آسمانی عدالت میں حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے استغاثہ پر ایک صدی مکمل ہوگئی
مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت
ہر قدم پر میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں
ہر عدُو پر حجتِ حق کی پڑی ہے ذوالفقار
ہے کوئی کا ذب جہاں میں لاؤ لو گو کچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائید یں ہوئی ہوں بار بار
۱۸۹۹ء کو سلسلہ عا لیہ احمدیہ کی تاریخ میں یہ منفرد عظمت حا صل ہے کہ اس سال مہدی مو عود سید نا حضرت مسیح مو عودؑ نے یک طرفہ بد دعا شائع کرکے ربّ ذ وا لجلال اوربا دشاہو ں کے با دشاہ کی آسما نی عدا لت میں استغا ثہ دا ئر کیا جس پرایک صدی مکمل ہو چکی ہے ۔ اس استغاثہ کا پس منظر یہ تھا کہ حضور نے ۱۸۹۶ء کے آ خر میں خدا تعالیٰ کے حکم سے مکفّر و مکذّب علما ء اورسجا دہ نشینو ں کے نا م ’’اشتہار مبا ہلہ ‘‘ شا ئع فرما یا جو ۲۷ صفحا ت پرمشتمل تھا۔ حضرت اقدس نے اشتہار کے آ غا ز میں تحریر فرمایا:
’’اللہ جلشانہ قرآ ن شریف میں فرماتا ہے ۔ اِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِ بُہٗ وَ اِنْ یَّکُ صَادِقًا یُصِبْکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ یَعِدُ کُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ کَذَّا ب ۔
یعنی اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا جھو ٹ اس پرپڑے گا۔ اورا گریہ سچا ہے تو تم اس کی ان بعض پیشگوئیوں سے بچ نہیں سکتے جو تمہاری نسبت وہ وعدہ کرے ۔خدا ایسے شخص کو فتح اور کا میا بی کی راہ نہیں دکھلاتا جو فضول گو اور کذا ب ہو ۔
اب اے مخا لف مولویو ! اور سجادہ نشینوں !! یہ نزا ع ہم میں اور تم میں حد سے زیا دہ بڑھ گئی ہے ۔ اور اگرچہ یہ جما عت بہ نسبت تمہاری جماعتو ں کے تھو ڑی سی اور فئۃ قلیلۃ ہے ۔ اور شائد اس وقت تک چا ر ہزار یا پانچ ہزار سے زیا دہ نہیں ہو گی تاہم یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہا تھ کا لگایا ہوا پودہ ہے خدا اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ وہ را ضی نہیں ہو گا جب تک کہ اس کو کما ل تک نہ پہنچا دے۔ اور وہ اس کی آ بپاشی کر ے گا اوراس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا ۔ کیا تم نے کچھ کم زور لگایا ۔ پس اگریہ انسان کا کا م ہوتا تو کبھیکا یہ درخت کاٹا جاتا۔ اور اس کا نا م ونشان با قی نہ رہتا ۔ اسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں آ پ لوگو ں کے سامنے مباہلہ کی درخواست پیش کروں ‘‘۔
آ پ نے اس سلسلہ میں پوری قوّت و شوکت سے یہ اعلان بھی فرمایاکہ:
’’ میں نے پہلے اس سے کبھی کلمہ گوکے حق میں بد دعا نہیں کی اور صبر کرتا رہا ۔ مگر اس روز خدا سے فیصلہ چا ہوں گا۔ اور اس کی عصمت اور عزّت کا دامن پکڑوں گا کہ تا ہم میں سے فریق ظالم اور دروغگو کو تبا ہ کر کے اس دین متین کو شریرو ں کے فتنہ سے بچاوے۔ میں یہ بھی شرط کر تاہو ں کہ میری دعا کااثرصرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدا ن میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہو جا ئیں ۔ اگرایک بھی با قی رہا تو میں اپنے تئیں کاذب سمجھوں گا اگر چہ وہ ہزا ر ہوں یادو ہزا ر ‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم مطبوعہ لندن صفحہ ۲۸۱ ۔۲۸۵)
حضور چونکہ پنجاب ، ہندوستان ، بلاد عرب اور بلا د فارس کے مخالف مکفّر اورمکذّ ب علماء پراتمام حجت کرنا چاہتے تھے اس لئے حضور نے یہ تجویز بھی پیش فرما ئی کہ اشتہارا ت کے ذریعہ سے مباہلہ کیاجائے۔ چنانچہ نہایت واضح لفظوں میں ضمیمہ انجام آ تھم صفحہ ۳۳(مطبو عہ ۲۲؍ جنوری ۱۸۹۷ء) کے ذریعہ صراحت فرما ئی کہ ۔
’’ چا ہئیے کہ ہر یک مباہلہ کی درخواست کرنے وا لا اپنی طرف سے چھپا ہو ا اشتہار شائع کرے۔اور یہ ضروری ہوگا کہ مباہلہ کرنے وا لا صرف ایک نہ ہو بلکہ کم سے کم دس ہوں ۔ اور چونکہ مباہلہ کے لئے ہر یک شخص بلایاگیا ہے خواہ پنجاب کا ہو یاہندوستان کا ۔ یا بلاد عرب کا یا بلاد فارس کا۔ اس لئے یہ مشقت مخالفوں پرجا ئز نہیں رکھی گئی کہ وہ دور درازسفر کرکے پہنچیں بلکہ حسب منطوق وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ۔ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔یہ تجویز قرار پائی ہے کہ ہر ایک شخص اشتہارات کے ذریعہ سے مباہلہ کرے ۔
اس عا لمی دعوت مباہلہ کے بعد حضورعلیہ السلام نے مسلسل دو برس تک انتظار کیامگر جب پوری مسلم دنیا میں کسی مکفّر اورمکذّب عالم کو مرد میدان بننے کی جرأت نہ ہوئی تو آ پ نے حق وباطل میں فیصلہ کے لئے ایک فیصلہ کن قدم اٹھا یا جو صرف خدا تعا لیٰ کے برگزیدوں اورمامورو ں کا ہی خاصہ ہے اوروہ یہ کہ آ پ نے احکم الحاکمین پر بے مثال توکّل کا ثبوت دیتے ہوئے ۲۱؍ فروری ۱۸۹۹ء کو اپنی طرف سے یک طرفہ بد دعا شائع کردی ۔اس بد دعا کا ایک ایک لفظ دل و دماغ پرلرزہ طاری کردیتا ہے اور ہر گز ممکن نہیں کہ کسی کاذب کے منہ سے ایسے الفاظ نکلیں اوروہ ربّ قدیرکی وعید شدید اورسزا سے بچ سکے۔
لعنت ہے مفتری پہ خدا کی کتاب میںعزت نہیں ذرہ بھی اس کی جناب میں
کوئی اگر خدا پہ کرے کچھ بھی افترا
ہوگا وہ قتل ۔ ہے یہی اس جرم کی سزا
*۔۔۔*۔۔۔*
حضرت اقدس مسیح مو عود و مہدی موعودؑ کی یہ بد دعا درج ذیل الفاظ میں تھی۔
اے قدیر و خالقِ ارض و سما
اے رحیم و مہربان و رہنما
اے کہ میداری تو بر دلہا نظر
اے کہ از تو نیست چیزے مستتر
گر تو مے بینی مرا پرُ فسق و شر
گر تو دید استی کہ ہستم بد گہر
پارہ پارہ کن منِ بدکار را
شاد کن ایں زُمرۂ اغیار را
بر دلِ شاں ابرِ رحمت ہا ببار
ہر مرادِ شاں بفضلِ خود بر آر
آتش افشاں بر در و دیوارِ من
دشمنم باش و تبہ کُن کارِ من
ور مرا از بندگانت یافتی
قبلۂ من آستانت یافتی
در دلِ من آں محبت دیدہ
کز جہاں آں راز را پوشیدۂ
بامن از روئے محبت کارکن
اندکے افشاء آں اسرار کن
اے کہ آئی سوئے ہر جویندۂ
واقفی از سوزِ ہر سوزندہ
زاں تعلق ہا کہ با تو داشتم
زاں محبت ہا کہ در دل کاشتم
خود بروں آ از پئے ابراء من
اے تو کہف و ملجاء و ماوائے من
آتشے کاندر دلم افروختی
و ز دمِ آں غیر خود را سوختی
ہم ازاں آتش رخِ من برفروز
ویں شبِ تارم مبدّل کن بروز
چشم بکشا ایں جہانِ کور را
اے شدید البطش بنما زور را
ز آسماں نورِ نشانِ خود نما
یک گلے از بوستانِ خود نما
ایں جہاں بینم پرُ از فسق و فساد
غافلاں را نیست وقتِ موت یاد
از حقائق غافل و بیگانہ اند
ہمچو طفلاں مائلِ افسانہ اند
سرد شد دلہا ز مہرِ روئے دوست
روئے دلہا تافتہ از کوئے دوست
سیل در جوش است و شب تاریک و تار
از کرمہا آفتابے را برار
(حقیقۃ المہدی صفحہ۸،۹۔ مطبوعہ مطبع ضیاء الاسلام قادیان تاریخِ اشاعت ۲۱؍فروری ۱۸۹۹ء)
ترجمہ:اے قدیر اور ارض وسما ء کے خالق ! اے رحیم ، مہر با ن اور رہنما ۔ اے وہ جو دلو ں پر نظر رکھتا ہے اے وہ کہ تجھ سے کو ئی چیز پو شیدہ نہیں۔اگر تو مجھے نافر ما نی اورشرارت سے بھر ا ہوا دیکھتا ہے ۔ اگر تو نے دیکھ لیا ہے کہ میں بد ذا ت ہوں تو مجھ بد کا ر کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈال اور میرے دشمنوں کے اس گر وہ کو خوش کردے ۔ ان کے دلوں پراپنی رحمت کا بادل بر سااوراپنے فضل سے ان کی ہر مراد پوری کر۔میرے در و دیوا ر پر آگ برسا ، میرا دشمن ہو جا اورمیرا کاروبار تباہ کردے ۔
لیکن اگر توُ نے مجھے اپنا فرمانبر دا ر پایا ہے اوراپنی بارگاہ کو میرا مقصود قبلہ پایا ہے ۔اورمیرے دل میں وہ محبت دیکھی ہے جس کا راز اب تک دنیاپرسربستہ رکھا ہے تومحبت کی رو سے مجھ سے پیش آ۔ اور ان اسرار کو تھوڑا سا ظاہر کر دے۔اے وہ کہ تو ہر متلاشی کے پاس آ تا ہے اورہر جلنے والے کے سوز سے واقف ہے تو اس تعلق کے باعث جو میں تجھ سے رکھتاہوں اور اس محبت کی وجہ سے جو میں نے اپنے دل میں بوئی ہے خود میری بریت کے لئے باہر نکل ۔ توہی میرا حصار اورجائے پناہ اور ٹھکانا ہے وہ آ گ جو تونے میرے دل میں فروزاں کی ہے اوراس کے شعلوں سے تو نے اپنے غیرکو جلا دیا ہے۔ اسی آ گ سے میرے چہرہ کو بھی روشن کر دے اورمیری اس تاریک را ت کو دن میں بدل دے ۔ اس اندھی دنیا کی آنکھیں کھو ل اوراے شدید البطش خدا اپنا زور دکھا ۔ آ سمان سے اپنے نشان کا نور ظاہر کر اور اپنے باغ میں سے ایک پھول دکھلا دے ۔
میں اس جہان کو فسق وفجو ر سے پرُ دیکھتا ہوں۔ غافلوں کو موت کاوقت یاد نہیں رہا ۔ وہ حقائق سے غافل اور بیگانہ ہیں اوربچوں کی طر ح کہانیوں کے شائق ہیں۔ ان کے دل مو لا کی محبت سے سرد ہیں ان کے دلوں کے رخ کوئے یار سے برگشتہ ہو گئے ہیں۔سیلاب جو ش پرہے اوررا ت تاریک و تا ر ۔ براہ کرم سورج چڑھا دے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
خدائے غیّو ر کی آ سما نی عدالت نے گزشتہ سو سال میں اپنے محبوب اورپیارے مسیح موعو د کے اس استغاثہ کے نتیجہ میں جہاں نا فرما نوں اورشریروں کے منصو بوں اورسازشو ں کو اپنی قہری تجلیات سے ناکام اورنا مراد کیا اور سچ مچ بعض فراعنۂ وقت صلیبی مو ت سے پارہ پارہ کردئے اور بعض کے در و دیوا ر پر فی الواقع آ گ کی ایک ایسی بارش ہوئی کہ وہ آ تش نمر ود یت میں جل کربھسم ہو گئے وہاں بڑی بڑی تہمتو ں اورالزامو ں کی بریت کے لئے عرش کا خدا خود نازل ہوا،اوراحمدیت میں افواج در افواج کی آ مد کا سلسلہ شروع کرکے اس نے اپنی محبت کا را ز آ شکار کردیا اوربے شمار مساجد کی تعمیر اور اسلامی لٹریچر کے پھولوں سے بوستانِ احمدیت میں نئی بہا ر آ گئی اورسب سے بڑھ کر یہ کہ حق تعالیٰ نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کے لئے MTAکی صورت میں آسمان سے ایک زبردست نشان ظاہر کرکے اپنی نصرتوں کاسورج چڑھا دیاہے اورحضور کے مقدس اورنو رانی چہرے کی افق عالم پر اس شان سے جلوہ نمائی ہو رہی ہے کہ حقائق سے غافل اقوامِ عالم بھی کشاں کشاں احمدیت کے مینا ر بلند کی طرف کھنچی چلی آ رہی ہیں۔
تجھے حمد و ثنا زیبا ہے پیارے
کہ تو نے کام سب میرے سنوارے
گڑھے میں تو نے سب دشمن اتارے
ہمارے کر دئے اونچے منارے
مقابل پر مرے یہ لوگ ہارے
کہاں مرتے تھے پر تو نے ہی مارے
شریروں پر پڑے ان کے شرارے
نہ ان سے رک سکے مقصد ہمارے
انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی
فَسُبْحَانَ الَّذِی اَخْزَی الْاَعَادی
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس طرح حضرت مسیح مو عودؑ نے ارشاد رباّنی کے مطابق دنیا بھر کے مکفر و مکذب علماء کو ایک صدی بیشتردعوت مباہلہ دی اورپھر اس کی جناب میں استغاثہ دائر کیابا لکل اسی طرح خدا تعالیٰ کے القائے خاص کی روشنی میں آ پ نے قبل از وقت پیشگوئی بھی فرمادی کہ مستقبل میں آ پ کی منادی کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیا جائے گا اوراس عالمگیر ترقی و اشاعت کے لئے خدا تعالیٰ کے فرشتے ا یک نئی آسمانی مہم جاری کریں گے اورعظیم الشان نشانو ں کا ظہور ہوگا۔چنانچہ حضور علیہ السلام نے ۲۲مئی ۱۹۰۰ء کو اشتہارِ عام دیاکہ :
’’ جیسا کہ خدا ٰ نے بغیر توسط معمو لی اسباب کے جسمانی ضرورتو ں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اورریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی بہت زیادہ دوڑا کردکھلایا ہے ایسا ہی اب وہ روحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے آ سمان کے فرشتوں سے کا م لے گا ۔ بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہونگے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوں گی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی ۔تب آخر میں لوگ سمجھ جائیں گے کہ جو خدا کے سوا انسانوں اوردوسری چیزوں کو خدا بنایاگیا تھا سب غلطیاں تھیں ۔سوتم صبر سے دیکھتے رہو کیونکہ خدا اپنی توحید کے لئے تم سے زیادہ غیرتمند ہے۔ اوردعا میں لگے رہو ایسا نہ ہو کہ نافرمانوں میں لکھے جاؤ ۔ اے حق کے بھوکو اورپیاسو ! سن لو کہ یہ وہ دن ہیں جن کا ابتدا ء سے وعدہ تھا ۔خدا ان قصوں کو بہت لمبا نہیں کرے گا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پرچراغ رکھا جائے تو دور دور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آ سمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتی ہیں ایسا ہی ان دنوں میں ہو گا کیونکہ خدا نے اپنی اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کہ مسیح کی منادی بجلی کی طرح دنیا میں پھرجائے گی یا بلند مینار کے چراغ کی طرح دنیا کے چار گوشہ میں پھیلے گی ۔زمین پر ہر ایک سامان مہیا کر د یا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعودؑ جلد سوم مطبوعہ لندن صفحہ ۲۳۳ )
قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍جولائی ۱۹۹۹ء تا۱۲؍اگست ۱۹۹۹ء)