حضرت اَوْس بن اَلصَّامِتؓ
حضرت اَوْس بن اَلصَّامِت بدر کےایک صحابی تھے جنہوں نے بدر میں حصہ لیا ہے۔ حضرت اوس بن صامت حضرت عبادۃ بن صامتؓ کے بھائی تھے۔ حضرت اوس غزوۂ بدر اور احد اور دوسرے تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اوس بن صامت اور حضرت مَرْثَد بنْ ابِی مَرْثَد اَلْغَنَوِی کے درمیان عقد مؤاخات کیا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت اوس نے اپنی اہلیہ خُوَیْلَہ بنتِ مالِک سے ظِھَار کیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 413 اوس بن صامتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 323 اوس بن صامتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
ظِھَارکہتے ہیں جو عربوں میں یہ رواج تھا کہ اپنی بیوی کو ماں کہہ دیایا بہن کہہ دیا اس طرح کہنے کے بعد اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے یعنی کہ تم میری ماں ہو اس لئے حرام ہو گئی ہو۔ اسلام نے اس رسم کو مٹا دیا اور حکم دیا کہ اس کلمہ کے کہنے سے طلاق نہیں ہوتی۔ ماں بہن کہہ دیاتو طلاق نہیں ہو جاتی۔ ہاں یہ بیہودہ بات ہے جس کی سزا میں اسلام نے کفّارہ مقرر کیاہے۔ حضرت اَوس نے کفارہ نہیں ادا کیا، کفارہ دینے سے پہلے اپنی اہلیہ سے تعلق قائم کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ یہ غلط ہے۔ پندرہ صَاع جَو ساٹھ مسکینوں کو کھلائیں۔ یعنی کفّارہ یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو تم کھانا کھلاؤ۔ ظِھَارکے متعلق قرآن کریم میں بھی حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَّذِیۡنَ یُظٰہِرُوۡنَ مِنۡکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِہِمۡ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمۡ ؕ اِنۡ اُمَّہٰتُہُمۡ اِلَّا الّٰٓیِٴۡ وَلَدۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّہُمۡ لَیَقُوۡلُوۡنَ مُنۡکَرًا مِّنَ الۡقَوۡلِ وَ زُوۡرًا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ ۔وَ الَّذِیۡنَ یُظٰہِرُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِہِمۡ ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا قَالُوۡا فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا ؕ ذٰلِکُمۡ تُوۡعَظُوۡنَ بِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ۔فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ شَہۡرَیۡنِ مُتَتَابِعَیۡنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّتَمَآسَّا ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ فَاِطۡعَامُ سِتِّیۡنَ مِسۡکِیۡنًا ؕ ذٰلِکَ لِتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ۔ (المجادلۃ3-5)تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ دیتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں ہو سکتیں۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا اور یقیناً وہ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ اور اللہ یقیناً بہت درگزر کرنے والا اور بہت بخشنے والا ہے۔ اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں کو ماں کہہ دیتے ہیں پھر جو کہتے ہیں اس سے رجوع کر لیتے ہیں۔ یعنی پہلے ماں کہہ دیا۔ پھر کہہ دیا اوہو غلطی ہو گئی تو پیشتر اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں، ایک گردن کاآزاد کرنا ہے یعنی اس زمانے میں تو غلام ہوتے تھے ایک غلام کو آزاد کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ وہ ہے جس کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ پس جو اس کی استطاعت نہ پاتے ہوں۔ (اگر یہ استطاعت نہیں ہے کہ غلام ہے اس کوآزاد کرنا ہے) تو مسلسل دو مہینے کے روزے رکھنا ہے پیشتر اس کے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں۔ پس جو اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے طمانیت نصیب ہو۔ یہ اللہ کی حدود ہیں اور کافروں کے لئے بہت ہی دردناک عذاب مقدرہے۔
اس کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ:’’جو شخص اپنی عورت کو ماں کہہ بیٹھے تو وہ حقیقت میں اس کی ماں نہیں ہو سکتی۔ ان کی مائیں وہی ہیں جن سے وہ پیدا ہوئے۔ سو یہ ان کی بات نامعقول اور سراسر جھوٹ ہے اور خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اور جو لوگ ماں کہہ بیٹھیں اور پھر رجوع کریں تو اپنی عورت کو چھونے سے پہلے ایک گردن آزاد کر دیں۔ یہی خدائے خبیر کی طرف سے نصیحت ہے اور اگر گردن آزاد نہ کر سکیں تو اپنی عورت کو چھونے سے پہلے دو مہینہ کے روزے رکھیں اور اگر روزے نہ رکھ سکیں تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاویں۔ ‘‘ (آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 50)
ان کی بیوی حضرت خُوَیْلَہ بنتِ مَالِک بن ثَعْلَبَہ سے روایت ہے، کہ میرے شوہر اَوس بن صَامِتْ نے مجھ سے ظِہَار کیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کر گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں مجھے فرما رہے تھے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کر۔ وہ تیرا چچا زاد بھائی بھی ہے۔ مجھے اپنی بات پر اصرار رہا یہاں تک کہ قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی۔ انہوں نے کہا ماں کس طرح ہو سکتی ہے۔ وہ تمہارا چچا زاد بھائی بھی ہے اور تم اس کی بیوی ہو۔ کہتی ہیں مَیں نے بہرحال اس بات پر اصرار کیا یہاں تک کہ قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ قَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّتِیۡ تُجَادِلُکَ فِیۡ زَوۡجِہَا۔ (المجادلۃ:2) کہ اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپؐ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ یعنی تیرا خاوند ایک غلام آزاد کرے۔ اب اس کی سزا یہ ہے جو آیت میں بیان ہوئی جس طرح قرآن شریف کا حکم ہے۔ اس کے بعد ساری تفصیل ہےجو پہلے بیان ہو چکی ہے کہ ایک غلام کو آزاد کرو۔ کہتی ہیں میں نے اس پہ عرض کیا کہ اس میں اس کی طاقت نہیں۔ کہاں سے لے؟ وہ تو غریب آدمی ہے۔ آپؐ نے فرمایا پھر دو مہینے کے لگاتار روزے رکھے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کی عمر ایسی ہے کہ وہ لگاتار روزے بھی نہیں رکھ سکتا۔ اِس کی اس میں سکت نہیں ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا۔ پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ اس کے پاس تو مال بھی کوئی نہیں ہے۔ اس کے پاس کچھ نہیں ہے جس سے وہ صدقہ دے۔ خُوَیْلَہ کہتی ہیں میں بیٹھی ہوئی تھی کہ تبھی اس وقت کھجور کا ایک تھیلا آیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی نے پیش کیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں کھجوروں کے دوسرے تھیلے کے ساتھ اس کی مدد کروں گی یعنی اگر یہ مجھے مل جائے تو ایک اَور تھیلے کا انتظام ہو سکتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ جا اِس کو لے جا۔ یہ تھیلا لے جاؤ اور اس میں سے اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ اور پھر اپنے چچا کے بیٹے کے پاس جاؤ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب فی الظھار حدیث 2214) یعنی اپنے خاوند کے پاس جاؤ۔ تم اس کے کہنے سے کوئی ماں واں نہیں بنی۔ ان صحابہ کی سیرت بیان ہوتی ہے توبعض مسائل بھی ساتھ ساتھ حل ہو جاتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ سب سے پہلا ظِہَارجو اسلام میں ہوا۔ یعنی بیوی کو ماں کہنے کا وہ یہی حضرت اوس بن صامت کا تھا۔ ان کے نکاح میں ان کے چچا کی بیٹی تھی ان سے انہوں نے ظِہَارکیا تھا۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 323 اوس بن صامتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہ حدود قائم کی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہ معاملہ پیش ہوا۔ آپؑ نے فرمایا کہ اس کی یہی سزا ہے۔ خلیفہ ثانیؓ کے زمانہ میں اسی طرح ایک معاملہ پیش ہوا آپؓ نے فرمایا یہی سزا ہے۔ اور سوائے اس کے کہ کوئی بہت ہی غریب ہے اور طاقت نہیں ہے تو پھر وہ استغفار کرے اور جس حد تک سکت ہے، پہنچ ہے وہ اس کی سزا میں دے۔ تو بہرحال اللہ تعالیٰ نے بیوی کو ماں یا بہن کہنے کے لئے حدود قائم کی ہیں۔ بعضوں کو عادت ہوتی ہے ہر ذرا سی بات پر لڑائیاں ہوئیں تو کہہ دیا کہ میرے پہ حرام ہو گئی یا یہ ہو گیا تو تم میری ماں کی طرح ہو تم فلاں ہو یا قسم کھا لی۔ تو یہ سب قسمیں ہیں اور ان پر حدود قائم ہوتی ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے تو اس کو یہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ غلام کو آزاد کرو یا روزے رکھو یا مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔
حضرت اوس بن صامتؓ شاعر بھی تھے۔ حضرت اوس بن صامت اور شَدَّادبن اوس انصاری نے بیت المقدس میں رہائش رکھی۔ ان کی وفات سر زمین فلسطین کے مقام رَمْلَہ میں 34 ہجری میں ہوئی۔ اس وقت حضرت اوس کی عمر 72 سال تھی۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 323 اوس بن صامتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)