امام مہدی کی مخالفت صداقت کا ثبوت
خدا کی طرف سے آنے والے ماموروں کو ہمیشہ ہی ابنائے عالم کی طرف سے مخالفتوں ، اذیتوں اور دکھوں کا سامنا رہا ہے ۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بڑے افسوس کے ساتھ فرمایا ۔ ’ وائے افسوس انکار کی طرف مائل بندوں پر کہ جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتے ہیں اور تمسخر کرنے لگتے ہیں۔ ‘ (سورۃ یٰس آیت ۳۱)
امت محمدیہ کی تاریخ بھی اسی تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور امت محمدیہ کے بزرگوں نے زیادہ تکلیفیں اٹھائیں۔ ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ زندیق قرار دیا گیا اور پھر واجب القتل قرار دے کر انہیں ظالم اور سفاک جلادوں کے سپرد کردیا گیا۔
امت محمدیہ کو ایک ایسے موعود کی خبر دی گئی جس کو الٰہی نوشتوں میں ’امام مہدی‘ کا نام دیا گیا ہے اور امت کا ایک بڑا حصہ آج بھی نظریاتی طور پر اس کا انتظار کررہا ہے مگر اس کے ساتھ بھی وہی سلوک مقدر ہے جو پہلے خدا والوں کے ساتھ ہوچکا ہے اور امت کے بزرگوں نے خود اس کی خبر دی ہے اور بات سب میں مشترک ہے کہ اما م مہدی کے سب سے بڑے مخالف اس کے زمانہ کے علما ء ہوں گے۔ چند حوالے پیش ہیں۔
حضرت ابن عربی
سپین میں چھٹی صدی ہجری کے ممتاز مفسر اور پیشوائے طریقت حضرت محی الدین ابن عربی (۱۱۶۵ء ۔ ۱۲۴۰ء) فرماتے ہیں۔
’جب امام مہدی دینا میں ظاہر ہوگا تو علمائے ظاہر سے بڑھ کر ان کا کوئی کھلا دشمن نہیں ہوگا۔ کیونکہ مہدی کی وجہ سے ان کا اثر و رسوخ جاتا رہے گا۔ ‘ (فتوحات مکیہ جلد ۳ صفحہ ۳۳۶)
محمد قاسم نانوتوی
فرقہ دیوبند کے پیشوا مولانا محمد قاسم نانوتوی (۱۸۳۱ء ۔ ۱۸۷۹ء) نے یہ پیش گوئی فرمائی۔
’ امام مہدی علیہ السلام چونکہ سراپا کلام اللہ کے موافق ہوں گے اس لئے کروڑوں لوگ مہدی سے روگردانی کریں گے۔ ‘ (قاسم العلوم ، صفحہ ۱۱۵)
پھر لکھتے ہیں۔
’امام مہدی جو اتباع سنت محمدی ﷺ کے تبلیغی مشن پر آئیں گے وہی کچھ فرمائیں گے جو اہل سنت و الجماعت کے عقائد صحیحہ میں موجود ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ مسلمانوں کا کوئی خاص فرقہ ان کو اپنے ڈھب کا نہ پاکر یہودیوں کی طرح جو پیغمبر آخرالزماں کے انتظار میں تھے اور پھر ان سے برگشتہ ہوگئے تھے ، ایسے ہی وہ فرقہ امام مہدی سے برگشتہ ہوجائے۔‘ (انوار النجوم صفحہ ۱۰۰)
نواب صدیق حسن خاں
اہل حدیث کے مسلمہ بزرگ نواب صدیق حسن خاں (۱۸۳۲ء ۔ ۱۸۸۹ء) لکھتے ہیں ۔ ’چونکہ مہدی علیہ السلام سنت کے احیاء اور بدعت کے انسداد کیلئے جہاد کریں گے علماء وقت جو فقہا کی تقلید اور مشائخ اور اپنے باپ دادوں کی پیروی کے عادی ہوں گے کہیں گے کہ یہ شخص دین اور ملت کی بنیادوں کو برباد کرنے والا ہے اور اس کی مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی عادت کے مطابق اس کی تکفیر اور گمراہی کے فتوے جاری کریں گے۔ ‘ (حجج الکرامہ صفحہ ۳۶۳)
امدادللہ مہاجر مکی
عالم اسلام کے مشہور عالم اور دیوبند اکابر کے روحانی پیشوا حافظ شاہ محمد امداداللہ مہاجر مکی (۱۸۱۸ء ۔ ۱۸۹۹ء) نے فرمایا۔
’ ظہور امام مہدی آخر الزماں کے ہم سب لوگ شائق ہیں مگر وہ زمانہ امتحان کا ہے اور اوّل اوّل ان کی بیعت اہل باطن اور ابدال شام بقدر ۳۱۳ اشخاص کے کریں گے اور اکثر لوگ منکر ہوجائیں گے۔ ‘ (شمائم امدادیہ مع اردو ترجمہ نفحات مکیہ صفحہ ۱۰۲)
نورالحسن خان
نواب صدیق حسن خان کے بیٹے مولوی نورالحسن خان نے لکھا ۔
’ اگر امام مہدی آگئے تو سارے مقلدبھائی ان کے جانی دشمن بن جائیں گے ان کے قتل کی فکر میں ہوں گے ۔ کہیں گے یہ شخص تو ہمارے دین کو بگاڑتا ہے۔ ‘ (اقتراب الساعۃ صفحہ ۲۲۴ مطبوعہ ۱۳۲۲ھ)
مولوی عبدالغفور
’مہدی اپنے احکام و فیصلوں میں علماء زمانہ کے خیالات کی مخالفت کرے گا جس سے وہ ناراض ہوجائیں گے۔ ‘ (النجم الثاقب جلد اوّل صفحہ ۸۶)
سید محمد سطبین السرسوی
امامیہ مکتبہ فکر کے فاضل نے مہدی موعود کی نسبت بتایا کہ ۔
’ علماء اس کے قتل کے فتوے دیں گے اور بعض اہل دول اس کے قتل کے لئے فوجیں بھیجیں گے اور یہ تمام نام کے مسلمان ہوں گے۔ ‘ (الصراط السوی فی احوال المہدی صفحہ ۵۰۷)
سید محمد عباس زیدی
شیعہ عالم سید محمد عباس زیدی الواسطی تحریر فرماتے ہیں کہ
’پہلے تو فقہائے عالم ہی برنبائے عدم معرف اس جناب کے (یعنی مہدی کے) قتل کا فتویٰ دیں گے۔ ‘ (آثار قیامت و ظہور حجت حصہ دوم صفحہ ۵۹)
شیعہ رسالہ ۔ ’البشر‘ لاہور
شیعہ لٹریچر میں دو تین ہزار علماء کا امام مہدی پر کفر کا فتویٰ لگانا ثابت ہے۔ شیعہ رسالہ ’البشر‘ لکھتا ہے ۔ ’امت میں سب سے پہلے علماء و امراء کے لئے گمراہی کی پیشگوئیاں مذہبی معلوم ریکارڈ میں موجود ہیں ۔ تین سو یادوسری روایت میں تین ہزار علماء کا حضرت حجۃ اللہ علیہ السلام کی تلوار سے قتل ہونا مسلمات میں سے ہے۔ جو حضور علیہ السلام پر نیا دین پیش کرنے اور گمراہی پھیلانے کا فتویٰ دیں گے۔ ‘ (’البشر‘ لاہور، اپریل مئی ۱۹۷۶ء صفحہ ۲۰)
صداقت کا ثبوت
پس مامورین الٰہی کی سنت کے مطابق امام مہدی کی غیر معمولی اور تمام علماء اور فرقوں کا اسکے خلاف اکھٹا ہوجانا اسکی صداقت کا ثبوت ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے ۱۸۸۲ء میں امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ اور دیگر تمام علامتوں کے ساتھ آپ کے حق میں علماء وقت کی مخالفت کی علامت بھی پوری ہوگئی۔ اور اسکا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخالفت کے باوجود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام اور انکی جماعت کو معجزانہ ترقی دی۔ آج انکی جماعت ۱۹۳ سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے اور اسکی تعداد کروڑوں میں ہے اور لاکھوں لوگ ہر سال اس جماعت میں داخل ہورہے ہیں۔ مبارک وہ جو ان علامتوں کو پورا ہوتا دیکھ کر امام مہدی کو قبول کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
یہ اگر انسان کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں!
ایسے کاذب کے لئے کافی تھا وہ پروردگار
کچھ نہ تھی حاجت تمہاری نے تمہارے مکر کی
خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہر یار
اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے ایک کذاب کی
کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں ہے کرتے ہو بڑھ بڑھ کے وار