حضرت اَوْس بن خَوْلِی انصاریؓ
حضرت اَوْس بن خَوْلِی انصاریؓ کی کنیت ابو لَیْلٰی تھی ۔ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو سالِم بن غَنَم بن عَوف سے تھا۔ آپؓ کی والدہ کا نام جمیلہ بنت اُبَیّ تھا جو عبداللّٰہ بن ابُیَّ بن سَلُول کی بہن تھیں۔ آپؓ کی ایک بیٹی تھیں جن کا نام فُسْحُم تھا۔ آپ غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کی مؤاخات حضرت شُجَاع بن وَہْب اَلْاَسَدِی ؓسے کروائی۔ حضرت اَوْس بن خَوْلِی کا شمار ’کاملین‘ میں ہوتا تھا۔ جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں ’کامل‘ اس شخص کو کہا جاتا تھا جو عربی لکھنا جانتا ہو۔ تیر اندازی کرنا اچھی طرح جانتا ہو اور تیراکی جانتا ہو۔ اچھی طرح تیرنا جانتا ہو۔ یہ تین باتیں اس میں ہوں تو اس کو کامل کہتے تھے اور یہ سب باتیں حضرت اَوْس بن خَوْلِی میں موجود تھیں۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 320 اوس بن خَوْلِی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 409-410 اوس بن خَوْلِی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت نَاجِیَہ بن اَعْجَمؓ روایت کرتے ہیں کہ جب حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی کی قلت کی شکایت کی گئی تو انہوں نے مجھے بلایا اور اپنی ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور مجھے دیا۔ پھر کنوئیں کا پانی ایک ڈول میں منگوایا۔ میں اس کو لے کر آیا۔و بھی آتی ہے آتفصیل ب ت آپؐ نے وضو فرمایا اور کلّی کر کے ڈول میں انڈیل دیا جبکہ لوگ سخت گرمی کی حالت میں تھے۔ مسلمانوں کے پاس ایک ہی کنواں تھا کیونکہ مشرکین بَلْدَح کے مقام پر جلدی پہنچ کر اس کے پانی کے ذخیروں پر قبضہ کر چکے تھے۔ پھر آپؐ نے مجھے فرمایا کہ اس ڈول کو کنوئیں میں انڈیل دو جس کا پانی خشک ہو گیاہے اور اس کے پانی میں تیر گاڑ دو تو میں نے ایسا ہی کیا۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مَیں بہت مشکل سے باہر نکلا یعنی فوری طور پہ وہاں پانی ابلنے لگ گیا ،پھوٹنے لگ گیا۔ مجھے پانی نے ہر طرف سے گھیر لیا تھا اور پانی ایسے ابل رہا تھا جیسے دیگچی ابلتی ہے یہاں تک کہ پانی بلند ہوا اور کناروں تک برابر ہو گیا۔ لوگ اس کے کنارے سے پانی بھرتے تھے یہاں تک کہ ان میں سے آخری شخص نے بھی پیاس بجھا لی۔ اس دن منافقوں کا ایک گروہ وہاں پانی پر تھا جن میں عبداللّٰہ بن اُبَیّ بھی تھا جوحضرت اَوْس بن خَوْلِیؓ کا ماموں تھا۔ حضرت اَوْس بن خَوْلِیؓ نے اسے کہا کہ اے اَبُو الْحُبَاب! ہلاکت ہو تجھ پر۔ اب تو تُو اس معجزے کو مان لے جس پر تُو خود موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کو مان لے۔ کیا اس کے بعد کوئی گنجائش رہ گئی ہے؟ تو اس نے جواب دیا میں اس جیسی بہت سی چیزیں دیکھ چکا ہوں تو اس کو حضرت اَوْس بن خَوْلِی ؓنے کہا کہ اللہ تیرا بُرا کرے اور تیری رائے کو بُرا ثابت کر دے۔ عبداللّٰہ بن اُبَیّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اَبُو الْحُبَاب! آج جو تُو نے دیکھا ہے اس جیسا پہلے کب دیکھا تھا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خبر پہنچی تو آپؐ نے پوچھا۔ اس نے کہا کہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر وہ بات تم نے کیوں کہی یعنی جو اپنے بھانجے کو کہی تھی۔ عبداللّٰہ بن اُبَیّ نے کہا کہ استغفراللہ۔ عبداللّٰہ بن اُبَیّ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبداللہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کے لئے مغفرت کی دعا کیجئے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت کی دعا کی۔ (سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 41 باب فی غزوۂ الحدیبیۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1993ء) (امتاع الاسماع جلد 1 صفحہ 284 باب مقالۃ المنافقین فی دلیل النبوۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1999ء)
حضرت علی بن عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمرہ کے لیے مکہ جانے کا ارادہ فرمایا تو آپؐ نے اَوْس بن خَوْلِی ؓاور ابورَافِع ؓ کو حضرت عباسؓ کی طرف پیغام دے کر بھیجا کہ وہ حضرت میمونہؓ کی شادی آپ سے کروا دیں۔ راستے میں ان دونوں کے اونٹ کھو گئے۔ وہ کچھ دن بطنِ رَابِغْ یعنی رَابِغْ جو جُحْفَہ سے دس میل کے فاصلے پر واقع ہے وہاں رکے رہے ۔یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ پھر ان دونوں کو ان کے اونٹ مل گئے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی مکہ گئے۔ آپؐ نے حضرت عباسؓ کے پاس پیغام بھیجا۔ حضرت میمونہؓ نے اپنا معاملہ حضرت عباسؓ کے سپرد کر دیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباسؓ کے ہاں تشریف لے گئے اور حضرت عباسؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت میمونہؓ کی شادی کرا دی۔ (شرح علامہ زرقانی جلد 4 صفحہ 423 میمونۃ ام المومنین مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء) (معجم البلدان جلد 3 صفحہ 12 زیر لفظ رابغ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرت اَوْس بن خَوْلِیؓ نے حضرت علی بن ابی طالبؓ سے کہا کہ میں آپؓ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ ہمیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شریک کر لیں۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے آپ کو اجازت دی۔
اس کی ایک دوسری روایت اس طرح ملتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپؐ کو غسل دینے کا ارادہ کیا گیا تو انصار آئے اور انہوں نے یہ کہا کہ اللہ اللہ !ہم لوگ آپؐ کے ننھیالی ہیں۔ لہٰذا ہم میں سے بھی کسی کو آپؐ کے پاس حاضر ہونا چاہیے، یعنی کہ انصار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھیالی ہیں۔ انصار سے کہا گیا کہ تم لوگ اپنے میں سے کسی ایک شخص پر اتفاق کر لو۔ کوئی ایک شخص مقرر کر دو ۔ تو انہوں نے حضرت اَوْس بن خَوْلِیؓ پر اتفاق کیا۔ وہ اندر آئے اور آپؐ کے غسل اور تدفین میں شریک رہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل اور تدفین میں شریک رہے۔ حضرت اوس ؓمضبوط آدمی تھے۔ اس لئے پانی کا گھڑا اپنے ہاتھ میں اٹھا کر لاتے تھے اور اس طرح پانی مہیا کرتے رہے۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 320 اوس بن خَوْلِی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء) (اصابہ جلد 1صفحہ 299 اوس بن خَوْلِی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت علیؓ، حضرت فضل بن عباسؓ ان کے بھائی قُثَمْ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام شُقْرَان اور حضرت اَوْس بن خَوْلِیؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں اترے تھے۔(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ذکر وفاتہ و دفنہؐ حدیث 1628) یعنی نعش لحد کے اندر رکھنے کے لئے۔
حضرت اوس بن خَوْلِی ؓسے مروی ہے کہ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا اے اوسؓ! جو اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی اور انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بڑھاتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کرتا ہے۔ (معرفۃ الصحابہ لابی نعیم جلد 1 صفحہ 279 من اسمہ اوس حدیث 975 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
پس یہ بہت ضروری سبق ہے جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ آپؓ کی وفات مدینہ میں حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں ہوئی۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 321 اوس بن خَوْلِی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)