حضرت اَبُو بُرْدَہ بِن نِیَارؓ
حضرت اَبُو بُرْدَہ بِن نِیَار کی کنیت اَبُو بُرْدَہ تھی۔ اَبُو بُرْدَہ اپنی کنیت سے مشہور تھے۔ ان کا نام ہانی تھا۔ ایک روایت میں آپ کا نام حارث اور ایک دوسری روایت میں مالک بھی بیان ہوا ہے۔ ان کا تعلق قبیلہ بَنُو قُضَاعَہ کے خاندان بَلِی سے تھا۔ حضرت اَبُو بُرْدَہ حضرت براء بن عازبؓ کے ماموں تھے۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت اَبُو بُرْدَہ حضرت بَرَاء بن عَازِب کے چچا تھے۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ غزوۂ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ فتح مکہ کے دن بنو حارثہ کا جھنڈا حضرت اَبُو بُرْدَہ کے پاس تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 344 ابو بردہ بن نیارؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اصابہ جلد 7صفحہ 31-32 ابو بردہ بن نیارؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) (اسد الغابہ جلد 5صفحہ 358 ھانیٔ بن نیارؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء) حضرت اَبُوعَبْس اور حضرت اَبُو بُرْدَہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس وقت دونوں نے قبیلہ بنو حَارِثہ کے بتوں کو توڑا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 343 ابو عبس بن جبرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) یعنی اپنے قبیلے کے وہ جو بت تھے، اُن کو(توڑا تھا)۔ حضرت ابو اُمَامہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر کے لئے بدر کی طرف کوچ کا ارادہ کیا تو حضرت ابو اُمَامہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے۔ اس پر ان کے ماموں حضرت اَبُو بُرْدَہ بن نِیَار نے کہا کہ تم اپنی ماں کی خدمت گزاری کے لئے رک جاؤ۔ ماں بیمار تھی ان سے کہا تم رک جاؤ۔ حضرت ابو اُمَامہ نے کہا، ان میں بھی جوش تھا کہ اسلام کے خلاف حملہ ہو رہا ہے تو میں بھی جاؤں۔ انہوں نے کہا کہ وہ آپ کی بھی بہن ہیں۔ مجھے جو کہہ رہے ہیں تو آپ رک جائیں۔ جب یہ معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو امامہ کو رکنے کا حکم دیا یعنی بیٹے کو اور حضرت اَبُو بُرْدَہ لشکر کے ساتھ گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے واپس آئے تو حضرت ابو امامہ کی والدہ فوت ہو چکی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ (اسد الغابہ جلد 6صفحہ 15 ابو امامہ بن ثعلبہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
غزوۂ احد کے دن مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے تھے۔ ایک گھوڑا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جس کا نام ’اَلسَّکْب‘ تھا اور اور دوسرا گھوڑا حضرت ابو بُرْدَہ کے پاس تھا جس کا نام ’مُلَاوِحْ‘ تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 1صفحہ 380 ذکر خیل رسول اللہﷺ و دوابہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت اَبُو بُرْدَہ بن نِیَار بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ قبائل کے پاس تشریف لے گئے۔ اُن کے حق میں دعا کی لیکن ایک قبیلے کو آپؐ نے چھوڑ دیا اور ان کے پاس تشریف نہیں لے کے گئے۔ اس پر یہ بات اس قبیلے والوں کو بڑی گراں گزری کہ کیا وجہ ہے ؟۔ اس پر انہوں نے اپنے ایک ساتھی کے مال کی تلاشی لی تو اس کی چاد ر میں سے ایک ہار نکلا جو اس نے خیانت کرتے ہوئے لے لیا تھا۔ پھر ان لوگوں نے وہ ہار واپس کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بھی تشریف لے گئے اور ان لوگوں کے حق میں بھی دعا کی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جلد 22 صفحہ 195 ما اسندہ ابو بردہ بن نیارؓ حدیث 511 مطبوعہ دار احیائ التراث العربی بیروت 2002ء)
حضرت اَبُو بُرْدَہ حضرت علی کے ساتھ تمام جنگوں میں شامل رہے۔ آپؓ کی وفات حضرت معاویہؓ کے ابتدائی دور میں ہوئی۔ ان کی وفات کے سال کے بارہ میں مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آپ کی وفات 41 ہجری میں ہوئی جبکہ دوسری روایات میں 42ہجری اور 45ہجری کا ذکر بھی ملتا ہے۔ (اصابہ جلد 7صفحہ 32 ابو بردہ بن نیارؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت بَرَاء بن عَازِب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیہ کے دن نماز کے بعد ہم سے مخاطب ہوئے اور فرمایا جس نے ہماری نماز جیسی نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی تو اس نے ٹھیک قربانی کی اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کر لی تو وہ بکری گوشت ہی کے لئے ہوئی۔ یعنی یہ قربانی نہیں ہے۔ بلکہ عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا وہ تو اس طرح ہی ہے جس طرح گوشت کھانے کے لئے بکری ذبح کر لی۔ اس پر حضرت اَبُو بُرْدَہ بن نِیَار اٹھے(جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے) اور انہیں کہا یا رسول اللہ! میں نے تو نماز کے نکلنے سے پہلے ہی قربانی کر لی ہے اور میں یہ سمجھا تھا کہ آج کا دن کھانے پینے کا ہے۔ اس لئے میں نے جلدی کی، خود بھی کھایا اور اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں کو بھی کھلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بکری تو گوشت ہی کے لئے ہوئی۔ یہ تمہاری قربانی نہیں ہے۔ اس پر حضرت اَبُو بُرْدَہ نے کہا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیاں یعنی بکری کے مادہ بچے ہیں اور وہ گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہیں یعنی کہ اچھی پلی ہوئی ہیں اور گو ایک سال کی ہیں لیکن دو بکریوں کی نسبت سے زیادہ بہتر ہیں، موٹی تازی ہیں۔ اگر میں یہ قربانی کر دوں تو کیا میری طرف سے کافی ہو گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں کر دو لیکن تمہارے بعد کسی کو کافی نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری کتاب العیدین باب کلام الامام والناس فی الخطبۃ العید … الخ حدیث 983)تمہیں تو یہ اجازت ہے لیکن تمہارے بعد اور کسی کو اجازت نہیں۔ دوسری احادیث بھی یہی بتاتی ہیں کہ ایک تو یہ کہ عید کے بعد قربانی کی جائے اور دوسرے بکری کی قربانی کی ایک عمر ہوتی ہے وہ ہونی چاہئے۔ بہرحال یہ جو آپؐ نے فرمایا کہ تمہارے بعد کسی کو کافی نہیں ہے۔ اس بارے میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں سوال ہوا کہ قربانی کے بکرے کی عمر کیا ہونی چاہئے تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حضرت مولانا نورالدینؓ وہاں بیٹھے ہوئے تھے ان کو فرمایا کہ آپ جواب دیں۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ اہل حدیث کے نزدیک دو سال کا ہونا ضروری ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 10 صفحہ 100)
یا ہمارے ملکوں میں یہ رواج ہے کہ وہ کہتے ہیں د وندا ہونا ضروری ہے۔ سامنے کے دو بڑے دانت نکلے ہونے چاہئیں۔ تو بہرحال اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اَبُو بُرْدَہ کوجو فرمایا کہ تمہاری قربانی تو مَیں اس ایک سال کے پٹھے کی قبول کرتا ہوں لیکن آئندہ کے لئے اَور کسی کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ جوان بکری یا بکرا ہونا چاہئے اور یہی طریق جماعت میں رائج ہے یا ہمارے فتوے میں ہے جیسا کہ میں نے کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔