حضرت جابر بن عبداللہ بن رِئَابؓ
حضرت جابر بن عبداللہ بن رِئَاب کا شمار ان چھ انصار میں کیا جاتا ہے جو سب سے پہلے مکہ میں اسلام لائے۔ حضرت جابر بدر اور احد اور خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 431 جابر بن عبد اللہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
بیعت عقبہ اولیٰ سے قبل انصار کے چند لوگوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ میں ملاقات ہوئی جن کی تعداد چھ تھی۔ وہ چھ اصحاب یہ تھے اَسْعَد بن زُرَارَہ۔ عوف بن حارث۔ رَافِع بن مالِک بن عَجْلَان اور قُطْبَہ بن عَامِر بن حَدِیْدَۃ اور عُقْبَہ بن عَامِر نَابی اور جابر بن عبداللہ بن رِئَاب۔ یہ سب لوگ مسلمان ہو گئے۔ جب یہ لوگ مدینہ آئے تو انہوں نے مدینہ والوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 492 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
اس کا تفصیلی ذکر پہلے عُقْبَہ بن عَامِر نَابی کے ذکر میں ہو چکا ہے۔ مختصر ذکر میں یہاں کر دیتا ہوں۔ یہ لوگ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہوئے تو جاتے ہوئے عرض کیا کہ ہمیں خانہ جنگیوں نے بہت کمزور کر دیا ہے۔ ہمارے اندر آپس میں بہت نااتفاقیاں ہیں اور ہم یثرب میں جا کر اپنے بھائیوں کو اسلام کی تبلیغ کریں گے اور کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے پیغام کے ذریعہ سے، ہماری تبلیغ کے ذریعہ سے ہمیں پھر جمع کر دے اور ہم جب اکٹھے ہو جائیں گے تو پھر ہر طرح آپؐ کی مدد کے لئے تیار ہوں گے۔ چنانچہ یہ لوگ گئے اور ان کی وجہ سے یثرب میں اسلام کا چرچا ہونے لگا۔ یہ سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں یثرب والوں کی طرف سے ظاہری حالات اور اسباب کے لحاظ سے اس طرح گزارا جس میں خوف بھی تھا اور امید بھی تھی کہ دیکھیں یہ چھ مصدقین جو گئے ہیں، جنہوں نے بیعت کی ہے ان کا کیا انجام ہوتا ہے۔ آیا یثرب میں بھی کوئی کامیابی ملتی ہے، کوئی امید بنتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ باقی جگہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف بڑا انکار تھا بلکہ مخالفت بھی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ مکہ اور رؤسائے طائف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو سختی سے ردّ کر چکے تھے اور دیگر قبائل بھی ان کے زیر اثر ایک ایک کر کے ردّ کر رہے تھے۔ تو ان کی بیعت کی وجہ سے مدینہ میں ایک امید کی کرن پیدا ہوئی تھی لیکن اس کی بھی کوئی تسلی نہیں تھی۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یہ چھ ماننے والے جن سے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے اگر ان کے خلاف بھی دشمن کھڑا ہوا تو یہ مصیبتوں اور مشکلات کا مقابلہ کر سکیں گے۔
بہرحال یہ گئے، انہوں نے تبلیغ کی، لیکن اس دوران میں مکہ والوں کی طرف سے بھی دشمنی اور مخالفت روز بروز بڑھ رہی تھی اور وہ لوگ اس بات پہ پُر یقین تھے کہ اسلام کو مٹانے کا اب یہی وقت ہے کیونکہ اگر مکہ سے باہر نکلنا شروع ہو گیا اور پھیلنا شروع ہو گیا تو پھر اسلام کو مٹانا مشکل ہو گا۔ اس لئے مکہ والوں نے بھی مخالفت اپنے پورے زوروں پر کی ہوئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے مخلص صحابہ جو تھے جنہوں نے بیعت کی تھی، مسلمان ہوئے تھے ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی بات پر قائم تھے۔ کوئی بات ان کو اسلام کی تعلیم سے اور اسلام سے ہٹا نہیں سکتی تھی، توحید سے ہٹا نہیں سکتی تھی۔ بہرحال اسلام کے لئے ایک بہت نازک وقت تھا اور امید بھی تھی، خوف بھی تھا کہ مدینہ میں یہ لوگ گئے ہیں تو دیکھیں ان کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ پھر اگلے سال مدینہ سے ایک وفد پھر حج کے موقع پر آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے شوق کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے اور منیٰ کی جانب عقبہ کے پاس پہنچ کر اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو اچانک آپؐ کی نظر یثرب کی ایک چھوٹی سی جماعت پر پڑی جنہوں نے آپؐ کو دیکھ کر فورًا پہچان لیا اور نہایت محبت اور اخلاص سے آگے بڑھ کر آپؐ کو ملے۔ ان میں سے پانچ تو وہی تھے جو پہلے بیعت کر کے گئے تھے اور سات نئے تھے اور یہ لوگ اوس اور خزرج دونوں قبیلوں میں سے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر لوگوں سے الگ ہو کر ایک گھاٹی میں، ایک وادی میں ان کو ایک طرف لے گئے اور وہاں سے جو یہ بارہ افراد کا وفد آیا تھا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یثرب کے حالات کی اطلاع دی اور ان سب نے باقاعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور یہی بیعت جو تھی یثرب میں اسلام کے قیام کا بنیادی پتھر تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جن الفاظ میں بیعت لی وہ یہ تھے کہ ہم خدا کو ایک جانیں گے۔ شرک نہیں کریں گے۔ چوری نہیں کریں گے۔ زنا کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ قتل سے باز رہیں گے۔ کسی پر بہتان نہیں باندھیں گے اور ہر نیک کام میں آپؐ کی اطاعت کریں گے۔ بیعت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ دیکھو اگر تم صدق و ثبات کے ساتھ، سچائی کے ساتھ، مضبوطی کے ساتھ اس عہد پر قائم رہے تو تمہیں جنت نصیب ہو گی اور اگر کمزوری دکھائی تو پھر تمہارا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ وہ جس طرح چاہے گا پھر تمہارے سے سلوک کرے گا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 222 تا 224)
بہرحال پھر ان لوگوں نے اپنے عہد بیعت کو ثابت کر کے دکھایا۔ نہ صرف ثابت کر کے دکھایا بلکہ اعلیٰ ترین معیار تک پہنچایا اور پھر ہم بعد کے حالات دیکھتے ہیں کہ کس طرح پھر مدینہ میں اسلام پھیلا۔