بابیت اور بہائیت ۔ ایک جائزہ
انیسویں صدی عیسوی میں اسلام کے خلاف بہت سے فتنے کھڑے ہوئے اور تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں میں سے ایک تحریک بابیت اور بہائیت ہے جس نے شریعتِ اسلامیہ کو منسوخ قرار دیا اور ایک نئی شریعت بنا کر پیش کی گئی۔
اس تحریک نے پوشیدہ رہ کر اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس تحریک کا آغاز کیسے ہوا۔ اسلام کے خلاف اس نے کیسی کیسی خوفناک سازشیں کیں اور پھر اس کی قیادت کس طرح انتشار کا شکار ہو گئی اس کا مختصر جائزہ درج ذیل سطور میں پیش کیا جاتا ہے۔
علی محمد باب
بابی مذہب کے بانی علی محمد ایک تاجر شیعہ گھرانے میں یکم محرم ۱۲۳۶ھ / ۹۔اکتوبر ۱۸۲۰ء کو شیراز (ایران ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم شیخ عابد سے حاصل کی جو فرقہ شیخیہ کے بانی شیخ زین الدین احسائی (۱۱۵۴ھ تا ۱۲۴۲ھ) کے شاگرد سید کاظم رشتی (وفات ۱۸۴۳ء) کے مرید تھے۔ ایک دفعہ سفر کربلا کے دوران علی محمد کی ملاقات سید کاظم رشتی سے ہوئی اور ان سے تعلیم پانے لگے۔ یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔
باب ہونے کا دعویٰ
سید کاظم رشتی کا خیال تھا کہ امام غائب کے ظہور کا وقت قریب آ چکا ہے اس لئے انہوں نے اپنی وفات سے قبل امام غائب کی تلاش میں اپنے مریدوں کو ایران میں پھیلا دیا۔ سید کاظم رشتی کی وفات کے پانچ ماہ بعد ان کے ایک مرید ملا حسین بشروئی شیراز میں علی محمد سے ملے ان کی تحریک پر علی محمد نے ۲۳ مئی ۱۸۴۴ء کو باب ہونے کا دعویٰ کیا۔ (تاریخ نبیل صفحہ ۳۴‘ ۳۵ نبیل زرندی تلخیص زینا سہراب جی ناشر بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
ملا حسین بشروئی کے متعلق خود بہاء اللہ نے لکھا ہے۔
’’اگر وہ نہ ہوتا تو خدائے بزرگ و برتر مقام رحمت پر جلوہ فرمانہ ہوتا اور اپنے تختِ عزت و جلال پر نزول نہ فرماتا‘‘۔(قرنِ بدیع صفحہ ۳۸ شوقی افندی ترجمہ سید ارتضیٰ حسین ناشر مؤسستہ مطبوعات ملی بہائیاں پاکستان)
شیعہ عقائد کی رو سے باب امام مہدی اور لوگوں کے درمیان واسطے کو کہتے ہیں ابتداءً علی محمد نے باب ہونے کے دعویٰ پر ہی اکتفا کیا لیکن کچھ عرصہ بعد صاحب شریعت اور تمام نبیوں سے افضل ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ چنانچہ بہاء اللہ نے لکھا:۔
’’۔۔۔ ایسا نقطہ ہیں جس کے گرد تمام انبیاء اور رسولوں کی حقیقت گھومتی ہے اور آپ کا مرتبہ تمام انبیاء سلف سے بڑھ چڑھ کر ہے اور آپ کا ظہور تمام برگزیدہ انبیاء کے خیال اور تصور سے بالاتر ہے۔‘‘ (قرنِ بدیع صفحہ ۹۴ از شوقی افندی ترجمہ سید ارتضیٰ حسین ناشر مؤسستہ مطبوعات ملی بہائیاں پاکستان)
بابیت کی تبلیغ
علی محمد نے اپنے ابتدائی اٹھارہ مریدوں کو حروف حیٔ کا نام دیا جنہوں نے کھلم کھلا تبلیغ شروع کر دی اور حکومتی معاملات میں بھی دخل اندازی کرنے لگے ان کے مرید مسجدوں میں جا کر اذان دیتے جس میں علی محمد باب کا ذکر تھا اور زبردستی ممبروں پر چڑھ کر تبلیغ کرتے۔ (تاریخ نبیل صفحہ ۶۹‘ ۱۶۳ از نبیل زرندی تلخیص زینا سہراب جی)
علی محمد کی گرفتاری اور دعویٰ سے دستبرداری
متشدّدانہ تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے علی محمد باب کے مریدوں کا عوام الناس سے تصادم ہونے لگا جس کی وجہ سے حکومت نے امن عامہ کی خاطر علی محمد باب کو حراست میں لے لیا اور ملاقات پر پابندی عائد کر دی لیکن علی محمد باب نے اپنی خفیہ سرگرمیاں جاری رکھیں جس کا حکومت نے سختی سے نوٹس لیا تو علی محمد باب دعویٰ سے دستبردار ہو گئے۔ (تاریخ نبیل صفحہ ۷۱ از نبیل زرندی تلخیص زینا سہراب جی)
اس پر حکومت نے انہیں رہا کر دیا لیکن کچھ عرصہ گذرنے کے بعد علی محمد باب اور اس کے مریدوں نے اپنی کارروائیاں پھر تیز کر دیں جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا۔
اسلامی شریعت کی منسوخی کا اعلان
اس دوران علی محمد باب کے سرگرم مرید مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ کی سرکردگی میں ۱۸۴۸ء میں بدشت کے مقام پر بابی سربراہوں کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں علی محمد باب کی ایک مرید عورت ام سلمیٰ قرۃ العین طاہرہ نے پہلی دفعہ اسلام کی منسوخی کا اعلان کیا اور علی محمد باب کی رہائی کیلئے مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کانفرنس میں مرزا حسین علی نوری نے اپنے لئے بہاء کا لقب استعمال کیا۔ (قرن بدیع صفحہ ۶۵‘۶۶ از شوقی افندی ترجمہ سید ارتضیٰ حسین ناشر مؤسسۃ مطبوعات ملی بہائیاں پاکستان)
بدشت کانفرنس کے بعد بابیوں نے پرتشدّد کارروائیاں شروع کر دیں جس کے نتیجے میں ایران میں زبردست فسادات برپا ہوئے۔ اور بابی قلعہ بند ہو کر حکومت کے خلاف کئی ماہ تک لڑتے رہے ان معرکوں میں سرکردہ بابی مرزا حسین علی نوری ملا حسین بشروئی اور قرۃ العین پیش پیش تھے۔ انہوں نے اپنے جانثاروں کو حکومت کا لالچ دیا لیکن اس کے باوجود ان معرکوں میں بابیوں کو بری طرح ناکامی ہوئی۔
بابی شریعت البیان
ادھر قلعہ ماہ کو میں قید علی محمد باب نے شریعت کی کتاب ’’البیان‘‘ لکھنی شروع کی جسے قرآن مجید کا ناسخ قرار دیا (بابی تصور کے مطابق وحی آسمان سے نازل نہیں ہوتی بلکہ دل سے اٹھتی ہے) مگر اسے بھی مکمل نہ کر سکا۔ (ظہور مہدی و مسیح صفحہ ۴۱۱ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
البیان میں بابیوں کو جارحانہ اور پرتشدّد طریق اپنانے کی تلقین کی گئی ہے جیسا کہ عبدالبہاء نے لکھاہے۔
’’حضرت اعلیٰ (علی محمد باب) کا حکم البیان میں یہی ہے کہ جو لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے اور آپ کی تصدیق نہیں کرتے ان کی گردنیں اڑا دی جائیں اور ان کا قتل عام کیا جائے اور علوم و فنون اور مذاہب عالم کی جتنی کتابیں ہیں ان کو جلا دیا جائے اور جتنے مقامات اور قبورانبیاء ہیں ان میں سے بھی کسی کو نہ چھوڑا جائے سب کو گرا دیا جائے‘‘۔ (مکاتیب عبدالبہاء جلد۲ صفحہ ۲۶۶ مطبع کردستان العلمیہ مصر ۱۹۱۰ء)
اسی طرح البیان کے بارہ میں بہاء اللہ و عصر جدید صفحہ ۵۲ عربی میں لکھا ہے۔ ان البیان قد اوحی الیہ ممن یظھرہ اللّٰہ یعنی من یظہرہ اللّٰہ (بہاء اللہ) ہی آپ کے الہام کا واحد منبع اور آپ کی محبت کا یگانہ مرکز ہیں۔
علی محمد باب کی وفات
بابیوں کی سرگرمیاں جب حکومت اور عوام کی نظر میں بہت زیادہ مخدوش اور پرُتشدّد ہو گئیں تو حکومت نے علی محمد باب کو تبریز سے لا کر جولائی ۱۸۵۰ء میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ علی محمد باب نے اپنی موت سے ایک روز قبل مایوس ہو کر اپنے مریدوں سے کہا کہ وہ خود ہی اسے قتل کر دیں اور انہیں یہ وصیت کی کہ جب تم سے میرے بارہ میں استفسار کیا جائے تو تقیہ سے کام لینا اور میرا انکار کر دینا اور مجھ پر لعنت بھیجنا۔ (نقطۃ الکاف صفحہ ۲۴۷ مرزاجانی کاشانی لندن ۱۹۱۰ء)
علی محمد باب کی جانشینی
باب نے اپنی وفات سے قبل بہاء اللہ کے چھوٹے سوتیلے بھائی مرزا یحییٰ صبح از ل کو اپنا جانشین مقرر کیا اور تمام ضروری کاغذات اور مہریں وغیرہ اس کے سپرد کر دیں۔ (نقطۃ الکاف صفحہ ۲۴۴ ایضاً)
علی محمد باب چونکہ اپنی خود ساختہ شریعت ’’البیان‘‘ نامکمل چھوڑ گئے تھے اس لئے صبح ازل نے ’’المستیقظ‘‘ نامی کتاب لکھی جسے ’’البیان‘‘ کا تتمہ قرار دیا۔ لیکن بہائیوں کا کہنا ہے کہ ’’المستیقظ‘‘ میں ’’البیان‘‘ کے حکموں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔بعد میں بہاء اللہ نے یحییٰ صبح ازل کو ’’دجال‘‘ قرار دیا۔
بابیوں کی حکومت مخالف کارروائیاں
۱۶۔ اگست ۱۸۵۲ء کو چند بابیوں نے شاہِ ایران پر گولی چلا دی لیکن نشانہ خطاء گیا اور حملہ آور گرفتار کر لئے گئے۔ (بہاء اللہ و عصر جدید صفحہ ۳۱ از جے۔ای ایسلمنٹ بار ششم ۱۹۸۳ء بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
شاہِ ایران پر قاتلانہ حملہ کے بعد حکومت نے بابیوں کو گرفتار کرنا شروع کیا جس پر اکثر بابی بھیس بدل کر دوسرے ملکوں میں بھاگ گئے اور بابی تحریک کے سربراہ صبح ازل بھی بغداد چلے گئے۔ چالیس بابی گرفتار ہوئے جن میں مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ بھی تھے۔
چارماہ بعد روسی سفیر کی سفارش پر بہاء اللہ رہا ہوئے۔ (لوح ابن ذئب صفحہ ۴۲ از بہاء اللہ ناشر محفل روحانی ملّی بہائیاں کراچی)
روسی حکومت کی بہاء اللہ میں دلچسپی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی سے زیادہ یہ سیاسی تحریک تھی۔
کچھ عرصہ بعد حکومت نے مرزا حسین علی نوری کو بھی بغداد بھجوا دیا لیکن انہوں نے وہاں بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اس پر حکومت نے انہیں قسطنطنیہ (ترکی) اور پھر ایڈریا نوپل بھیج دیا۔
بہاء اللہ اور صبح ازل میں اختلافات
جب بہاء اللہ اور صبح ازل میں اختلافات شروع ہوئے توبہاء اللہ نے دعویٰ کیا کہ باب نے ’’البیان‘‘ میں پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد من یظھرہ اللّٰہ (جسے خدا ظاہر کرے گا )آئے گا اور وہ میں ہوں اور مرزا یحییٰ صبح ازل باب کے حقیقی جانشین نہیں بلکہ اسے صرف لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے مقرر کیا گیا تھا تا ان کی توجہ بہاء اللہ سے ہٹ جائے اور وہ محفوظ رہے۔(مقالہ سیاح صفحہ ۵۵ عباس آفندی مترجم مصطفی رومی مطبوعہ دہلی)
سوال یہ ہے کہ یہ دھوکا باب نے دیا یا انکے جانشین یحییٰ صبح ازل نے یا بہاء اللہ نے؟
اس اختلاف کے بعد بابی مذہب دو فرقوں میں تبدیل ہو گیا بہاء اللہ کے پیروکار بہائی کہلائے اور صبح ازل کے ماننے والے ازلی کہلائے بہاء اللہ اور صبح ازل نے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کی ایک دوسرے کے خلاف حکومت کے پاس شکایات کیں۔ دونوں فرقوں میں تصادم کے نتیجہ میں بعض افراد قتل بھی ہوئے جس کا الزام دونوں ایک دوسرے پر لگاتے رہے۔ (Materials for the study of the Babi Religion E.E Brawn 1918)
بابیوں کے شدید اختلافات اور فتنہ فساد کی بناء پر ترکی حکومت نے بہاء اللہ اور اس کے ساتھیوں کو عکا فلسطین بھجوا دیا اور صبح ازل کو جزیرہ قبرص روانہ کر دیا۔ بہائی صبح ازل کو دجال اور قبرص کو جزیرہ شیطان قرار دیتے ہیں۔ (ظہور مہدی و مسیح صفحہ ۶۰۱۔ ۶۰۲ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
بہائی شریعت الاقدس
۱۸۷۳ء میں بہاء اللہ نے عکہ میں البیان کو منسوخ کر کے الاقدس لکھنی شروع کی ہر چند کہ یہ شریعت بھی بہائی تصور کے مطابق ان کی اپنی نازل کردہ اور خود ساختہ ہے۔ جس کے بارہ میں ان کا کہنا ہے کہ الاقدس کا ایک لفظ پڑھنا سب الہامی شریعتوں کے پڑھنے سے بہتر ہے۔ لیکن بہاء اللہ نے اسے اپنی زندگی میں شائع کیا نہ اس کے بیٹے اور جانشین عبدالبہاء نے اس کی اشاعت کی اجازت دی اور آج سو سال سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد بھی بہت ہی محدود تعداد میں اسے شائع کیا گیا ہے۔
بہاء اللہ کا دعویٰ الوہیت
بہاء اللہ نے اپنی نسبت لکھا ہے:۔
’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا الْمَسْجُوْنُ الْفَرِیْدُ‘‘ (کتاب مبین از بہاء اللہ صفحہ ۲۸۶)
مجھ اکیلے قیدی کے سوا کوئی معبود نہیں۔
الاقدس اور دوسری الواح میں بہاء اللہ نے اپنے آپ کو مالک قدر‘ سمیع‘بصیر‘ عالم الغیب‘ موجد عالم اور خالق اشیاء قرار دیا ہے۔
بہاء اللہ کے دعویٰ کے بارہ میں محفوظ الحق علمی لکھتے ہیں:۔
’’اہل بہاء نے کبھی نہیں کہا کہ نبوت ختم نہیں ہوئی اور (بہاء اللہ) موعود کل ادیان نبی یا رسول ہے بلکہ اس کا ظہور مستقل خدائی ظہور ہے۔‘ ‘ (کوکب ہنددہلی ۲۴ جون ۱۹۲۸ء)
بہاء اللہ کے بیٹے اور جانشین مرزا عباس آفندی نے لکھا ہے۔
’’پہلے دن انبیاء کے دن کہلاتے تھے لیکن یہ دن یوم اللہ ہے۔‘‘ (ظہور مہدی و مسیح صفحہ ۴۹۷ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
بہائی بہاء اللہ سے دعائیں کرتے ہیں۔ (دروس الدیانۃ درس نمبر۹ ۱۔از محمد علی قائنی مصر ۳۴۱ ۱ ھ صفحہ ۲۸)
اسی طرح بہائی بہاء اللہ کی قبر کو سجدہ بھی کرتے ہیں۔ (بہجۃ الصدور ۔از مرزا علی حیدر صفحہ۲۵۸)
اوران کا قبلہ بہاء اللہ کا مزارہے ۔
بہاء اللہ کی وفات اور بہائیوں میں اختلاف
بہاء اللہ نے ۱۸۹۲ء میں عکہ میں وفات پائی اپنی وفات سے قبل اپنے بیٹے عباس آفندی المعروف عبدالبہاء کو بہاء اللہ کے جانشین ہونے کی وصیت کی اور یہ لکھا کہ عباس آفندی کے بعد دوسرابیٹا مرزا محمد علی جانشین ہو گا اور اس کے بعد ہر پلوٹھابیٹا یا جس کے بارہ میں ولی امر اللہ یعنی موجود بہائی لیڈر وصیت کر جائے وہ جانشین ہو گا۔ لیکن بہاء اللہ کی وفات کے بعد جانشین کے بارہ میں اس کے دونوں بیٹوں میں اختلاف ہو گیا اور بہائیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور بہاء اللہ کی یہ خواہش اور وصیت بھی پوری نہ ہو سکی۔ اور امن کا ڈھنڈورا پیٹنے والی بہائیت کے اختلافات نفرت اور دشمنی کی شکل اختیار کر گئے۔ دونوں کے مرید آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر بہاء اللہ کی تحریرات میں تحریف کا الزام لگانے لگے۔ (Materials for the study of the Babi Religion Page. 156)
الاقدس کی تعلیمات سے انحراف
بہاء اللہ کے بیٹے اور جانشین عبدالبہاء نے یورپ کے دورے کئے اور بہاء اللہ کی تعلیمات کو یورپین معاشرے کے مطابق ڈھالنا شروع کیا مثلاً بہاء اللہ نے اقدس میں لکھا ہے کہ ’’دو شادیوں کی اجازت ہے‘‘۔ (کتاب اقدس صفحہ ۴۴ نمبر ۶۳)
چنانچہ خود بہاء اللہ نے دو شادیاں کیں-
لیکن عبدالبہاء نے صرف ایک شادی کی اجازت دی۔ (کتاب اقدس صفحہ۲۰۸)
اس طرح بہاء اللہ نے نماز با جماعت کے حکم کو منسوخ کیا ہے۔ (کتاب اقدس صفحہ۲۸ نمبر ۱۲)
لیکن عبدالبہاء مسلمانوں کی مساجد میں جا کر ان کے ساتھ نماز باجماعت پڑھتا رہا۔
(Baha’u’llah and the new era by J.E. Esslemont P.82 Bahai Publishing Trust Wilmette,illinois)
عبدالبہاء نے ۱۹۲۱ء میں وفات پائی اس کی نرینہ اولاد نہ تھی اس لئے اس نے اپنے نواسے شوقی آفندی کو جانشین مقرر کیا حالانکہ بہاء اللہ کی وصیت کے مطابق عبدالبہاء کے چھوٹے بھائی محمد علی جانشینی کے حقدار تھے۔
شوقی آفندی کا رجحان مذہب کی طرف نہیں تھا مثلاً انہوں نے دیگر بہائی لیڈروں کے برخلاف اصرار کے باوجود داڑھی نہیں رکھی۔ لوگوں سے میل ملاقات کی بجائے وہ تحریر کے کام میں مصروف رہا۔ شوقی آفندی پر ۱۹۵۷ء میں اچانک دل کا حملہ ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی اور نہ ہی اسے وصیت لکھنے کا موقعہ ملا۔ اس کی وفات کے بعد بہائیت پھر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ایک حصہ شوقی آفندی کی بیوی روحیہ خانم کے ساتھ مل گیا اور دوسرا میسن ریمی کے ساتھ۔ آخر ۱۹۶۳ء میں بیت العدل کا قیام عمل میں آیا جس کے ۹ ممبر ہوتے ہیں اور اب یہی بہائیت کی سربراہی کرتے ہیں۔ بہائیوں کے نزدیک بیت العدل کے رکن اپنی ذات میں معصوم نہیں ہوتے لیکن بیت العدل اور اس کے فیصلوں کو معصوم سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح بہائیت کا ایک بنیادی اصول مرد عورت میں مساوات ہے لیکن بیت العدل کے نوارکان میں ایک بھی رکن عورت نہیں۔
مندرجہ بالا مختصر جائزہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بابیت اور بہائیت کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک کلچر یا سیاسی تحریک کا نام ہے ایک عیسائی عیسائیت یاہندو ہندومت پر قائم رہتے ہوئے بھی بہائی ہو سکتا ہے۔ دہلی میں ان کی عبادت گاہ بہائی ٹمپل ہے تو یورپ میں بہائی چرچ۔ بہائیت دراصل اسلام کے مٹانے کا مذموم مقصد لے کر آئی جس نے آسمانی شریعت قرآن کریم کو منسوخ قرار دیا۔اور مذہب سے آزادی دے کر اباحت کا دروازہ کھولا ہے۔ تا کہ بے دین اور مذہب سے بیزار لوگوں کو اس تحریک میں شامل کیا جا سکے۔ چونکہ اپنے عقائد اور عزائم کو مخفی رکھنا اس تحریک کے بنیادی بارہ اصولوں میں شامل ہے اس لئے بعض اوقات کم علم مسلمان بہائیت کے فریب میں آ جاتے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام الناس اس تحریک کے عزائم سے مطلع ہوں تا یہ تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔