حضرت جابر بن عبداللہؓ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت جابر بن عبداللہ تھے اور یہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام کے بیٹے تھے۔ عبداللہ بن عمرو بن حرام وہی صحابی ہیں جن کے ذکر کے حوالے سے چند جمعہ پہلے میں نے بتایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا تھا کہ تمہاری کیا خواہش ہے؟ بتاؤ میں پوری کروں۔ تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ میری خواہش ہے کہ دوبارہ زندہ کر کے دنیامیں بھیجا جاؤں اور پھر تیری راہ میں شہید ہو جاؤں۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنّت کے خلاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو نہیں ہو سکتا کیونکہ مرنے والے دوبارہ دنیا میں نہیں لوٹائے جاتے۔ (سنن الترمذی ابواب تفسیرالقرآن باب ومن سورۃ آل عمران حدیث 3010)۔ اس کے علاوہ بتاؤ کیا بات ہے۔ تو بہرحال اس سے ان کی قربانی کے معیار اور اللہ تعالیٰ کے ان سے غیر معمولی سلوک کا پتہ چلتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ اپنے عظیم المرتبت صحابی باپ کے بیٹے تھے اور بچپن میں ہی بیعت عقبہ ثانیہ کے دوران انہوں نے بیعت کی تھی۔ (اسد الغابہ جلد اوّل صفحہ 492 جابر بن عبد اللہ بن حرامؓ مطبوعہ دار العلمیۃ بیروت 1996ء)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام کے واقعہ میں یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا تھا کہ یہودی سے لیا ہوا میرا جو قرض ہے میری شہادت کے بعد اس کو باغ کے پھل کو فروخت کر کے ادا کر دینا۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب ھل یخرج المیت من القبر واللحد لعلۃ حدیث 1351) (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 8 صفحہ 244 حدیث 1351 کتاب الجنائز باب ھل یخرج المیت من القبر واللحد لعلۃ مطبوعہ دار احیائ التراث العربی بیروت 2003ء)
روایت کے مطابق انہوں نے وہ قرض ادا کیا۔ اس کے علاوہ بھی اس زمانے میں رواج تھا کہ باغوں اور فصلوں کے مقابل پر قرض لیا جاتا تھا۔ حضرت جابر بھی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے قرض لیتے تھے۔ اس کا ایک تفصیلی واقعہ کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح آپ نے قرض کی واپسی کے وقت یہودی سے کہا کہ باغ کی آمد کم ہوئی ہے یا امکان ہے کہ پھل تھوڑا ہے آمد کم ہو گی اس لئے قرض کی وصولی میں سہولت دے دو۔ کچھ حصہ لے لو، کچھ آئندہ سال لے لو۔ لیکن وہ یہودی کسی قسم کی سہولت دینے کو تیار نہ ہوا اور پھر اس پریشانی میں جابر بن عبداللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں پتہ چلا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو سفارش کی لیکن وہ نہ مانا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اپنے اس صحابی سے اس کے قرض اتارنے کے سلسلہ میں شفقت فرمائی۔ دعا کی۔ اور کس طرح پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ اس کا ذکر روایات میں ملتا ہے۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ بعض یہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو یعنی حضرت جابر کے والد جو تھے ان کے قرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے کو قرض اتارنے کے سلسلہ میں نصیحت فرمائی تھی۔ بہرحال اس وقت پھل کم لگا تھا اور اس قرض کی ادائیگی مشکل تھی۔ پھر جیسا کہ میں نے بتایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک معاملہ پہنچا لیکن صحیح بخاری میں جو روایت ملتی ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ بعد میں کسی وقت کا واقعہ ہے۔ بہرحال جو بھی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے صحابہ سے شفقت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبولیت دعا کا معجزہ جس طرح بھی یہ بیان کیا جائے اس سے ظاہر ہوتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا جو میرے کھجوروں کے باغ کا نیا پھل تیار ہونے تک مجھے قرض دیا کرتا تھا۔ میری یہ زمین رومہ نامی کنوئیں والے راستہ پر واقع تھی۔ ایک بار سال گزر گیا مگر پھل کم لگا اور پوری طرح تیار بھی نہ ہوا۔ پھل کی برداشت کے موسم میں وہ یہودی حسب معمول اپنا قرض وصول کرنے آ گیا جبکہ اس سال میں نے کوئی پھل نہ توڑا تھا۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے مزید ایک سال کی مہلت مانگی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ اس کی نیت یہ تھی کہ اس طرح شاید یہ پورے کا پورا باغ میرے قبضہ میں آ جائے۔ تو اس واقعہ کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے صحابہ کو فرمایا کہ چلو ہم یہودی سے جابر کے لئے مہلت طلب کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مع چند صحابہ کے میرے باغ میں تشریف لائے اور یہودی سے بات کی۔ مگر یہودی نے کہا۔ اے ابوالقاسم! میں اسے مہلت نہیں دوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا۔ یہودی کا یہ رویّہ دیکھ کر آپ نے کھجور کے درختوں میں ایک چکر لگایا پھر آ کر یہودی سے دوبارہ بات کی۔ لیکن اس نے پھر انکار کر دیا۔ کہتے ہیں اس دوران مَیں نے باغ سے کچھ کھجوریں توڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیں جو آپ نے تناول فرمائیں۔ پھر فرمایا جابر یہاں تمہارا جو باغوں میں چھپّر سا ہوتا ہے آرام کرنے کی جگہ ہوتی ہے وہ کہاں ہے؟ میں نے بتایا تو آپ نے فرمایا کہ میرے لئے وہاں چٹائی بچھا دو تا کہ میں کچھ دیر آرام کروں۔ کہتے ہیں میں نے تعمیل ارشاد کی۔ آپ وہاں سو گئے۔ جب بیدار ہوئے تو میں پھر مٹھی بھر کھجوریں لایا۔ آپ نے ان میں سے کچھ کھائیں۔ پھر کھڑے ہوئے اور یہودی سے دوبارہ بات کی مگر وہ نہ مانا۔ آپ نے دوبارہ باغ کا چکر لگایا اور مجھ سے فرمایا جابر کھجوروں سے پھل اتارنا شروع کرو اور یہودی کا قرض ادا کرو۔ میں نے پھل اتارنا شروع کیا۔ اس دوران آپ کھجوروں کے درختوں میں کھڑے رہے۔ کہتے ہیں میں نے پھل توڑ کر یہودی کا سارا قرضہ ادا کر دیا اور کچھ کھجوریں بچ گئیں۔ میں نے حضور کی خدمت میں یہ خوشخبری عرض کی تو آپ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب الأطعمہ باب الرطب والتمر … الخ حدیث 5443)
یعنی یہ جو معجزہ ہوا۔ یہ جو غیرمعمولی واقعہ ہوا اس لئے ہوا کہ اللہ تعالیٰ میری دعائیں سنتا ہے اور میرے کاموں میں برکت ڈالتا ہے۔ پس جہاں اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور قبولیت دعا کی وجہ سے پھل میں برکت کا ہم واقعہ دیکھتے ہیں وہاں قرض کی ادائیگی کے لئے صحابہ کی بے چینی بھی نظر آتی ہے۔ پس یہ روح ہے جو حقیقی مومن کا ایک خاص امتیاز ہونی چاہئے۔ بعض دفعہ ہمیں یہاں اپنے معاشرے میں نظر آتا ہے کہ احمدی کہلا کر پھر اس کی فکر نہیں کرتے اور قرض اتارنے کے معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ سالوں گزر جاتے ہیں مقدمے چل رہے ہوتے ہیں۔ پس ہمیں بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں کہ میری بیعت میں آنے کے بعد پھر صحابہ کے نمونوں کو اپنے اوپر لاگو کرو۔ وہ اپناؤ۔ تبھی وہ خوبصورت معاشرہ قائم ہو سکتا ہے جو مہدی اور مسیح کے آنے کے بعد قائم ہونا تھا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 7 صفحہ 413)
قرض کی ادائیگی کی اہمیت کے بارے میں بھی حضرت جابر سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے لیکن اس سے پہلے ایک واقعہ بیان کر دوں کہ بعض روایت میں آتا ہے کہ جب یہ پتہ لگا قرض ادا ہو گیا ہے حضرت عمر بھی وہاں آئے۔ حضرت عمر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے پوچھو کیا واقعہ ہوا۔ تو آپ نے کہا مجھے پوچھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جب آپ نے باغ کا ایک چکر لگایا تھا تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب یہ پورے کا پورا قرض اس کا ادا ہو جائے گا۔ اور جب دوسرا چکر لگایا تو مزید پختہ یقین ہو گیا۔ (صحیح البخاری کتاب الاستقراض باب اذا قصا او جاذفہ فی الدین … الخ حدیث 2396، کتاب الھبۃ باب اذا وھب دینا علیٰ رجل حدیث 2601)
جیسا کہ میں نے کہا اس قرض کی ادائیگی کی اہمیت کے بارے میں حضرت جابر سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک صحابی پر دو دینار کا قرض تھا اور اس کی وفات ہو گئی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس پر دوسرے صحابی نے یہ ضمانت دی کہ میں ذمہ داری لیتا ہوں قرض اتارنے کی تو اس بات پر پھر آپ نے جنازہ پڑھایا۔ اور اگلے دن پھر اس ذمہ لینے والے سے پوچھا کہ تم نے جو دو دینار اپنے ذمہ لئے تھے وہ ادا بھی کر دئیے ہیں کہ نہیں؟ (مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 104-105 حدیث 14590 مسند جابر بن عبد اللہؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پس یہ اہمیت ہے قرض کی ادائیگی کی اور یہ فکر ہونی چاہئے۔ لیکن حضرت جابر سے یہ بھی روایت ملتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی مومن مال چھوڑ جائے تو یہ اس کے اہل و عیال کو ملتا ہے جو بھی جائیداد چھوڑے گا۔ اور اگر کوئی قرض چھوڑ جائے اور جائیداد بھی ہو اور ترکہ میں اس کی گنجائش نہ ہو کہ پورا قرض ادا ہو سکے یا بے سہارا اولاد چھوڑ جائے تو اس کی بے سہارا اولاد اور قرض کی ادائیگی کا انتظام کیا جائے گا۔ (صحیح مسلم کتاب الجمعۃ باب تخفیف الصلاۃ والحظبۃ حدیث 2005)۔ یعنی حکومت یہ کرے گی۔ ذمہ دار لوگ یہ کریں گے۔ یتیم کی پرورش اور اس کا اخراجات کا انتظام کرنا اس کی بہت زیادہ تلقین اسلام میں کی گئی ہے۔ اسی وجہ سے آپ نے یہ فرمایا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لگتا ہے کہ یہ دو جو مختلف روایتیں ہیں۔ ایک طرف تو آپ نے دو دینار قرض والے کا جنازہ پڑھنے سے انکار کیا دوسری دفعہ آپ نے فرمایا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ دو مختلف مواقع لگ رہے ہیں۔ پہلے تو بلا وجہ قرض لینے والوں کو یہ سمجھانے کے لئے ہے کہ قرض کی بڑی اہمیت ہے اور اس کے لواحقین کو اور قریبیوں کو اس ذمہ داری کو ادا کرنا چاہئے۔ اور دوسرے موقع پر اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ یتیم بچوں کی پرورش اور مرنے والے کی اگر جائیداد قرض اتارنے کی کفیل نہ ہو سکے تو اس کی ادائیگی کرنی چاہئے۔ پس یہ ہے اسلامی حکومتوں کے لئے ایک سبق جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا کہ کس طرح اسلامی حکومتوں کو اپنی رعایا کا خیال رکھنا چاہئے۔ لیکن بدقسمتی سے سب سے زیادہ رعایا کے حقوق جو مارے جا رہے ہیں وہ اسلامی حکومتوں میں ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت جابر پر شفقت کا ایک اور واقعہ بھی ملتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ مَیں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات سنی وہ بیان کریں۔ حضرت جابر نے کہا کہ میں ایک سفر میں آپ کے ساتھ تھا۔ راوی کہتے تھے کہ میں نہیں جانتا سفر جنگ کا تھا یا عمرہ کا۔ بہرحال جب ہم مدینہ کی طرف لوٹے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے گھر والوں کے پاس جلدی جانا چاہتا ہو وہ جلدی چلا جائے۔ حضرت جابر کہتے تھے کہ یہ سن کر ہم جلدی جلدی چلے اور میں اپنے ایک اونٹ پر سوار تھا جس کا رنگ خاکی تھا۔ کوئی داغ نہ تھا۔ لوگ میرے پیچھے تھے۔ میں اسی طرح جارہا تھا کہ وہ اونٹ اَڑ گیا۔ چلنے سے انکار کر دیا۔ میرے چلانے سے بھی نہ چلا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو مجھے کہا کہ جابر ذرا مضبوطی سے اس کے اوپر بیٹھو اور یہ کہہ کر آپ نے اس کو اپنے کوڑے سے ایک ضرب لگائی تو اونٹ اپنی جگہ سے کود کر چل پڑا اور اس کے بعد بڑی تیزی سے چلنا شروع ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اس اونٹ کو بیچتے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں بیچتا ہوں۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کئی صحابہ کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے تو میں بھی آپ کے ساتھ گیا اور اس اونٹ کو مسجد کے سامنے پتھر کے فرش کے ایک کونے میں باندھ دیا۔ میں نے آپ سے کہا یہ آپ کا اونٹ ہے۔ آپ باہر نکلے اور آپ نے اس اونٹ کے ارد گرد چکر لگایا۔ فرمایا یہ اونٹ ہمارا اونٹ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے کئی اوقیے بھیجے اور فرمایا یہ جابر کو دے دو۔ پھر آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے قیمت پوری کی پوری لے لی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں لے لی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ قیمت اور یہ اونٹ تمہارا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد باب من ضرب دابۃ غیرہ فی الغزو حدیث 2861)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت فرماتے ہوئے اس اونٹ کو بھی واپس کر دیا اور قیمت بھی ادا کردی۔
ہو سکتا ہے یہ بھی وجہ ہو کہ ایک روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہ پانی لانے کے لئے یہ اونٹ استعمال ہوتا تھا اور حضرت جابر کے ماموں اور رشتہ دار بھی اس کو استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے اعتراض بھی کیا کہ کیوں تم نے بیچ دیا۔ اب ہم پانی کس طرح لائیں گے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد باب استئذان الرجل الامام حدیث 2967) تو بہرحال یہ شفقت تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اور ان صحابہ کو جنہوں نے خاص قربانیاں دی ہوں ان کے بچوں کے ساتھ یہ فرمایا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند کرے اور یہ مختلف واقعات جو میں بیان کرتا رہتا ہوں ہمیں بھی توفیق دے کہ ان نیکیوں کو جاری رکھیں اپنے اوپر بھی لاگو کریں۔