حضرت بَسْبَسْ بن عَمْروؓ
ایک روایت میں حضرت بَسْبَسْ بن عَمْرو کا نام بَسْبَسْ بِن بِشْر بھی آیا ہے۔ حضرت بَسْبَسْ جُہَنِی انصاری کا تعلق قبیلہ بنو سَاعِدَۃ بن کعب بن خزرج سے تھا جبکہ عروہ بن زبیر کے مطابق آپ کا تعلق بنو طَرِیْف بن خزرج سے ہے۔ آپؓ نے غزوۂ بدر میں شرکت کی تھی۔ آپؓ کا شمار انصار صحابہ میں ہوتا ہے۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 373 بسبس الجھنیؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء) آپ کو بُسَیْسَہْ اور بُسَیْس اور بَسْبَسَہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 379 بسبہ بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء) غزوۂ بدر کے علاوہ آپ نے غزوۂ احد میں بھی شرکت کی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 422 بسبس بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
غزوۂ بدر کے لئے مدینہ سے نکلنے کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے یہ لکھا ہے کہ:
’’مدینہ سے نکلتے ہوئے آپؐ نے اپنے پیچھے عبداللہ بن ام مَکْتُوم کو مدینہ کا امیر مقرر کیا تھا۔ مگر جب آپؐ رَوْحَاء کے قریب پہنچے جو مدینہ سے 36 میل کے فاصلہ پر ہے تو غالباً اس خیال سے کہ عبداللہ ایک نابینا آدمی ہیں اور لشکر قریش کی آمد آمد کی خبر کا تقاضا ہے کہ آپؐ کے پیچھے مدینہ کا انتظام مضبوط رہے۔ آپؐ نے اَبُولُبَابَہ بن مُنْذِر کو مدینہ کا امیر مقرر کر کے واپس بھجوا دیا اور عبداللہ بن ام مکتوم کے متعلق حکم دیا کہ وہ صرف امام الصلوٰۃ رہیں مگر انتظامی کام اَبُولُبَابہ سرانجام دیں۔ ‘‘یہ لکھتے ہیں کہ ’’مدینہ کی بالائی آبادی یعنی قباء کے لئے آپؐ نے عَاصِم بن عَدِی کو الگ امیر مقررفرمایا۔ ‘‘ آپ نے جو امراء بھیجے تھے، مقرر فرمائے یا تبدیلیاں کیں وہ یہاں سے ’’ اسی مقام سےآپؐ نے بَسِیْس(یعنی بَسْبَس) اور عدی نامی دو صحابیوں کو دشمن کی حرکات و سکنات کا علم حاصل کرنے کے لئے بدر کی طرف روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ وہ بہت جلد خبر لے کر واپس آئیں۔ ‘‘ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 354)
دو ہفتے پہلے خطبہ میں حضرت عَدِی بِن اَبِی زَغْبَاءْ کے ذکر میں اس واقعہ کا ذکر ہو چکا ہے۔ جن کو بھیجا گیا تھا ان میں حضرت بَسْبَساور حضرت عدی بن اَبی زغباء دونوں شامل تھے۔ جب یہ بدر کے مقام پر خبر لینے کے لئے پہنچے تو وہاں حضرت بَسْبَسبن عمرو اور عدی بن اَبی زغباء نے کنوئیں کے قریب ایک ٹیلے کے پاس اپنے اونٹ بٹھا کر اپنی مشکیں لیں اور کنوئیں سے پانی بھرا اور وہاں پیا بھی۔ اس دوران انہوں نے وہاں دو عورتوں کو باتیں کرتے سنا جو کسی قافلے کے آنے کے بارے میں باتیں کر رہی تھیں۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 617 بسبس و عدی یتجسسان الاخبار مطبوعہ تراث الاسلام مصر 1955ء)
اور وہاں ایک شخص بھی کھڑا تھا۔ بہرحال یہ دونوں واپس آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان عورتوں کی باتوں کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک قافلے کے آنے کے بارے میں اس طرح باتیں کر رہی تھیں۔ وہ شخص جو وہاں کھڑا تھا اس کا نام مَجْدِی تھا۔ (یہ تفصیل میں پہلے بیان کر چکا ہوں ) تو مؤرخ لکھتے ہیں کہ اگلی صبح ابوسفیان وہاں پہنچا جبکہ قافلہ بھی وہاں آیا ہوا تھا۔ اس نے مَجْدِی سے پوچھا کہ اے مَجْدِی! کیا تو نے ایسے کسی شخص کو دیکھا ہے جو یہاں جاسوسی کے لئے آیا ہو؟ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر تو ہم سے دشمن کا حال چھپائے گا تو قریش میں سے کبھی کوئی بھی شخص تجھ سے صلح نہیں کرے گا۔ مَجْدِی نے کہا یعنی وہ شخص جو کھڑا تھا بخدا میں نے یہاں کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس کو میں نہ پہچانتا ہوں۔ یہاں سے تیرے اور یثرب کے درمیان کوئی دشمن نہیں ہے اور اگر کوئی ہوتا تو وہ مجھ سے مخفی نہ رہ سکتا اور نہ ہی میں تجھ سے اس کو چھپاتا۔ وہ کہتا ہے مگر ہاں یہ ہے کہ مَیں نے دو سواروں کو دیکھا تھا۔ وہ اس جگہ رُکے تھے اور اُس جگہ اشارہ کیا جہاں حضرت بَسْبَس اور حضرت عدی رُکے تھے اور انہوں نے اپنے اونٹ بٹھائے تھے۔ کہنے لگا کہ انہوں نے یہاں اپنے اونٹ بٹھائے تھے، پانی پیا تھا اور پھر یہاں سے چلے گئے۔ ابو سفیان اس جگہ پر آیا جہاں دونوں صحابہ نے اونٹ بٹھائے تھے اور ان دونوں کے اونٹوں کی مینگنیاں اٹھا کر توڑنے لگا۔ اس لیے کہ تجسس تھا۔ تو پہچان کے لئے یہ بھی توڑنے لگا۔ جب اس نے توڑی تو اونٹ کی مینگنیوں میں سے کھجور کی گٹھلی نکلی تو ابوسفیان بولا بخدا!! اہلِ یثرب کے اونٹوں کا یہی چارا ہے۔ یہ تو وہاں سے آئے ہیں۔ یہ دونوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب محمدؐ کے جاسوس تھے۔ یعنی دونوں جو شخص آئے تھے یہ تو مدینے سے آئے ہیں اور یہ جاسوس ہیں۔ اونٹ کی مینگنیوں سے مجھے یہ اندازہ لگ گیا ہے کہ کیوں یہاں آئے تھے۔ کہنے لگا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ بہت قریب ہیں۔ اس کے بعد وہ وہاں سے جلدی جلدی اپنے قافلے کو لے کر روانہ ہو گیا۔ (کتاب المغازی للواقدی صفحہ 40-41 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1984ء)
ان عربوں کو اس زمانے میں بھی جاسوسی کے اندازے لگانے کا بڑا ملکہ تھا اور یہ بھی جاسوسی کے ہی انداز تھے۔ اس کے ذکر میں، بدر کی جنگ کے ذکر میں سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہ لکھا ہے کہ
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے قریب پہنچے تو کسی خیال کے ماتحت جس کا ذکر روایات میں نہیں ہے آپ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنے پیچھے سوار کر کے اسلامی لشکر سے کچھ آگے نکل گئے۔ اس وقت آپؐ کو ایک بوڑھا بدوی ملا جس سے آپؐ کو باتوں باتوں میں یہ معلوم ہوا کہ اس وقت قریش کا لشکر بدر کے بالکل پاس پہنچا ہوا ہے۔ آپؐ یہ خبر سن کر واپس تشریف لے آئے اور حضرت علیؓ اور زبیر بن العوام اور سعد بن وقاصؓ وغیرہ کو دریافت حال کے لئے آگے روانہ فرمایا اور ایک روایت کے مطابق بھیجے جانے والوں میں حضرت بَسْبَس بھی شامل تھے۔ پہلے تو یہ لوگ گئے تھے قافلے کی خبر لینے کے لئے۔ اب جو پتہ لگا کہ لشکر آ رہا ہے تو اس لشکر کی خبر لینے کے لئے جن لوگوں کو بھیجا ان میں یہ شامل تھے۔ جب یہ لوگ بدر کی وادی میں گئے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کے چند لوگ ایک چشمہ سے پانی بھر رہے تھے۔ ان صحابیوں نے ان پر، جماعت پر حملہ کر کے ان میں سے ایک حبشی غلام کو پکڑ لیا اور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ جب وہ لے کر آئے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں مصروف تھے۔ صحابہؓ نے یہ دیکھ کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو نماز میں مصروف ہیں خود اس غلام سے پوچھنا شروع کیا کہ ابوسفیان کا قافلہ کہاں ہے؟ یہ حبشی غلام چونکہ لشکر کے ہمراہ آیا تھا۔ وہ تو اس لشکر کے ہمراہ آیا تھا جو بدر کی جنگ کے لئے آ رہا تھا۔ اس کوتو قافلے کا علم نہیں تھا اور وہ قافلے سے بے خبر تھا اس نے جواب میں کہا کہ ابوسفیان کا تو مجھے علم نہیں ہے البتہ ابوالحِکم یعنی ابوجَہل اور عُتبہ اور شَیبہ اور اُمَیّہ وغیرہ اس وادی کے دوسرے کنارے ڈیرے ڈالے پڑے ہیں۔ صحابہ نے جن کو تو صرف قافلے کا پتہ تھا نا، یہی اندازہ تھا اور یہی انہوں نے دماغ میں بٹھایا ہوا تھا تو انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور دیدہ دانستہ قافلے کی خبر کو چھپانا چاہتا ہے جس پر بعض لوگوں نے اسے کچھ مارا پیٹا بھی، زدو کوب کیا۔ لیکن جب وہ اسے مارتے تھے وہ ڈر کے مارے کہہ دیتا تھا کہ اچھا میں بتاتا ہوں اور جب اسے چھوڑ دیتے تو وہ پھر وہی پہلا جواب دیتا تھا کہ مجھے ابوسفیان کا، اس کے قافلے کا علم نہیں ہے۔ ہاں البتہ ابوجَہل ایک لشکر لے کے آ رہا ہے اور وہ پاس ہی موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں سنیں تو آپؐ نے جلدی سے نماز سے فارغ ہو کر صحابہ کو مارنے سے روکا اور فرمایا جب وہ سچی بات بتاتا ہے تم اسے مارتے ہو اور جھوٹ کہنے لگتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو۔ پھر آپؐ نے خود نرمی کے ساتھ اس سے دریافت فرمایا کہ لشکر اس وقت کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا اس وقت سامنے والے ٹیلے کے پیچھے ہے۔ آپؐ نے پوچھا کہ لشکر میں کتنے آدمی ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ بہت ہیں مگر پوری تعداد مجھے معلوم نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا اچھا یہ بتاؤ کہ ان کے لئے کھانا کھانے کے لئے ہر روز کتنے اونٹ ذبح ہوتے ہیں ؟ اس نے کہا کہ دس ہوتے ہیں۔ دس اونٹ اس قافلے کے لئے ذبح ہوتے ہیں۔ سامان کے علاوہ کھانے پینے کا بھی اتنا سامان لے کے آئے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ دس اونٹ ذبح ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ایک ہزار آدمی ان کے ساتھ آئے ہیں اور حقیقتاً وہ اتنے ہی لوگ تھے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 355-356)