حضرت بِلال بن رباحؓ

خطبہ جمعہ 11؍ ستمبر 2020ء

حضرت بلال کے والد کا نام رباح تھا اور والدہ کا نام حمامہ۔ حضرت بلالؓ اُمَیَّہ بن خَلَفْ کے غلام تھے۔ حضرت بلالؓ کی کنیت ابوعبداللہ تھی جبکہ بعض روایات میں ابو عبدالرحمٰن اور ابوعبدالکریم اور ابو عمرو بھی مذکور ہے۔ حضرت بلالؓ کی والدہ حبشہ کی رہنے والی تھیں لیکن والد سرزمینِ عرب سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ محققین نے لکھا ہے کہ وہ حبشی سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے یعنی قدیم زمانے میں سامی یا بعض عربی قبیلے افریقہ میں جاکر آباد ہو گئے تھے جس کے باعث ان کی نسلوں کے رنگ تو افریقہ کی دوسری اقوام کی طرح ہو گئے لیکن وہاں کی خاص علامات اور عادات ان میں ظاہر نہ ہوئیں۔ بعد میں ان میں سے بعض لوگ غلام بن کر عرب واپس لَوٹ گئے۔ چونکہ ان کا رنگ سیاہ تھا اس لیے عرب انہیں حبشی یعنی حبشہ کے رہنے والے ہی سمجھتے تھے۔

ایک روایت کے مطابق حضرت بلالؓ مکہ میں پیدا ہوئے اور مُوَلَّدِیْن میں سے تھے۔ مُوَلَّدِیْن ان لوگوں کو کہتے تھے جو خالص عرب نہ ہوں۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ سُرَاۃ میں پیدا ہوئے اور سُرَاۃ یمن اور حبشہ کے قریب ہے جہاں مخلوط نسل کثرت سے پائی جاتی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ174-175 ’’بلال بن رباح‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2017ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 415 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2008ء) (روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 01 صفحہ 145) (اسدالغابہ (مترجم) جلد اول صفحہ 283 شائع کردہ مکتبہ خلیل)

حضرت بلالؓ کا رنگ گندم گوں سیاہی مائل تھا۔ دبلا پتلا جسم تھا۔ سر کے بال گھنے تھے اور رخساروں پر گوشت بہت کم تھا۔ (روشن ستارے جلد 1صفحہ 145 از غلام باری سیف صاحب)

حضرت بلالؓ نے متعدد شادیاں کیں۔ ان کی بعض بیویاں عرب کے نہایت شریف اور معزز گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپؓ کی ایک بیوی کا نام ہالہ بنت عوف تھا جو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی ہمشیرہ تھیں۔ ایک زوجہ کا نام ہند خَوْلَانِیَہ تھا۔ بنو ابو بُکَیرکے خاندان میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کا نکاح کروایا۔ حضرت ابودَرْدَاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان میں بھی حضرت بلالؓ کا رشتہ مُصَاہَرت قائم ہوا تھا۔ البتہ کسی سے کوئی اولادنہیں ہوئی۔ (سیر الصحابہ جلد دوم ’’بلال بن رباح‘‘ صفحہ 159، دار الاشاعت اردو بازار کراچی 2004) (الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد8صفحہ339 ’’ہالۃ بنت عوف‘‘، دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) (تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جلد 10 صفحہ 334، ذکر من اسمہ بلال بن رباح، دار احیاء التراث العربی بیروت 2001)

حضرت بلالؓ کے ایک بھائی تھے جن کا نام خالد تھا اور ایک بہن تھیں جن کا نام غُفَیْرَہ تھا۔ (اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 418 بلال بن رباح۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2016ء)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال سَابِقُ الْحَبَشَۃہیں۔ یعنی اہل حبشہ میں سے سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 175 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام لانے میں سبقت لے جانے والے اشخاص چار ہیں۔ أَنَا سَابِقُ الْعَرَبِ۔ یعنی مَیں عربوں میں سے سبقت لے جانے والا ہوں۔ سَلْمَانُ سَابِقُ الْفُرْسِ۔ سلمان اہل فارس میں سے سبقت لے جانے والے ہیں اور بِلَالٌ سَابِقُ الْحَبَشَۃِ۔ بلال اہلِ حبشہ میں سے سبقت لے جانے والے ہیں اور صُہَیْبٌ سَابِقُ الرُّوْمِ اور صہیب رومیوں میں سے سبقت لے جانے والے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء لامام الذھبی جلد 01 صفحہ 349، ’’بلال بن رباح‘‘ مؤسسہ الرسالۃ 2014)

عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ حضرت بلال بن رباحؓ ان لوگوں میں سے تھے جو کمزور سمجھے جاتے تھے۔ جب وہ اسلام لائے تو ان کو عذاب دیا جاتا تھا تا کہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں مگر انہوں نے ان لوگوں کے سامنے کبھی وہ کلمہ ادا نہ کیا جو وہ چاہتے تھے یعنی اللہ تعالیٰ کا انکار کرنا۔ انہیں اُمَیّہ بن خَلَف عذاب دیا کرتا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 175 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

حضرت بلالؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو ان کو طرح طرح کا عذاب دیا جاتا تھا۔ جب لوگ حضرت بلالؓ کے عذاب دینے میں سختی کرتے تو حضرت بلالؓ اَحَد، اَحَد کہتے۔ وہ لوگ کہتے اس طرح کہو جس طرح ہم کہتے ہیں تو حضرت بلالؓ جواباً کہتے کہ میری زبان اسے اچھی طرح ادا نہیں کر سکتی جو تم کہہ رہے ہو۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت بلال کو جب ایذا پہنچائی جاتی اور مشرکین یہ ارادہ کرتے کہ ان کو اپنی طرف مائل کر لیں تو حضرت بلالؓ کہتے اللّٰہ، اللّٰہ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 175 ’’بلال بن رباح‘‘، داراحیاء التراث بیروت 2017ء) (اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 283 ’’بلال بن رباح‘‘ دار الفکر بیروت 2003ء)

ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت بلالؓ ایمان لائے تو حضرت بلالؓ کو ان کے مالکوں نے پکڑ کر زمین پر لٹا دیا اور ان پر سنگریزے اور گائے کی کھال ڈال دی اور کہنے لگے تمہارا رب لات اور عُزّیٰہے مگر آپؓ اَحد اَحد ہی کہتے تھے۔ ان کے مالکوں کے پاس حضرت ابوبکرؓ آئے اور کہا کہ کب تک تم اس شخص کو تکلیف دیتے رہو گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو سات اوقیہ میں خرید کر انہیں آزاد کر دیا۔ اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے یعنی دو سو اسّی درہم میں۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! مجھے بھی اس میں شریک کر لو۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! مَیں نے اسے آزاد کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ175 ’’بلال بن رباح‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء) (لغات الحدیث جلد4صفحہ 527مطبوعہ علی آصف پرنٹرز لاہور)

حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو خرید کر اللہ کی راہ میں آزاد کیا تھا اور خرید کے متعلق جیسا کہ پہلے ذکر کیا ہے دو سو اسّی درہم۔ بعض روایات کے مطابق حضرت ابوبکرؓ نے انہیں پانچ اوقیہ یعنی دو سو درہم میں، بعض کے مطابق سات اوقیہ دو سو اسّی درہم اور بعض کے مطابق نو اوقیہ تین سو ساٹھ درہم میں خریدا تھا۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 415 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2016ء)

ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو خریدا تو وہ پتھروں میں دبے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے سونے کے پانچ اوقیہ کے بدلے ان کو خریدا۔ لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اگر آپؓ صرف ایک اوقیہ دینے پر بھی راضی ہوتے یعنی چالیس درہم تو ہم ایک اوقیہ میں بھی اس کو بیچ دیتے۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر تم اس کو سو اوقیہ یعنی چار ہزار درہم میں بھی بیچنے کو تیار ہوتے تو مَیں سو اوقیہ میں بھی اس کو خرید لیتا۔ (سیر اعلام النبلاء لامام الذھبی جلد 1صفحہ 353، ’’بلال بن رباح‘‘ مؤسسہ الرسالۃ 2014)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے سات ایسے غلاموں کو آزاد کروایا جنہیں تکالیف دی جاتی تھیں۔ ان میں حضرت بلالؓ اور حضرت عَامِر بن فُہَیْرَہؓ شامل تھے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر بلال بن رباح، جلد 3 صفحہ321، حدیث 5241، دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ ابوبکرؓ ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب بلال بن رباح مولیٰ ابی بکر حدیث 3754)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ حضرت بلالؓ کو دی جانے والی تکالیف اور حضرت ابوبکرؓ کا آپؓ کو آزاد کرانے کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’یہ غلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے مختلف اقوام کے تھے۔ ان میں حبشی بھی تھے جیسے بلالؓ۔ رومی بھی تھے جیسے صہیبؓ۔ پھر ان میں عیسائی بھی تھے جیسے جبیرؓ اور صہیبؓ اور مشرکین بھی تھے جیسے بلالؓ اور عمارؓ۔ بلالؓ کو ان کے مالک تپتی ریت پر لٹا کر اوپر یا تو پتھر رکھ دیتے یا نوجوانوں کو سینے پر کودنے کے لیے مقرر کر دیتے۔ حبشی النسل بلالؓ امیہ بن خلف نامی ایک مکی رئیس کے غلام تھے۔ امیہ انہیں دوپہر کے وقت گرمی کے موسم میں مکہ سے باہر لے جا کر تپتی ریت پر ننگا کر کے لٹا دیتا تھا اور بڑے بڑے گرم پتھر ان کے سینہ پر رکھ کر کہتا تھا کہ لات اور عُزّیٰکی الوہیت کو تسلیم کر اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)سے علیحدگی کا اظہار کر۔ بلالؓ اس کے جواب میں کہتے اَحَدٌ اَحَدٌ۔ یعنی اللہ ایک ہی ہے۔ اللہ ایک ہی ہے۔ بار بار آپؓ کا یہ جواب سن کر امیہ کو اَور غصہ آ جاتا اور وہ آپؓ کے گلے میں رسّہ ڈال کر شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور کہتا کہ ان کو مکہ کی گلیوں میں پتھروں کے اوپر گھسیٹتے ہوئے لے جائیں۔ جس کی وجہ سے ان کا بدن خون سے تر بتر ہو جاتا مگر وہ پھر بھی اَحَدٌ اَحَدٌ کہتے چلے جاتے۔ یعنی خدا ایک، خدا ایک۔ عرصہ کے بعد جب خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینہ میں امن دیا، جب وہ آزادی سے عبادت کرنے کے قابل ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ کو اذان دینے کے لیے مقرر کیا۔ یہ حبشی غلام جب اذان میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی بجائے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا تو مدینہ کے لوگ جو اس کے حالات سے ناواقف تھے ہنسنے لگ جاتے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہوئے پایا تو آپؐ لوگوں کی طرف مڑے اور کہا تم بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہو مگر خدا تعالیٰ عرش پر اس کی اذان سن کر خوش ہوتا ہے۔ آپؐ کا اشارہ اسی طرف تھا کہ تمہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ یہ ’’ش‘‘ نہیں بول سکتا مگر ’’ش‘‘ اور ’’س‘‘ میں کیا رکھا ہے۔ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ جب تپتی ریت پر ننگی پیٹھ کے ساتھ اس کو لٹا دیا جاتا تھا اور اس کے سینہ پر ظالم اپنی جوتیوں سمیت کودا کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ کیا اب بھی سبق آیا ہے یا نہیں؟ تو یہ ٹوٹی پھوٹی زبان میں اَحَدٌ اَحَدٌ کہہ کر خدا تعالیٰ کی توحید کا اعلان کرتا رہتا تھا اور اپنی وفا داری، اپنے توحید کے عقیدہ اور اپنے دل کی مضبوطی کا ثبوت دیتا تھا۔ پس اس کا اَسْھَدُ بہت سے لوگوں کے اَشْھَدُسے زیادہ قیمتی تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب ان پر یہ ظلم دیکھے تو ان کے مالک کو ان کی قیمت ادا کر کے انہیں آزاد کروا دیا۔ اسی طرح اور بہت سے غلاموں کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 193۔ 194)

حضرت بلالؓ کا شمار اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن میں ہوتا ہے۔ آپؓ نے اس وقت اسلام کا اعلان کیا جب صرف سات آدمیوں کو اس کے اعلان کی توفیق ہوئی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 176 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ سب سے پہلے جنہوں نے اسلام کا اعلان فرمایا وہ سات ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرؓ اور عمارؓ اور ان کی والدہ سمیہؓ اور صہیبؓ اور بلالؓ اور مقدادؓ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابوطالب کے ذریعے سے محفوظ رکھا اور ابوبکر کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کے ذریعے سے محفوظ رکھا۔ نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کی اذیتوں سے محفوظ رہے اور نہ قوم حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ظلموں سے بچا سکی۔ آپ دونوں پر بھی ظلموں کی انتہا ہوئی تھی۔ شروع میں کچھ عرصہ نرمی ہوئی لیکن بعد میں تو بڑی سختیاں ہوتی رہیں لیکن بہرحال یہ راوی کا بیان ہے۔ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کا تو کوئی نہ کوئی سپورٹ کرنے والا تھا۔ کوئی بات کہہ دیتا تھا، آواز اٹھا دیتا تھا لیکن باقیوں کو مشرکوں نے پکڑ لیا جو کمزور تھے یا غلام تھے اور لوہے کی زرہیں پہنائیں اور انہیں دھوپ میں جلاتے تھے۔ پس ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس نے ان کے ساتھ جس میں وہ چاہتے تھے موافقت نہ کر لی ہو سوائے بلال کے کیونکہ ان پر اپنا نفس اللہ کی خاطر بے حیثیت ہو گیا تھا۔ حضرت بلالؓ تھے جو ہمیشہ ثابت قدم رہے اور وہ اپنی قوم کے لیے بھی بے حیثیت تھے۔ وہ ان کو پکڑتے اور لڑکوں کے سپرد کر دیتے اور وہ انہیں مکہ کی گھاٹیوں میں گھماتے پھرتے اور بلالؓ احدٌ احدٌکہتے جاتے۔ یہ ابن ماجہ کی روایت ہے۔ (سنن ابن ماجہ فضائل بلال حدیث 150 ترجمہ از نور فاؤنڈیشن)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ حضرت بلالؓ کے اول زمانے میں ایمان لانے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت خَبَّابؓ جو اَلسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ صحابہؓ میں سے تھے اور جن کے متعلق یہ اختلاف ہے کہ انہوں نے پہلے بیعت کی یا بلالؓ نے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ ایک غلام اور ایک حُرّ نے مجھے سب سے پہلے قبول کیا تھا۔ بعض لوگ اس سے حضرت بلالؓ اور حضرت ابوبکرؓ مراد لیتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت خَبَّابؓ ہیں۔‘‘ (مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 598)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ’سیرت خاتم النبیینؐ‘ میں حضرت بلالؓ کی تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے جو بیان فرمایا ہے وہ اس طرح ہے کہ

’’بلال بن رباح، امیہ بن خلف کے ایک حبشی غلام تھے۔ امیہ ان کو دوپہر کے وقت جبکہ اوپر سے آگ برستی تھی اور مکہ کا پتھریلا میدان بھٹی کی طرح تپتا تھا باہر لے جاتا اور ننگا کر کے زمین پر لٹا دیتا اور بڑے بڑے گرم پتھر ان کے سینے پر رکھ کر کہتا لات اور عزیٰ کی پرستش کر اور محمد سے علیحدہ ہو جا، ورنہ اسی طرح عذاب دے کر مار دوں گا۔ بلالؓ زیادہ عربی نہ جانتے تھے۔ بس صرف اتنا کہتے اَحد اَحد یعنی اللہ ایک ہی ہے۔ اللہ ایک ہی ہے۔ اور یہ جواب سن کر امیہ اَور تیز ہو جاتا اور ان کے گلے میں رسہ ڈال کر انہیں شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور وہ ان کو مکہ کے پتھریلے گلی کوچوں میں گھسیٹتے پھرتے جس سے ان کا بدن خون سے تر بتر ہو جاتا مگر ان کی زبان پر سوائے اَحد اَحد کے اور کوئی لفظ نہ آتا۔ حضرت ابو بکرؓ نے ان پر یہ جوروستم دیکھا تو ایک بڑی قیمت پر خرید کر انہیں آزاد کر دیا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ140)

حضرت بلالؓ جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپؓ نے حضرت سعد بن خَیْثَمَہؓ کے گھر قیام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کی مؤاخات حضرت عُبَیدہ بن حارثؓ سے کروائی جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق آپؐ نے حضرت بلال کی مؤاخات حضرت اَبُورُوَیْحَہ خَثْعَمِی سے کروائی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 176 ’’بلال بن رباح‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو صحابہ وہاں بیمار ہونے لگے جن میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت بلالؓ اور حضرت عامر بن فُہَیْرَہ بھی شامل تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت بلالؓ کو بخار ہو گیا۔ حضرت ابوبکرؓ کو جب بخار ہوتا تو یہ شعر پڑھتے۔ عربی شعر تھا اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہر شخص جب وہ اپنے گھر میں صبح کواٹھتا ہے تو اسے صباح الخیر کہا جاتا ہے بحالیکہ موت اس کی جوتی کے تسمے سے نزدیک تر ہوتی ہے اور حضرت بلالؓ جب ان کا بخار اتر جاتا تو بلند آواز سے رو کر یہ شعر پڑھتے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ کاش مجھے معلوم ہو آیا مَیں کوئی رات وادیٔ مکہ میں بسر کروں گا اور میرے ارد گرد اِذْخَر اور جَلِیْل گھاس پات ہوں اور کیا مَیں کسی دن مَجَنَّہ میں پہنچ کر اس کا پانی پیوں گا۔ مَجَنَّہ بھی مکے سے چند میل پر مَرُّ الظَّھْرَان کے قریب ایک جگہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کا ایک مشہور میلہ مَرُّ الظَّھْرَان میں عُکَاظْ کے بعد لگتا تھا اور عرب کے لوگ عُکَاْظ کے بعد مَجَنَّہ منتقل ہو جاتے اور بیس روز قیام کرتے تھے۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ وہاں میں پانی پیوں گا اور کیا شَامَہ اور طَفِیْل پہاڑ میرے سامنے ہوں گے۔ شعر میں عرض کر رہے ہیں، بیان کر رہے ہیں۔ طَفِیْل بھی مکہ سے تقریباً دس میل پر ایک پہاڑ ہے اور اس کے قریب ایک اَور پہاڑ تھا جس کو شَامَہ کہتے تھے۔ پھر حضرت بلالؓ کہتے کہ اے اللہ! شَیْبَہ بن رَبِیْعَہ، عُتْبَہ بن ربیعہ اور اُمَیّہ بن خَلَفپر لعنت ہو کیونکہ انہوں نے ہماری سرزمین سے ہمیں وبا والی زمین کی طرف نکال دیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! مدینہ کو ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے۔ جب حضرت ابوبکرؓ کی بھی اور حضرت بلالؓ کی بھی یہ باتیں سنیں تو آپؐ نے فرمایا اے اللہ! مدینہ کو ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے جیسا کہ ہمیں مکّہ پیارا ہے یا اس سے بڑھ کر۔ اے اللہ! ہمارے صاع میں اور ہمارے مُدّ میں برکت دے۔ یہ صَاعَ اور مُدّبھی مشہور پیمانوں کے نام ہیں۔ وزن کرنے کے لیے (استعمال) کیے جاتے ہیں اور مدینہ کو ہمارے لیے صحت بخش مقام بنا اور اس کے بخار کو جُحْفہکی طرف منتقل کر دے۔ جُحْفہ بھی ایک دوسرا شہر ہے مکےکی جانب۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں کہ ہم مدینہ آئے اور وہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وَبَا زَدہ مقام تھا۔ انہوں نے کہا بُطْحَاننالے میں تھوڑا سا پانی بہتا تھا وہ پانی بھی بدمزہ بودار تھا۔ بُطْحَان بھی مدینےکی ایک وادی کا نام ہے۔ یہ بخاری میں روایت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل المدینۃ باب کراھیۃ النبیﷺ ان تعری المدینۃ حدیث: 1889) (ماخوذ از فرہنگ سیرت صفحہ58، 180، 259 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز) (شمائل النبیﷺ صفحہ 76 حاشیہ) (شرح زرقانی علی مواہب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 172 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

جب قادیان سے ہجرت ہوئی ہے تو اس وقت احمدیوں کو خاص طور پر ہجرتِ مدینہ کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے کہ ہمیں اس ہجرت سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلالؓ کے اس واقعےکا حوالہ دیتے ہوئے اور اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا ذکر کرتے ہوئے اس وقت جماعت کو یہ کہتے ہوئے فرمایا تھا کہ مَیں اَوروں کو تو نہیں جانتا، اَوروں کو تو نہیں کہہ سکتا جو دوسرے لوگ غیر احمدی مسلمان ہجرت کر کے آئے ہیں لیکن احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ یہ خیال چھوڑ دو کہ تم لُٹے ہوئے ہو۔ تم نے ہجرت کی ہے اور لُٹ پُٹ کے آئے ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان مہاجرین پر افسوس کیا کرتے تھے جو وطن اور جائیدادوں کے چھوٹ جانے پر افسوس کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے تشریف لائے اس وقت مدینہ کا نام یثرب ہوا کرتا تھا اور وہاں ملیریا بخار بھی کثرت سے ہوتا تھا۔ ملیریا پھیلنا شروع ہوا تو مہاجرین کو بخار چڑھے۔ ادھر وطن کی جدائی کا صدمہ تھا۔ ان میں سے بعض نے رونا اور چِلَّانا شروع کر دیا کہ ہائے مکہ! ہائے مکہ! ایک دن حضرت بلالؓ کو بھی بخار ہو گیا انہوں نے شعر بنا بنا کر شور مچانا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آپؐ خفا ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم ایسے کام کے لیے یہاں آئے ہو؟ ہجرت کی ہے تو شور مچانا کیسا؟ حضرت مصلح موعودؓ احمدیوں کو جو اس وقت ہجرت کر کے ہندوستان سے پاکستان آئے تھے، نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں بھی تمہیں یہ کہتا ہوں کہ خوش رہو۔ تم یہ نہ دیکھو کہ ہم نے کیا کھویا ہے۔ تم دیکھو کہ ہم نے کس کے لیے کھویا ہے۔ اگر تم نے جو کھویا وہ خدا تعالیٰ کے لیے اور اسلام کی ترقی کے لیے کھویا ہے تو تم خوش رہو اور کسی موقع پر بھی اپنی کمریں خم نہ ہونے دو۔ تمہارے چہرے افسردہ نہ ہوں بلکہ ان پر خوشی کے آثار پائے جائیں۔ (ماخوذ از قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 379)

تو ہم احمدی تو اس سوچ کے رکھنے والے تھے اور یہ ہمیں اس وقت کے خلیفہ نے نصیحت کی تھی کہ ہماری ہجرت اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اسلام کی خدمت کے لیے ہے۔ وہ لوگ جو پاکستان کی تعمیر کے خلاف تھے، پاکستان کی اساس اور بنیاد کے دعویدار بن کر اپنے جھوٹ اور فریب سے آج احمدیوں کو اس ملک کے بنیادی شہری حقوق سے محروم کر رہے ہیں جس کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں احمدیوں نے دیں۔ جس دین کی برتری اور خدمت کے لیے ہم نے ہجرت کی پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر اس دین کا نام لینے پر بھی ہم پر پابندی لگا دی۔ ہمیں بہرحال ان کی کسی سند کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہمیں افسوس اس بات پر ضرور ہوتا ہے کہ ان نام نہاد ملک کے ٹھیکیداروں نے احمدیوں پر یہ ظلم کر کے صرف احمدیوں پر ظلم نہیں کیا بلکہ پاکستان پر ظلم کیا ہے اور کر رہے ہیں اور دنیا میں ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کی ترقی میں روک بن رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ نہ ہوں جو ملک کو کھا رہے ہیں، دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں تو ملک اس وقت ترقی کر کے کہیں کا کہیں پہنچ چکا ہو لیکن اس کے باوجود ہم پاکستانی احمدیوں کا یہ کام ہے، خاص طور پر جو پاکستان میں رہنے والے ہیں، کہ ملک کی ترقی کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کوشش کرتے رہیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے اس ملک کو پاک کرے۔ بہرحال یہ واقعہ آیا تو اس ضمن میں ذکر ہو گیا۔ اب مَیں دوبارہ حضرت بلالؓ کی طرف کے واقعات، روایات بیان کرتا ہوں۔ طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے حضرت بلالؓ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 180 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

غزوۂ بدر میں حضرت بلالؓ نے امیہ بن خلف کو قتل کیا جو اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا اور حضرت بلالؓ کو اسلام لانے پر دکھ دیا کرتا تھا۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلد دوم ’’بلال بن رباح‘‘ صفحہ 156، دار الاشاعت اردو بازار کراچی 2004ء)

امیہ بن خَلَف کے قتل کا واقعہ صحیح بخاری میں بیان ہوا ہے جس کی تفصیل خُبَیْب بن اساف کے ذکر میں مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ تاہم یہاں بھی کچھ بیان کر دیتا ہوں کیونکہ اس کا براہِ راست تعلق حضرت بلالؓ کے ساتھ بھی ہے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے امیہ بن خَلَف کو خط لکھا کہ وہ مکّے میں، جو اس وقت دارالحرب تھا، میرے مال اور بال بچوں کی حفاظت کرے اور مَیں اس کے مال و اسباب کی مدینے میں حفاظت کروں گا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا اس سے پرانا تعلق تھا۔ امیہ بن خَلَف بدر کی جنگ میں بھی شامل ہوا۔ کافروں کی فوج میں کافروں کے ساتھ آیا تھا اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو اس کے بدر میں شامل ہونے کا علم ہو گیا تھا۔ اس پرانے تعلق کی وجہ سے وہ اس پر احسان کر کے جنگ کے بعد رات کو اس کو بچانا بھی چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ بدر کی جنگ میں تھا تو جب لوگ سو چکے تھے مَیں ایک پہاڑ کی طرف نکل گیا تا میں اس کی حفاظت کروں کیونکہ پتہ تھا کہ اس طرف کہیں گیا ہوا ہے تو میں بھی گیا تا کہ اس کو حفاظت کر کے بچا لوں۔ حضرت بلالؓ نے اس وقت اسے کہیں دیکھ لیا۔ چنانچہ حضرت بلالؓ گئے اور انصار کی ایک مجلس میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ امیہ بن خَلَف ہے اگر بچ نکلا تو میری خیر نہیں۔ اس پر بلالؓ کے ساتھ کچھ لوگ ہمارے تعاقب میں نکلے۔ میں ڈرا کہ وہ ہمیں پا لیں گے، پکڑ لیں گے۔ اس لیے میں نے اس کے بیٹے کو اس کی خاطر پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ اس کے ساتھ لڑائی میں مشغول ہو جائیں اور ہم ذرا آگے نکل جائیں۔ کہتے ہیں چنانچہ انہوں نے اس بیٹے کو تو لڑائی میں مار دیا۔ میرا یہ داؤ جو تھا وہ کارگر نہیں ہوا اور اس کو مار کے پھر انہوں نے ہمارا پیچھا شروع کر دیا اور امیہ چونکہ بھاری بھرکم آدمی تھا اس لیے جلدی اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا تھا۔ آخر جب انہوں نے ہمیں پکڑ لیا، قریب پہنچ گئے تو میں نے اسے کہا کہ بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا اور میں نے اپنے آپ کو اس پر ڈال دیا کہ اسے بچاؤں تو انہوں نے جو پیچھا کر رہے تھے میرے نیچے سے اس کے بدن میں تلواریں گھونپیں یہاں تک کہ اسے مار ڈالا۔ ان میں سے ایک نے اپنی تلوار سے میرے پاؤں پر زخم بھی کر دیا۔ (صحیح البخاری کتاب الوکالۃ باب اذا وکل المسلم … الخ حدیث: 2301)

ایک دوسری روایت میں یہ واقعہ یوں درج ہے۔ اس کا کچھ حصہ بیان کر دیتا ہوں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ میں ان دونوں یعنی امیہ بن خَلَف اور اس کے بیٹے کو لے کر چل رہا تھا کہ اچانک حضرت بلالؓ نے امیہ کو میرے ساتھ دیکھ لیا۔ مکّے میں امیہ حضرت بلالؓ کو اسلام سے پھیرنے کے لیے بڑا عذاب دیا کرتا تھا۔ حضرت بلالؓ امیہ کو دیکھتے ہی بولے۔ کافروں کا سردار امیہ بن خلف یہاں ہے۔ اگر یہ بچ گیا تو سمجھو میں نہیں بچا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر مَیں نے کہا تم میرے قیدیوں کے بارے میں ایسا کہہ رہے ہو؟ حضرت بلالؓ نے بار بار یہی کہا اور میں بھی ہر بار یہی کہتا رہا کہ یہ میرے قیدی ہیں۔ حضرت بلالؓ بلند آواز سے چِلّائے۔ انہوں نے شور مچا کے آواز دی کہ اے اللہ کے انصار! یہ کافروں کا سردار امیہ بن خلف ہے۔ اگر یہ بچ گیا تو سمجھو مَیں نہیں بچا اور بار بار ایسا کہا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر انصاری دوڑ پڑے اور انہوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ پھر حضرت بلالؓ نے تلوار سونت کر امیہ کے بیٹے پر حملہ کیا جس کے نتیجہ میں وہ نیچے گر گیا۔ امیہ نے اس پر خوف کی وجہ سے ایسی بھیانک چیخ ماری کہ ایسی چیخ میں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ اس کے بعد انصاریوں نے ان دونوں کو تلواروں کے وار سے کاٹ ڈالا۔ (السیرۃ الحلبیہ الجزء الثانی صفحہ232-233 باب ذکر مغازیہﷺ / غزوۃ بدر الکبریٰ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ایک روایت میں یہ آتا ہے کہ حضرت بلالؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیکرٹری یا خزانچی بھی تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 415 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2016ء)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کیا آپؓ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں شریک ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا اگر میرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق نہ ہوتا تو میں شریک نہ ہوتا۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں یہ موقع ملا۔ رشتہ داری تھی اس لیے سفر میں شریک ہوئے تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس نشان کے قریب آئے جو کہ حضرت کثیر بن صَلْت کے گھر کے قریب تھا اور صحابہ کو خطاب فرمایا۔ پھر آپؐ عورتوں کے پاس آئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی۔ اور انہیں صدقہ دینے کے لیے فرمایا تو عورتیں اپنے ہاتھوں کو جھکا جھکا کر اپنی انگوٹھیاں اتارتیں اور حضرت بلالؓ کے کپڑے میں ڈالتی جاتی تھیں۔ حضرت بلالؓ ساتھ تھے۔ جوچادر تھی اس میں وہ ڈالتی جاتی تھیں۔ یہ روایت حضرت ابن عباسؓ نے بیان کی ہے۔ اس کے بعد آپؐ اور حضرت بلالؓ گھر آئے۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب وضو ء الصبیان و متی یجب علیھم الغسل … الخ حدیث: 863)

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ مجھے اللہ کی خاطر اتنی اذیت دی گئی جتنی کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ مجھے اللہ کی خاطر اتنا ڈرایا گیا ہے جتنا کسی کو نہیں ڈرایا جا سکتا۔ اور مجھ پر تیسری رات آ جاتی کہ میرے اور بلالؓ کے پاس کوئی ایسا کھانا نہ ہوتا جسے کوئی جاندار کھا سکے مگر اتنا جسے بلال کی بغل چھپا سکتی۔ بہت تھوڑا معمولی کھانا ہوتا تھا۔ (سنن ابن ماجہ ابواب المناقب باب فضائل بلالؓ حدیث 151 ترجمہ از نور فاؤنڈیشن ربوہ)

حضرت بلالؓ کو سب سے پہلا مؤذن ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ حضرت بلالؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں ان کے لیے سفر و حضر میں مؤذن رہے اور آپ اسلام میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اذان دی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 416 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2016ء)

محمد بن عبداللہ بن زَید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بلانے کے لیے بِگل کا سوچا۔ پھر ناقوس کا ارشاد فرمایا۔ پس وہ بنایا گیا۔ یہ بخاری کی حدیث ہے اور اس کے مطابق بُوق اور ناقوس کے استعمال کا مشورہ صحابہ نے دیا تھا۔ پھر حضرت عبداللہ بن زیدؓ کو خواب دکھائی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے خواب میں ایک آدمی دیکھا جس پر دو سبز کپڑے تھے اور وہ آدمی ناقوس اٹھائے ہوئے تھا۔ میں نے اس کو خواب میں ہی کہا اے اللہ کے بندے! تم یہ ناقوس فروخت کرو گے؟ اس نے کہا تم اس سے کیا کرو گے؟ میں نے کہا میں اس کے ذریعے نماز کے لیے بلایا کروں گا۔ اس نے کہا کیا میں تجھے اس سے بہتر نہ بتاؤں۔ میں نے کہا وہ کیا ہے؟ اس نے پھر وہ اذان کے الفاظ سنائے اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اور پوری اذان۔ أَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ أَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ۔ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہ۔ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ۔ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ۔ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ۔ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ نکلے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رؤیا بتائی۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے خواب میں ایک آدمی دیکھا۔ اس پر دو سبز کپڑے تھے۔ وہ ناقوس اٹھائے ہوئے تھا۔ پھر ساری بات آپؐ کے سامنے بیان کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا۔ تمہارے دوست نے رؤیا دیکھی ہے۔ پھر عبداللہ بن زَید کو ارشاد فرمایا تم بلالؓ کے ساتھ مسجد جاؤ اور اسے یہ کلمات بتاتے جاؤ اور وہ ان کو بلند آواز سے پکاریں کیونکہ تمہاری نسبت وہ زیادہ بلند آواز والے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے کہا کہ مَیں بلالؓ کے ساتھ مسجد کی طرف گیا اور میں انہیں یہ کلمات بتاتا جاتا اور وہ بلند آواز کے ساتھ پکارتے جاتے۔ حضرت عمر بن خَطّابؓ نے آواز سنی۔ وہ باہر تشریف لائے اور انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ !خدا کی قَسم! میں نے بھی خواب میں وہی دیکھا جو انہوں نے دیکھا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاذان بَابُ بدء الاذان حدیث 706) (صحیح البخاری کتاب الاذان باب بدء الاذان حدیث 604)

اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ

’’ابھی تک نماز کے لیے اعلان یااذان وغیرہ کا انتظام نہیں تھا۔ صحابہ عموماً وقت کااندازہ کر کے خودنماز کے لیے جمع ہوجاتے تھے لیکن یہ صورت کوئی قابل اطمینان نہیں تھی۔ اب مسجدنبویؐ کے تیار ہوجانے پر یہ سوال زیادہ محسوس طور پر پیدا ہوا کہ کس طرح مسلمانوں کو وقت پر جمع کیا جاوے۔ کسی صحابی نے نصاریٰ کی طرح ناقوس کی رائے دی۔ کسی نے یہود کی مثال میں بوق کی تجویز پیش کی۔ کسی نے کچھ کہا مگر حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ کسی آدمی کومقرر کر دیا جاوے کہ وہ نماز کے وقت یہ اعلان کر دیا کرے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رائے کوپسند فرمایااور حضرت بلالؓ کوحکم دیا کہ وہ اس فرض کو ادا کیا کریں۔ چنانچہ اس کے بعد جب نماز کا وقت آتا تھا بلالؓ بلندآواز سے اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ کہہ کر پکارا کرتے تھے اور لوگ جمع ہوجاتے تھے بلکہ اگر نماز کے علاوہ بھی کسی غرض کے لیے مسلمانوں کو مسجد میں جمع کرنا مقصود ہوتا تھا تویہی نِدا دی جاتی تھی۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد ایک صحابی عبداللہ بن زَید انصاریؓ کو خواب میں موجودہ اذان کے الفاظ سکھائے گئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے اس خواب کاذکر کیا اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں ایک شخص کواذان کے طریق پریہ یہ الفاظ پکارتے سنا ہے۔ آپؐ نے فرمایایہ خواب خدا کی طرف سے ہے اور عبداللہؓ کو حکم دیا کہ بلالؓ کو یہ الفاظ سکھا دیں۔ عجیب اتفاق یہ ہوا کہ جب بلالؓ نے الفاظ میں پہلی دفعہ اذان دی تو حضرت عمرؓ اسے سن کر جلدی جلدی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہؐ ! آج جن الفاظ میں بلالؓ نے اذان دی ہے بعینہٖ یہی الفاظ میں نے بھی خواب میں دیکھے ہیں۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے الفاظ سنے توفرمایا کہ اسی کے مطابق وحی بھی ہوچکی ہے۔ الغرض اس طرح موجودہ اذان کاطریق جاری ہوگیا اور جوطریق اس طرح جاری ہوا وہ ایسا مبارک اور دلکش ہے کہ کوئی دوسرا طریق اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ گویا ہر روز پانچ وقت اسلامی دنیا کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں ہر مسجد سے خدا کی توحید اور محمد رسول اللہؐ کی رسالت کی آواز بلند ہوتی ہے اور اسلامی تعلیمات کاخلاصہ نہایت خوبصورت اور جامع الفاظ میں لوگوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ271۔ 272)

موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت بلالؓ اذان دے کر فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دینا چاہتے تو آپؐ کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے اور کہتے حَیَّ عَلَى الصَّلٰوۃِ۔ حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ۔ اَلصَّلٰوۃُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ یعنی نماز کے لیے آئیے، فلاح و کامیابی کے لیے آئیے۔ نماز، یا رسول اللہ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازکے لیے نکلتے اور حضرت بلالؓ دیکھ لیتے تو اقامت شروع کر دیتے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 176-177 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

یہ واضح نہیں ہے۔ اقامت تو اسی وقت ہو گی جب امام محراب میں آ جائے۔ بہرحال جو بھی ہے۔ روایت کا صحیح ترجمہ نہیں ہے یا یہ بیان صحیح نہیں ہے لیکن اصل طریق وہی ہے جو محراب میں امام آجائے تو پھر اقامت ہو۔

سنن ابن ماجہ میں حضرت بلالؓ سے روایت ہے کہ وہ نماز فجر کی اطلاع دینے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے کہا گیا کہ آپؐ سوئے ہوئے ہیں تو حضرت بلالؓ نے کہا اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ۔ اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ۔ پھر فجر کی اذان میں ان کلمات کا اضافہ کر دیا گیا اور یہی طریق قائم ہو گیا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاذان باب السنۃ فی الاذان حدیث: 716)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بلالؓ ! یہ کتنے عمدہ کلمات ہیں۔ تم انہیں اپنی فجر کی اذان میں شامل کر لو۔ (معجم الکبیر للطبرانی باب بِلَالُ بْنُ رَبَاح جلد 01 صفحہ 355 حدیث 1081، دار احیاء التراث العربی 2002)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مؤذن تھے۔ حضرت بلالؓ، ابومَحْذُوْرَہؓ، عَمْرو بن اُمِّ مَکْتُومؓ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 177 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

خطبہ جمعہ 18؍ ستمبر 2020ء

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خیبر سے واپس لَوٹ رہے تھے تو رات بھر چلتے رہے۔ پھر جب آپؐ کو نیند آئی تو آرام کے لیے پڑاؤ کیا اور بلالؓ سے فرمایا کہ ’’آج رات ہماری نماز کے وقت کی حفاظت تم کرو۔‘‘ پھر حضرت بلالؓ نے یہ فرمایا تھا کہ ’’ہماری نماز کی حفاظت کرو‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ نماز کے وقت کی حفاظت کرو اور فجر کے وقت تم جگا دینا۔ جب آپؐ نے یہ فرمایا تو پھر حضرت بلالؓ نے جتنی ان کے لیے مقدر تھی نماز پڑھی۔ رات نفل پڑھتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ سو گئے۔ جب فجر کا وقت قریب آیا تو بلالؓ نے صبح کی سمت رخ کرتے ہوئے یعنی سورج جہاں سے نکلتا ہے اس طرف رخ کرتے ہوئے اپنی سواری کا سہارا لیا اور بیٹھ گئے تو بلالؓ پر بھی نیند غالب آگئی جبکہ وہ اپنی اونٹنی سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ پس نہ تو بلالؓ بیدار ہوئے اور نہ ہی آپؐ کے اصحاب میں سے کوئی اَور یہاں تک کہ دھوپ ان پر پڑی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سب سے پہلے جاگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکر مند ہوئے اور فرمایا اے بلالؓ ! اے بلالؓ !۔ بلالؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں۔ میری روح کو بھی اسی ذات نے روکے رکھا جس نے آپؐ کو روکے رکھا یعنی نیند کا غلبہ مجھ پر بھی آ گیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ روانہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے اپنی سواریوں کو تھوڑا سا چلایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا۔ پھر وضو فرمایا اور تھوڑی دیر بعد بلالؓ کو ارشاد فرمایا۔ انہوں نے نماز کی اقامت کہی۔ پھر آپؐ نے ان سب کو سورج نکلنے کے بعد صبح کی نماز پڑھائی۔ جب آپؐ نماز پڑھ چکے تو آپؐ نے فرمایا کہ جو نماز بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے اسے پڑھ لے کیونکہ اللہ عزّوجلّ نے فرمایا ہے کہ نماز کو میرے ذکر کے لیے قائم کرو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الصلوٰۃ باب من نام عن الصلوٰۃ او نسیھا حدیث 697)

فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو آپؐ کے ساتھ حضرت بلالؓ بھی تھے۔ حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے روز مکہ میں آئے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن طلحہ کو بلایا۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت بلالؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ اور حضرت عثمان بن طلحہؓ اندر گئے اور پھر دروازہ بند کر دیا اور آپؐ اس میں کچھ دیر ٹھہرے۔ پھر نکلے۔ حضرت ابن عمرؓ کہتے تھے کہ مَیں جلدی سے آگے بڑھا اور حضرت بلالؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپؐ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے۔ میں نے کہا کس جگہ؟ کہا ان ستونوں کے درمیان۔ حضرت ابن عمرؓ کہتے تھے مجھ سے رہ گیا کہ مَیں ان سے پوچھوں کہ آپؐ نے کتنی رکعتیں نماز پڑھی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب الابواب والغلق للکعبۃ والمساجد حدیث 468)

حضرت بلالؓ لوگوں کو بعد میں بتایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کے اندر کس جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھی تھی۔ حضرت ابنِ اَبِی مُلَیْکَہسے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو کعبےکی چھت پر اذان دینے کا حکم دیا۔ اس پر حضرت بلالؓ نے کعبےکی چھت پر اذان دی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 177 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فتح مکہ کے موقع پر حضرت بلالؓ کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابوسفیان کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کو دیکھا اور فرمایا: تیرا برا حال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ خدا ایک ہے؟ ابوسفیان نے کہا یقین کیوں نہیں آیا اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو ہماری مددنہ کرتا!۔ آپؐ نے فرمایا: تیرا برا حال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ محمد اللہ کا رسول ہے؟ کہنے لگا ابھی اس کے متعلق یقین نہیں ہوا۔ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کو کہا کمبخت! بیعت کر لو۔ اس وقت تیری اور تیری قوم کی جان بچتی ہے۔ کہنے لگا اچھا۔ کر لیتا ہوں۔ وہاں تو اس نے یونہی بیعت کر لی۔ ان کے کہنے پر بیعت کر لی۔ کوئی دل سے بیعت نہیں تھی لیکن بعد میں جا کر سچا مسلمان ہو گیا۔ خیر بیعت کر لی تو عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے۔ اب مانگ اپنی قوم کے لیے ورنہ تیری قوم ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جائے گی۔ مہاجرین کا دل اس وقت ڈر رہا تھا۔ وہ تو مکہ کے رہنے والے تھے اور سمجھتے تھے کہ ایک دفعہ مکہ کی عزت ختم ہوئی تو پھر مکہ کی عزت باقی نہیں رہے گی۔ وہ باوجود اس کے کہ انہوں نے بڑے بڑے مظالم برداشت کیے تھے۔ پھر بھی وہ دعائیں کرتے تھے کہ کسی طرح صلح ہو جائے۔ لیکن انصار ان کے مقابلے میں بڑے جوش میں تھے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ مانگو۔ کہنے لگا یا رسول اللہ!کیا آپ اپنی قوم پر رحم نہیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو بڑے رحیم و کریم ہیں اور پھر مَیں آپ کا رشتہ دار ہوں۔ بھائی ہوں۔ میرا بھی کوئی اعزاز ہونا چاہیے۔ میں مسلمان ہوا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا اچھا جاؤ اور مکہ میں اعلان کر دو کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں گھسے گا اسے پناہ دی جائے گی۔ کہنے لگا یا رسول اللہؐ ! میرا گھر ہے کتنا اور اس میں کتنے آدمی آ سکتے ہیں؟ اتنا بڑا شہر ہے، اس کا میرے گھر میں کہاں ٹھکانہ ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جو شخص خانہ کعبہ میں چلا جائے گا اسے امان دی جائے گی۔ ابوسفیان نے کہا یا رسول اللہ! پھر بھی لوگ بچ رہیں گے۔ آپؐ نے فرمایا اچھا جو ہتھیار پھینک دے گا اسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ! پھر بھی لوگ رہ جائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا اچھا جو اپنے گھر کے دروازے بند کر لے گا اسے بھی پناہ دی جائے گی۔ اس نے کہا یا رسول اللہ! گلیوں والے جو ہیں وہ تو بیچارے مارے جائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا بہت اچھا لاؤ۔ ایک جھنڈا بلالؓ کا تیار کرو۔ اَبِی رُوَیْحَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک صحابی تھے۔ آپؐ نے جب مدینہ میں مہاجرین اور انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنایا تھا تو اَبِی رُوَیْحَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلال کا بھائی بنایا تھا۔ شاید اس وقت بلالؓ تھے نہیں یا کوئی اَور مصلحت تھی۔ بہرحال آپؐ نے بلالؓ کا جھنڈا بنایا اور اَبِی رُوَیْحَہ کو دیا اور فرمایا کہ یہ بلالؓ کا جھنڈا ہے۔ یہ اسے لے کر چوک میں کھڑا ہو جا ئے اور اعلان کر دے کہ جو شخص بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا اس کو نجات دی جائے گی۔ ابوسفیان کہنے لگا بس اب کافی ہو گیا اب مکہ بچ جائے گا۔ کہنے لگا اب مجھے اجازت دیجئے کہ میں جاؤں۔ آپؐ نے فرمایا جا۔ اب سردار خود ہی ہتھیار پھینک چکا تھا، خبر پہنچنے یا نہ پہنچنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ ابو سفیان گھبرایا ہوا مکہ میں داخل ہوا اور یہ کہتا جاتا تھا کہ لوگو! اپنے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لو۔ لوگو! اپنے ہتھیار پھینک دو۔ لوگو !خانہ کعبہ میں چلے جاؤ۔ بلالؓ کا جھنڈا کھڑا ہوا ہے اس کے نیچے کھڑے ہو جانا۔ اتنے میں لوگوں نے دروازے بند کرنے شروع کر دیے۔ بعض نے خانہ کعبہ میں گھسنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے ہتھیار باہر لا لا کر پھینکنے شروع کیے۔ اتنے میں اسلامی لشکر شہر میں داخل ہوا اور لوگ بلال کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ میں جو سب سے زیادہ عظیم الشان بات ہے وہ بلالؓ کا جھنڈا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلالؓ کا جھنڈا بناتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جو شخص بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو جائے گا اس کو پناہ دی جائے گی حالانکہ سردار تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ آپؐ کے بعد قربانی کرنے والے ابوبکرؓ تھے مگر ابوبکر کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے بعد مسلمان ہونے والے رئیس عمرؓ تھے مگر عمر کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے بعد عثمانؓ مقبول تھے اور آپؐ کے داماد تھے مگر عثمانؓ کا بھی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ ان کے بعد علیؓ تھے جو آپؐ کے بھائی بھی تھے اور آپؐ کے داماد بھی تھے مگر علی کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا۔ پھر عبدالرحمٰن بن عوفؓ وہ شخص تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آپؓ وہ شخص ہیں کہ جب تک آپؓ زندہ ہیں مسلمان قوم میں اختلاف نہیں ہو گا لیکن عبدالرحمٰنؓ کا کوئی جھنڈا نہیں بنایا جاتا۔ پھر عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپؐ کے چچا تھے اور بعض دفعہ وہ گستاخی بھی کر لیتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بول لیا کرتے تھے تو آپؐ خفا نہ ہوتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھی کوئی جھنڈا نہیں بنایا۔ پھر سارے رؤساءاور چوٹی کے آدمی موجود تھے۔ خالد بن ولیدؓ جو ایک سردار کا بیٹا، خود بڑا نامور انسان تھا، موجود تھا۔ عمرو بن عاصؓ ایک سردار کا بیٹا تھا۔ اسی طرح اَور بڑے بڑے سرداروں کے بیٹے تھے مگر ان میں سے کسی ایک کاجھنڈا نہیں بنایا جاتا۔ جھنڈا بنایا جاتا ہے تو بلالؓ کا بنایا جاتا ہے۔ کیوں؟ اس کی کیا وجہ تھی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ پر جب حملہ ہونے لگا تھا تو ابوبکرؓ دیکھ رہا تھا کہ جن کو مارا جانے والا ہے وہ اس کے بھائی بند ہیں اور اس نے خود بھی کہہ دیا تھا کہ یا رسول اللہؐ ! کیا وہ اپنے بھائیوں کو ماریں گے؟ وہ ظلموں کو بھول چکا تھا اور جانتا تھا کہ یہ میرے بھائی ہیں۔ عمر بھی کہتے تو یہی تھے کہ یا رسول اللہؐ ! ان کافروں کو ماریے مگر پھر بھی جب آپؐ ان کو معاف کرنے پر آئے تو وہ اپنے دل میں یہی کہتے ہوں گے کہ اچھا ہوا ہمارے بھائی بخشے گئے۔ عثمانؓ اور علیؓ بھی کہتے ہوں گے کہ ہمارے بھائی بخشے گئے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ سختیاں کر لیں تو کیا ہوا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو معاف کرتے وقت یہی سمجھتے ہوں گے کہ ان میں میرے چچا بھی تھے، بھائی بھی تھے۔ ان میں میرے داماد، عزیز اور رشتہ دار بھی تھے۔ اگر میں نے ان کو معاف کر دیا تو اچھا ہی ہوا۔ میرے اپنے رشتے دار بچ گئے۔ صرف ایک شخص تھا جس کی مکہ میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی۔ جس کی مکہ میں کوئی طاقت نہیں تھی۔ جس کا مکہ میں کوئی ساتھی نہیں تھا اور اس کی بے کسی کی حالت میں اس پر وہ ظلم کیا جاتا جو نہ ابوبکرؓ پہ ہوا، نہ علیؓ پر ہوا، نہ عثمانؓ پر ہوا، نہ عمرؓ پر ہوا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی نہیں ہوا۔

حضرت ابوبکرؓ پہ بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ظلم ہوئے لیکن یہ رشتہ داریوں کی وجہ سے بچے رہے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ظلم ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ پر بھی ظلم ہوئے۔ اور صرف بلالؓ پر ایسے ظلم ہوئے تھے جو کسی پر نہیں ہوئے۔ یہاں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے یہ انکار نہیں کیا کہ آپ لوگوں پہ ظلم نہیں ہوئے بلکہ فرمایا کہ وہ ظلم جو بلالؓ پہ ہوا وہ کسی اَور پر نہیں ہوا۔

پھر آپؓ نے اس کی تفصیل بیان کی وہ کیا ظلم تھا۔ وہ ظلم یہ تھا کہ جلتی اور تپتی ہوئی ریت پر بلالؓ کو ننگا لٹا دیا جاتا تھا۔ تم دیکھو ننگے پاؤں میں مئی اور جون میں نہیں چل سکتے۔ اس کو ننگا کر کے تپتی ریت پر لٹا دیا جاتا تھا۔ پھر کیلوں والے جوتے پہن کر نوجوان اس کے سینے پر ناچتے تھے اور کہتے تھے کہ کہو خدا کے سوا اَور معبود ہیں۔ کہو محمد رسول اللہ جھوٹا ہے اور بلالؓ آگے سے اپنی حبشی زبان میں جب وہ بہت مارتے تھے کہتے تھے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ کہ وہ شخص آگے سے یہی جواب دیتا تھا کہ تم مجھ پر کتنا بھی ظلم کرو میں نے جب دیکھ لیا ہے کہ خدا ایک ہے تو دو کس طرح کہہ دوں اور جب مجھے پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے رسول ہیں تو میں انہیں جھوٹا کس طرح کہہ دوں؟ اس پر وہ اَور مارنا شروع کر دیتے تھے۔ گرمیوں کے مہینوں کے موسم میں، ان مہینوں میں جب گرمیاں ہوتی ہیں اس موسم میں اس کے ساتھ یہی حال ہوتا تھا۔ اسی طرح سردیوں میں وہ یہ کرتے تھے کہ ان کے پیروں میں رسّی ڈال کر انہیں مکہ کی پتھروں والی گلیوں میں گھسیٹتے تھے۔ ان کا چمڑازخمی ہو جاتا تھا یعنی کھال زخمی ہو جاتی تھی۔ وہ گھسیٹتے تھے اور کہتے تھے کہو جھوٹا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ کہو خدا کے سوا اَور معبود ہیں تو وہ کہتے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ۔

اب جبکہ اسلامی لشکر دس ہزار کی تعداد میں داخل ہونے کے لیے آیا تو بلالؓ کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ آج ان بوٹوں کا بدلہ لیا جائے گا جو میرے سینے پر ناچتے تھے۔ آج ان ماروں کا معاوضہ بھی مجھے ملے گا جس طرح مجھے ظالمانہ طور پر مارا گیا تھا لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گیا وہ معاف۔ جو خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا وہ معاف۔ جس نے اپنے ہتھیار پھینک دیے وہ معاف۔ جس نے اپنے گھر کے دروازے بند کر لیے وہ معاف تو بلال کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ یہ تو اپنے سارے بھائیوں کو معاف کر رہے ہیں اور اچھا کر رہے ہیں لیکن میرا بدلہ تو رہ گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آج صرف ایک شخص ہے جس کو میرے معاف کرنے سے تکلیف پہنچ سکتی ہے اور وہ بلالؓ ہے کہ جن کو میں معاف کر رہاہوں وہ اس کے بھائی نہیں۔ جو اس کو دکھ دیا گیا ہے وہ اَور کسی کو نہیں دیا گیا۔ آپؐ نے فرمایا میں اس کا بدلہ لوں گا اور اس طرح لوں گا کہ میری نبوت کی بھی شان باقی رہے اور بلالؓ کا دل بھی خوش ہو جائے۔ آپؐ نے فرمایا بلالؓ کا جھنڈا کھڑا کرو اور ان مکہ کے سرداروں کو جو جوتیاں لے کر اس کے سینے پر ناچا کرتے تھے، جو اس کے پاؤں میں رسّی ڈال کر گھسیٹا کر تے تھے، جو اسے تپتی ریتوں پر لٹایا کرتے تھے کہہ دو کہ اگر اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان بچانی ہے تو بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آ جاؤ۔ میں سمجھتا ہوں جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے، جب سے انسان کو طاقت حاصل ہوئی ہے اور جب سے کوئی انسان دوسرے انسان سے اپنے خون کا بدلہ لینے پر تیار ہوا ہے اور اس کو طاقت ملی ہے اس قسم کا عظیم الشان بدلہ کسی انسان نے نہیں لیا۔ جب بلالؓ کا جھنڈا خانہ کعبہ کے سامنے میدان میں گاڑا گیا ہو گا۔ جب عرب کے رؤساء، وہ رؤساء جو اس کو پیروں سے مسلا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ بولتا ہے کہ نہیں کہ محمد رسول اللہ جھوٹا ہے۔ اور اب جب نظارہ بدلا، جب حالات بدلے تو اب وہ دوڑ دوڑ کر اپنے بیوی بچوں کے ہاتھ پکڑ پکڑ کر اور لا لا کر بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے لاتے ہوں گے کہ ہماری جان بچ جائے۔ تو اس وقت بلالؓ کا دل اور اس کی جان کس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور ہو رہی ہو گی۔ وہ کہتا ہو گا میں نے تو خبر نہیں ان کفار سے بدلہ لینا تھا یا نہیں یا لے سکتا تھا کہ نہیں اب وہ بدلہ لے لیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کی جوتیاں میرے سینے پر پڑتی تھیں اس کے سر کو میری جوتی پر جھکا دیا گیا ہے۔ یہ وہ بدلہ ہے کہ وہ جوتیاں جو سینے پر ناچا کرتی تھیں آج ان کو پہننے والے سر بلال کی جوتی پر جھکا دیے گئے ہیں۔ یہ وہ بدلہ تھا جو یوسف کے بدلہ سے بھی زیادہ شاندار تھا۔ اس لیے کہ یوسف نے اپنے باپ کی خاطر اپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا۔ جس کی خاطر کیا وہ اس کا باپ تھا اور جن کو کیا وہ اس کے بھائی تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچوں اور بھائیوں کو ایک غلام کی جوتیوں کے طفیل معاف کیا۔ بھلا یوسف کا بدلہ اس کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔ (ماخوذ از سیر روحانی، انوار العلوم جلد 24 صفحہ 268 تا 273)

پہلا جو حوالہ تھا ’سیر روحانی‘ کا تھا۔ اسی واقعہ کو دیباچہ تفسیر القرآن میں بھی اختصار کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور یہ مَیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بعض لوگ لکھ دیتے ہیں کہ فلاں جگہ تو یوں فرمایا تھا۔ دونوں بیانوں میں تفصیل اور اختصار کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے۔ بعض لوگ بڑے نکتے نکال کر فرق بھی بتانے شروع کر دیتے ہیں۔ واقعاتی طور پر بھی اور نتیجے کے طور پر بھی ایک ہی چیز ہے۔

بہرحال یہاں جو بیان ہے وہ اس طرح ہے کہ ’’ابوسفیان نے کہا یا رسول اللہؐ ! اگر مکہ کے لوگ تلوار نہ اٹھائیں تو کیا وہ امن میں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ! ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اسے امن دیا جائے گا۔ حضرت عباسؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! ابوسفیان فخر پسند آدمی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ میری عزت کا بھی کوئی سامان کیا جائے۔‘‘ یہ حضرت عباسؓ کے حوالے سے زائد چیز ہے۔ ’’آپؐ نے فرمایا بہت اچھا، جو شخص ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو مسجد کعبہ میں گھس جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو اپنے ہتھیار پھینک دے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے گا اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو حکیم بن حِزام کے گھر میں چلا جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ اس کے بعد اَبِی رُوَیْحَہؓ جن کو آپؐ نے بلالؓ حبشی غلام کا بھائی بنایا ہوا تھا ان کے متعلق آپؐ نے فرمایا ہم اس وقت اَبِی رُوَیْحَہؓ کو اپنا جھنڈا دیتے ہیں جو شخص ابی رویحہؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا ہم اس کو بھی کچھ نہ کہیں گے اور بلالؓ سے کہا تم ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے جاؤ کہ جو شخص ابی رویحہؓ کے جھنڈے کے نیچے آ جائے گا اس کو امن دیا جائے گا۔‘‘ یہ چیز یہاں زائد ہے کہ بلالؓ ساتھ اعلان کرتے جائیں۔ ’’اس حکم میں کیا ہی لطیف حکمت تھی۔ مکہ کے لوگ بلالؓ کے پیروں میں رسی ڈال کر اس کو گلیوں میں کھینچا کرتے تھے، مکہ کی گلیاں، مکہ کے میدان بلال کے لیے امن کی جگہ نہیں تھے بلکہ عذاب اور تذلیل اور تضحیک کی جگہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ بلالؓ کا دل آج انتقام کی طرف بار بار مائل ہوتا ہو گا۔ اس وفادار ساتھی کا انتقام لینا بھی نہایت ضروری ہے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارا انتقام اسلام کی شان کے مطابق ہو۔ پس آپؐ نے بلالؓ کا انتقام اس طرح نہ لیا کہ تلوار کے ساتھ اس کے دشمنوں کی گردنیں کاٹ دی جائیں بلکہ اس کے بھائی کے ہاتھ میں ایک بڑا جھنڈا دے کر کھڑا کر دیا اور بلالؓ کو اس غرض کے لیے مقرر کر دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ جو کوئی میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے آ کر کھڑا ہو گا اسے امن دیا جائے گا۔ کیسا شاندار یہ انتقام تھا، کیسا حسین یہ انتقام تھا۔ جب بلالؓ بلند آواز سے یہ اعلان کرتا ہو گا کہ اے مکہ والو! آؤ میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو جاؤ تمہیں امن دیا جائے گا تو اس کا دل خود ہی انتقام کے جذبات سے خالی ہوتا جاتا ہو گا اور اس نے محسوس کر لیا ہو گا کہ جو انتقام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے تجویز کیا اس سے زیادہ شاندار اور اس سے زیادہ حسین انتقام میرے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 340۔ 341)

پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلالؓ کے صبر اور فتح مکہ کے وقت ان کی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’یہ تکالیف تھیں جو بلال کو پہنچائی گئیں۔‘‘ مکے میں جو تکالیف ہوتی تھیں ان کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے۔ ’’مگر جانتے ہو جب مکہ فتح ہوا تو وہ بلالؓ حبشی غلام جس کے سینے پر مکہ کے بڑے بڑے افسر ناچا کرتے تھے اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عزت دی؟ اور کس طرح اس کا کفار سے انتقام لیا؟ جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ کے ہاتھ میں ایک جھنڈا دے دیا اور اعلان کر دیا کہ اے مکہ کے سردارو! اگر اب تم اپنی جانیں بچانا چاہتے ہو تو بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آ کر کھڑے ہو جاؤ۔ گویا وہ بلالؓ جس کے سینے پر مکہ کے بڑے بڑے سردار ناچا کرتے تھے اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو بتایا کہ آج تمہاری جانیں اگر بچ سکتی ہیں تو اس کی یہی صورت ہے کہ تم بلالؓ کی غلامی میں آ جاؤ حالانکہ بلالؓ غلام تھا اور وہ چوہدری تھے۔‘‘ (آئندہ وہی قومیں عزت پائیں گی جو مالی و جانی قربانیوں میں حصہ لیں گی۔ انوار العلوم جلد 21 صفحہ 164)

پس ہر جگہ یہی نتیجہ ہے۔ چاہے جھنڈا ان کے بھائی کے سپرد کیا تب بھی بلالؓ کو ساتھ کیا۔ بلالؓ کے نام پر جھنڈا کیا تب بھی اور بلالؓ کے ہاتھ میں دیا تو نتیجہ وہی ہے۔ تھوڑے سے فرق کے ساتھ واقعاتی طور پر ایک ہی بات بیان ہو رہی ہے اور نتیجہ بھی وہی نکالا جا رہا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے نیزے کو لے کر چلا جاتا تھا۔ عید والے دن ایک شخص آگے چلتا تھا اس کے ہاتھ میں نیزہ ہوتا تھا اور جس کو عموماً حضرت بلالؓ اٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔ محمد بن عمر بیان کرتے ہیں کہ حضرت بلالؓ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گاڑ دیتے تھے۔ اس زمانے میں عید گاہ میدان ہوتا تھا۔ کھلا میدان تھا وہی عیدگاہ تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 177 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

ایک روایت ہے کہ نجاشی حبشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین نیزے تحفے میں بھیجے تھے۔ ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھ لیا۔ ایک حضرت علی بن ابوطالب کو دیااور ایک حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا۔ حضرت بلالؓ اس نیزے کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے رکھا تھا عیدین میں آپؐ کے آگے آگے لے کر چلتے تھے یہاں تک کہ اسے آپؐ کے آگے گاڑ دیتے اور آپؐ اسی کی طرف نماز پڑھتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت بلالؓ اسی طرح اس نیزے کو حضرت ابوبکرؓ کے آگے لے کر چلا کرتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 178 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد روایات میں یہی آتا ہے کہ حضرت بلالؓ جہاد میں شامل ہونے کے لیے شام کی طرف چلے گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس طرح بیان ہوا ہے کہ حضرت بلالؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور کہا کہ اے خلیفۂ رسول! مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ مومن کا سب سے افضل عمل اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا بلالؓ تم کیا چاہتے ہو؟ حضرت بلالؓ نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے اللہ کے رستہ میں جہاد کے لیے بھیج دیا جائے یہاں تک کہ میں مارا جاؤں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ بلال میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں اور اپنی حرمت اور حق یاد دلاتا ہوں کہ میں بوڑھا اور ضعیف ہو گیا ہوں۔ میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے اس وجہ سے میرے پاس ٹھہر جاؤ۔ اس پر حضرت بلالؓ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات تک ان کے پاس ہی رہے۔ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد حضرت بلالؓ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور ان سے بھی وہی بات کہی جو حضرت ابوبکرؓ کو کہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے بھی انہیں ویسا ہی جواب دیا جیسا حضرت ابوبکرؓ نے دیا تھا مگر حضرت بلالؓ نہ مانے۔ حضرت بلالؓ جہاد پر جانے پر مصر تھے اور انہوں نے حضرت عمرؓ کے سامنے اسی بات کا اصرار کیا۔ حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے بعد اذان دینے کی ذمے داری کس کے سپرد کروں گا؟ حضرت بلالؓ نے عرض کی کہ حضرت سعدؓ کے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اذان دی ہوئی ہے۔ پس حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ اور ان کے بعد ان کی اولاد کے سپرد اذان کی ذمہ داری لگائی اور حضرت بلالؓ کو ان کے اصرار کی وجہ سے جہاد پر بھیج دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 178 ’’بلال بن رباح‘‘، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2017ء)

یہ ایک روایت ہے اور ایک روایت میں حضرت بلالؓ اور حضرت ابوبکرؓ کے اذان دینے کے حوالے سے جو مکالمہ ہوا اس کا بھی یوں ذکر ملتا ہے کہ موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرت بلالؓ نے اس روز اس وقت اذان دی کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین نہ ہوئی تھی۔ جب انہوں نے أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ کے الفاظ اپنی زبان میں کہے۔ اَسْھَدُ کہتے تھے۔ تو مسجد میں لوگوں کے رونے کی وجہ سے ہچکیاں بندھ گئیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہو گئی تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو اذان دینے کا کہا۔ حضرت بلالؓ نے جواباً کہا اگر تو آپ نے مجھے اس لیے آزاد کیا ہے کہ میں آپ کے ساتھ رہوں تو اس کا راستہ تو یہی ہے جس طرح آپ کہہ رہے ہیں لیکن اگر آپ نے مجھے اللہ کے لیے آزاد کیا ہے تو مجھے اس کے لیے چھوڑ دیجئے جس کے لیے مجھے آزاد کیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں نے تمہیں اللہ کی خاطر آزاد کیا ہے۔ اس پر حضرت بلالؓ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا یہ آپ کی مرضی ہے۔ اس کے بعد حضرت بلالؓ مدینے میں ہی مقیم رہے یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں شام کے لیے لشکر روانہ ہوئے تو حضرت بلالؓ بھی ان لشکروں کے ساتھ شام چلے گئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 178 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

اسد الغابہ کی ایک روایت کے مطابق حضرت بلالؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اگر آپ نے مجھے اپنے لیے آزاد کیا ہے تو مجھے اپنے پاس روک لیں لیکن اگر آپ نے مجھے اللہ کی راہ میں آزاد کیا ہے تو مجھے اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے جانے دیں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا جاؤ۔ اس پر حضرت بلالؓ شام چلے گئے اور وفات تک وہیں رہے جو اکثر روایتیں ہیں وہ یہی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں نہیں گئے تھے بلکہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں گئے تھے اور ایک قول کے مطابق حضرت بلالؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں بھی اذان دیتے رہے ہیں۔ یہ بھی روایت ہے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 416 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

ایک روایت یوں بیان کی گئی ہے کہ ایک دفعہ حضرت بلالؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپؐ فرماتے ہیں اے بلالؓ ! یہ کیسی سنگ دلی ہے۔ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم ہماری زیارت کے لیے آؤ۔ حضرت بلالؓ نہایت رنج کی حالت میں بیدار ہوئے، شام میں ہوتے تھے اور سوار ہو کر مدینے کی طرف چل دیے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک پر حاضر ہو کر زار و قطار رونے لگے اور تڑپنے لگے۔ اتنے میں حضرت حسنؓ اور حسینؓ بھی آ گئے۔ حضرت بلالؓ نے انہیں بوسہ دیا اور انہیں گلے لگایا تو حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نے حضرت بلالؓ سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صبح کی اذان آپؓ دیں تو آپ مسجد کی چھت پر چڑھ گئے۔ جب حضرت بلالؓ نے أَللّٰہُ اَکْبَرُ أَللّٰہُ اَکْبَرُ کے الفاظ کہے تو راوی کہتے ہیں کہ مدینہ لرز اٹھا۔ پھر جب انہوں نے أَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کے الفاظ کہے تو اَور زیادہ جنبش ہوئی۔ لوگوں میں ایک دم بیداری پیدا ہوئی۔ پھر جب انہوں نے أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے الفاظ کہے تو عورتیں اپنے کمروں سے باہر آ گئیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس دن سے زیادہ رونے والے مرد اور رونے والی عورتیں نہیں دیکھی گئی تھیں۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 417 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ اور یہ اذان یاد آ گئی اور لوگ بے چین ہو گئے۔

حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب حضرت بلالؓ نے جہاد کے لیے جانے کی اجازت طلب کی تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ آپ کو کیا چیز اذان دینے سے مانع ہے۔ اس پر حضرت بلالؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اذان دی یہاں تک کہ آپؐ کی وفات ہو گئی۔ پھر میں نے حضرت ابوبکرؓ کے حکم سے اذان دی کیونکہ وہ میری نعمت کے نگران تھے یہاں تک کہ ان کی بھی وفات ہو گئی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے بلالؓ ! کوئی عبادت جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر نہیں ہے، چنانچہ حضرت بلالؓ شام چلے گئے۔ جب حضرت عمرؓ شام تشریف لے گئے تو حضرت عمرؓ کے کہنے پر حضرت بلالؓ نے اذان دی۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے اس دن سے قبل آپ کو اتنا روتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الاول صفحہ 416-417 ’’بلال بن رباح‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت بلالؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخری زمانے کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت بلالؓ آخری عمر میں شام چلے گئے تھے۔ یہاں یہ ذکر بھی ہے کہ ان کو لوگ رشتہ نہیں دیتے تھے لیکن پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ان کی کئی شادیاں تھیں اور رشتے ہوئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض شام جانے کے لیے رشتہ نہیں دیتے یا شام جا کر رشتہ نہیں ملتا ہو گا۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپؓ کی کئی شادیوں کی روایت ملتی ہے تو حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ انہوں نے شام میں ایک جگہ رشتے کے متعلق درخواست کی اور کہا کہ میں حبشی ہوں اگر چاہو تو رشتہ نہ دو اور اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی سمجھ کر مجھے رشتہ دے دو تو بڑی مہربانی ہو گی۔ انہوں نے رشتہ دے دیا اور وہ شام میں ہی ٹھہر گئے۔ بہرحال پہلے بھی ان کی شادیاں تھیں۔ ہو سکتا ہے پہلی بیویاں فوت ہو گئی تھیں یا ساتھ جانے والی کوئی نہیں تھی یا شام میں شادی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن بہرحال یہ تھوڑی وضاحت یہاں ہو جائے کہ شادیاں ان کی پہلے تھیں۔ گو کہ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ لکھا ہے۔ باقی روایتیں بھی یہی کہتی ہیں کہ ان کوکوئی رشتہ نہیں دیتا تھا۔ کس سیاق و سباق کے تحت لکھا اللہ بہتر جانتا ہے۔ بہرحال وہاں انہوں نے رشتہ مانگا۔ وہاں ان کی شادی ہو گئی اور وہ شام میں ٹھہر گئے۔ جو اصل چیز ہے وہ یہی ہے جو آگے رؤیا کا ذکر ہے۔ شادی تو ایک ضمنی بات آ گئی۔

حضرت مصلح موعودؓ نے یہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رؤیا میں ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا بلالؓ ! تم ہم کو بھول ہی گئے۔ کبھی ہماری قبر کی زیارت کرنے کے لیے نہیں آئے۔ وہ اسی وقت اٹھے اور سفر کا سامان تیار کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر رو رو کر دعا کی۔ اس وقت ان کو اتنی رقت پیدا ہوئی کہ لوگوں میں عام طور پر مشہور ہو گیا کہ بلالؓ آئے ہیں۔ حضرت حسنؓ اور حسینؓ جو اس وقت بڑے ہو چکے تھے دوڑے ہوئے آئے اور کہنے لگے آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اذان دیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا ہاں۔ تو کہنے لگے ہمیں بھی اپنی اذان سنائیں۔ چنانچہ انہوں نے اذان دی اور لوگوں نے سنی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 25 صفحہ 182 خطبہ جمعہ فرمودہ10مارچ 1944ء)

حضرت عمرؓ نے جب اپنے دورِ خلافت میں شام میں وظیفے کے لیے دفتر مرتب کروائے یعنی اکاؤنٹ کے رجسٹر وغیرہ بنوائے، کھاتے وغیرہ بنوائے اور سارا ریکارڈ مکمل کروایا تو حضرت بلالؓ شام چلے گئے اور وہیں مجاہدین کے ساتھ مقیم ہو گئے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت بلالؓ سے پوچھا کہ اے بلالؓ ! تم اپنے وظیفے کا دفتر کس کے پاس رکھو گے۔ یعنی اپنے حساب کتاب کی نمائندگی کس کے سپرد کرنا چاہتے ہو۔ کون ہو گا تمہارا نمائندہ یہاں؟ تو انہوں نے جواب دیا ابورُوَیْحَہؓ کے پاس جن کو میں اس اخوت کی وجہ سے کبھی نہ چھوڑوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور ان کے درمیان قائم فرمائی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 176 ’’بلال بن رباح‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

حضرت بلالؓ کی صاف گوئی کا واقعہ ایک روایت میں یوں ملتا ہے۔ عمرو بن میمون اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت بلالؓ کےایک بھائی خود کو عرب کی طرف منسوب کرتے تھے اور وہ خیال کرتے تھے کہ وہ انہی میں سے ہیں۔ انہوں نے عرب کی ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اگر حضرت بلالؓ آئیں تو ہم تم سے نکاح کر دیں گے۔ حضرت بلالؓ آئے اور تشہد پڑھا۔ پھر کہا کہ مَیں بلال بن رباح ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اور یہ اخلاق اور دین کے لحاظ سے اچھا آدمی نہیں ہے اگر تم اس سے نکاح کرنا چاہو تو کر دو اور اگر ترک کرنا چاہو تو ترک کر دو۔ انہوں نے کہا کہ جس کے آپؓ بھائی ہیں اس سے ہم نکاح کر دیں گے۔ پس انہوں نے آپؓ کے بھائی سے نکاح کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 179 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

زید بن اسلم سے مروی ہے کہ بَنُو اَبُو بُکَیْررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے کہ فلاں شخص سے ہماری بہن کا نکاح کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلالؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ لوگ دوسری مرتبہ آئے اور عرض کیا یارسول اللہؐ ! ہماری بہن کا فلاں شخص سے نکاح کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا تم لوگوں کا بلالؓ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ لوگ انکار کر کے چلے گئے۔ پھر تیسری مرتبہ آئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ ! ہماری بہن کا فلاں شخص سے نکاح کردیں۔ آپؐ نے فرمایا تم لوگوں کا بلالؓ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تم لوگوں کا ایسے شخص کے بارےمیں کیا خیال ہے جو اہلِ جنت میں سے ہے؟ راوی کہتے ہیں اس پر ان لوگوں نے حضرت بلالؓ سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 179 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)

حوالہ جو پہلے مَیں نے کہا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ شادیاں نہیں ہوئی تھیں۔ وہ بات شاید کسی اَور سیاق و سباق کے تحت ہو۔ شادیاں پہلے ہوئی تھیں۔ اور یہ بھی ایک حوالہ ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں وہ (یعنی سہیل بن عمرو) اور ابوسفیان اور بعض دوسرے رؤسا ئے مکہ جو فتح کے وقت مسلمان ہوئے تھے حضرت عمرؓ کوملنے کے لیے گئے۔ حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں ابوسفیان اور بعض دوسرے رؤسائے مکہ جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے حضرت عمرؓ کو ملنے کے لیے گئے۔ اتفاق سے اسی وقت بلالؓ اور عمارؓ اور صہیبؓ وغیرہ بھی حضرت عمرؓ سے ملنے کے لیے آگئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو غلام رہ چکے تھے اور بہت غریب تھے مگر ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتدا میں اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت عمرؓ کو اطلاع دی گئی تو انہوں نے بلال وغیرہ کوپہلے ملاقات کے لیے بلایا۔ ابوسفیان نے جس کے اندر غالباً ابھی تک کسی قدر جاہلیت کی رگ باقی تھی یہ نظارہ دیکھا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ چنانچہ کہنے لگا یہ ذلت بھی ہمیں دیکھنی تھی کہ ہم انتظار کریں اور ان غلاموں کوشرفِ ملاقات بخشا جاوے۔ سہیل نے فوراً سامنے سے جواب دیا کہ پھر یہ کس کا قصور ہے؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سب کو خدا کی طرف بلایا لیکن انہوں نے فوراً مان لیا اور ہم نے دیر کی۔ پھر ان کو ہم پر فضیلت حاصل ہویانہ ہو؟‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ369)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ کا ذکر اس طرح کیا ہے اور حضرت بلالؓ کے مقام و مرتبہ کا ذکر فرماتے ہوئے کہ حضرت عمرؓ اپنی خلافت کے زمانے میں ایک دفعہ مکہ میں آئے تو وہی غلام جن کو سر کے بالوں سے پکڑ کر لوگ گھسیٹا کرتے تھے ایک ایک کر کے حضرت عمرؓ کی ملاقات کے لیے آنا شروع ہوئے۔ وہ عید کا دن تھا اور ان غلاموں کے آنے سے پہلے مکہ کے بڑے بڑے رؤسا ءکے بیٹے آپ کو سلام کرنے کے لیے حاضر ہو چکے تھے۔ ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ بلالؓ آئے۔ وہی بلال جو غلام رہ چکے تھے، جن کو لوگ مارا پیٹا کرتے تھے، جن کو کھردرے اور نوکیلے پتھروں پر ننگے جسم سے گھسیٹا کرتے تھے، جن کے سینے پر بڑے بڑے وزنی پتھر رکھ کر کہا کرتے تھے کہ کہو میں لات اور عزیٰ کی پرستش کروں گا مگر وہ یہی کہتے تھے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ۔ حضرت عمرؓ نے جب بلالؓ کو دیکھا تو ان رؤساء سے فرمایا: ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور بلالؓ کو بیٹھنے کی جگہ دو۔ ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ ایک اَور غلام صحابی آ گئے۔ حضرت عمرؓ نے پھر ان رؤساء سے فرمایا: ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کو بیٹھنے دو۔ تھوڑی دیر گزری تھی توایک اَور غلام صحابی آ گئے۔ حضرت عمرؓ نے حسب معمول ان رؤساء سے پھر فرمایا کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کو بیٹھنے کی جگہ دو۔ اتفاق کی بات ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل کرنا تھا اس لیے یکے بعد دیگرے آٹھ دس غلام آ گئے اور ہر دفعہ حضرت عمرؓ ان رؤساء سے یہی کہتے چلے گئے کہ پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کو بیٹھنے کی جگہ دو۔ ان دنوں بڑے بڑے ہال نہیں بنائے جاتے تھے بلکہ معمولی کوٹھڑیاں ہوتی تھیں جن میں زیادہ آدمی نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ جب تمام غلام صحابہؓ کمرے میں بھر گئے تو مجبوراً ان رؤساء کو جوتیوں والی جگہ میں بیٹھنا پڑا۔ یہ ذلت ان کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی۔ وہ اسی وقت اٹھے اور باہر آ کر ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ دیکھا! آج ہمیں کیسا ذلیل کیا گیا ہے۔ یہ غلام جو ہماری خدمتیں کیا کرتے تھے ان کو تو اوپر بٹھایا گیا ہے مگر ہمیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا ہے یہاں تک کہ ہٹتے ہٹتے ہم جوتیوں والی جگہ پر جا پہنچے اور سب لوگوں کی نگاہ میں ذلیل اور رسوا ہوئے۔ ایک شخص جو ان میں سے زیادہ سمجھدار تھاجب اس نے یہ باتیں سنیں تو کہا یہ ٹھیک ہے کہ ہماری رسوائی ہوئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کس کی کرتوتوں سے ہوا۔ ہمارے باپ بھائی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو مارا پیٹا کرتے تھے اس وقت یہ غلام آپؐ پر اپنی جانیں فدا کیا کرتے تھے۔ آج چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ہے اس لیے تم خود ہی فیصلہ کر لو کہ ان کو ماننے والے کن لوگوں کو عزت دیں گے۔ آیا تم کو جو مارا کرتے تھے یا ان غلاموں کو جو اپنی جانیں اسلام کے لیے قربان کیا کرتے تھے۔ اگر انہی کو عزت ملنی چاہیے تو پھر تمہیں آج کے سلوک پر شکوہ کیوں پیدا ہوا؟ تمہارے اپنے باپ دادا کے اعمال کا یہ نتیجہ ہے کہ تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو رہا جو غلاموں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں آ گئی۔ جب ایک عقلمند شخص نے یہ بات کہی تو کہنے لگے ہم حقیقت کو سمجھ گئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس رسوائی کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں۔ بیشک ہمارے باپ دادا سے بڑا قصور ہوا ہے مگر آخر اس قصور کا کوئی علاج بھی ہونا چاہیے جس سے یہ ذلت کا داغ ہماری پیشانی سے دھل سکے۔ اس پر سب نے فیصلہ کیا کہ ہماری سمجھ میں تو کوئی بات نہیں آتی۔ چلو حضرت عمرؓ سے ہی پوچھیں کہ اس رسوائی کا کیا علاج ہے۔ جب وہ دوبارہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے۔ اس وقت تک مجلس برخاست ہو چکی تھی اور صحابہ سب جا چکے تھے۔ انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آج ہمیں اس مجلس میں آ کر جو دکھ پہنچا ہے اس کے متعلق ہم آپؓ سے مشورہ کرنے آئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا دیکھو برا نہ منانا۔ یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہمیشہ آگے بیٹھا کرتے تھے۔ اس لیے میں بھی مجبور تھا کہ انہیں آگے بٹھاتا۔ بیشک تمہیں میرے اس فعل سے تکلیف ہوئی ہو گی مگر میں مجبور تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی اس مجبوری کو سمجھتے ہیں۔ ہم صرف یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا اس ذلت کا کوئی علاج بھی ہے اور کیا کوئی پانی ایسا ہے جس سے یہ داغ دھویا جا سکے۔ حضرت عمرؓ جو اُن نوجوانوں کے باپ دادا کی شان و شوکت اور ان کے رعب اور دبدبے کو دیکھ چکے تھے جب انہوں نے ان نوجوانوں کی یہ بات سنی تو آپؓ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے کہ یہ لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے کہاں سے کہاں آ گرے ہیں اور آپؓ پر رِقّت اس قدر غالب آئی کہ آپؓ ان کی بات کا جواب تک نہ دے سکے۔ صرف ہاتھ اٹھا کر شام کی طرف جہاں ان دنوں قیصر کی فوجوں سے لڑائی ہو رہی تھی اشارہ کر دیا۔ مطلب یہ تھا کہ اب ذلّت کا یہ داغ اسی طرح دھل سکتا ہے کہ اس لڑائی میں شامل ہو کر اپنی جان دے دو۔ چنانچہ وہ اسی وقت باہر نکلے اپنے اونٹوں پر سوار ہوئے اور شام کی طرف روانہ ہو گئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں سے ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا۔ اس طرح انہوں نے اپنے خون کے ساتھ اس ذلت کے داغ کو مٹایا جو ان کی پیشانی پر اپنے باپ دادا کے افعال کی وجہ سے لگ گیا تھا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 09 صفحہ 289-290)

پس ایک تو یہ ہے کہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں تبھی مقام ملتا ہے اور اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم ہے کہ جو قربانیاں کرنے والے ہیں، جو شروع سے ہی وفا دکھانے والے ہیں ان کا مقام بہرحال اونچا ہے چاہے وہ حبشی غلام ہو یا کسی نسل کا غلام ہو۔ اور یہ وہ مقام ہے جو اسلام نے حق پر رکھا ہے، جو اپنے میرٹ پر رکھا ہے اور ہرایک کو ملتا ہے۔ یہ نہیں کہ کون امیر ہے کون غریب ہے۔ قربانیاں کرنے والے ہوں گے، وفا کرنے والے ہوں گے، اپنی جانیں نثار کرنے والے ہوں گے، ہر چیز قربان کرنے والے ہوں گے تو ان کو مقام ملے گا۔

خطبہ جمعہ 25؍ ستمبر 2020ء

عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو بلایا اور پوچھا۔ اے بلال!کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں مجھ سے آگے رہتے ہو۔ جب کل شام مَیں جنت میں داخل ہوا تو مَیں نے اپنے آگے تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ مَیں جب بھی اذان دیتا ہوں تو دو رکعت نفل نماز پڑھتا ہوں اور جب بھی میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو مَیں وضو کر لیتا ہوں اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ اللہ کی طرف سے مجھ پر دو رکعت ادا کرنا واجب ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر یہی وجہ ہے۔ (سنن الترمذی ابواب المناقب باب اتیت علی قصر مربع …… الخ حدیث 3689)

ایک دوسری روایت میں یوں مذکور ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ سے صبح کی نماز کے وقت فرمایا: بلال مجھے بتاؤ جو سب سے زیادہ امید والا عمل تم نے اسلام میں کیا ہو کیونکہ مَیں نے بہشت میں اپنے آگے تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلالؓ نے کہا اپنے نزدیک تو مَیں نے اس سے زیادہ امید والا عمل اَور کوئی نہیں کیا کہ جب بھی مَیں نے رات کو یا دن کو کسی وقت وضو کیا تو مَیں نے اس وضو کے ساتھ نماز ضرور پڑھی ہے جتنی بھی میرے لیے پڑھنا مقدر تھی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب التہجد باب فضل الطہور باللیل والنہار حدیث 1149)

اس کا یہ مطلب نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر آپؓ ہو گئے بلکہ صرف یہ کہ پاکیزگی اور مخفی عبادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ مقام دیا کہ وہ جنت میں بھی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں جس طرح دنیا میں تھے جیسا کہ گذشتہ ایک روایت میں بھی ذکر ہوا تھا کہ عید کے روز حضرت بلالؓ نیزہ پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلتے تھے اور پھر قبلہ رخ نیزہ گاڑتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں عید پڑھاتے تھے تو بہرحال ان کا یہ اعزاز ان کی پاکیزگی اور عبادت کی وجہ سے جنت میں بھی اللہ تعالیٰ نے قائم رکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے ساتھ ایک نظارے میں دیکھا۔

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مجھے جنت کی طرف رات کو لے جایا گیا تو مَیں نے قدموں کی چاپ سنی۔ مَیں نے کہا اے جبرئیلؑ ! یہ قدموں کی چاپ کیسی ہے؟ جبرئیل نے کہا یہ بلالؓ ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اے کاش! مَیں بلال کی ماں کے بطن سے پیدا ہوتا۔ اے کاش! بلال کا باپ میرا باپ ہوتا اور مَیں بلالؓ کی طرح ہوتا۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد جلد 9صفحہ 363کتاب المناقب باب فضل بلال المؤذنؓ حدیث 15635) کیا اعلیٰ مقام ہے اس بلالؓ کا جسے ایک وقت میں حقیر سمجھ کر پتھروں پر گھسیٹا جاتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ خواہش کر رہے ہیں کہ کاش مَیں بلال ہوتا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ابتدائی صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ اس طرح تحریر فرمایا ہے کہ ’’بلال بن رَبَاحؓ …… جو امیہ بن خَلَف کے حبشی غلام تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں اذان دینے کا کام انہی کے سپرد تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہوں نے اذان کہنا چھوڑ دیا تھا لیکن جب حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں شام فتح ہوا تو ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے اصرار پر انہوں نے پھر اذان کہی جس پر سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد آگیا چنانچہ وہ خود اور حضرت عمرؓ اور دوسرے اصحاب جو اس وقت موجود تھے اتنے روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ حضرت عمرؓ کو بلالؓ سے اتنی محبت تھی کہ جب وہ فوت ہوئے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا آج مسلمانوں کا سردار گذر گیا۔ یہ ایک غریب حبشی غلام کے متعلق بادشاہِ وقت کا قول تھا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 124۔ 125)

ایک موقعے پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے احمدی مستورات سے خطاب فرماتے ہوئے یہ جو آیتِ قرآنی ہے کہ اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ أَمَلًا۔ یہ بیان فرمائی اور اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت بلالؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ایک ہی چیز ہے جو باقی رہنے والی ہے اور وہ ہے الْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ۔ وہ کام جو خدا کے لیے کرو گی باقی رہے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا کہ ’’آج ابوہریرہؓ کی اولاد کہاں ہے، مکان کہاں ہیں؟‘‘ کوئی جائیدادنہیں، اولادنہیں۔ ہم نہیں جانتے اولاد کہاں ہے کہ نہیں ہے۔ ’’لیکن ہم جنہوں نے نہ ان کی اولاد دیکھی، نہ مکان دیکھے، نہ جائیداد دیکھی ہم جب ان کا نام لیتے ہیں تو کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’چند دن ہوئے ایک عرب آیا اس نے کہا کہ مَیں بلالؓ کی اولاد میں سے ہوں۔ اس نے معلوم نہیں سچ کہا یا جھوٹ مگر میرا دل اس وقت چاہتا تھا کہ میں اس سے چمٹ جاؤں کہ یہ اس شخص کی اولاد میں سے ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اذان دی تھی۔ آج بلالؓ کی اولاد کہاں ہے؟‘‘ ہم نہیں جانتے کوئی اولاد ہے بھی کہ نہیں اور ہے تو کہاں ہے۔ ’’اس کے مکان کہاں ہیں؟‘‘ کوئی جائیدادیں ہمیں نظر نہیں آتیں۔ ’’اس کی جائیداد کہاں ہے؟ مگر وہ جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اذان دی تھی وہ اب تک باقی ہے اور باقی رہے گی۔‘‘ (مستورات سے خطاب، انوار العلوم جلد 16صفحہ 457۔ 458)

اور یہ وہ نیکیاں ہیں جو باقی رہنے والی نیکیاں ہیں۔ حضرت بلالؓ سے چوالیس احادیث مروی ہیں۔ صحیحین میں چار روایات آئی ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء للامام الذھبی جلد 01 صفحہ 360، ’’بلال بن رباح‘‘ مؤسسہ الرسالۃ 2014ء)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت تین لوگوں سے ملنے کی بہت مشتاق ہے۔ علیؓ، عمارؓ اور بلالؓ۔ (سیر اعلام النبلاء للامام الذھبی جلد 01 صفحہ 355، ’’بلال بن رباح‘‘ مؤسسہ الرسالۃ 2014)

ایک دفعہ حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کے فضائل بیان کر رہے تھے۔ آپ نے حضرت ابوبکرؓ کے فضائل بیان کرتے ہوئے حضرت بلالؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ بلالؓ جو ہیں ہمارے سردار ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے فضائل بیان کر رہے ہیں اور وہاں حضرت بلالؓ بیٹھے ہوئے تھے تو آپؓ نے ان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ بلالؓ جو ہیں ہمارے سردار ہیں اور حضرت ابوبکرؓ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہیں۔ (تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جلد 10 صفحہ 363، ذکر من اسمہ بلال بن رباح، دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء) کیونکہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو خرید کر غلامی سے آزاد کروایا تھا۔

عائذبن عمرو سے روایت ہے کہ حضرت سلمانؓ، حضرت صہیبؓ اور حضرت بلالؓ کے پاس جو ایک مجمع میں تھے ابوسفیان آئے تو اس پر ان لوگوں نے کہا اللہ کی قسم ! اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن پر اپنی جگہ پر نہ پڑیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کیا تم قریش کے معزز اور ان کے سردار کے بارے میں ایسا کہتے ہو؟ حضرت ابوبکرؓ نے جب ان کو یہ باتیں کرتے سنا کہ صحیح طرح ہم نے ان سے بدلہ نہیں لیا تو حضرت ابوبکرؓ کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ آپؓ نے فرمایا کہ تم قریش کے سردار کے بارے میں ایسی بات کہتے ہو؟ اور اس کے بعد پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکرؓ ! شاید تم نے انہیں ناراض کر دیا ہے۔ اگر تم نے انہیں ناراض کیا تو یقیناً تم نے اپنے رب کو ناراض کیا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ ان کے پاس آئے اور کہا اے پیارے بھائیو! مَیں نے تمہیں ناراض کر دیا؟ حضرت ابوبکرؓ تو یہ بات لے کر گئے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ان کو کچھ روکیں گے، ٹوکیں گے لیکن الٹا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ان لوگوں کو ناراض کر دیا اور حضرت ابوبکرؓ کا بھی دیکھیں کیا مقام تھا فوری طور پر ان غریب لوگوں کے پاس واپس گئے اور انہیں کہا پیارے بھائیو! مَیں نے تمہیں ناراض کر دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں نہیں اے بھائی! اللہ آپ کی مغفرت فرمائے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپؓ نے ہمیں ناراض نہیں کیا۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل سلمان و صہیب و بلال حدیث 2504)

حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جبکہ آپ جِعِرَّانَہ میں قیام فرما تھے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ حضرت بلالؓ آپ کے ساتھ تھے۔ ایک اعرابی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا آپؐ مجھ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا نہ فرمائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا تمہیں خوشخبری ہو۔ اس پر بدوی کہنے لگا کہ مجھے اَبْشِرْیعنی تمہیں خوشخبری ہو آپ بڑی دفعہ کہہ چکے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوموسیٰؓ اور حضرت بلالؓ کی طرف متوجہ ہوئے جیسے کوئی ناراض ہو۔ پھر اس بدوی کی طرف نہیں دیکھا۔ ان دونوں کی طرف متوجہ ہو گئے اور فرمایا کہ اس نے بشارت کو ردّ کر دیا۔ میں اس کو خوشخبری دے رہا ہوں۔ اس نے خوشخبری کو ردّ کیا ہے۔ پس تم دونوں یہ بشارت قبول کر لو۔ ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! ہم نے قبول کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا۔ اس پانی سے اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ دھویا اور اس سے کلی کی۔ پھر فرمایا تم دونوں اس میں سے پی لو اور دونوں اپنے چہروں اور سینوں پر انڈیل لو اور خوش ہو جاؤ۔ چنانچہ ان دونوں نے وہ پیالہ لیا اور ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کرنے کا حکم فرمایا تھا تو پردے کے پیچھے سے حضرت ام سلمہؓ نے انہیں پکارا کہ جو تم دونوں کے برتن میں ہے اس میں سے کچھ اپنی ماں کے لیے یعنی حضرت ام سلمہؓ، ام المومنین کے لیے بھی بچاؤ تو ان دونوں نے ان کے لیے اس میں سے کچھ بچا دیا۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل ابی موسیٰ و ابی عامر الاشعریین رضی اللّٰہ عنھما حدیث 2497)

حضرت علی بن ابوطالبؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے سات نقیب عنایت فرمائے ہیں اور مجھے چودہ یعنی دوگنے نقیب عطا ہوئے ہیں۔ ہم نے عرض کیا وہ کون ہیں؟ حضرت علیؓ نے کہا۔ مَیں، میرے دونوں بیٹے اور جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حمزہؓ اور ابوبکرؓ اور عمرؓ اور مصعب بن عمیرؓ اور بلالؓ اور سلمانؓ اور مقدادؓ اور ابوذرؓ اور عمارؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ۔ (سنن الترمذی ابواب المناقب حدیث: 3785)

حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلالؓ کیا ہی اچھا انسان ہے۔ وہ تمام مؤذنوں کا سردار ہے۔ اس کی پیروی کرنے والے صرف مؤذن ہی ہوں گے اور قیامت کے دن سب سے لمبی گردنوں والے مؤذن ہی ہوں گے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر بلال بن رباح، حدیث: 5244جلد 03 صفحہ 322، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

حضرت زید بن ارقمؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلالؓ کتنا ہی اچھا انسان ہے کہ شہداء اور مؤذنوں کا سردار ہے اور قیامت والے دن سب سے لمبی گردن والے حضرت بلالؓ ہوں گے یعنی بڑی عزت کا مقام ان کو ملے گا۔ (مجمع الزوائد کتاب المناقب باب فضل بلال المؤذن جلد 09 صفحہ 363حدیث15636، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلالؓ کو جنت کی اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی دی جائے گی اور وہ اس پر سوار ہوں گے۔ (سیر اعلام النبلاء للامام الذھبی جلد 01 صفحہ 355، ’’بلال بن رباح‘‘ مؤسسہ الرسالۃ 2014ء)

حضرت بلالؓ کی اہلیہ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور سلام کیا۔ فرمایا کیا بلالؓ یہاں ہیں؟ مَیں نے جواب دیا کہ گھر نہیں آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لگتا ہے تم بلالؓ سے ناراض ہو۔ مَیں نے کہا وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور وہ ہر بات پر یہی کہتے ہیں کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کی بیوی کو فرمایا کہ بلالؓ مجھ سے جو بات تم تک پہنچائیں وہ یقینا ًسچی ہو گی اور بلالؓ تم سے غلط بات نہیں کرے گا۔ پس تم بلالؓ پر کبھی ناراض نہ ہونا ورنہ اس وقت تک تمہارا کوئی عمل قبول نہ ہو گا جب تک تم نے بلالؓ کو ناراض رکھا۔ (تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جلد 10 صفحہ 356، ذکر من اسمہ بلال بن رباح، دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلالؓ کی مثال تو شہد کی مکھی جیسی ہے جو میٹھے پھلوں اور کڑوی بوٹیوں سے بھی رَس چوستی ہے مگر جب شہد بنتا ہے تو سارے کا سارا شیریں ہو جاتا ہے۔ سب میٹھا ہو جاتا ہے۔ (مجمع الزوائد کتاب المناقب باب فضل بلال المؤذن جلد 09 صفحہ 364حدیث 15639، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

حضرت بلالؓ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت بلالؓ جب بستر پر لیٹتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ اَللّٰہُمَّ تَجَاوَزْ عَنْ سَیِّئَاتِیْ وَاعْذُرْنِیْ بِعِلَّاتِیْ۔ اے اللہ! تو میری خطاؤں سے درگذر فرما اور میری کوتاہیوں کے بارے میں مجھے معذور سمجھ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی باب بلال بن رباح جلد 01 صفحہ 337 حدیث 1009، دار احیاء التراث العربی 2002ء)

حضرت بلالؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے بلالؓ ! غریبی میں مرنا اور امیری میں نہ مرنا۔ مَیں نے عرض کیا کہ وہ کیسے؟ یہ کس طرح ہو کہ میں غریبی میں مروں اور امیری میں نہ مروں۔ اس کی سمجھ نہیں آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رزق تمہیں عطا کیا جائے اسے سنبھال کر نہ رکھنا اور جو چیز تم سے مانگی جائے اس سے منع نہ کرنا۔ مَیں نے عرض کی یا رسول اللہؐ ! اگر مَیں ایسا نہ کر سکا تو کیا ہو گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا ہی کرنا ہو گا ورنہ آگ ٹھکانہ ہو گی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی باب بِلَالُ بْنُ رَبَاح جلد 01 صفحہ 341 حدیث 1021، دار احیاء التراث العربی 2002ء)

یعنی کسی سائل کو دھتکارنا نہیں اور یہ نہیں کہ صرف جوڑتے رہو اور خرچ نہ کرو۔ خرچ کرنا بھی ضروری ہے۔

حضرت بلالؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بیس ہجری میں دمشق شام میں ہوئی۔ بعض کے نزدیک آپؓ کی وفات حلب میں ہوئی۔ اس وقت حضرت بلالؓ کی عمر ساٹھ سال سے زائد تھی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت بلالؓ کی وفات اٹھارہ ہجری میں ہوئی۔ آپؓ کی تدفین دمشق کے قبرستان میں باب الصغیر کے پاس ہوئی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 180 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء) (تاریخ الدمشق لابن عساکر جلد 10 صفحہ 335 ذکر من اسمہ بلال بن رباح دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ حضرت بلالؓ کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اس حوالے میں سے بعض باتیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں لیکن بات کا جو تسلسل ہے اس کی وجہ سے شاید یہاں دوبارہ شروع کی ایک دو باتیں آ جائیں۔ حضرت بلالؓ حبشی تھے عربی زبان نہیں جانتے تھے اور عربی بولتے ہوئے وہ بہت سی غلطیاں کر جاتے تھے مثلاً حبشہ کے لوگ شین کو سین کہتے تھے۔ چنانچہ بلال جب اذان دیتے ہوئے اَشْھَدُ کو اَسْھَدُ کہتے تو عرب لوگ ہنستے تھے کیونکہ ان کے اندر قومی برتری کا خیال پایا جاتا تھا حالانکہ دوسری زبانوں کے بعض الفاظ خود عرب بھی نہیں ادا کر سکتے۔ مثلاً وہ روٹی کو، عرب جو ہیں روٹی کو روٹی نہیں کہہ سکتے، روتی کہیں گے۔ ت بولیں گےٹ کی بجائے اور چُوری کو جُوری کہیں گے چ نہیں بول سکتے ج بولیں گے۔ فرمایا کہ جس طرح غیر عرب عربی کے بعض الفاظ ادا نہیں کر سکتے اسی طرح عرب بھی غیر زبانوں کے بعض الفاظ نہیں ادا کر سکتے لیکن ان میں قومی برتری کا جو نشہ ہے تو وہ یہ بات سوچتے نہیں کہ ہم بھی تو دوسری زبانوں کےبعض الفاظ نہیں استعمال کر سکتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کے اَسْھَدُ پر دوسرے لوگوں کو ہنستے ہوئے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا تم بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہو حالانکہ جب وہ اذان دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ عرش پر خوش ہوتا ہے اور تمہارے اَشْھَدُ سے اس کا اَسْھَدُ کہنا خدا تعالیٰ کو زیادہ پیارا لگتا ہے۔ بلال حبشی تھے اور حبشی اس زمانے میں غلام بنائے جاتے تھے بلکہ گذشتہ صدیوں میں بھی، قریب کی صدیوں میں بھی غلام بنائے گئے بلکہ آج تک بنائے جا رہے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے نزدیک کوئی غیر قوم مقہور و ذلیل ہوتی ہے۔ آپؐ کے نزدیک سب قومیں یکساں طور پر خدا تعالیٰ کی مخلوق تھیں۔ آپؐ کو یونانیوں اور حبشیوں سے بھی ویسا ہی پیار تھا جیسے عربوں سے۔ کوئی فرق نہیں تھا۔ عرب بھی ویسے تھے، اسی طرح پیارے تھے۔ آپؐ کو افریقی بھی اسی طرح پیارے تھے جیسے عرب پیارے تھے، جیسے یونانی پیارے تھے۔ یہی محبت تھی جس نے ان غیر قوموں کے دلوں میں آپؐ کا وہ عشق پیدا کر دیا تھا جس کو عرب کے بھی بہت سے لوگ نہیں سمجھ سکتے تھے۔ آپؐ کی اسی محبت کی وجہ سے ان لوگوں کے دلوں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عشق پیدا ہو گیا تھا جس کی ان لوگوں کو جن کو فراست نہیں تھی، جن کواس محبت کا ادراک نہیں تھا، جن کو وفا اور محبت کے اسرار و رموز کا پتہ نہیں تھا ان کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ کس طرح ہو رہا ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے پھر عرب قوم میں پیدا ہوئے اور عربوں سے بھی قریش کے قبیلہ میں پیدا ہوئے جو دوسری عرب قوموں کو بھی حقیر اور ذلیل سمجھتا تھا۔ سب سے اچھا قبیلہ آپؐ کا تھا۔ آپؐ کو حبشیوں سے کیا جوڑ تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قوم یا قبیلے کو محبت ہونی چاہئے تھی تو بنو ہاشم کو ہونی چاہئے تھی۔ آپؐ سے کسی کو محبت ہونی چاہئے تھی تو قریش کو ہونی چاہئے تھی یا پھر عرب کے لوگوں کو ہونی چاہئے تھی کہ وہ آپؐ کے ہم قوم تھے اس لیے ان لوگوں کو بھی آپؐ سے محبت ہونی چاہئے تھی۔ غیر قوموں کے دلوں میں جن کی حکومتوں کو آپؐ کے لشکروں نے پامال کر دیا تھا جن کی قومی سرداری کو اسلامی سلطنت نے تباہ کر کے رکھ دیا تھا محبت ہو ہی کیسے سکتی تھی۔ غیر قوموں سے جنگیں ہوئیں، ان کو شکست ہوئی اور ان کی حکومتیں ختم ہو گئیں لیکن اس کے باوجود ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک محبت پیدا ہو گئی۔ وہ کس طرح پیدا ہو سکتی تھی؟ انہیں تو آپ سے دشمنی ہونی چاہئے تھی۔ لیکن واقعات کیا ہیں۔ اس کے لیے ہم پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کی قوم کی اس محبت کا جائزہ لیتے ہیں جو اسے اپنے آقا کے ساتھ تھی۔ جب آپ پکڑے گئے یعنی حضرت مسیح علیہ السلام جب پکڑے گئے اور آپ کے خاص حواری پطرس کو جسے آپ نے اپنے بعد خلیفہ بھی مقرر کیا تھا، پولیس نے کہا کہ تم اس کے پیچھے پیچھے کیوں آ رہے ہو؟ معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ ہو۔ پولیس کو شک گزرا کہ تم اس کے پیچھے آرہے ہو۔ تم بھی اس کے ساتھ ہو تو ڈر گیا۔ اس نے فوراً کہا کہ میں اس کا مریدنہیں ہوں۔ میں تو اس پر لعنت بھیجتا ہوں۔ نہ صرف انکار کر دیا بلکہ لعنت بھی بھیج دی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ علیہ السلام کے حواری آپؑ سے محبت ضرور کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کے جو حواری تھے وہ تھے ایسے اور آپؑ سے محبت بھی کرتے تھے۔ بعد میں پطرس بھی روما میں صلیب پر لٹکایا گیا اور اس نے بڑی دلیری کے ساتھ موت کو قبول کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کی محبت اور اطاعت سے انکار نہیں کیا لیکن جب حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا تو اس وقت اس کا ایمان پختہ نہیں تھا۔ اس وقت وہ دو چار تھپڑوں سے ڈر گیا مگر بعد میں اس نے صلیب کو بھی نہایت خوشی سے قبول کیا۔ بہرحال یہ ایک نظارہ تھا اس محبت کا جو مسیح علیہ السلام سے آپؑ کی قوم کو تھی۔

اب آپؑ کی قوم کے مقابلے میں ہم ان غلاموں کو دیکھتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور پھر وہیں کے ہو کے رہ گئے۔ بلالؓ جو حبشی غلام تھے اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو محبت تھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا بلالؓ پر کیا اثر تھا۔ بعض لوگوں کو ظاہری طور پر اپنے محبوب سے گہری محبت ہوتی ہے لیکن حقیقتاً ان کی محبت ایک دائرے کے اندر محدود ہوتی ہے۔ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ سے، جس کے حبشی غلام ہونے کی وجہ سے قریش ہی نہیں بلکہ سارے عرب نفرت کا اظہار کرتے تھے، جس محبت کا اظہار کیا آیا وہ ایک عام رواداری کی رو ح کی وجہ سے تھا۔ یہ رواداری تھی کہ محبت کرنی ہے، اس کا دل رکھنا ہے یہ اس لیے تھا یا حقیقی محبت کا مظاہرہ تھا۔ دکھاوے کی محبت تھی یا حقیقی محبت تھی۔ اس کا جائزہ بلالؓ ہی لے سکتے ہیں ہم نہیں لے سکتے۔ اگر جائزہ لینا ہے تو پھر حضرت بلالؓ کے پاس جانا پڑے گا کیونکہ وہی صحیح جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس واقعہ پر تیرہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہم اس کا جائزہ کیا لے سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلالؓ نے آپؐ کی محبت کے اظہار کو کیا سمجھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلالؓ سے جو حقیقی محبت تھی انہوں نے اسے کیا سمجھا؟ یہاں یہ سوال نہیں ہے کہ میں نے کیا سمجھا۔ یہاں یہ سوال نہیں ہے کہ ہم سے پہلی صدی کے لوگوں نے کیا سمجھا۔ یہاں یہ سوال نہیں کہ اس سے پہلی صدی کے لوگوں نے کیا سمجھا۔ یہاں یہ سوال بھی نہیں کہ خود صحابہ نے کیا سمجھا۔ ان باتوں کو چھوڑو کہ دوسروں نے کیا سمجھا بلکہ سوال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لوگوں نے، صحابہ نے بھی کیا سمجھا بلکہ دیکھنا ہم نے یہ ہے کہ بلالؓ نے کیا سمجھا اور اس کو دیکھنے کے لیے ایک چھوٹا سا یہ فقرہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ تم اَسْھَدُ کہنے پر ہنستے ہو۔ آپؐ نے لوگوں کو کہا حالانکہ اس کی اذان سن کر خدا تعالیٰ بھی عرش پر خوش ہوتا ہے۔ وہ تمہارے اَشْھَدُ سے اس کے اَسْھَدُ کی زیادہ قدر کرتا ہے۔ یہ صرف دلجوئی اور دفع الوقتی کے لیے تھا یا گہری محبت کی بنا پر تھایا وقتی طور پر اس بات کو ٹالنے کے لیے آپؐ نے کوئی بات کی تھی یا یہ گہری محبت کی بنا پر بات کی تھی۔ یہی چھوٹا سا فقرہ جوآپؐ نے کہا تھا کہ اَشْھَدُ سے زیادہ اللہ کو اَسْھَدُ پسند ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس فقرے سے بلالؓ نے کیا سمجھا۔ بلالؓ نے اس فقرے سے یہ نتیجہ نکالا کہ آپؐ کے دل میں خواہ میں غیر قوم کا ہوں اور ایسی قوم کا ہوں جو انسانیت کے دائرے سے باہر سمجھی جاتی ہے اور غلام بنائی جاتی ہے محبت اور عشق ہے۔ بلالؓ نے یہ سمجھا کہ غیر قوم کا ہونے کے باوجود اور ایسی قوم کا ہونے کے باوجود جس کو غلام بنایا جاتا ہے مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کی اور عشق کیا۔

ہم اس واقعہ سے کچھ عرصہ پیچھے جاتے ہیں یہی شخص جو کہتا ہے کہ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن کہ میری موت بھی اللہ کے لیے ہے جو ربّ العالمین ہے، فوت ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ نئی حکومتیں بن جاتی ہیں۔ نئے افراد آ جاتے ہیں اور نئے تغیرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ زمانہ گزر گیا۔ نئی حکومتیں بھی آ گئیں۔ بہت ساری تبدیلیاں پیدا ہو گئیں۔ بعض صحابہ عرب سے سینکڑوں میل باہر نکل جاتے ہیں، انہی صحابہ میں بلالؓ بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ سب تبدیلیاں جو آئیں تو وہ شام چلے جاتے ہیں اور دمشق جا پہنچتے ہیں۔ ایک دن کچھ لوگ اکٹھے ہوئے۔ حضرت بلالؓ دمشق میں تھے۔ وہاں لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بلالؓ اذان دیا کرتا تھا ہم چاہتے ہیں کہ بلالؓ پھر اذان دے۔ انہوں نے بلالؓ سے کہا۔ حضرت بلالؓ نے انکار کر دیا کہ نہیں مَیں اب اذان نہیں دے سکتا۔ بلالؓ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مَیں اذان نہیں دوں گا کیونکہ جب بھی میں اذان دینے کا ارادہ کرتا ہوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک میرے سامنے آ جاتا ہے، میری جذباتی کیفیت ہو جاتی ہے اس لیے میں اذان نہیں دے سکتا۔ میری برداشت سے یہ بات باہر ہو جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ بھی ان دنوں دمشق میں آئے ہوئے تھے اتفاق سے ان کا بھی دورہ تھا۔ لوگوں نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ آپؓ بلالؓ سے کہیے کہ اذان دے۔ ہم میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور ہمارے کان ترس رہے ہیں کہ ہم بلالؓ کی اذان سنیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ زمانہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ ہمارے تصورات میں حضرت بلالؓ کی اذانیں آتی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ حقیقت میں بھی ایک دفعہ بلالؓ کی اذان سنیں اور وہ زمانہ ہمارے سامنے ذرا اچھی طرح گھوم جائے۔ ہم میں وہ بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں دیکھا صرف باتیں سنی ہیں۔ ایسے لوگ بھی وہاں موجود تھے ان کے دل خواہش رکھتے ہیں کہ اس شخص کی اذان سن لیں جس کی اذان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنا کرتے تھے اور آپؐ کو پسند بھی تھی۔ حضرت عمرؓ نے بلالؓ کو بلایا اور فرمایا لوگوں کی خواہش ہے کہ آپؓ اذان دیں۔ آپؓ نے فرمایا آپؓ خلیفہ وقت ہیں آپ کی خواہش ہے تو میں اذان دے دیتا ہوں لیکن یہ بتا دوں مَیں کہ میرا دل برداشت نہیں کر سکتا۔ حضرت بلالؓ کھڑے ہو جاتے ہیں اور بلند آواز سے اسی رنگ میں اذان دیتے ہیں جس رنگ میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اذان دیا کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو یاد کر کے آپ کے صحابہ جو عرب کے باشندے تھے یہ اذان سنتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور بعض کی چیخیں بھی نکل گئیں۔ حضرت بلالؓ اذان دیتے چلے جاتے ہیں اور سننے والوں کے دلوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو یاد کر کے رقت طاری ہو جاتی ہے لیکن حضرت بلالؓ جو حبشی تھے، جن سے عربوں نے خدمتیں لیں، جنہیں عربوں سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا اور نہ بھائی چارے کا تعلق تھا ہم نے دیکھنا ہے کہ خود ان کے دل پر کیا اثر ہوا۔ یہ تو اثر ہوا ناں ان عربوں کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے تھے، ان کو زمانہ یاد آ گیا۔ جو اس زمانے کے عرب نہیں تھے ان کو بھی وہ باتیں یاد آ گئیں، رقت طاری ہو گئی یا ایک دوسرے کو دیکھ کے رقت طاری ہوئی لیکن حضرت بلالؓ تو جو عرب بھی نہیں تھے غلام بھی تھے ان کو اس اذان کا کیا اثر ہوا۔ کہتے ہیں کہ حضرت بلالؓ جب اذان ختم کرتے ہیں تو بیہوش ہو جاتے ہیں۔ یہ اثر ہوتا ہے اور چند منٹ بعد فوت ہوجاتے ہیں۔ یہ گواہی تھی غیر قوموں کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعویٰ پر کہ میرے نزدیک عرب اور غیر عرب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ محبت اور یہ عشق سب سے بڑی گواہی ہے جو غیرعرب قوموں نے آپؐ کے لیے دکھایا۔ یہ ہے وہ سچی گواہی، عملی گواہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ عرب اور غیر عرب میں کوئی فرق نہیں تو یہ ہے اس کا اظہار۔ یہ گواہی تھی غیر قوموں کی جنہوں نے آپؐ کی محبت بھری آواز کو سنا اور اس کا اثر جو انہوں نے دیکھا اس نے اسے یقین کروا دیا کہ ان کی اپنی قوم ان سے وہ محبت نہیں کر سکتی جو محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کرتے تھے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 30 صفحہ 263تا 267خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍اگست 1949ء)

یہ تھے ہمارے سیدنا بلالؓ جنہوں نے اپنے آقا و مطاعؐ سے عشق و وفا کے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو اپنے دل میں بٹھانے اور پھر اس کے عملی اظہار کے وہ نمونے قائم کیے جو ہمارے لیے اسوہ ہیں، ہمارے لیے پاک نمونہ ہیں۔ اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی اپنے اس غلام سے محبت و شفقت کی وہ داستانیں ہیں جن کی نظیر ہمیں دنیا میں کہیں اَور نظر نہیں آ سکتی اور یہی وہ چیز ہے جو آج بھی محبت اور پیار کی فضاؤں کو پیدا کر سکتی ہے، بھائی چارے کو پیدا کر سکتی ہے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ سکتی ہے۔ پس آج بھی ہماری نجات اسی میں ہے کہ توحید کے قیام اور عشقِ رسولِ عربیؐ کے ان نمونوں پر قائم ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ حضرت بلالؓ کا ذکر آج یہاں ختم ہوتا ہے۔