حضرت ثابت بن اقرم بن ثعلبہؓ
حضرت ثابت کا نام حضرت ثابت بن اقرم بن ثعلبہ بن عدی بن عجلان تھا۔ انصاری قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے حلیف تھے۔ آپ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک رہے۔(الاستیعاب جلد 1 صفحہ 199 ثابت بن اقرمؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو عاصم بن عدی کو مسجد دی کہ وہ اس میں اپنا گھر بنائیں مگر عاصم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں اس مسجد کو گھر نہیں بناؤں گا جس میں اللہ تعالیٰ نے جو اتارنا تھا اس کو اتارا ہے۔ البتہ آپ اس کو ثابت بن اقرم کو دے دیں کیونکہ اس کے پاس کوئی گھر نہیں ہے تو آپؐ نے حضرت ثابت بن اقرم کو یہ جگہ عطا فرما دی۔ ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 5صفحہ 677 باب ذکر امر مسجد الضرار … الخ مطبوعہ القاہرہ 1992ء)
غالباً یہ جگہ جو دی تھی وہ مسجد کا حصہ ہو گی یا اس کے قریب ترین جگہ ہو گی اور کسی وقت میں وہاں نمازیں بھی پڑھی جاتی ہوں گی۔
پھر جنگ موتہ میں حضرت عبداللہ بن رواحہ کی شہادت کے بعد اسلامی جھنڈا حضرت ثابت بن اقرم نے اٹھایا اور کہا کہ اے مسلمانوں کے گروہ! اپنے میں سے کسی ایک شخص کو اپنا سردار مقرر کرو۔ لوگوں نے کہا ہم آپ کو مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ اس پر لوگوں نے حضرت خالد ؓبن ولید کو اپنا سردار مقرر کر لیا۔ ابن ہشام کی سیرۃ النبیؐ میں اس کا ذکر ہے۔(سیرت ابن ہشام صفحہ 533 باب ذکر غزوہ موتہ … الخ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
تاریخ میں آتا ہے کہ جنگ موتہ کے موقع پر جب مسلمانوں نے دشمن کا لشکر دیکھا تو اس کی تعداد اور سازو سامان کو دیکھ کر انہوں نے گمان کیا کہ اس لشکر کا کوئی مقابلہ نہیں۔ تو حضرت ابوہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے جنگ موتہ میں شرکت کی۔ جب دشمن ہمارے قریب آیا تو ہم نے دیکھا کہ تعداد، اسلحہ، گھوڑوں اور سونے اور ریشم وغیرہ میں اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ اس پر حضرت ثابت بن اقرم نے مجھ سے کہا کہ اے ابوہریرہ! تیری حالت ایسی لگتی ہے جیسے تو نے کوئی بہت بڑا لشکر دیکھ لیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں میں نے کہا ہاں۔ اس پر حضرت ثابت نے کہا کہ تم ہمارے ساتھ بدر میں شامل نہیں ہوئے۔ ہمیں وہاں بھی کثرت تعداد کے ذریعہ فتح نہیں ملی تھی۔ (سبل الہدیٰ والرشاد جلد 6 صفحہ 148 باب فی سریۃ موتہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1993ء)
بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملی تھی اور یہاں بھی یہی ہو گا۔
حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں حضرت خالد بن ولید کے ساتھ آپ مرتدین کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت خالد بن ولید لوگوں کے مقابلہ پر روانہ ہوتے وقت اگر اذان سنتے تو حملہ نہ کرتے اور اگر اذان نہ سنتے تو حملہ کر دیتے۔ جب آپؓ اس قوم کی طرف پہنچے جو بُزاخہ مقام میں تھی تو آپ نے حضرت عکاشہ بن محصن اور حضرت ثابت بن اقرم کو مخبر بنا کر بھیجا کہ دشمن کی خبر لائیں اور وہ دونوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ حضرت عکاشہ کے گھوڑے کا نام الزرام تھا اور حضرت ثابت کے گھوڑے کا نام المحبرتھا۔ بہرحال ان دونوں کا سامنا طلیحہ اور اس کے بھائی سلمہ سے ہوا۔ یہ انہی کی طرح مخبری کرنے کے لئے آگے آئے ہوئے تھے ، اپنےلشکر سے آگے آئے ہوئے تھے۔ طلیحہ کا سامنا حضرت عکاشہ سے ہوا اور سلمہ کا حضرت ثابت سے۔ اور یہ جو بھائی تھے ان دونوں نے ان دونوں صحابہ کو شہید کر دیا۔ ابوواقد لَیثی سے ایک روایت ہے کہ ہم دو سو سوار لشکر کے آگے آگے چلنے والے تھے اور زید بن خطاب ہمارے امیر تھے اور ثابت اور عکاشہ ہمارے آگے تھے۔ جب ہم لوگ ان کے پاس سے گزرے تو ہمیں یہ منظر شدید ناگوار گزرا۔ (ان کی شہادت کے بعد جب پیچھے سے یہ لشکر گزرا۔) حضرت خالدؓ اور باقی مسلمان ہمارے پیچھے تھے۔ ہم ان مقتولوں کے پاس کھڑے رہے، یہ جو شہید ہوئے تھے یہاں تک کہ حضرت خالدؓ آئے اور ان کے حکم سے ہم نے ثابت اور عکاشہ کو ان کے خون آلود کپڑوں میں وہیں دفن کردیا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 355-356 ثابت بن اقرمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
روایت میں آتا ہے کہ جب طلیحہ مسلمان ہوئے تو حضرت امیر المومنین عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ میں تم سے محبت نہیں کروں گا تم دو مسلمان حضرت عکاشہ اور حضرت ثابت بن اقرم کے شہید ہونے کی وجہ ہو۔ یہ شہید کرنے والے جو تھے بعد میں مسلمان بھی ہو گئے تو ان کو حضرت عمرؓ نے یہ جواب دیا کہ تمہارے سے محبت نہیں مجھ کو ہو سکتی کیونکہ تم دو مسلمانوں کو شہید کرنے والے ہو۔ اس پر طلیحہ نے کہا کہ یا امیر المومنین! ان کو تو اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں سے عزت عطا فرمائی ہے۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی جلد 8 صفحہ 580-581 کتاب الاشربۃ باب قتال اھل الردۃ و … الخ حدیث 17631 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ محمد بن عمر کہتے ہیں کہ حضرت ثابت کو طلیحہ نے بارہ ہجری میں بُزاخہ کے مقام پر شہید کیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 355-356 ثابت بن اقرمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)