حضرت بِشربن بَراء بن مَعْرُورؓ
حضرت بِشربن بَراء بن مَعْرُورؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو عبید بن عدی سے تھا اور دوسرے قول کے مطابق بنو سلمہ سے تھا۔ (السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ471، باب الانصار ومن معہم، دارالکتب العلمیہ بیروت2001ء) (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ لابن اثیر جلد1صفحہ380، بشر بن البَراء، دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء)
دو مختلف روایتیں بیان کی جاتی ہیں۔ حضرت بِشرؓ کے والد کا نام حضرت بَراء بن مَعْرُور اور والدہ کا نام خُلَیْدَہ بنتِ قَیس تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ291، بِشر بن البَراءؓ، داراحیاء التراث العربی 1996ء)
حضرت بِشر کے والد حضرت بَراء بن مَعْرُورؓ اُن بارہ (12)نقیبوں میں سے تھے جو مقرر کیے گئے تھے اور قبیلہ بنو سَلَمَہ کے نقیب تھے۔ حضرت بَراءؓ ہجرت سے ایک ماہ قبل حالتِ سفر میں فوت ہو گئے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے ان کی قبر پر تشریف لے جاکر چار تکبیرات ادا فرمائیں۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ لابن اثیر جلد1صفحہ365-366، البَراءؓ بن معرور، دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء)
حضرت بِشرؓ اپنے والد کے ساتھ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے اور حضرت بِشر بن بَراء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہر تیر اندازصحابہؓ میں سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بِشؓ ر اور حضرت واقد بن عبداللہؓ جنہوں نے مکے سے مدینےکی طرف ہجرت کی تھی، ان کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمایا۔ حضرت بِشر غزوہ بدر، اُحد، خندق، حدیبیہ اور خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ الجزءالاول، صفحہ426، بِشر بن البَراءؓ، دارالکتب العلمیہ بیروت2005ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ291، بِشر بن البَراءؓ، داراحیاء التراث العربی1996ء)
عبدالرحمٰن بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اےبَنُو نَضَلَہ! (بعض روایت میں بنو سلمہ لکھا ہے کہ) تمہارا سردار کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ جَدِّ بنِ قَیس۔ آپ نے فرمایا کہ اسے کس وجہ سے سردار مانتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ وہ ہم سے زیادہ مال دار ہے۔ بڑا امیر آدمی ہے۔ بڑا آدمی ہے اس لیے ہم نے اس کو سردار بنا لیاہے لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم محض بخل کی وجہ سے اسے معیوب سمجھتے ہیں۔ وہ بڑا بخیل ہے، کنجوس ہے اور اس کی یہ بات ہمیں پسندنہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخل سے زیادہ بڑی بیماری کون سی ہے؟یہ بخیل ہونا تو بہت بڑی بیماری ہے۔ وہ تمہارا سردار نہیں ہے اور اس وجہ سے وہ تمہارا سردار نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! پھر ہمارا سردار کون ہے آپ ہی بتا دیں؟ آپ نے فرمایا کہ بِشربن بَراء بن مَعْرُورؓ تمہارا سردار ہے جن صحابیؓ کا ذکر ہو رہا ہے۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ یہی تمہارا سردار ہے اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا سردار سفید رنگ والا، گھنگھریالے بالوں والا بِشر بن بَراء بن مَعرور ہے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ الجزء الاول، صفحہ426-427، بِشر بن البَراءؓ، دارالکتب العلمیہ بیروت2005ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ291، بِشر بن البَراءؓ، داراحیاء التراث العربی 1996ء)
حضرت بِشر بن بَراءؓ نے حضرت قُبَیْسَہ بنت ِصَیْفِی سے شادی کی جس سے ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام عالیہ تھا۔ حضرت قُبَیْسَہ نے اسلام قبول کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت بھی کی۔ (الطبقات الکبریٰ الجزء 8 صفحہ435، قُبَیْسَة بنت صَیْفِیؓ، دارالکتب العلمیۃ بیروت1996ء)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ یہود اَوس اور خَزرج کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے فتح کی دعا مانگا کرتے تھے۔ آپس میں لڑتے تھے تو یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ یہ نبی جس کی پیش گوئی ہے مبعوث ہونے والا ہے اس کے نام پہ ہمیں فتح عطا کر۔ اللہ تعالیٰ سے مانگتے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں سے مبعوث فرمایا تو انہی لوگوں نے آپ کا انکار کیا اور جو بات وہ کہا کرتے تھے اس سے انکاری ہو گئے۔ یہی طریقہ ہے ہمیشہ سے انکار کرنے والوں کا۔ حضرت معاذبن جبلؓ اور حضرت بِشربن بَراءؓ اور داؤدبن سلمہؓ نے ان سے ایک دن کہا کہ اے یہود کے گروہ !اللہ سے ڈرو اور اسلام قبول کر لو۔ پہلے تو تم ہم پر محمدنام کے نبی کے ظہور کے ذریعہ فتح مانگتے تھے۔ یہ کہا کرتے تھے کہ یہ نبی مبعوث ہو گا جس کا نام محمد ہو گا اور اس کی وجہ سے فتح کی دعا کیا کرتے تھے اور ہم شرک کرنے والے تھے۔ حضرت بِشربن بَراءؓ نے کہا کہ ہم تو ان لوگوں میں شامل تھے جو شرک کرتے تھے اور تم ہمیں یہ باتیں بتایا کرتے تھے اور تم ہمیں یہ بتاتے تھے کہ وہ نبی مبعوث ہونے والا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ مبعوث ہو گا اور ہمیں اس کی علامات بتایا کرتے تھے کہ یہ یہ علامتیں ہوں گی۔ اب مبعوث ہو گیا ہے تو اب اس نبی پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔ سَلَّام بن مِشْکَم یہودی نے جو قبیلہ بنو نضیر میں سے تھا (سلّام بن مِشْکَم یہود کے قبیلہ بنو نضیر کا سردار اور ان کے خزانے کا نگران بھی ہوتا تھا۔ یہ اس عورت زینب بنت حارث کا خاوند تھا جس نے غزوہ خیبر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر آلود گوشت دیا تھا۔ بہرحال) اس نے جواب دیا کہ وہ نبی ہمارے پاس وہ نہیں لے کر آیا جسے ہم پہچانتے ہیں اور نہ آپ وہ نبی ہیں جن کا ہم نے تم سے ذکر کیا تھا۔ ساری علامتیں پوری ہو گئیں جو یہ کہتے تھے۔ کہتے نہیں ہم پر وہ لے کر نہیں آیا جو ہم پہچانتے ہیں۔ ساری علامتیں پوری نہیں ہوئیں اس لیے ہم نہیں مانیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ
وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ کِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ ۙ وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ یَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚۖ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (البقرة: 90)
یعنی اور جب اللہ کی طرف سے ان کے پاس ایک ایسی کتاب آئی جو اس (تعلیم) کی جو ان کے پاس تھی تصدیق کر رہی تھی جبکہ حال یہ تھا کہ اس سے پہلے وہ ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے کفر کیا (اللہ سے) مدد مانگا کرتے تھے۔ پس جب وہ ان کے پاس آ گیا جسے انہوں نے پہچان لیا تو (پھر بھی) اُس کا انکار کر دیا۔ پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ381، ما نزل من البقرۃ فی المنافقین و یھود، دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء) (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ512، غزوة سویق، صفحہ698، قصة الشاة المسمومة، دار الکتب العلمیۃ بیروت2001ء) (الروض الانف فی شرح السیرة النبویۃ لابن ہشام جلد2صفحہ325باب کاھنہ قریش، مکتبہ ابن تیمیہ1990ء)
حضرت زبیر بن عوامؓ بیان کرتے ہیں کہ جب جنگ احد کا رخ پلٹا تو مَیں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پایا۔ جب ہم سب بدحواس اور خوف زدہ تھے اور ہم پر نیندنازل کر دی گئی۔ ایسی حالت تھی کہ لگتا تھا کہ اونگھ کی حالت ہم پر طاری ہو گئی ہے۔ چنانچہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کی ٹھوڑی اس کے سینے پر نہ ہو۔ یعنی نیند اور غنودگی کی حالت میں سر نیچے ڈھلک گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم !مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے مُعَتِّبْ بن قُشَیر کی آواز خواب میں سنائی دے رہی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اگر ہمیں فیصلے کا اختیار ہوتا تو ہم کبھی یہاں اس طرح قتل نہ کیے جاتے۔ مُعَتِّبْ بن قُشَیرانصاری صحابی تھے اور بیعتِ عقبہ، غزوہ ٔبدر اور احد میں شامل ہوئے تھے۔ میں نے ان کے اس جملے کو یاد کر لیا جب اس طرح خواب کی حالت میں دیکھا تھا۔ اس موقع کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ
ثُمَّ اَنۡزَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا یَّغۡشٰی طَآئِفَۃً مِّنۡکُمۡ ۙ وَ طَآئِفَۃٌ قَدۡ اَہَمَّتۡہُمۡ اَنۡفُسُہُمۡ یَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ ظَنَّ الۡجَاہِلِیَّۃِ ؕ یَقُوۡلُوۡنَ ہَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡاَمۡرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ(آل عمران: 155)
کہ پھر اس نے تم پر غم کے بعد تسکین بخشنے کی خاطر اونگھ اُتاری جو تم میں سے ایک گروہ کو ڈھانپ رہی تھی۔ جبکہ ایک وہ گروہ تھا کہ جنہیں ان کی جانوں نے فکر مند کر رکھا تھا وہ اللہ کے بارے میں جاہلیت کے گمانوں کی طرح ناحق گمان کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ کیا اہم فیصلوں میں ہمارا بھی کوئی عمل دخل ہے؟تُو کہہ دے کہ یقینا ًفیصلے کا اختیار کلیةً اللہ ہی کو ہے۔
حضرت کعب بن عَمْرو انصاریؓ نے بیان کیا ہے کہ غزوۂ احد کے دن ایک موقع پر میں اپنی قوم کے 14آدمیوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا اس پر ہم پر اونگھ طاری تھی۔ جو بطور امن کے تھی یعنی بڑی سکون والی اونگھ تھی۔ جنگی حالت تھی لیکن وہ ایسی اونگھ تھی جو ہمیں سکون دے رہی تھی۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے سینے سے دھونکنی کی طرح خراٹوں کی آواز نہ نکل رہی ہو۔ بعض دفعہ ایسی گہری حالت بھی ہو گئی تھی۔ کہتے ہیں مَیں نے دیکھا کہ بِشر بن بَراء بن معرورجن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر گئی اور انہیں تلوار کے گرنے کا احساس بھی نہ ہوا حالانکہ مشرکین ہم پر چڑھے آ رہے تھے۔ (السیرة الحلبیۃ جلد2صفحہ310، باب ذکر مغازیۃ، غزوہ اُحد، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء) (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد4صفحہ432، معتب بن قشیرؓ، دارالفکر بیروت2003ء)
بہرحال ہو سکتا ہے کہ یہ ان کو محسوس ہوا ہو کہ گر گئی کیونکہ اس وقت ایسی حالت میں نیند تو تھی۔ لیکن ان کے ہاتھوں میں جو ہتھیار تھے مضبوطی سے قائم ہوتے تھے یا گرنے لگتے تھے تو جھٹکا لگتا تھا۔ بہرحال یہاں لفظ نعاس استعمال ہوا ہے اس کی جو وضاحت، تشریح، ہے وہ اپنے ایک درس میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے بڑی تفصیل سے فرمائی تھی کہ
اَمَنَۃً نُّعَاسًا مختلف پہلوؤں سے اس کے جو تراجم ہیں ان کا خلاصةً یہ معنی بنے گا کہ غم کے بعد تم پر ایسا سکون نازل فرمایا جسے نیند کہہ سکتے ہیں یا ایسی اونگھ عطا کی جو امن کی حامل تھی یا وہ امن دیا جو نیند کا سا اثر رکھتا تھا یا نیند میں شامل تھا۔
یہ اَمَنَۃً نُّعَاسًا کا یہ مطلب ہے۔ اونگھ وقتی طور پر یوں سر جھکا کر غوطہ کھا جانے کو بھی کہتے ہیں لیکن یہاں نعاس کا معنی اس قسم کی اونگھ نہیں ہے بلکہ وہ کیفیت ہے جو بیداری اور نیند کے درمیان کی کیفیت ہوتی ہے۔ سونے سے پہلے ایک بیچ کی ایسی منزل آتی ہے جہاں تمام اعصاب کو ایک سکون مل جاتا ہے اور وہی گہرا سکون ہے اگر وہ سکون اسی طرح جاری رہے تو پھر نیند میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان اگر چل رہا ہے تو گرے گا نہیں۔ گرنے سے پہلے اسے جھٹکا لگ جاتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ مَیں کس کیفیت میں تھا۔ لیکن اگر نیند آ جائے تو پھر اپنے اعصاب پر، اپنے اعضا پر کوئی اختیار نہیں رہتا۔ بہرحال ہو سکتا ہے بِشربن بَراءؓ کو اس حالت میں اس طرح کی گہری نیند بھی آ گئی ہو۔ لیکن باوجود جنگ کی حالت کے وہ تھی سکون کی کیفیت اور انسان گر جاتا ہے اور اگر اِس کو صحیح بھی مانا جائےتو اسی وجہ سے ان کے ہاتھ ذرا ڈھیلے ہوئے تو تلوار گر گئی۔ بہرحال یہ حالت ایسی ہوتی ہے جس میں فوری احساس بھی ہو جاتا ہے کہ میں گہری نیند میں جا رہا ہوں اور پھر انسان جھٹکے سے جاگ جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں ایک ایسی سکون کی حالت عطا کی جو نیند سے مشابہ تھی مگر نیند کی طرح اتنی گہری نہیں تھی کہ تمہیں اپنے اوپر اپنے اعضاء پر کوئی اختیار نہیں رہے۔ وہ سکینت تو بخش رہی تھی مگر تمہیں بے کار نہیں کر رہی تھی۔
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اور یہ بخاری کی حدیث میں ہے کہ اُحد کے دن عین جنگ میں ہم کو اونگھ نے آ دبایا اور یہ وہ اونگھ ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ حضرت طلحہؓ کہتے ہیں کہ تلوار میرے ہاتھ سے گرنے کو ہوتی تھی۔ مَیں تھام لیتا تھا۔ پس یہ حدیث بتا رہی ہے کہ ایسی نیند کی کیفیت نہیں تھی کہ ہاتھوں سے چیزیں نیچے جا پڑیں یا چلتے چلتے ہم گر جائیں۔ تسکین تھی، سکینت تھی مگر پھر بھی ایک حد تک ہمیں اپنے اعضا پر اختیار حاصل تھا۔ پھر گرنے کو ہوتی تھی تو پھر تھام لیتے تھے۔ یعنی یہ اونگھ کا ایک حصہ کوئی اچانک یوں ہی نہیں آیا بلکہ یہ ایک کیفیت تھی جو ان لوگوں پر کچھ عرصہ چلتی رہی۔
ترمذی ابواب التفسیر میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ ٔاحد کے دن مَیں سر اٹھا کر دیکھنے لگا تو ہر آدمی اونگھتے اونگھتے اپنی ڈھال کے نیچے جھک رہا تھا۔ جاگنے کی وجہ سے یا تھکاوٹ کی وجہ سے ان صحابہؓ کی بہت بری حالت ہو گئی تھی اور ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سکون کی کیفیت مل رہی تھی۔ کہتے ہیں یعنی ایسا ہی نظارہ ہوا کہ جو عام تھا۔ کوئی اتفاقاً ایک تھکے ہوئے مجاہد کے اوپر اطلاق پانے والی کیفیت نہیں تھی۔ بلکہ حضرت خلیفہ رابعؒ نے لکھا ہے کہ تمام مجاہدین جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں دشمن کے خلاف بر سرِ پیکار تھے ان سب پر اچانک گویا آسمان سے ایک چیز اتری ہے اور اس حالت نے اس کو ڈھانپ لیا۔ اس وقت ان کو اس چیز کی سکون کی اپنے اعصاب کو ریفریش (Refresh)کرنے کی، ان کو تازہ دم کرنے کی شدید ضرورت تھی اور سونے کا وقت کوئی نہیں تھا اور جب ایسی حالت ہو جب ایسی تھکاوٹ کی حالت ہو تو ایسی حالت انسانوں پر طاری ہو جاتی ہے۔ بہرحال ساری قوم بیک وقت ایک ایسی نیند کی حالت میں چلی جائے جبکہ لڑائی ہو رہی ہو اور دشمن سے سخت خطرہ بھی درپیش ہو یہ اعجاز ہے۔ ایک معجزہ ہے۔ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں کے ساتھ ہو جاتا ہے یہ لیکن یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ایک معجزہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص سکون کی کیفیت ان کو اس وقت عطا کی گئی تھی۔ (ماخوذ از درس القرآن بیان فرمودہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ 6؍رمضان المبارک، 17؍فروری 1994ء)
حضرت بِشرؓ نے غزوہ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ اس زہر آلود بکری کا گوشت کھایا جو ایک یہودی عورت نے تحفةً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا تھا۔ جب حضرت بِشر نے اپنا لقمہ نگلا تو اس جگہ سے ابھی ہٹے بھی نہ تھے کہ ان کا رنگ تبدیل ہو کرطَیْلَسَان، یہ کپڑا ہے جس میں سیاہ رنگ زیادہ غالب ہوتا ہے، اس کی طرح ہو گیا۔ درد سے ایک سال تک یہ حالت رہی کہ بغیر سہارے کے کروٹ تک نہ بدل سکتے تھے۔ پھر اسی حالت میں آپؓ کی وفات ہو گئی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹے بھی نہیں تھے، زہر اتنا زیادہ تھا کہ وہیں کھانے کے تھوڑی دیر بعد ہی ان کی وفات ہو گئی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 291، بِشر بن البَراءؓ، داراحیاء التراث العربی 1996ء)
حضرت بشربن بَراءؓ نے جب وفات پائی تو ان کی والدہ کو شدید دکھ ہوا۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بِشر کی وفات بنو سلمہ کو ہلاک کر دے گی اور بنو سلمہ میں سے مرنے والے تو مرتے ہی رہیں گے۔ کیا مردے ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ انہوں نے جو یہ حرکت کی ہے تو یہ حرکت کرنے والے تو ہلاک ہوں گے، لیکن کیا مردے ایک دوسرے کو پہچان لیں گے؟کیا بِشر کی طرف سلام پہنچایا جا سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اے امّ بِشر! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جیسے پرندے درختوں پر ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں ویسے ہی جنتی بھی ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد3صفحہ132، فی تنبیہات علیٰ بعض فوائد تتعلق بقصۃ المعراج، دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
مطلب یہ تھا کہ ان کو پہچان لیں گے تو جو فوت ہونے والے ہیں ان کے ہاتھوں مَیں سلام بھیج سکتی ہوں۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ قبیلہ بنو سلمہ کا کوئی بھی شخص جب وفات پانے والا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو سننے کے بعد حضرت بِشرؓ کی والدہ اس کے پاس جا کر کہتیں کہ اے فلاں ! تجھ پر سلام تو وہ جواب میں کہتا تجھ پر بھی۔ پھر وہ کہتیں کہ بِشر کو میرا سلام کہنا۔ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد4 صفحہ99 کتاب الجنائز باب ما یقال عند من حضرہ الموت، دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء)
کوئی بھی بنو سلمہ کا فوت ہونے والا شخص ہوتا تو آپ ان کے پاس جا کر کہتیں، ان کو سلام پہنچانا۔ بنو سلمہ میں سے تھے۔ پہلے شاید میں نے دشمن کی بات کی۔ دشمنوں والی بات نہیں ہے۔ وہ ان کا کہنے کا انداز ہے کہ بِشر کی وفات بنو سلمہ کو ہلاک کر دے گی۔ کیا مردے ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ یعنی بہت صدمہ ہے ہمارے لیے۔ کیا بِشر کی طرف سلام پہنچایا جا سکتا ہے؟ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ پھر آپ ہر فوت ہونے والے کے ذریعہ یہ پیغام دیتیں کہ وہاں جنت میں جاؤ گے تو سلام پہنچانا۔
ایک روایت کے مطابق حضرت بِشر کی بہن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں آپؐ کے پاس آئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا تمہارے بھائی کے ساتھ میں نے خیبر میں جو لقمہ کھایا تھا اس کی وجہ سے میں اپنی رَگوں کو کٹتا محسوس کرتا ہوں۔ (السیرة الحلبیۃ جلد3صفحہ82، باب ذکر مغازیۃ، غزوة خیبر، دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
اس واقعےکا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے تفصیل بیان فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ
یہودی عورت نے صحابہؓ سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جانور کے کس حصے کا گوشت زیادہ پسند ہے؟ صحابہؓ نے بتایا کہ آپؐ کو دستی کا گوشت زیادہ پسند ہے۔ اس پر اس نے بکرا ذبح کیا اور پتھروں پر اس کے کباب بنائے اور پھر اس گوشت میں زہر ملا دیا خصوصاً بازوؤں میں جس کے متعلق اسے بتایا گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا گوشت زیادہ پسند کرتے ہیں اور پھر سورج ڈوبنے کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شام کی نماز پڑھ کر اپنے ڈیرے کی طرف واپس آ رہے تھے تو آپؐ نے دیکھا کہ آپ کے خیمے کے پاس ایک عورت بیٹھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ بی بی تمہارا کیا کام ہے؟اس نے کہا کہ اے ابوالقاسم !مَیں آپ کے لیے ایک تحفہ لائی ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ساتھی صحابی سے فرمایا کہ جو چیز یہ دیتی ہے اس سے لے لو۔ اس کے بعد آپؐ کھانے کے لیے بیٹھے تو کھانے پر وہ بھنا ہوا گوشت بھی رکھا گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک لقمہ کھایا اور آپ کے ایک صحابی بشیر بن بَراء بن معرور نے بھی ایک لقمہ کھایا۔ بہرحال تاریخ کی کتابوں میں حضرت بِشر بن بَراء کا نام بعض جگہ بشیر بن بَراء بھی لکھا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بشیر بن بَراء یہاں لکھا ہے مراد بِشر بن بَراء ہی ہیں۔ اتنے میں باقی صحابہؓ نے بھی گوشت کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مت کھاؤ کیونکہ اس ہاتھ نے مجھے خبر دی ہے کہ گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔ یعنی اس کے معنی یہ نہیں کہ آپؐ کو الہام ہوا تھا بلکہ یہ عرب کا محاورہ ہے۔ معنی یہ ہیں کہ اس گوشت کو چکھ کر مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے۔ پس اس جگہ یہ مرادنہیں ہے۔ اس محاورے کے تحت ہی بیان کیا گیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا آپ کا ہاتھ بولا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کا گوشت چکھنے پر مجھے معلوم ہوا ہے۔ چنانچہ اگلا فقرہ ان معنوں کی وضاحت کر دیتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ ہی اس کی تفصیل میں فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک دیوار کے متعلق آتا ہے کہ وہ گرنا چاہتی تھی جس کے محض یہ معنی ہیں کہ اس میں گرنے کے آثار پیدا ہو چکے تھے۔ پس اس جگہ بھی یہی مراد ہے۔ یہ محاورةً بولا گیا ہے۔ پھر آگے آپ فرماتے ہیں کہ اس پر بشیر نے کہا یعنی بِشر بن بَراءؓ نے کہ جس خدا نے آپ کو عزت دی ہے اس کی قسم کھا کر مَیں کہتا ہوں کہ مجھے بھی اس لقمے میں زہر معلوم ہوا ہے۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں اس کو پھینک دوں لیکن میں نے سمجھا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو شاید آپ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے اور آپؐ کا کھانا خراب نہ ہو جائے۔ تسلی مجھے نہیں تھی لیکن مجھے لگ رہا تھا کہ کچھ ہے اور جب آپؐ نے وہ لقمہ نگلا تو میں نے بھی آپؐ کی تتبع میں نگل لیا۔ گو میرا دل یہ کہہ رہا تھاکہ چونکہ مجھے شبہ ہے کہ اس میں زہر ہے اس لیے کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لقمہ نہ نگلیں۔ اس کے تھوڑی دیر بعد بشیر کی طبیعت خراب ہو گئی اور بعض روایتوں میں تو یہ ہے کہ وہ وہیں خیبر میں فوت ہو گئے اور بعض میں یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ عرصہ بیمار رہے اور اس کے بعد فوت ہو گئے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ گوشت اس کا ایک کتے کے آگے ڈلوایا جس کے کھانے سے وہ کتا مر گیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلایا اور فرمایا تم نے اس بکری میں زہر ملایا ہے۔ اس نے کہا کہ آپ کو یہ کس نے بتایا ہے۔ آپؐ کے ہاتھ میں اس وقت بکری کا دست تھا۔ آپؐ نے فرمایا اس ہاتھ نے مجھے بتایا ہے۔ اس پر اس عورت نے سمجھ لیا کہ آپ پر یہ راز کھل گیا ہے اور اس نے اقرار کیا کہ اس نے زہر ملایا ہے۔ اس پر آپؐ نے اس سے پوچھا کہ اس ناپسندیدہ فعل پر تم کو کس بات نے آمادہ کیا۔ اس نے جواب دیا کہ میری قوم سے آپ کی لڑائی ہوئی تھی اور میرے رشتے دار اس لڑائی میں مارے گئے تھے۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ مَیں اُن کو زہر دے دوں۔ اگر ان کا کاروبار انسانی کاروبار ہو گا تو ہمیں ان سے نجات حاصل ہو جائے گی اور اگر یہ واقعی میں نبی ہوں گے تو خدا تعالیٰ ان کو خود بچا لے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ بات سن کر اسے معاف فرما دیا اور اس کی سزا جو یقینا ًقتل تھی اسے نہ دی۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے مارنے والوں اور اپنے دوستوں کے مارنے والوں کو بخش دیا کرتے تھے اور درحقیقت اسی وقت آپؐ سزا دیا کرتے تھے جب کسی شخص کا زندہ رہنا آئندہ بہت سے فتنوں کا موجب ہو سکتا تھا۔ (ماخوذازدیباچہ تفسیرالقرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ327تا329)
بہرحال یہ ایک عام تاثر ہے۔ بعض دشمن یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس زہر سے ہوئی تھی اور تاریخ و سیرت کی بعض کتب نے بھی یہ بحث اٹھائی ہے اور بعض سیرت نگار اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہادت کا مقام دینے کے لیے ان روایات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ اس زہر کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی جبکہ حقیقت میں یہ بات درست نہیں ہے۔ اس پر ہمارے ریسرچ سیل نے بھی ایک نوٹ مجھے بھیجا تھا۔ وہ بھی ایسا ہے کہ میں یہاں سنا دیتا ہوں۔ اس کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ تاریخ اور سیرت کی کتب ہوں یا حدیث کی، ایک بات مسلّم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہرگز اس زہر کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔ جو کوئی ایسا کہتا ہے اول تو وہ ان تمام تر روایات کا علم نہیں رکھتا یا وہ غلطی خوردہ ہے۔ واضح رہے کہ زہر دیے جانے کا واقعہ غزوہ خیبر کے موقع پر ہوا جو کہ چھے ہجری کے آخری یا سات ہجری کے آخری یا سات ہجری کے اوائل کا واقعہ ہے۔ اور اس کے تقریباً چار سال بعد تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے۔ بھرپور زندگی گزاری۔ اسی طرح جس طرح اس سے پہلے جنگوں میں بھی جاتے رہے۔ عبادات اور دیگر معمولات میں بھی رَتی بھر فرق نہیں آیا۔ تقریباً چار سال بعد بخار اور سردرد کی کیفیت طاری ہونا اور اس کے بعد وفات پا جانا اس کو کوئی عقل مند یہ نہیں کہہ سکتا کہ زہر کی وجہ سے چار سال بعد اثر ہوا ہے۔ اصل میں بخاری اور بعض دوسری کتب احادیث میں ایک حدیث ہے جس کے ترجمے کو درست نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ مفہوم نکالا جاتا ہے کہ گویا اسی زہر کی وجہ سے وفات ہوئی تھی حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ بخاری کی وہ حدیث یہ ہے، اس کا ترجمہ بیان کر دیتا ہوں کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں یوں فرماتے تھے کہ عائشہ! اس کھانے کی تکلیف جو مَیں نےخیبر میں کھایا تھا مجھے ہمیشہ محسوس ہوتی رہی اور اب بھی اس زہر سے میں اپنی رگیں کٹتی ہوئی محسوس کر رہا ہوں۔ (صحیح البخاری كِتَابُ المَغَازِي بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّﷺ وَوَفَاتِهِ حدیث4428)
یہ وہ حدیث ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ بعض مسلمان مفسرین بھی اور محدثین بھی یہی کہتے ہیں کہ گویا اسی تکلیف کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی۔ اور پھر اسی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بھی تشریح کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وجہ سے شہید بھی قرار دیا جا سکتا ہے یا بعض کے نزدیک دیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ روایت اس بات کی تائیدنہیں کرتی۔ اس میں صرف ایک تکلیف کا اظہار ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا اور ہر کوئی جانتا ہے کہ بعض اوقات کوئی جسمانی تکلیف یا زخم یا بیماری کبھی کبھی خاص خاص موقعوں پر کسی سبب سے باہر آ جاتی ہے۔ خیبر کے موقعے پر جو زہر اور گوشت آپؐ نے کھایا اس کے متعلق روایات کی تفصیل میں جائیں تو یہ بھی ملتا ہے کہ زہر ملا ہوا یہ گوشت آپؐ نے منہ میں ڈال لیا تھا لیکن نگلا نہیں تھا۔ لیکن اگر نگلا بھی تھا تو آپ کی بھرپور زندگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وفات کی وجہ بہرحال یہ نہیں تھی۔ ہاں اس زہر کی وجہ سے معدے کو یا انتڑیوں کو جو نقصان پہنچا تھا وہ بیماری میں زیادہ ہو گیا اور یہ قدرتی بات ہے بعض دفعہ اس طرح ہوجاتا ہے اور منہ میں جانے کی وجہ سے آپ کے حلق یا کوّے پر زخم آ گیا تھا اور کبھی کبھی کھانے کے دوران اس میں تکلیف محسوس فرماتے تھے۔ احادیث میں یہ واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس میں زہر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کھانے سے روک دیا تھا اور زہر ملانے والی عورت کو بلا کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہم نے اس لیے زہر ملایا تھا کہ اگر آپ خدا کی طرف سے سچے رسول ہیں تو آپ بچ جائیں گے ورنہ ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی۔ یہودی تو اس کو دیکھنے کے بعد آپؐ کے بچنے کا اعلان کر رہے ہیں اور اس عورت کا تویہ تھا کہ اتنا خطر ناک زہر تھا پھر بھی آپ بچ گئے تو آپؐ کے بچ جانے کی وجہ سےبعض روایات میں تو اس عورت کے اسلام قبول کرلینے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جو بھی ہو وہ یہودی تو اس زہر سے نہ مرنے کا اقرار کر رہے ہیں اور اس کو معجزہ قرار دے رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ اس زہر کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی یہ ہرگز درست نہیں ہے۔