بچے کے وجود کی تعمیر میں ماں باپ دونوں کا حصہ برابر ہوتا ہے
چوہدری خالد سیف اللہ خان
بچہ پیدا ہوا تو گھر کی عورتوں نے اسے گھیر لیا اور اس کے ناک نقشہ پر تبصرے ہونے لگے۔ ایک نے کہا اس کی آنکھیں باپ کی ہیں۔ دوسری نے کہا اس کا ناک ماں کا ہے۔ تیسری بولی ماتھا بالکل دادی کا ہے۔ چوتھی نے کہا ٹھوڑی بالکل ماموں کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک عورت جو ذرا ہٹ کر بیٹھی ہوئی تھی پکاری کہ اس غریب کا اپنا بھی کچھ ہے یا سب کچھ مانگا تانگا ہی ہے۔
یہ لطیفہ عام سوچ کے مطابق ہے۔ عام طورپر یہی سمجھاجاتا ہے کہ بچہ جینز(Genes) کا ایک سیٹ باپ سے لیتا ہے اور ایک سیٹ ماں سے اور پھر وہ دونوں آپس میں یوں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں کہ محض اتفاق سے وہ بعض کیریکٹر یا بناوٹ باپ کی طرف سے لے لیتا ہے اور بعض ماں کی طرف سے مثلاً جیسے یہ کہا جائے کہ بچہ نے حِس مزاح ماں سے لی ہے اور پیشہ کا رجحان باپ سے۔
لیکن نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں کہ بعض کیریکٹر باپ سے آتے ہیں اور بعض ماں کی طرف سے بلکہ انسانی وجود کے مخصوص اور معلوم حصے ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے بچہ کو ورثہ میں ملتے ہیں۔ مثلاً دماغ کا وہ حصہ جو ہمارے جذبات کوکنٹرول کرتا ہے وہ باپ کے جینز سے بنتا ہے اور دماغ کا وہ حصہ جس کا تعلق قوت فیصلہ اور ذہانت سے ہے وہ ماں کی طرف سے آتاہے۔
کوئی دس سال تک جینز کے ماہرین کا خیال تھا کہ جینزبس جینز ہی ہوتے ہیں ان میں نرومادہ کی تخصیص نہیں ہوتی لہذا وہ خواہ باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔لیکن یہ تصور اب باقی نہیں رہا۔ جینز میں بھی نرو مادہ کی تخصیص ہوتی ہے۔ اور ہر ایک کا جسم کی تخلیق میں ایک
طے شدہ حصہ ہوتا ہے۔ یہ بات پہلے کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر عظیم سورانی نے دریافت کی تھی۔ اور پھر دوسرے سائنس دانوں نے اس کی توثیق کی۔
ڈاکٹر عظیم سورانی نے اپنے تجربات دودھ پلانے والے جانوروں (Mammals) پر کئے۔ انہوں نے ایک انڈہ (Egg) مادہ کا لیا اور اس میں سے DNA حاصل کر کے اس میں سپرم سیلز (Sperm Cells) کے دو DNA ملائے لیکن باوجودیکہ جینز کا باہمی تناسب معمول کے مطابق تھا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے دو انڈوں کے DNA ایک ایسے انڈے میں داخل کئے جس کا اپنا DNA نکالاہوا تھا۔ لیکن تب بھی بچہ نہ بنا۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ جینز کا باہمی تناسب اور تعداد وغیرہ درست ہونا ہی کافی نہیں بلکہ ان کا نصف نر سے اور نصف مادہ سے آنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ بچہ کی نشوونما کے دوران ایسے مراحل آتے ہیں کہ ان کا آغاز کرنے کے لئے کبھی باپ کے جینز کی ضرورت پڑتی ہے اورکبھی ماں کے جینز کی۔ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ اس تحقیق نے عورتوں کا پلہ مردوں سے بھاری کر دیا ہے اور آج وہ فخر سے یہ کہہ سکتی ہیں کہ بچہ کی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں اوراستعدادوں میں ماں کے جینز کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا باپ کا۔ چنانچہ بچہ ایک ایسے نطفہ سے پیدا ہوتا ہے جو ماں باپ کے پانی کے امتزاج سے بنتا ہے گویا وہ ایک ایسا بیج ہے جو دو بیجوں کے ملنے جلنے سے وجود میں آتا ہے اورماں کا زائد کا م یہ ہوتا ہے کہ وہ اس زمین یا کھیتی کے بھی کام کرتی ہے جس میں و ہ ملا جلا بیج اگتاہے۔
ریسرچر کہتے ہیں کہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بچہ جس نالی کے ذریعہ اپنی ماں سے غذائیت اور آکسیجن حاصل کرتا ہے (Placenta) وہ باپ کے جینز سے نشوونما پاتی ہے۔ نر سے آنے والے جینز جارح (Aggressive) ہوتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ چھینا جھپٹی کر کے بچہ کے لئے جتنی غذا حاصل کرنی ممکن ہے وہ حاصل کر لی جائے۔ اس کے بالمقابل ماد ہ کے جینز میں صبر اور برداشت کا مادہ ہوتا ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نر جینز کی حرص کو حد اعتدال میں رکھیں تا ماں کا شوگر لیول حد سے نیجے نہ گر جائے۔
یہ تجربات فی الحال چوہوں پر کئے گئے ہیں اس لئے ماہرین انہیں انسانوں پر منطبق کرنے میں احتیاط سے کا م لے رہے ہیں۔
(ماخوذ از رپورٹJerome Burne دی گارڈین ۔ بحوالہ سڈنی ہیرلڈ ۹۷۔۶۔۶)
اگر مزید تحقیق کے نتیجہ میں یہ باتیں انسانوں پر بھی صادق آ جائیں تو اس سے وقت کے ساتھ ساتھ انسانی سوچ اور سماجی مسائل میں کئی دوررس تبدیلیاں پیدا ہونگی۔ یہ خیال کہ بچہ کے لئے تخم صرف نر مہیاکرتا ہے اور مادہ صرف بطور زمین یا کھیتی کے ہوتی ہے غلط ثابت ہوجائے گا کیونکہ تخم یا بیج نرومادہ دونوں کے پانی کے خلط ملط سے پیدا ہوتاہے اور ماد ہ کا یہ کردار کہ وہ بطور قطعہ زمین کے پودے کو بڑھنے کے لئے قوت فراہم کرتی ہے ایک ضروری مگر زائد فعل کے طور پر ہے ۔ قرآن کریم نے انسانی تخلیق میں عورت کے ان دونوں کرداروں کا ذکرفرمایا ہے۔ایک جگہ فرمایا ’’نسائکم حرثٌ لکم‘‘ (البقرہ:۲۲۴) یعنی تمہاری بیویاں تمہارے لئے( ایک قسم کی) کھیتی ہیں۔ اوردوسری جگہ فرمایا ’’ انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج‘‘ (الدھر: ۳)۔ یعنی ہم نے انسان کو ایسے نطفہ سے پیدا کیا ہے جو ملا جلا ہے۔ اس میں ایک ایسے نطفہ کا ذکر ہے جو نرومادہ دونوں کے پانیوں کے اختلاط سے وجود میں آتا ہے۔ صرف مرد کا نطفہ مراد نہیں۔ مشج عربی میں دو چیزوں یارنگوں کے باہم ملنے کوکہتے ہیں۔ اور امشاج اس کی جمع ہے۔ اس لحاظ سے یہ تحقیق کہ ماں باپ دونوں ہونے والے بچہ کو تئیس(۲۳) تئیس(۲۳) کروموسوم مہیا کرتے ہیں اور دونوں کے جینز مل کر بچہ کی تخلیق کا باعث بنتے ہیں نہ صرف قرآن کے مطابق ہے بلکہ قرآن کریم کا ایک علمی اعجازہے۔
اس تحقیق سے ذات برادری کے مسئلہ پر بھی دلچسپ روشنی پڑتی ہے۔ اور اس سے ایک نئی سوچ ابھرتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر بچہ میں ماں باپ دونوں کی طرف سے برابرکروموسوم اور جینز آتے ہیں اوراس میں باپ کا پلڑہ ماں سے بھاری نہیں تو ذات برادری صرف باپ کی طرف سے کیوں چلے ، ماں کی طرف سے کیوں نہیں۔ ویسے اس طرح کی سوچ مغربی آسٹریلیا میں پہلے ہی پیدا ہو چکی ہے۔ میں نے جب بھی کسی سے پوچھا کہ آپ کے آباؤاجداد کس ملک سے آ کر آسٹریلیا میں آباد ہوئے تھے تو اگرچہ میرے ذہن میں صرف باپ دادے کا اصل وطن پوچھنا ہی مقصود ہوتا تھا مگر مجھے ہمیشہ اس طرح کا جواب ملا ہے کہ میرا باپ سکاٹ لینڈ سے تھا اور ماں اٹلی سے ۔ بلکہ اپنی دادی نانی کا بھی بتانا شروع کردیتے کہ وہ فلاں فلا ں ملک سے تھے۔ اس لحاظ سے تو تمام انسان ایک ایسے سمندر کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں جس میں سب دنیا کے پانی خلط ملط ہو چکے ہوں۔ اب ذرا اس میں کوئی مختلف براعظموں ، ملکوں اور جزائر کے پانیوں کوالگ الگ کر کے دکھائے تو جانیں۔ گویا ذات پات قبیلے محض شناخت کے لئے رہ جاتے ہیں۔ اور ان کی یہی غرض قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے۔
وحدت انسانی کے سلسلہ میں ایک اہم ریسرچ کا ذکر بھی یہاں مناسب ہوگا۔ سائنس دانوں نے ۱۹۸۷ء میں ایک تحقیق شائع کی تھی جس سے ثابت ہوا تھا کہ دنیا بھر میں جو مختلف رنگ و نسل کے لوگ پھیلے ہوئے ہیں ان میں ایک ایسا جین (Gene) مشترک ہے جو صرف ماں ہی بچے کو منتقل کر سکتی ہے۔ (یعنی Mitochondria) گویا تحقیق سے یہ تصور درست معلوم ہوتا ہے کہ تمام انسان ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔ سائنس دانوں نے بھی اس ماں کا نام Eve یعنی حوا رکھا ہے۔ اس تحقیق کے آٹھ سال بعد ۱۹۹۵ء میں دنیا کی تین معروف یونیورسٹیوں (Yale, Harward, Chicago) نے (Y-Chromosome) وائی کروموسوم کا تجزیہ کیا جو ان ۳۸ مردوں سے لئے گئے تھے جن کا تعلق مختلف قوموں اور نسلوں سے تھا۔ وائی کروموسوم وہ ہوتے ہیں جو جنین(Embryo) کو لڑکا بناتے ہیں۔ تینوں یونیورسٹیوں کی تحقیق نے ثابت کیا کہ اپنی ولدیت میں بھی سب انسان مشترک ہیں۔ لیکن اس بار اس جد امجد کانام انہوں نے آدم نہیں رکھا۔ بلکہ یہ خیال ظاہرکیا کہ دنیا کے سب انسان شاید چند ہزار پر مشتمل ایک گروپ کی شاخیں در شاخیں ہیں جن میں باپ کی طرف سے ایک قدرمشترک تھی۔ پچھلی تحقیق کو موجودہ سے ملا کر اگر دیکھا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے انسان خواہ وہ کسی ذات پات یاملک وقوم کے ہوں ان میں ماں باپ دونوں کی طرف سے ایک قدر مشترک ضرور موجود ہے۔ چنانچہ اخبار نے اس رپورٹ پر جو عنوان جمایا وہ تھا “We are all related” یعنی ہم سب انسان باہم رشتہ دار ہیں۔ (ماخوذ از واشنگٹن پوسٹ۔ لاس اینجلیزٹائم۔ بحوالہ سڈنی مارننگ ہیرلڈ۔ ۹۵۔۵۔۲۷)
معلوم ہوتا ہے یہ قدرمشترک وہی ہے جس کا ذکر خدا نے یوں فرمایا کہ ’’اے لوگو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک ہی جان (نفس واحدہ ) سے پیدا کیا۔۔۔‘‘ (النساء :۲)۔
یہ جدید تحقیقات کئی پرانے تصورات پر کاری ضرب لگاتی ہیں ۔مثلاً یہ تصورکہ نسل صرف بیٹوں سے چلتی ہے بیٹیوں سے نہیں۔ اگرماں باپ دونوں کی طرف سے جینز یکساں طورپر منتقل ہوتے ہیں تو ان کی نسبت بھی یکساں ہوئی۔ یوں مرد و عورت کی نسل لڑکے اورلڑکی اور ان کی اولاد وں میں یکساں طورپر چلتی چلی جاتی ہیں۔ اور نسلی تعلق کے لحاظ سے بیٹے بیٹی اور پوتے نواسے میں کوئی فرق نہ رہا۔لیکن ایشیائی اور افریقی ممالک میں کتنے لوگ ایسا سمجھتے ہیں!؟
ماں باپ دونوں کی طرف سے یکساں جین اولاد میں منتقل ہونے کی تھیوری نے رحمی تعلقات کی اہمیت بھی خوب اجاگر کی ہے۔ رشتہ دار باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے دونوں کے ساتھ آپ کے جین یکساں طورپر مشترک ہوتے ہیں اور ان میں سے کسی کو اپنی زبان یاہاتھ سے دکھ پہنچانا ایسے ہی ہے جیسے خود اپنے وجود کے ایک حصہ کوخارش کرتے کرتے زخمی کردینا۔
الغرض صدیوں سے جو تصورات چلے آتے ہیں ان کا اگر جدید سائنسی انکشافات کی روشنی میں جائزہ لیاجائے تو کافی دلچسپ باتیں سامنے آ سکتی ہیں۔ صلائے عام ہے یاران نکتہ دان کے لئے ۔
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۲؍جنوری ۱۹۹۸ء تا۸؍جنوری ۱۹۹۸ء)