کیونکہ پبلک مصلحت اور ضرورت اور عرف کی بنا پر اس کی اجازت دی گئی ہے۔
مصالح امت کی بنا پر ہی امام احمد اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ شرپسند اور فسادی عناصر کو شہر بدر کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت مندوں کو لوگوں کے گھروں میں زبردستی ٹھہرایا جاسکتا ہے جبکہ کوئی اور صورت ممکن نہ ہو۔ یہی حکم اس صورت میں ہے جبکہ کسی ضروری پیشہ کا آدمی نہ مل رہا ہو تو کسی کو یہ پیشہ سیکھنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ سو ذرائع سے کام لینے سے بھی حنبلی کسی سے پیچھے نہیں وہ ان تمام ذرائع کے ممنوع ہونے کے قائل ہیں جو مفضی الی الفساد ہو سکتے ہیں۔ متعدی بیماری کے مریضوں کو پبلک مقامات میں جانے سے روکا جا سکتا ہے۔ فساد کے دنوں میں پبلک کے پاس اسلحہ فروخت کرنے کو منع کیا جاسکتا ہے۔ تلقی رکبان بھی اسی اصول کی بنا پر منع ہے اس سلسلہ میں نیت اور نتیجہ دونوں اپنی اپنی جگہ کام کرتے ہیں۔ ایک شخص کسی دوسرے کو قتل کرنے کی نیت سے بندوق چلاتا ہے لیکن گولی اس شخص کو لگنے کی بجائے سانپ کو جا لگتی ہے اور وہ مر جاتا ہے تو نتیجہ اگرچہ خیر ہے لیکن نیت بد ہے اس لئے بندوق چلانے والا اللہ تعالیٰ کے ہاں گنہگار ہوگا اور دنیا میں بھی مناسب گرفت ہوسکتی ہے۔
ایک شخص کسی دوسرے کو مکان میں بند کر دیتا ہے، وہاں وہ بھوکا پیاسا مر جاتا ہے تو امام احمد کے نزدیک بندش کے مرتکب کو دیت ادا کرنی ہوگی۔ رقص و سرود کے لئے کسی کو مکان کرایہ پر دینا بھی اسی اصول کے تحت ممنوع ہے۔
حنبلیوں نے استصحاب کے اصول سے بھی بہت کام لیا ہے۔ اسی اصول کے تحت ان کا مسلک یہ ہے کہ شک یقین کو زائل نہیں کر سکتا۔ اصلاً پانی طاہر ہے جب تک نجاست کے پڑنے کا یقین نہ ہو پانی پاک سمجھا جائے گا اور شبہ کا امکان قابل رد ہوگا۔
امام احمدؒ کے مسلک کا فروغ
امام احمد کے مسلک کو ان کی کتابوں کے علاوہ ان کے لائق شاگردوں نے مقبول بنایا۔ امام صاحب کے لڑکے علامہ عبداللہ نے ان کی مشہور زمانہ کتاب ’المسند‘ کو متعارف کرایا۔ اسی طرح ان کے لائق شاگرد ابوبکر الاثرم۔ عبدالملک المیمونی۔ ابوبکر المروزی۔ ابراہیم بن اسحاق الحربی اور ابوبکر الخلال اور دوسرے قابل شاگردوں نے ان کے مذہب کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کئے رکھا۔
امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم جیسے فضلائے زمانہ اسی مسلک سے وابستہ تھے۔
حنبلی ہر زمانہ میں اجتہاد کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے دروازہ کو کھلا مانتے ہیں اس وجہ سے فکر کی وسعت تو میسر آئی لیکن اختلافات کا انبار لگ گیا۔ ہر نئے مجتہد نے کسی نہ کسی مسئلہ میں اپنا الگ مسلک اختیار کیا اس پر بند لگانے کی کوئی صورت سامنے نہ آسکی۔
حنبلی مسلک کے علماء علمی میدان میں بڑے سربرآوردہ تھے۔ اس کے باوجود حنبلی مسلک کو مقبول عام نہ بناسکے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں مثلاً دوسرے فقہی مسالک کو استحکام کے لحاظ سے سبقت حاصل تھی۔ حنبلی مسلک قرون ماضیہ میں کہیں بھی حکومت کا مذہب نہ بن سکا۔ اب سعودیہ میں یہ سرکاری مذہب ہے۔
حنبلیوں میں بوجوہ تشدد تعصب اور تقشف کے عنصر کو غلبہ حاصل رہا۔ حنبلی مسلک کے پیرو عوام پر بیحد سختی کرتے تھے، فساد سے گریز نہ کرتے تھے۔ تاتاری حملہ سے کچھ عرصہ پہلے تو حنبلیوں کے شور و شر نے بغداد اور ملحقہ علاقوں میں بغاوت کی صورت اختیار کر لی تھی۔ اس وجہ سے عوام اس مسلک سے بالعموم متنفر رہے۔
(الفضل انٹرنیشنل ۲۵۔ اپریل ۱۹۹۷ء تا یکم مئی ۱۹۹۷ء)