آسٹریلیا کے تنہا اور اداس مردوں اور عورتوں کی تعداد میں معتدبہ اضافہ
چوہدری خالد سیف اللہ خان
آسٹریلیا کی Monash University کے ایک حالیہ سروے کے مطابق یہاں کا معاشرہ ایک سماجی انقلاب کے دور میں سے گزر رہاہے ۔ جسے انہوں نے “Home Alone Revolution” یعنی ’’گھر کی تنہائی کا انقلاب‘‘ کانام دیاہے۔ اب تیس اور چالیس سال کے درمیانی عمر کے جوان مرد وں اور عورتوں میں سے نصف ایسے ہیں جو شادی کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ عمر کے اس حصہ کے دس فیصد افراد ڈی فیکٹو میاں بیوی کے طور پر رہتے ہیں ان کو بھی شامل کرکے بقیہ ۴۰ فیصد افراد اداس تنہا شامیں بسر کرتے ہیں۔ ۱۹۸۶ء اور ۱۹۹۶ء کے درمیان شاد ی کرنے والے افراد کی تعداد میں ۱۳فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔
دس سال پہلے تیس اور چونتیس سال کی عمر کی مستورات میں ۸۸فیصد ایسی تھیں جنہوں نے ایک بار کبھی شادی کی تھی خواہ بعد میں علیحدگی ہو گئی ہو لیکن اب یہ تعداد گر کر ۷۷فیصد ہو گئی ہے۔ آجکل ۲۵تا ۲۹ سال کی عمرکی عورتوں میں سے ۵۵ فیصد ایسی ہیں جو بغیر خاوند یا پارٹنر کے زندگی بسر کر رہی ہیں ۔غیر شادی شدہ عورتوں کے ہاں بچوں کی پیدائش میں گزشتہ دس سال میں ۷۰فیصد اضافہ ہواہے۔
یونیورسٹی کے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اکثر نوجوانوں کی آمد اتنی نہیں ہوتی کہ وہ لڑکیوں کی توجہ کو جذب کر سکیں۔ چنانچہ ۱۵۶۰۰ ڈالرسالانہ کمانے والے مرد جو ۳۰ اور ۳۴ سال کی عمروں کے درمیان ہیں ان میں سے ۵۰ فیصد شادی یا بغیر شادی کے اکٹھے رہ رہے ہیں جبکہ اسی عمر کے وہ مرد جو ۵۲۰۰۰ہزار ڈالر سالانہ سے زیادہ کماتے ہیں ۷۶ فیصدکسی نہ کسی طرح اکٹھے رہ رہے ہیں۔ لہذا جن کی آمد تھوڑ ی ہے ان کے عمر بھر کنوارہ رہنے کا امکان بہت زیادہ ہے ۔ دوسری طرف جو عورتیں زیادہ پڑھی لکھی ہیں اور صاحب پوزیشن ہیں وہ کسی کوخاوند تسلیم کرکے جونئر حیثیت میں نہیں آنا چاہتیں۔ ان کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں کہ اہلی ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔ اس لئے وہ اکیلی آزادانہ زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں ۔(سڈنی ہیرلڈ۸۹۔۱۰۔۹)
خاندان ، معاشرہ کی تعمیر کے لئے بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ خوشحالی اور مطمئن معاشرہ خوشحال گھرانوں کا محتاج ہے۔ جیسی اینٹیں ہونگی ویسی ہی عمارت بنے گی۔ اللہ تعالیٰ نے شادی کا نظام اس بنیادی اینٹ کی مضبوطی کے لئے یعنی اس کو جسمانی اخلاقی اور روحانی آفتوں سے محفوظ رکھنے کے لئے قائم فرمایا تھا۔ مگر اس سے پہلو تہی کی جا رہی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گھروں کا امن و سکون روایتی خاندان اور گھرانوں کے قائم رکھنے میں ہی ہے ۔ یہ مسائل اب ہر مشرقی و مغربی معاشرہ میں بڑی تکلیف دہ صورت میں سر اٹھا رہے ہیں ۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔ ہر شخص دیکھ سکتاہے۔ مونیشن یونیورسٹی کا تجزیہ بھی اسی کی تائید کرتاہے۔
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍اپریل۱۹۹۹ء تا۲۹؍اپریل ۱۹۹۹ء)