ایک امام کروڑوں متبعین

امتیاز احمد راجیکی

ایک ایسی سلطنت کا دارالخلافہ جو مکانی بند و بست سے بالا، جغرافیائی حدود و قیود سے آزاد، علاقائی بندشوں سے پاک اور نظریاتی عصبیتوں سے ماورا ایک ایسی آشتی کا گہوارہ ہے جس کے در و بام بلا امتیاز ہر متلاشیِ حق اور متمنیِ امن و پناہ کے لیے ہر لمحے محبتوں کے دیپ جلائے راحت و سکون کی بانہیں پھیلائے منتطر رہتے ہیں۔ اور اس کے درمیان میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے ایک خوبصورت گھر کا اکلوتا گنبد جس سے پیوستہ چار سو پھیلی ہوئی ملحقہ تکونی محرابیں ہر آن یہ احساس ہویدا رکھتی ہیں کہ وحدت و توحید کا مرکز ایک ہی ذات پاک ہے۔ اسی سے سب خیر و انوار کے سر چشمے پھوٹتے ہیں اور اسی میں ضم ہو جاتے ہیں۔ وہ پاک گھر جس کے در و دیوار خدا کی کبریائی کے گن گاتے ہوئے اس کے اسمائے پاک سے مزیّن پُر کشش نگینوں کی طرح ایک خوبصورت لڑی میں آویزاں ہیں، جس کی صفیں مالکِ کون و مکاں کی تسبیح و تحمید کرنے والوں سے بھری ہوئی اور جس کی سجدہ گاہیں اس کے عفو و غفر طلب کرنے والوں کے آنسوؤں سے تر رہتی ہیں______

_______ آج وہ صفیں بظاہر خالی تھیں ______ ایک امام، ایک مؤذن اور چند ڈیوٹی پر متعین پہرہ داروں کے سوا کوئی اور دکھائی نہ دیتا تھا، مگر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ جس کی توحید و تمجید کے لیے یہ سجدہ گاہیں آباد ہوئی ہوں وہ انہیں ویران چھوڑ دے، جن دعاؤں اور التجاؤں کے لیے یہ عبادت گاہیں استوار کی گئی ہوں وہ خالی ہو جائیں۔ جس صدق و صفا اور عشق و وفا کی بنیاد پر یہ عمارتیں تعمیر کی گئی ہوں وہ مسمار ہو جائیں ______ یقیناً اس کا ذرہ ذرہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ ’’لَمْ تَرَوْنَھَا‘‘ کے تحت اللہ تعالیٰ کے اس گھر میں بھی فرشتوں کی فوج صف آرا ہے اور حدود و قیود سے آزاد دنیا کے کونے کونے میں کروڑوں متبعین کے دل بھی درد و فغاں اور عجز و الحاح میں ڈوبے ہوئے امام کے کلام پر گوش بر آواز اور آپ کے ہر ارشاد پر لبیک کہنے کو تڑپ رہے ہیں۔

3 اپریل سن 2020 کو قصرِ خلافت اسلام آباد، ٹلفورڈ (انگلستان) کی مسجد مبارک میں سیّدنا حضرت اقدس امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز کا خطبہ جمعہ کچھ ایسی ہی دل گرفتہ کیفیات کی عکاسی کر رہا ہے۔ ایک ہفتہ قبل خطبہ جمعہ کی بجائے حضور کا اپنے دفتر سے خطاب ’’کرونا وائرس‘‘ کی تباہ کاریوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی حکومتی پابندیوں کے باعث ان خدشات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ شاید آئندہ یہ سلسلہ وقتی طور پر جاری نہ رہ سکے۔ اس سلسلے میں یہی ارشاد تھا:

’’………. تو ایسی صورت میں گھروں میں احباب کو چاہیے کہ با جماعت نماز کا اہتمام کریں اور جمعہ بھی گھر کے افراد مل کر پڑھیں……….‘‘ (بحوالہ ’الفضل انٹرنیشنل‘ 31 مارچ 2020)

مگر اللہ تعالیٰ نے خلافت کو جو خدا داد بصیرت اور تائیدِ ایزدی عطا فرمائی ہے وہ ہر گام اس وجودِ پاک کی رہنمائی کے سامان پیدا فرماتی رہتی ہے۔ اس نے اپنے عاجز اور کمزور بندوں کی سہولت اور دلداری کے لیے پہلے ہی سے احکامات اور سنتِ مقدسہ و مطہّرہ ﷺ سے ایسے مواقع مہیا فرما دیے تھے جو موسم کی سختیوں، جنگوں اور وباؤں کے وقت استثنا کی صورت پیدا کر دیتے ہیں۔ اور دورِ حاضر میں امام الزمان سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بطور حَکم اور عَدل جو ارشاداتِ عالیہ بیان فرمائے وہ ہمیشہ کے لیے رہنما اصول کے طور پر خلیفۂ وقت کے لیے اپنے غلاموں کی رہنمائی اور قیادت فراہم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس سعادت اور نعمت سے دنیا کی کون سی اقوام، گروہ اور مذاہب و ملل فیضیاب ہیں؟ ایک آواز پر لبیک کہنا، ایک ہاتھ پر اٹھنا، ایک ہاتھ پر بیٹھنا آج کس کے نصیبوں میں ہے؟ وہ کون لوگ ہیں جو امام کی ڈھال اور سِپر میں پناہ گزیں ہیں؟ جن کا کوئی ملجا و ماوا ہے، کوئی راکھی رکھوالا ہے؟_____ لاریب، یہ سب کچھ آج صرف مسیحؑ کے پیروکاروں اور خلافت کے جاں نثاروں ہی کو حاصل ہے۔

اور یہ تو خدائے علیم و خبیر و قدیر نے ابتدائے آفرینش ہی سے لکھ چھوڑا تھا کہ کبھی ایسے حالات بھی آنے والے ہیں کہ وسائل و ذرائع کے ہوتے ہوئے بھی جسمانی رابطوں میں خلل واقع ہو، میل ملاقات پر پابندیاں لگ جائیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ایسی ناگزیر مجبوریوں اور معذوریوں کے حالات پیدا ہو جائیں کہ انسان ایک دوسرے کے قرب سے محروم اور بے بس ہو جائے۔ اور بے اختیار پکار اٹھے کہ اب فرار کی راہ کہاں ہے:

یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍ اَیۡنَ الۡمَفَرُّ ﴿ۚ11۔75﴾

ایسے میں مالکِ کون و مکان کی معجزانہ تجلیات کے کرشمے بھی تو جاری رہنے تھے۔ اسی کو تو اپنے بندوں کی دلداری کے سامان پیدا فرمانے تھے۔ دیدار کی پیاسی آنکھوں اور سماع کے ترسے کانوں کی کچھ تو داد رسی کرنی تھی کہ ایک آواز تو ایسی تھی جس کی بندش اور اس کی مبارک شبیہ کی جلوہ گری سے محروم ہونا کائناتِ خداوندی کو ہرگز قبول نہ تھا۔ ’ملاقات گر نہیں تو دیدار ہی سہی‘۔ اور دیدار بھی ایسا کہ سب کچھ محبوب ہی کہے اور باقی سب ہمہ تن گوش سنا کیے۔ ایسے سامانوں کی ایجاد و فراہمی بھی تو اسی قادر و قدوس کے سپرد تھی؛ کیونکہ جس امام کو اس نے زمانے کی رہنمائی و رہبری اور جہالتوں اور ظلمتوں کی بیخ کنی کے لیے مقرر فرمایا ہے اس کے کام اور پیام کیسے رک سکتے تھے؟ چنانچہ اس کی جلوہ آرائی اور کرشمہ گری خدا تعالیٰ کے اس پاک گھر ’’مسجد مبارک‘‘ سے یوں ہوئی کہ صرف ایک خطبہ جمعہ کے تعطل کے بعد یہ سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔ پھر سے وہ شمع روشن ہو گئی جس کے ماند پڑنے کا وہم بھی اس کے جان نثاروں کے دلوں کو حزیں اور جان بلب کیے دے رہا تھا۔ چاہے وہ بظاہر ایک امام اور ایک مؤذن ہی پر مشتمل ہو اس کے دیکھنے اور سننے والے پروانوں کی طرح دنیا کے کونے کونے سے کروڑوں کی تعداد میں ’’مسلم ٹیلیویژن احمدیہ‘‘ کے گرد امڈ آئے کہ وہی تو رہبر و رہنما ہے جو اس مشکل وقت اور ابتلا کے دور میں سہارا بنے والا ہے۔ وہی تو کھیون ہارا ہے جس کے سپرد اس منجدھار میں گھری ہوئی ناؤ کو پار لگانے کی ذمہ داری ہے۔ اسی کے ہاتھ میں تو رشد و ہدایت کی باگیں تھمی ہوئی ہیں۔

بھلا اس کی آواز اور پیغام میں انقطاع اور تعطل کیسے پیدا ہو سکتا تھا؟

چنانچہ سیّدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 2020 میں Covid-19 کی عالمی وبا کے حوالے سے احبابِ جماعت کو بعض نہایت اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے زریں ہدایات سے نوازا۔ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ کی بیان فرمودہ ہدایات پر مشتمل بعض نکات ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کی اشاعت مؤرخہ 14 اپریل سے منقول ہیں:

  • ’’انسان کو عمومی طور پر یہ وبائیں اور آفات ہوشیار کرنے کے لیے آ رہی ہیں کہ تم اپنے پیدا کرنے والے کے بھی حق ادا کرو، اس کے بندوں کے بھی حق ادا کرو۔
  • بعض بیماریاں اور وبائیں ایسی ہیں کہ جب دنیا میں آئیں تو قدرتی طور پر اس کا ہر ایک پر اثر پڑتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ الہٰی جماعتوں کو ان سے بالکل محفوظ رکھا جائے۔ کیونکہ یہ خدا کی مصلحتوں کے خلاف ہو تا ہے۔
  • ہمیں ان دنوں میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور بہت جھکنا چاہیے اور اس کا رحم اور فضل مانگنا چاہیے۔
  • اس وبا کو حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانے کے طاعون کے ساتھ ملانا اور پھر اس قسم کی باتیں کرنا کہ نعوذ باللہ جو احمدی اس بیماری میں مبتلا ہیں یا اس سے وفات پا گئے ہیں ان کا ایمان کمزور ہے یا تھا۔ یہ کسی کو کہنے کا حق نہیں ہے۔
  • ان دنوں میں دوسروں کی مدد کرنے والے افراد کو ضروری احتیاطیں کرنی چاہئیں۔
  • آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ ماسک پہنو۔
  • بلا وجہ لوگوں کے گھروں میں آنے جانے بھی بچنا چاہیے۔
  • یو کے میں باوجود حکومت کے کہنے اور منع کرنے کے لوگ پارکوں میں جا کر اکٹھے ملنا جلنا رکھتے ہیں۔ اجازت تو صرف اس حد تک ہے کہ تم واک کر سکتے ہو، تھوڑی سی کھلی ہوا میں جا سکتے ہو۔ یہ نہیں کہ پارکوں میں بیٹھ کر پکنکیں منانی شروع کر دو اور کئی لوگ اکٹھے ہو جائیں۔ یہ غلط طریق ہے اور حکومت بار بار اس طرف توجہ دلا رہی ہے۔
  • کاروں میں اکٹھے بیٹھ کر جو جاتے ہیں یہ بھی غلط طریقہ ہے۔ احمدیوں کو اس قسم کی حرکتوں سے بچنا چاہیے۔
  • جن کے سپرد مدد کے کام ہیں وہ تمام احتیاطوں اور دعاؤں کے ساتھ اس مدد کے فریضے کو سر انجام دیں اور بے احتیاطیوں سے بچیں۔ بلا وجہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ یہ کوئی بہادری نہیں ہے۔ یہ جہالت کہلاتی ہے۔ پس بہت احتیاط کریں۔
  • حضرت مسیحِ موعودؑ نے تاکیداً یہ بھی فرمایا کہ گھروں کی صفائی بہت زیادہ کرو اور اس کے متعلق خاص طور پر ہدایت فرمائی۔
  • اسی طرح فرمایا کہ اپنے کپڑے بھی صاف رکھو اور نالیاں بھی صاف کراتے رہو۔ یہاں تو انڈر گراؤنڈ سارا سیوریج سسٹم ہو تا ہے۔ یہ خاص طور پر غیر ترقی یافتہ ممالک میں جہاں نالیاں کھلی ہوتی ہیں یہ بہت ضروری چیز ہے کہ نالیاں صاف رکھی جائیں۔
  • حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے خاص طور پر فرمایا کہ سب سے مقدم یہ ہے کہ اپنے دلوں کو بھی صاف کرو اور خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری صلح کر لو۔
  • ہمیں اس یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دعاؤں کا راستہ کھولا ہے اور خدا تعالیٰ دعائیں سنتا ہے۔ اگر خالص ہو کر اس کے آگے جھکا جائے تو وہ قبول کر تا ہے۔ کس رنگ میں قبول کرتا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے۔
  • اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے، اپنے عزیزوں کے لیے، جماعت کے لیے اور عمومی طور پر انسانیت کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں۔
  • آج کل دعاؤں دعاؤں اور دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو ہر لحاظ سے اور مجموعی طور جماعت کو بھی ہر لحاظ سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
  • جو احمدی کسی کاروبار میں ہیں وہ ان دنوں میں اپنی چیزوں پر غیر ضروری منافع بنانے کی کوشش نہ کریں اور غیر ضروری منافع بنانے کی بجائے خاص طور پر کھانے پینے کی چیزوں میں اور ضروری لازمی اشیاء میں غیر ضروری منافع بنانے کی بجائے ان چیزوں کو کم از کم منافع پر بیچیں۔
  • حقوق العباد کی ادائیگی کے یہی دن ہیں اور اس ذریعہ سے یہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے بھی دن ہیں۔‘‘

یہ وہ خدا تعالیٰ کے پیارے کی باتیں ہیں، یہ وہ ہدایات ہیں، یہ وہ رہنما اصول ہیں جو افرادِ جماعت ہی کے لیے نہیں کل عالمِ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے آبِ زر سے لکھے جانے والے تابندہ حروف ہیں جو اس وقت افراتفری، کھینچا تانی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کی مسموم فضا کو پاک صاف اور معطر کرنے کے لیے عطر افشاں آبِ حیات کا کام دینے والے ہیں۔ اور ہم ہی وہ خوش نصیب ہیں جو سب سے پہلے ان پر کان دھر کر اور عمل کر کے سر خرو ہو سکتے ہیں کہ ہم میں وہ خدا نما وجود موجود ہے جو ہمارا رہبر و رہنما اور سچا ہمدرد و غمگسار ہے اور اندھیری راتوں میں فنا فی اللہ ہو کر ہمارے ہم و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات کے لیے اپنے سجدوں کو آنسؤوں سے تر کیے رہتا ہے۔ خدا تعالیٰ ہمیں سچے طور پر اس پاک ہستی کی قدر اور پیروی کی توفیق عطا فرمائے اور خلافت جیسی نعمتِ عظمیٰ کی برکات سے فیض پا کر ان انعاموں اور احسانوں کا وارث بنائے جن کے وعدے اس نے اپنے پیارے حبیبؑ سے کیے ہوئے ہیں۔ آمین۔