حضرت ثعلبہ بن حاطبؓ
حضرت ثعلبہ بن حاطبؓ کا تعلق بنو عمرو بن عوف سے تھا۔ غزوۂ بدر اور احد میں یہ شریک ہوئے۔(اصحاب بدر از قاضی محمد سلیمان منصور پوری صفحہ 136، مکتبہ اسلامیہ 2015ء)
جیسا کہ بتایا قبیلہ اوس کی شاخ بنو عمرو بن عوف سے تعلق تھا۔ غزوہ بدر اور بعض دوسرے غزوات میں بھی ان کی شرکت کی روایات ملتی ہیں۔ (صحابہ کرام کا انسائیکلوپیڈیا از ڈاکٹر ذوالفقار کاظم صفحہ 450، ثعلبۃ بن حاطب انصاری، بیت العلوم لاہور )
حضرت اُمامہ باھلی بیان کرتے ہیں کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر یہ عرض کی کہ اے اللہ کے رسول اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مال عطا کرے۔ آپؐ نے اس پر فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ بہت تھوڑے ہیں جو شکر کرتے ہیں اور مال کو سنبھالنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ دعا نہیں کی کچھ دیر کے بعد پھر وہ آئے اور عرض کی کہ دعاکریں مجھے مال عطا ہو جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تیرے لئے میرا اسوۂ حسنہ کافی نہیں ہے جو مال کی خواہش کر رہے ہو؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر میں پہاڑ کو کہوں کہ وہ میرے لئے سونے اور چاندی کا بن جائے تو ایسا ہی ہو جائے لیکن آپؐ نے کہا میں ایسا نہیں کرتا۔ مال سے زیادہ رغبت نہیں رکھنی چاہئے۔ پھر تیسری دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پھر اسی طرح عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے دعا کریں کہ مجھے مال عطا ہو۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ ثعلبہ کو مال عطا کر دے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ان کی چند بکریاں تھیں اور اس کے بعد اس میں اتنی برکت پڑی اور اس طرح وہ بڑھیں جس طرح کیڑے مکوڑے بڑھتے ہیں۔اور پھر یہ ہوا کہ ان کو سنبھالنے کے لئے انہوں نے ظہر عصر کی نمازوں پر بھی مسجد میں آنا چھوڑ دیا اور وہیں پھر پڑھنے لگے۔ اَور زیادہ بڑھ گئیں تو جمعہ پہ بھی نہیں آتے تھے۔ جمعہ پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا احوال پوچھا کرتے تھے تو ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ اس کے پاس بکریوں کا اتنا بڑا ریوڑ ہے کہ پوری وادی بھری ہوئی ہے اس لئے ان کو سنبھالنے میں وقت لگ جاتا ہے، وہ نہیں آتے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بڑے افسوس کا اظہار کیا۔ تین دفعہ افسوس کا اظہار کیا۔ پھر جب زکوٰۃ کی آیات نازل ہوئیں تو آپ نے زکوٰۃ لینے کے لئے دو آدمیوں کو بھیجا۔ یہ لوگ جب ثعلبہ کے پاس گئے تو انہوں نے کچھ بہانہ بنایا اور زکوٰۃ نہیں دی۔ انہوں نے کہا اچھا میں سوچتا ہوں۔ تم لوگ باقی جگہوں پہ زکوٰۃ لینے جا رہے ہو، وہاں سے ہو کے واپس آؤ۔ یہ لوگ اور جگہوں پر گئے اور دوسری جگہ جہاں گئے تھے ایک شخص نے اپنے بہترین اونٹوں میں سے زکوٰۃ دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بہترین تو نہیں مانگا تھا انہوں نے کہا نہیں ہم اپنی خوشی سے دے رہے ہیں۔ بہرحال یہ ایک لمبا قصہ ہے اور انہوں نے زکوٰۃ نہیں دی اور زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے جولینے کے لئے گئے تھے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر جب یہ رپورٹ دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت یہ آیات اتریں کہ وَمِنْھُمْ مَّنْ عَاھَدَ اللہَ لَئِنْ اٰتَانَامِنْ فَضْلِہٖ اور پھر یہ وَبِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ (التوبہ 75-77) تک سورۃ توبہ کی پچھتر سے ستتر تک آیات ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت ثعلبہ کا ایک عزیز بیٹھا ہوا تھا۔ یہ بات سن کر وہ ثعلبہ کے پاس گیا اور کہا اے ثعلبہ تجھ پر افسوس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تیرے بارے میں فلاں فلاں آیت نازل کی ہے۔ ثعلبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر عرض کرنے لگا کہ مجھ سے زکوٰۃ قبول کی جائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اب تجھ سے وصول کرنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے منع کر دیا ہے۔ چنانچہ واپس ناکام و نامراد گیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں وہ زکوٰۃ لے کے آئے حضرت ابوبکرؓ نے بھی قبول نہیں کی۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں آئے انہوں نے بھی قبول نہیں کی کہ جس بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا میں کس طرح قبول کر سکتا ہوں۔ پھر حضرت عثمانؓ جب خلیفہ بنے تو ان کے پاس آ کر کہنے لگے میری زکوٰۃ قبول کریں تو یہ قبول نہیں کی گئی اور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں ہی ان کی وفات ہو گئی۔(اسد الغابۃ جلد 1 صفحہ 325-326،ثعلبۃ بن حاطب، دار الفکر النشر و التوزیع بیروت 2003ء)
اب یہ واقعہ جو ہے یہ ساتھ ایک طرف بدری صحابہ کے بارے میں ہے کہ وہ جنت میں جانے والے ہیں۔ دوسری طرف زکوٰۃ قبول نہ کرنے کے بارے میں یہ ایک لمبی روایت چل رہی ہے۔ میرے دل میں بھی خیال پیدا ہوا تھا اس کو سن کے، پڑھ کے، آپ لوگوں کے دلوں میںبھی ہوا ہو گا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ لگتا ہے کہ یہ روایت غلط ہے، کسی اور کے بارے میں ہو گی۔ چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے بھی اس کو اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر یہ صحیح ثابت ہو جائے کہ کسی صحابی سے زکوٰۃ لینے کا اور نہ لینے کا یہ واقعہ اس طرح ہی ہوا تھا، تو پھر اس قصہ والی شخصیت کے بارے میں میرے خیال میں اسے حضرت ثعلبہ کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں ہوگا کیونکہ آپ بدری صحابی تھے اور بدری صحابہ کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے کھلا بخشش کا اعلان فرمایا ہوا ہے اور ان میں منافقت اور کسی قسم کی کمزوری نہیں ہو سکتی تھی۔ علامہ ابن حجر عسقلانی یہ لکھتے ہیں کہ ابن قلبی کے قول سے اس بات میں فرق یقینی ہو جاتا ہے کہ بدری صحابی احد میں شہید ہو گئے جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابن مردویہ نے عطیہ کی سند سے بحوالہ ابن عباس مذکورہ آیت کے متعلق اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے جو فرماتے ہیں کہ ایک شخص تھا جسے ثعلبہ بن ابی حاطب کہا جاتا تھا وہ انصار میں سے تھا ان کی ایک مجلس میں آ کر کہنے لگا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے نوازے پھر، یہ سارا طویل قصہ جو بیان ہے بیان کیا۔ یہ ثعلبہ بن ابی حاطب ہے اور بدری صحابی کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ وہ ثعلبہ بن حاطب ہیں اور یہ روایت پایہ ثبوت تک پہنچی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو لوگ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھے ان میں سے کوئی مسلمان بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔ نیز وہ ایک حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر سے فرمایا جو چاہے کرو، مَیں نے تمہاری مغفرت کر دی۔ تو یہ لکھتے ہیں کہ جس کا یہ مرتبہ ہو اسے اللہ تعالیٰ دل میں نفاق کا بدلہ کیسے دے گا؟ دل میں اگر نفاق ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ جنت میں جانے کا بدلہ ملے۔ پھر لکھتے ہیں کہ اور جو کچھ نازل ہوا اس کے متعلق کیسے نازل ہو سکتا ہے جس کے دل میں نفاق ہو! لہٰذا یہ بات ظاہر ہو گئی کہ وہ اس شخصیت کے علاوہ ہیں۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 1صفحہ 516-517، ثعلبۃ بن حاطب، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
یعنی حضرت ثعلبہ جو تھے وہ نہیں تھے یہ اَور تھے۔ یہ پہلے شہید ہو گئے تھے۔ اور جس کا ذکر ہے وہ ثعلبہ بن ابی حاطب ہے۔ اب نام ملتے جلتے ہیں اس لئے یہ غلط فہمی ہوئی۔ اس لئے ثعلبہ بن حاطب اور ثعلبہ بن ابی حاطب دو مختلف شخصیتیں ہیں۔ پس یہ غلط فہمی کسی بدری صحابی کے بارے میں کبھی نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے کوئی ایسی حرکت کی ہو گی۔ اللہ جزا دے علامہ ابن حجر عسقلانی کو کہ انہوں نے بھی اس مسئلہ کو بڑا کھول کے بیان کر دیا اور اس بدری صحابی پہ جو الزام لگ رہا تھا ان کی اس تاریخی روایت سے ہی ان کی بریت ثابت ہوگئی۔