حضرت ایاس بن بُکَیرؓ
حضرت ایاس بن بُکَیر کو ابن ابی بُکَیْر بھی کہا جاتا تھا۔ آپ قبیلہ بنو سعد بن لَیث سے تھے جو بنو عدی کے حلیف تھے۔ حضرت عاقل، حضرت عامر، حضرت ایاس اور حضرت خالد نے اکٹھے دار ارقم میں اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت ایاس اور ان کے بھائیوں حضرت عاقل اور حضرت خالد اور حضرت عامر نے اکٹھی ہجرت کی اور مدینہ میں رفاعہ بن عبدالمنذر کے ہاں قیام کیا۔ ان کی والدہ کی طرف سے تین بھائی اور بھی تھے یہ سب کے سب غزوہ بدر میں شامل ہوئے۔ ابن یونس نے کہا ہے کہ ایاس فتح مصر میں بھی شریک تھے اور 34ہجری میں وفات پائی جبکہ ایک روایت کے مطابق حضرت ایاس نے جنگ یمامہ میں شہادت پائی۔ ان کے بھائی حضرت معاذ اور حضرت معوذ اور عاقل غزوہ بدر میں جبکہ حضرت خالد واقعہ رجیع میں اور حضرت عامر جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ حضرت عامر کے متعلق ایک روایت یہ ہے کہ آپ نے بئر معونہ میں شہادت پائی۔ حضرت ایاس بن بُکَیْر غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق اور باقی تمام غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے۔ آپ سابقین اسلام میں سے تھے اور ابتدائی ہجرت کرنے والوں میں سے تھے۔ آپ محمد بن ایاس بن بُکَیْر کے والد تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ایاس بن بُکَیْر اور حضرت حارث بن خزمہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ یہ شاعر بھی تھے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ297-298 عاقل بن ابی البکیر، ایاس بن ابی البکیر، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)،(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد1 صفحہ213 ایاس بن البکیر، دار الفکر بیروت 2003ء)،(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد1 صفحہ309-310 ایاس بن ابی البکیر، دار الکتب العلمیۃ بیروت2005ء)،(کتاب المحبر صفحہ399-400 دار نشر الکتب الاسلامیۃ لاہور)،(بدر البدور المعروف اصحاب بدر مصنفہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری صفحہ44، ایاس بن البکیر، مکتبہ نذیر یہ لاہور)
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ابوالبُکیر کے لڑکے یعنی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ بلال اس سے بہتر ہے اس کے متعلق سوچو۔ وہ لوگ چلے گئے۔ دوسری مرتبہ پھر آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری بہن کا فلاح شخص کے ساتھ نکاح کر دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ وہ لوگ سوچنے کے لئے پھر چلے گئے۔ پھر وہ لوگ تیسری مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر یہی عرض کی کہ ہماری بہن کا فلاں شخص کے ساتھ نکاح کر دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا کہ بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ اور پھر فرمایا کہ ایسے شخص کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جو اہل جنت میں سے ہے۔ پھر ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ٹھیک ہےاور بلال سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ179 بلال بن رباح، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)