حضرت اَبُوالْیَسَر کَعْب بن عَمروؓ
حضرت اَبُوالْیَسَر کَعْب بن عَمْرو کی کنیت اَبُوالْیَسَر تھی اور اَبُوالْیَسَر کا تعلق قبیلہ بنو سلَمہ سے تھا۔ والد ان کے عَمْرو بن عَبَّاد تھے۔ والدہ کا نام نَسِیْبَہ بنتِ اَزْہَرتھا وہ قبیلہ سَلَمہ سے ہی تھیں۔ آپ بیعت عقبہ میں شامل ہوئے اور غزوۂ بدر میں بھی شرکت کی۔ غزوۂ بدر کے روز آپ نے حضرت عباس کو گرفتار کیا تھا۔ آپ ہی وہ صحابی ہیں جنہوں نے غزوۂ بدر میں مشرکین کا جھنڈا ابوعَزِیْز بِن عُمَیر کے ہاتھ سے چھین لیا تھا۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیگر غزوات میں بھی شامل رہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جنگ صِفّین میں بھی حضرت علیؓ کے ساتھ شامل ہوئے۔ (اسد الغابه جلد صفحه 326- 327 مطبوعه دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت عباس کو غزوہ بدر میں قیدی بنانے والے حضرت عُبَید بِن اَوْس تھے۔ (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 528-529 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
بہرحال حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے، حضرت ابن عباس یہ کہتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے روز جس شخص نے حضرت عباسؓ کو گرفتار کیا تھا اس کا نام اَبُوالْیَسَر تھا۔ اَبُوالْیَسَر اس وقت دبلے پتلے آدمی تھے۔ غزوۂ بدر کے وقت آپ بیس برس کے جواں سال تھے جبکہ حضرت عباس بھاری بھرکم جسم کے مالک تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اَبُوالْیَسَر سے دریافت کیا کہ تم نے عباس کو کس طرح اسیر کر لیا، کس طرح قیدی بنا لیا؟ تم تو بالکل دبلے پتلے اور وہ بڑے لمبے چوڑے قد کے ہیں اور جسیم ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص نے میری مدد کی تھی جس کو مَیں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی کبھی بعد میں دیکھا ہے اور اس کا حلیہ ایسا ایسا تھا۔ اس کا حلیہ بیان کیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَقَدْ اَعَانَکَ عَلَیْہِ مَلَکٌ کَرِیْمٌ۔ یقیناً اس میں تیری ایک معزز فرشتے نے مدد کی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 4 صفحه 8 مطبوعه دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ بدر کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے دشمن کو قتل کیا اس کے لئے فلاں فلاں کچھ ہوگا۔ پس مسلمانوں نے ستر مشرکین کو قتل کیا اور ستر مشرکین کو قید بھی کیا۔ حضرت اَبُوالْیَسَر دو اسیروں کو لائے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ جو کوئی قتل کرے گا اس کے لئے فلاں فلاں کچھ ہو گا اور اسی طرح جو کوئی اسیر بنائے گا اس کے لئے فلاں فلاں ہو گا۔ میں دو قیدی لے کر آیا ہوں۔ (المصنف لعبد الرزاق جلد 5 صفحہ 239 کتاب الجهاد باب ذکر الخمس … الخ حدیث 9483 المکتب الاسلامی 1983ء)ایک روایت کے مطابق غزوہ بدر میں ابُوالْبَخْتَرِی کو قتل کرنے والے حضرت اَبُوالْیَسَر تھے۔ (اسد الغابه جلد 6 صفحه 92 مطبوعه دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت سَلَامَۃ بنت مَعْقَل بیان کرتی ہیں کہ میں حُبَاب بن عَمْرو کی غلامی میں تھی اور ان سے میرے ہاں ایک لڑکا بھی پیدا ہو اتھا۔ ان کی وفات پر ان کی بیوی نے مجھے بتایا کہ اب تمہیں حُبَاب کے قرضوں کے بدلے بیچ دیا جائے گا۔ تمہاری حیثیت لونڈی کی تھی اس لئے تم بیچ دی جاؤ گی۔ کہتی ہیں کہ مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ساری صورتحال بتائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ حُبَاب بن عَمْرو کے ترکے کا ذمہ دار کون ہے؟ توبتایا گیا کہ ان کے بھائی اَبُوالْیَسَر ان کے ذمہ دار ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ اسے مت بیچنا۔ یہ لونڈی ہے۔ اسے مت بیچنا بلکہ اسے آزاد کر دو۔ اور جب تمہیں پتہ لگے کہ میرے پاس کوئی غلام آیا ہے تو تم میرے پاس آ جانا۔ میں اس کے عوض میں تمہیں دوسرا غلام دے دوں گا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحه 726 حدیث 27569 مسند سلامہ بنت معقل مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر دیا اور اُن کو ایک غلام مہیا فرما دیا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سیرت خاتم النبیین میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ عُبَادَۃ بن ولید روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اَبُوالْیَسَر کو ملے۔ اس وقت ان کے ساتھ ایک غلام بھی تھا اور ہم نے دیکھا کہ ایک دھاری دار چادر اور ایک یمنی چادر ان کے بدن پر تھی اور اسی طرح ایک دھاری دار چادر اور ایک یمنی چادر ان کے غلام کے بدن پر تھی۔ میں نے انہیں کہا کہ چچا تم نے ایسا کیوں نہ کیا کہ اپنے غلام کی دھاری دار چادر خود لے لیتے اور اپنی چادر اسے دے دیتے یا اس کی یمنی چادر خود لے لیتے اور اپنی دھاری دار چادر اسے دے دیتے تا کہ تم دونوں کے بدن پر ایک ایک طرح کا جوڑا ہو جاتا۔ حضرت اَبُوالْیَسَر نے میرے سر پر، روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لئے دعا کی اور پھر مجھے کہنے لگے کہ بھتیجے میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے اور میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میرے اس دل نے اسے اپنے اندر جگہ دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اپنے غلاموں کو وہی کھانا کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور وہی لباس پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو۔ پس میں اس بات کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں کہ میں دنیا کے اموال میں سے اپنے غلام کو برابر کا حصہ دے دوں بہ نسبت اس کے کہ قیامت کے دن میرے ثواب میں کوئی کمی آوے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 383)
تو یہ تھے وہ لوگ جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو اس باریکی سے دیکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہر وقت بے چین رہتے تھے بلکہ اس کے بھوکے تھے۔
حضرت اَبُوالْیَسَر روایت کرتے ہیں کہ بنوحرام کے فلاں بن فلاں کے ذمہ میرا مال تھا۔ میں نے کچھ پیسے اسے دئے تھے۔ اس نے مجھے قرض دینا تھا۔ اس کے ذمہ قرضہ تھا۔ میں اس کے ہاں گیا۔ میں نے سلام کیا اور پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ یہاں گھر میں ہے؟ گھر سے جواب ملا کہ نہیں۔ کہتے ہیں کہ پھر اس کا بیٹا جو بلوغت کے قریب تھا۔ ابھی بالغ نہیں ہوا تھا۔ وہ بیٹا میرے پاس آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا باپ کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ اس نے آپ کی آواز سنی اور میری ماں کے چھپر کھٹ میں گھس گیا، وہ آپ کی آواز سن کر پلنگ کے پیچھے چھپ گیا۔ تو میں نے کہا میرے پاس باہر آؤ۔ پھر میں نے آواز دی کیونکہ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تو کہاں ہے، اس گھر والے مقروض کو کہا کہ باہر آ جاؤ مجھے پتہ ہے تم کہاں ہو۔ اَبُوالْیَسَر کہتے ہیں کہ چنانچہ وہ باہر آیا۔ میں نے کہا کہ تم کیوں مجھ سے چھپے تھے؟ اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! مَیں تمہیں بتاتا ہوں اور تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اللہ کی قَسم! میں ڈرا کہ تمہیں بتاؤں اور تم سے جھوٹ بولوں اور تم سے وعدہ کروں اور پھر وعدہ خلافی کروں کہ پھر مَیں آؤں، جھوٹ بول کے کہوں کہ اچھا میں فلاں دن تمہاری یا فلاں وقت تمہاری رقم دے دوں گا لیکن وعدہ پورا نہ کر سکوں اور جھوٹ بولوں۔ پھر کہنے لگا کہ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور اللہ کی قسم میں محتاج ہوں۔ اَبُوالْیَسَر کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم؟ یعنی سوال کیا اس سے کہ تم اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتے ہو حقیقی طور پر؟ اس نے کہا ہاں اللہ کی قسم۔ میں نے کہا اللہ کی قسم؟ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ تم اللہ کی قسم کھا کر مجھے یہ بات کہہ رہے ہو کہ تم محتاج ہو؟ اس نے کہا ہاں اللہ کی قسم۔ میں نے پھر کہا، تیسری دفعہ کہ اللہ کی قسم؟ اس نے کہا ہاں اللہ کی قسم۔ کہتے ہیں کہ حضرت اَبُوالْیَسَر اس وقت اپنی تحریر لے کر آئے اور اپنے ہاتھ سے اسے مٹا دیا جو لکھی ہوئی تھی۔ قرضہ واپس دینے کی تحریر تھی اسے مٹا دیا اور کہا کہ اگر تمہیں ادائیگی کی توفیق ملے تو مجھے ادا کر دینا ورنہ تم آزاد ہو۔ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں میری ان دو آنکھوں کی بصارت یعنی اپنی دونوں انگلیاں اپنی آنکھوں پر رکھیں اور میرے ان دو کانوں کی شنوائی اور میرے دل نے اس بات کو یاد رکھا ہے اور انہوں نے دل کی جگہ کی طرف اشارہ کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، جب یہ تحریر مٹائی اور آزاد کیا تو کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں اپنی آنکھوں سے، اپنے کانوں سے، اپنے دل سے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں اور آپؐ فرما رہے تھے کہ جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اس کا تمام مالی بوجھ اتار دیا اللہ تعالیٰ اسے اپنے سائے میں جگہ دے گا۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق باب حدیث جابر الطویل و قصۃ ابی الیسر حدیث 7512)تو میں نے تمہارا بوجھ اتار دیا کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ کے سائے کی تلاش ہے۔ یہ ایک اور مثال ہے اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کی۔ خواہش تھی تو بس یہی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو نہ کہ دنیاوی منفعت۔
حضرت اَبُوالْیَسَر کَعْب بن عَمْرو احادیث کے بیان کرنے میں نہایت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ ایک مرتبہ عبادۃ بن ولید سے دو حدیثیں بیان کیں اور حالت یہ تھی کہ آنکھ اور کان پر انگلی رکھ کر کہتے کہ ان آنکھوں نے یہ واقعہ دیکھا اور ان کانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان فرماتے سنا۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق باب حدیث جابر الطویل و قصۃ ابی الیسر حدیث 7512، 7513)
حضرت اَبُوالْیَسَر کے ایک بیٹے کا نام عُمَیر تھا جو اُمّ عَمْرو کے بطن سے تھے۔ حضرت اُمّ عَمْرو حضرت جابر بن عبداللہ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کے ایک بیٹے یزید بن ابی یسر تھے جو کہ لبابۃ بنت حارث کے بطن سے پیدا ہوئے۔ ایک بیٹے کا نام حبیب تھا جن کی والدہ اُمّ ولد تھیں۔ ایک بیٹی عائشہ تھیں جن کی والدہ کا نام اُمُّ الرَّیَاع تھا آپ غزوۂ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے۔ اس وقت آپ کی عمر بیس برس تھی۔ آپ کی وفات حضرت امیر معاویہ کے زمانے میں پچپن ہجری میں ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 436مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)