جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے والے مہمانوں اور میزبانوں کے لئے ہدایات
سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی مختلف اوقات میں فرمودہ ہدایات کا انتخاب
ظہور احمد بشیر، لندن
جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کے پروگراموں کا ایک اہم حصہ ہے ۔ اس کا آغاز سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خود فرمایا اور اس کی غیر معمولی اہمیت اور اغراض و مقاصد کو تفصیل سے بیان فرمایا اور مہمانوں اور میزبانوں کے لئے نہایت اہم زریں ہدایات ارشاد فرمائیں۔جلسہ کی اہمیت کا ذکر ایک موقع پر آپ نے یوں فرمایا:۔
’’ اس جلسہ کو معمولی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں ۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائیدِ حق اوراعلائے کلمۃ اللہ پر بنیاد ہے ۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اوراس کے لئے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کافعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۳۴۱)
اسی طرح فرمایا:۔
’’ہر یک صاحب جو ا س للہی جلسے کے لئے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجرعظیم بخشے اور ان پررحم کرے۔ اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دور فرمائے۔ اور ان کو ہریک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے۔ اور ان کی مرادات کی راہیں ان پرکھول دیوے۔ اور روزِآخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پراس کا فضل ورحم ہے۔ تااختتام سفر ان کے بعد ان کاخلیفہ ہو ‘‘۔ (اشتہار ۷؍دسمبر ۱۸۹۲ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۳۴۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۰ء کے چارسالوں میں مختلف خطبات جمعہ میں جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے والے مہمانوں اور میزبانوں کو جو ہدایات ارشاد فرمائیں ان کا ایک انتخاب کم و بیش حضور ایدہ اللہ ہی کے مبارک الفاظ میں ہدیۂ قارئین ہے ۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ تمام شاملین جلسہ کو ان ارشادات پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق بخشے۔
مہمانوں ومیزبانوں کے لئے عمومی نصیحتیں
ذکرِ الٰہی اور درود شریف میں وقت گزاریں:
ذکر الٰہی اور درود شریف پڑھنے میں اپنا وقت گزاریں اور التزام کے ساتھ نماز باجماعت کی پابندی کریں ۔ فضول گفتگو سے اجتناب کریں ۔ باہمی گفتگو میں دھیما پن ہو اور وقار ہو۔ تلخ گفتگو آپ کو بھی تکلیف دیتی ہے اور جس دل پر جا کے پڑتی ہے ا س کو بھی تکلیف دیتی ہے ۔ پس یادرکھیں کہ دل سے تلخی کو نہ اٹھنے دیں ۔ اگرہے اور مجبوری ہے تواس کو دباجائیں خدا کی خاطر صبر اختیار کریں تو اس سے انشاء اللہ آپ بھی پاک صاف رہیں گے اور آپ کا ماحول بھی پاک صاف رہے گا ۔ جلسہ کی کارروائی وقار کے ساتھ سننی چاہئے ۔
کسی کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ شخص جس سے ایک شخص کو ٹھوکر لگے ، بہتر تھا کہ وہ نہ پیدا ہوتا۔ پس جہاں تک ٹھوکر لگانے کا مسئلہ ہے اس کا جرم اور بھی زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔ پس میں امید رکھتا ہوں کہ خواہ وہ مقامی دوست ہوں خواہ باہر سے آنے والے ہوں اپنے آپ کو سنبھال کر رکھیں کہ ایسے جلسے میں شرکت کر رہے ہیں جس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ۔
اپنی مرکزی حیثیت کو کبھی نہ بھولیں:
آپ بحیثیت جماعت توحید کے علمبردار اس وقت بنیں گے جب آ پ دنیا میں خدا کے نیچے خدا کی روحوں کو ایک کر دیں گے بہت سے ملکوں میں ان روحوں کے ساتھ کچھ گندگیاں لپٹ گئی ہیں، کچھ کپڑے چمٹے ہوئے ہیں ، کچھ رنگ چمٹے ہوئے ہیں جو روحوں کے اپنے نہیں ہیں۔اپنی روحوں کو عالمی روح بنا ؤ اور روح ہے ہی عالمی۔ خدا نے اسے عالمی بنایا تھا ۔ انسانوں نے اس کو ملوث کر دیا، انسانوں نے اسے گندا کردیا ، انسانوں نے اسے شخصیتیں عطا کیں جو اس کی شخصیت نہیں ہیں۔ روح تو اللہ کے لئے صاف ہو جانے کا نام ہے اور پھر خدا کے رنگ ایسی روح پر چڑھتے ہیں اور خدا کے رنگ عالمی ہیں۔ آپ جب ایک دوسرے سے ملیں ایک دوسرے سے تعلق رکھیں تو اس مرکزی حیثیت کو کبھی نہ بھولیں۔ ہم سب ایک ہیں اور یہ ایک ہونا غیروں نے بھی محسوس کیا ہے ۔
عبادت کو اہمیت دیں:
ایک بات مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے….. کہ عبادت کو ترجیح دیں، عبادت کو اہمیت دیں۔ جلسہ عبادت کرنے والوں کا جلسہ ہے ۔ جلسہ اس مقصد کی خاطر ہے کہ خدا کے بندے خدا کے ہو جائیں جو عبادت کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ جو روح والی بات میں کہہ رہا ہوں اس کو صاف کرنے کا ایک ہی طریق ہے۔ جب آپ عبادت پر زور دیتے ہیں تو آپ کا تعلق اللہ سے ہو جاتا ہے۔ پھر آپ نہ ٹھوکر لگانے والے رہتے ہیں، نہ ٹھوکر کھانے والے ہوتے ہیں۔ جو شخص بھی عبادت کے ذریعہ اپنے رب کا ہو جائے اسے دنیا کا کوئی انسان بھی دھکا دے کر باہر نہیں کر سکتا۔ یہ اس کی استقامت ہے ۔یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وہ ’’ربنااللہ‘‘ کہہ کر پھر استقامت اختیار کرتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر فرشتے اترتے ہیں۔ ایسے ہی و ہ لوگ ہیں جن پر اس دنیا میں بھی اگلی دنیا کے رموز کھولے جاتے ہیں۔ ا ن کوکہا جاتا ہے کہ ہم اس دنیا میں بھی تمہارے ساتھ ہیں ، اس دنیا میں بھی تمہارے ساتھ رہیں گے۔
سلام کو رواج دیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا ’’ اَفْشُواالسَّلاَم‘‘ سلام نشر کرو اور یہ عادت آپ ڈالیں ۔ سلام کہنے سے دو باتیں پیش نظر رہیں گی۔ ایک تو یہ کہ آ پ ہر آنے والے کی عزت کر رہے ہونگے ۔ دوسرا یہ کہ سلام کہہ کر آ پ اس کو مطمئن کر رہے ہوں گے کہ آپ کی طرف سے اسے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ آپ کی طرف سے وہ یقیناًامن کی حالت میں رہے گا۔ پس ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سلام پھیلانے کی عادت ڈالیں۔
قادیان میں مجھے یاد ہے ایک بہت پیارا دستورتھا کہ دور دور سے آنے والوں کوبعض لوگ اس خیال سے کہ پہل ہم کریں پہلے ہی بہت اونچی آواز میں سلام کر دیا کرتے تھے ۔ حضرت مولوی شیرعلی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی یہی سنت تھی ۔ آپ ہمیشہ بلند آواز سے دور سے آنے والے کو سلام کہہ دیا کرتے تھے۔
خواتین پردہ کا اہتمام کریں:
خواتین کو میں ہمیشہ نصیحت کرتا ہوں کہ پردے کا لحاظ رکھیں۔اگر آپ احمدی ہیں اور مہمان کے طور پر آئی ہیں تو جلسے کے دنوں میں آپ پرفرض ہے اور آپ کے ماں باپ پر فرض ہے کہ آپ کو سلیقے کے ساتھ چلنا پھرنا سکھائیں۔ اگر پردے کی عمر نہیں بھی لیکن اتنی عمر ہو گئی ہے جو بیچ بیچ کی عمر ہوتی ہے جہاں پردہ پورا کرو نہ کرو درمیان میں اختیار ہوتاہے اس عمر کی بچیوں کو خصوصیت کے ساتھ اپنے سر کو اور اپنی چھاتی کو ڈھانپ کر رکھنا چاہئے اور ڈھانپتے وقت بالوں کی نمائش نہیں ہونی چاہئے۔
اعتراض کی بجائے حسن ظن رکھیں:
اگر کوئی ایسی مہمان خاتون ہو جس نے سنگھار پٹار بھی کیاہو اور پردے کا بھی لحاظ نہ ہو یہ خیال کرنا چاہئے کہ وہ غالباً احمدی نہیں ہے۔ لیکن بعض دوسرے دوست جو مثلاً عرب ممالک سے تشریف لاتے ہیں وہ ہر خاتون سے اسی طرح کے پردے کی توقع رکھتے ہیں جو ہم جماعت میں رائج کر رہے ہیں۔ تواول تو یہ خیال کریں کہ اعتراض میں جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ مومن، مومن پر حسن ظن کرتاہے اس لئے حسن ظن سے کیوں کام نہیں لیتے اور جو منتظمین ہیں ان کے لئے بھی مناسب نہیں ہے کہ ایسی عورتوں کو سخت لفظوں میں یا دوٹوک لفظوں میں کہیں کہ تم پردہ کرکے پھرو ۔ بعض دفعہ وہ عورتیں جن کو عادت ہوتی ہے وہ اس بات کو برا مناتی ہیں۔تو اس موقع پر ہر قسم کی آنے والیاں ہونگی ان کا لحاظ کریں اور لجنہ کی جو سلیقے والی بچیاں ہیں جن کو بات کرنے کا اچھا سلیقہ آتاہے ان کی ڈیوٹی ہونی چاہئے کہ ایسی عورتوں اور لڑکیوں کو علیحدگی میں نرم الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کریں۔ فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی نصیحت ضرور فائدہ پہنچاتی ہے۔
بعض دفعہ بعض احمدی خواتین ہیں جو نئی احمدی ہوئی ہیں ا ن کو بعض احمدیت کے رواجوں کا پتہ نہیں ۔ کچھ ایسے لوگ ہیں جو بیماری کی وجہ سے مجبورہیں۔ سر کو پوری طرح ڈھانپ نہیں سکتے۔ تو احمدی خواتین کے لئے تو لازم ہے کہ اگر انہوں نے کسی مجبوری سے پردہ نہیں کرنا تو سرکو ڈھانپیں۔
حفاظت(سیکورٹی) کا نظام:
جماعت احمدیہ کا جو حفاظت کا نظام ہے یہ کُل عالم میں یکتاہے اور اس میں ادنیٰ سا بھی مبالغہ نہیں۔ دنیا میں کہیں کسی اجتماع پر یا کسی دنیا کے بڑے سربراہ کے لئے حفاظت کا ایسا مؤثر انتظام نہیں ہوتا جتنا جماعت احمدیہ میں روایتاً رائج ہو چکا ہے۔ اس کے کچھ پہلو ہیں جو میں آپ کے سامنے کھول کر بیان کرنا چاہتاہوں۔
سب سے بڑی حفاظت کا انتظام توآپ خود ہیں۔ آنکھیں کھول کرپھریں اور جس شخص سے بھی آپ کو احساس ہو کہ خطرہ ہو سکتاہے اس کے متعلق چند باتیں پلّے باندھ لیں۔میری نصیحت ہے آنے والوں کو بھی اور رہنے والوں کو بھی جو بھی جلسے میں ہوں کہ اپنے دائیں بائیں کی حفاظت کریں۔ دنیا میں کہیں بھی یہ نظام رائج نہیں۔جب بھی کوئی شخص حملہ کرنا چاہتا ہے اس کو لازماً کوئی تیزی سے حرکت کرنی پڑتی ہے۔ وہ جیب کی طرف یا کہیں ہاتھ ڈالتا ہے اگر دائیں بائیں بیٹھے ہوئے ہوشیار ہوں تو ناممکن ہوجائے گا اس کے لئے کہ ایسی حرکت کرسکے ۔ پس اصل نگران تو اللہ ہی ہے مگر اللہ نے جو طریقے سمجھائے ہیں ان طریقوں پر عمل کرناتو ضروری ہے۔ تو اپنے دائیں بائیں سے بیدار مغز رہیں اور جو اچھے لوگ بھی ہیں بعض دفعہ ان میں بھی جن کو آپ اچھا سمجھ رہے
ہیں بعض بد چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے نگرانی کا یہ نظام سب پرحاوی کر دیں۔ ہر شخص اپنے دائیں بائیں کا نگران ہو ۔ اگر آپ یہ صورت اختیار کریں تو چلتے پھرتے آتے جاتے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ حفاظت کا انتظام ایسا اعلیٰ ہوگا کہ دنیا میں کبھی کسی سربراہ کے لئے ایسا انتظام نہ ہوا، نہ ہو سکتاہے۔ جب دور ویہ کھڑے ہوں تو اس وقت بھی اس کا خیال رکھیں۔
نظام جماعت کا فرض ہے کہ حفاظت کا انتظام بھی کرے اور ایسے لوگوں پر آنکھ رکھے جن کے متعلق احتمال ہے کہ وہ شرارت کی خاطر آئے ہیں پس
ایسے موقع پر آ پ کو کیا کرنا چاہئے۔ ایسے موقع پر جو انتظام ہے حفاظت کا اس کو چاہئے کہ موبائل فورس رکھے ۔ تو حکمت کے ساتھ حفاظت کا فرض پورا کرتے ہوئے اس کے اوپر کسی نگران کو مقرر کرتے ہوئے پھر آ پ انتظامیہ سے رابطہ کریں۔
حفاظت کے نظام میں کھڑے پہرہ داروں کی بجائے زیادہ سے زیادہ چلنے پھرنے والے عام طور پر پہرہ داروں کے طور پر شناخت نہ کئے جانے والے لوگ زیادہ ہونے چاہئیں۔ انکے پاسPassایسے پاس ہونے چاہئیں جواگرانتظام روکے تو دکھا دیں کہ ہم خاص حفاظت کے انتظام پر مقرر ہیں لیکن فری موبائل فورس یہ سیکیورٹی کے لئے یا حفاظت کے لئے بہت ہی ضروری ہے۔ضرورت سے زیادہ آدمی اور ڈنڈوں کی طرح نصب ہوئے ہوئے ، دوسری طرف منہ کئے ہوئے ۔ وہ خود ایک سیکیورٹی ٹارگٹ ہیں جس کو انگریزی میں Sitting Duck Target کہتے ہیں وہ تو ایک مرغابی کی طرح بیٹھے ہوتے ہیں جو چاہے ان کو نشانہ بنائے،انہوں نے کیا حفاظت کرنی ہے۔ مگر عام حالات میں پہرے کے لئے آ پ کو زیادہ سے زیادہ غیر معروف پہرے داروں کی ضرورت ہوتی ہے جو عام لوگوں میں ملیں جُلیں پھریں اور ان کو کوئی پہچانے نہ کہ یہ کون ہیں۔
اور دوسری بات اس میں ضروری ہے کہ آ پ زیادہ سے زیادہ مختلف ممالک کے دوستوں کو اس نظام سے وابستہ کریں جہاں صرف میزبان نہیں بلکہ مہمان بھی میزبانوں کی طرح خدمت سرانجام دیں گے ۔ اس میں ہر قسم کے ایسے دوست شامل ہوں جو مختلف ملکوں سے آنے والے ہوں۔ اگر کسی بنگالی کا مسئلہ درپیش ہو تو کوئی بنگالی نظام کا حصہ لینے والا وہاں موجود ہو۔ اس کو بھیجا جاسکتا ہے وہ پتہ کرے کہ یہ کو ن صاحب ہیں۔ اگر کوئی افریقن ہے گھانا کے ہیں تو گھانا کے کچھ دوست اس نظام سے منسلک ہونے چاہئیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے کچھ نہ کچھ آنے والے مہمانوں کو تکلیف دی جاسکتی ہے کہ وہ اس نظام سے منسلک ہوں۔سیکیورٹی مائنڈڈ(Security Minded) ہونا ہر احمدی کا فرض ہے لیکن اخلاقِ فاضلہ کے ساتھ ۔ اس سیکیورٹی مائنڈڈ ہونے کویعنی حفاظت کے لحاظ سے ذہنی طور پر باشعور ہونا ۔ اس کو سیکیورٹی مائنڈڈ کہتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہر گز اخلاق کو اس پر قربان نہیں کرنا۔
متفرق امور:
* اگر نماز اور جلسے کے دوران کو ئی بچہ روئے تو اس کو فوراً الگ لے جانا چاہئے اورغالباً اس دفعہ پہلے کی طرح یہ بھی انتظام ہے کہ وہ عورتیں جو بچوں والی ہیں ان کے لئے الگ مار کی موجود ہے اگرکوئی بچہ روئے تو اس کو اس مارکی میں منتقل کیا جاسکتاہے۔
* وقت کی پابندی کا خیال رکھیں۔جلسہ کی تقریروں کے دوران باہرکھڑے ہو کر آپس میں باتیں نہ کریں ۔ صفائی کا خیال رکھیں ، مسجد ، رہائش گاہ، جلسہ گاہ اور سارا ماحول صاف ستھرا رکھنے میں تعاون فرمائیں۔غسل خانوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔
* لندن میں گاڑیاں پارک کرتے وقت خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔ بعض گھروں کے سامنے اپنی گاڑیاں پارک کر دیتے ہیں جس سے ہمسایوں کو تکلیف ہوتی ہے اس لئے ہر گز کسی کو تکلیف نہیں دینی، کسی کا رستہ نہیں روکنا، کسی کے رستے میں گاڑی نہیں کھڑ ی کرنی۔ اگر مجبوراً گاڑی پارک کرنے کی وہاں جگہ موجود نہ ہو تو بے شک دور کریں وہاں سے پیدل آ جائیں مگر اپنی سہولت کی خاطرگاڑی لوگوں کی تکلیف کا موجب نہ بنے ۔
* لنگر خانہ میں نمازکی ادائیگی کا انتظام ہونا چاہئے اورپہرہ دار بھی ضرور نما ز اداکریں۔ان کے افسران کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس کاخیال رکھیں ۔
* اسلام آباد کی حدودمیں داخلہ سے قبل متعلقہ حفاظتی عملہ کے سامنے خود ہی چیکنگ کے لئے پیش ہو جایا کریں ۔ یہ تأثر نہ ہوکہ آپ مجبوراً آمادہ کئے گئے ہیں۔
* ہر وقت شناختی کارڈ لگا کررکھیں اوراگر کوئی شخص اس کے بغیرنظرآئے تواس کو بھی نرمی سے سمجھائیں ۔
* اپنی قیمتی اشیاء پر نظررکھیں ۔ بعض دفعہ ایسے بڑے اجتماعات کے موقع پر کئی قسم کے شریر لوگ بھی آ جاتے ہیں ، بھیس بدل کر وہ جیب کترے بھی آ جاتے ہیں اس لئے بہت احتیاط کریں اور گری پڑی چیزکے متعلق ویسے تووہیں رہنے دینا چاہئے مگرا س لئے کہ کو ئی دوسرا آدمی غلط نیت سے اس کو اٹھا نہ لے بے شک اس کو اٹھاکر گمشدہ اشیاء کے شعبہ تک پہنچادیا کریں ۔وہ اعلان کر کے بتا دیں گے جس شخص کی بھی وہ چیز ہوگی اس کو واپس کردیں گے۔
* اسی طرح گمشدہ بچوں پرنظررکھیں ،ان کو گمشدہ اشیاء کی طرح گمشدہ چیزوں کے خیمہ میں پہنچائیں اور ان کے متعلق وہ اعلان کردیں گے ۔
ویزا کے بارہ میں ہدایت:
جو احباب جلسے کا ویزہ لے کر آتے ہیں اور جلسے کے تعلق میں ان کو حکومت کی طرف سے ویزہ دیا جاتا ہے یعنی برٹش گورنمنٹ کی طرف سے وہ5 یاد رکھیں کہ اس میں کوئی دھوکہ جائز نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ ہم نے توکہا ہی نہیں تھا جلسے کا انہوں نے خود ہی دے دیا۔یہ غلط ہے۔ صرف بہانہ سازی ہے ۔یہ ہجرت نہیں بلکہ گناہ ہے کہ روزی کمانے کی خاطر ، دوسری ضرورتوں کی خاطرآپ حکومت سے استفادہ کرتے وقت حکومت کی اپنی ضرورتوں کو نظرانداز کر یں ۔ واپس جائیں اور پھر اللہ سے دعا مانگیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے لئے پھرکوئی بہتر صورت بنا دے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
مہمانوں کے لئے ہدایات
جہاں تک آنے والے ہیں ان کا تعلق محض خدا سے ہے ، اللہ کی خاطر آئے ہیں۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ خدا کی خاطر ان کو آنا چاہئے۔ اور دوسری ساری اغراض کو ایک طرف رکھ دینا چاہئے۔ بسا اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ آنے والے کچھ اور نیتیں بھی ساتھ رکھتے ہیں جن میں سے ایک نیت یہاں پناہ ڈھونڈنا یا یہاں نہیں تو یہاں کے بہانے بعض دوسری جگہ پناہ ڈھونڈنا ہے۔ پناہ ڈھونڈنا ان کا ایک حق ہے لیکن جلسے کو اس کے لئے استعمال کرنا ان کا حق نہیں ہے بلکہ جماعتی لحاظ سے یہ ایک بہت خطرناک جرم ہے۔ کیونکہ انہوں نے دین کو دنیا پرمقدم رکھنے کی بجائے دنیا کو دین پر مقدم کیا اور تمام مخلصین کو جو پاکستان میں محض جلسے کے لئے ترستے رہتے ہیں ان کو جلسوں سے محروم کر دیا۔تو میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو اس غرض سے یہاں آئے اور کسی اور غرض کے لئے ٹھہر جائے۔ ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو کسی اورملک میں جانے کے بہانے یہاں سے فائدہ اٹھائے اور پھر جا کر کہہ دے کہ ہم نے تو ملک چھوڑ دیا ہے۔ خدا نخواستہ اگر ایک آدمی بھی ایسا نکلا جس نے جلسے سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور دنیا داری کو اپنا لیا تو اس کو میں یقین دلاتا ہوں کہ ساری عمر اس کی معافی کی درخواست زیر غور نہیں آئے گی ۔ ہمیشہ ہمیش کے لئے وہ جماعت سے نکالا گیا گیا ہے اور اسی حالت میں وہ مرے گا۔
منتظمین جلسہ کی اطاعت:
منتظمین جلسہ کی اطاعت ضروری ہے۔ ایسی اطاعت کریں کہ جس کی اطاعت کی جائے وہ خوش ہو جائے ۔ وہ دیکھے کہ اس کو کوئی فضیلت نہیں ہے پھر بھی خدا کی خاطر آپ اس کے سامنے گردن جھکائے ہوئے ہیں ۔ یہ ہے وہ اطاعت جو احمدیت کی سچی اطاعت کی روح ہے۔
راستوں کے حقوق:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے اس کو بھی ایمان کا ادنیٰ شعبہ قرار دیا ہے کہ رستوں کا حق ادا کرو۔ ایک تو یہ کہ جو بازار یا دکانیں وغیرہ ہیں ا ن کے اردگرد جمگھٹ لگا کر کھڑا نہ ہواکریں۔ جو چیز خریدی، لیں اور الگ کھلی جگہ جا کر اس کو کھائیں پئیں ۔ بعض لوگ کبابی کی دکان پر کھڑے ہیں توہر کباب کے اترنے کا انتظار ہو رہاہے اور پیچھے لائنیں لگی ہوئی ہیں وہ جگہ ہی نہیں چھوڑتے۔ اپنی چیز مرضی کی لیں اور الگ ہو جائیں اور اگر اتنا الگ الگ گرم کباب کھانے کاشوق ہے تو گھر میں بنائیں ، بازار کا حق بہرحال ادا کریں۔
اور دوسرا جمگھٹا لگا کر دکانوں پر کھڑا ہونا ہی معیوب نہیں بلکہ گروہ5 در گروہ ٹولیوں کی صورت میں قہقہے لگاتے، شور مچاتے ہوئے پھر نا بھی ناواجب بلکہ بعض دفعہ گناہ بن جاتاہے۔ اور یہ بھی رستوں کے حق کے خلاف ہے۔ اگر ٹولیوں میں پھرنا ہے تو خاموشی سے پھریں ، آہستہ باتیں کرتے ہوئے پھریں، ہرگزاپنی آوازوں کو بلند نہ کریں اورہر گز کسی کی دلشکنی کا موجب نہ بنیں خواہ ارادۃً یا غیر ارادی طور پر ہو۔
تکلیف دہ چیزوں کارستے سے اٹھانا ۔ یہ بھی ایمان کے شعبوں میں سے ایک ادنیٰ شعبہ ہے اگر کوئی ایسی چیز نظر آئے مثلاً کیل کانٹا وغیرہ یا کیلے کا چھلکا تو یہ انتظار نہ کریں کہ جن لوگوں کی ڈیوٹی ہے اس کام پر وہی اس کو دور کریں گے ۔ایسی چیز کو تو فوراً دور کرنا چاہئے اور اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتاہے کہ خود یہ چیزیں نہ پھیلائیں۔ اگر تکلیف دہ چیزیں اٹھانے کا حکم ہے تو پھیلانا تو اور بھی بری بات ہے ۔ اس لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ اپنی جیبوں میں ایک چھوٹا ساپلاسٹک کا تھیلا (Bag) رکھ لیاکریں۔ اس سے جیب پھولتی بھی نہیں معمولی سا ہوتاہے کہیں آپ نے کوئی چیز پھینکنی ہو ،کچھ کھا رہے ہوں اس کا Waste ، کیلے کا چھلکا مثلاً یہ اگر آپ نے کہیں ڈالنا ہو تواپنی جیب سے تھیلا نکالا اس میں ڈا ل دیا اورجب کوئی ڈَسٹ بن(Dust Bin) آئے تو اس کو اس میں پھینک دیا۔
رزق کی قدر کریں:
کھانا ضائع نہ ہو۔ہمیشہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی یہ نصیحت ہے کہ خدا کے رزق کی قدرکریں ۔ پانی کی بھی اور کھانے کی بھی۔
مہمان نوازی کا عرصہ:
جہاں تک مہمان نوازی کے ایام کا تعلق ہے تین د ن کی روایت ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مہمانی تین دن کی ہوا کرتی ہے اس کے بعد اجازت سے ٹھہرو۔ اور مہمانی کے بعد جو تعلق ہے میزبان اور مہمان کا اسے صدقہ فرمایا ۔ لیکن نظام جماعت میں آنا جو ہے وہ اور رنگ رکھتا ہے۔ یہ ہر گز اس قسم کا معاملہ نہیں کہ تین دن کے بعد صدقہ شروع ہو جائے۔ جماعت نے پندرہ دن کی ذمہ داری قبول کی ہے کیونکہ بہت دور دور سے لوگ تشریف لاتے ہیں اور یہاں آتے ہی تین دن ہاتھ لگا کر واپس جانا ان کے لئے ممکن ہی نہیں۔
جو گھر کے عزیز رشتہ دار ہوں ان پر تین دن یا پندرہ دن کی کوئی پابندی نہیں ہے ۔ وہ رشتے دار رشتے داروں کے پاس آتے رہتے ہیں ان کاآپس کاایک سلوک ہے جوروایتاً چلتاہے ۔ بعض رشتے دار، بعض رشتے داروں کو اپنے گھر مہینوں رکھنا چاہتے ہیں او ران کے جانے سے ان کو تکلیف ہوتی ہے اور یہ ایسی باتیں ہیں جن کو الگ الگ لکھا نہیں جا سکتا، الگ الگ بیان نہیں کیا جا سکتا مگر آپس کے تعلقات ہیں جو خود بخود اس بات کو واضح کرتے ہیں۔ تو ایسے آنے والے رشتہ دار اپنے آپ کو مستثنیٰ سمجھیں ، تین دن اور پندرہ دن سے۔ مگر یہ سمجھ کر کہ کوئی رشتہ دار ہے آپ اس کے گھر ٹھہر جائیں اور میرے اس خطبے کا حوالہ دے کر کہیں اب ہمیں چھٹی ہے جتنی دیر مرضی ٹھہریں تو وہ غلط اور جھوٹا حوالہ ہوگا۔ یہ آپس کے تعلقات کا معاملہ ہے جس کو انگریزی میں Reciprocal کہتے ہیں، Reciprocal ہوتا ہے یعنی دونوں طرف سے ایک ہی قسم کا معاملہ ہو تو وہی مناسب ہے ۔
جو انفرادی طور پر کہیں ٹھہرے ہیں ان کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہ چند دن کے بعد پھر جماعتی انتظام میں منتقل ہو جائیں ۔ کیونکہ جو مقامی دوست ہیں سوائے ا س کے کہ ان کی رشتہ داریاں ہوں ، ان کی دوستیاں ہوں ، پرانے سلسلے چل رہے ہوں آپس میں ایک دوسرے کے ہاں ٹھہرنے کے،ان کے سوا جو اجنبی مہمان ہیں ان کو چند دن کے بعد از خود ہی جماعتی نظام میں منتقل ہوجانا چاہئے تا کہ مقامی دوستوں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہ پڑے۔
اپنے نفس کی حفاظت کریں:
آنے والے خاص طورپر اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ خواہ مخواہ ٹھوکریں نہ کھاتے پھریں۔ یہ جلسہ ایمان کو بڑھانے کے لئے منایا جا رہا ہے اس میں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں۔ کئی ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو ٹھوکر کا سامان کرنے والے ہیں مگر اپنے نفس کی حفاظت کی ذمہ داری آ پ پر ہے۔ چنانچہ قرآن کریم ایسے لوگوں کی مثالیں دیتا ہے کہ قیامت کے دن وہ کہیں گے کہ اے خدا ان لوگوں نے ہمیں ٹھوکر لگائی، اس نے ہمیں ٹھوکر لگائی، فلاں کی وجہ سے ہم اس غلطی میں مبتلا ہوئے ۔ خدا تعالیٰ ان کو یہ جوا ب دے گا یا فرشتے اس کی طر ف سے ان کو جوا ب دیں گے کہ تم نے ٹھوکر کھائی کیوں؟ (لَا تَزِ رُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ اُخْریٰ) کوئی جان بھی کسی جان کی ذمہ دار قرار نہیں د ی جائے گی۔
کسی سے قرض کا مطالبہ نہ کریں:
یہاں جتنے لوگ آ پ کی میزبانی کریں گے ان سے قرض نہ مانگیں، ان کو چھوڑ کر آپس میں بھی ایک دوسرے سے ایسا مطالبہ نہ کریں۔ کیونکہ جن کو یہ عادت ہے میں جانتاہوں کہ ان کو نہ دینے کی عادت بھی ہوتی ہے لیکن اسکے باوجود واقعی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ میں نے اس سے پہلے اس بات کا انتظام کیا تھا کہ جن کو واقعی ضرورت ہو وہ نظام جماعت سے رابطہ کریں ۔ امیر صاحب سے بات کریں یا مجھے لکھیں۔ بتائیں کہ کیا ضرورت پیش آ گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ سچی ضرورت کو ضرور پورا کیاگیا ہے۔ تو کیوں اپنے آپ کوابتلا ء میں ڈالتے ہیں یا دوسروں کو ابتلاء میں ڈالتے ہیں۔ لین دین کے معاملے میں صاف ہو جائیں۔
تکلیف کو صبر سے برداشت کریں:
اگر محدود جگہ اور محدود کھانے پینے کی سہولت کی وجہ سے حسب منشا ء کسی کا انتظام نہ ہو تو خوشی سے برداشت کریں۔ یہ بھی للّہی صبر ہے اور اس کی اللہ ان کودنیا اور آخرت میں جزا دے گا ۔ چند دن کی بات ہے یہ گزر جائیں گے پھرخیریت کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے اور امید رکھتاہوں کہ اس جلسے کے تذکرے بھی ساتھ واپس لے کے جائیں گے ۔ اور اگر انتظامات میں کوئی کمزوری دیکھیں تو آپس میں تذکرہ نہ کیا کریں متعلقہ منتظم کو توجہ دلانا ضروری ہے۔ اور یہ آپ کااحسان ہوگاکہ آپ بروقت متعلقہ منتظم کو توجہ دلادیں۔
تکلف سے ہرگز کام نہ لیں:
ایک دفعہ ہدایت اللہ صاحب احمدی شاعر لاہور پنجاب جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک عاشق صادق تھے ۔ اپنی اس پیرانہ سالی میں چند دنوں کے لئے گورداسپورآئے ۔ انہوں نے رخصت چاہی جس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ جاکر کیا کریں گے ۔ یہاں رہئے اکٹھے چلیں گے ۔ آپ کا یہاں رہنا باعث برکت ہے۔ اگر کوئی تکلیف ہوتو بتلا دو اس کا انتظام کردیا جائے گا ۔ پھر اس کے بعد آپ نے عام طورپر جماعت کومخاطب کرکے فرمایا کہ چونکہ آدمی بہت ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ کسی ضرورت کا علم اہل عملہ کو نہ ہو اس لئے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ جس شے کی اسے ضرورت ہو بلا تکلف کہہ دے۔ اگرکوئی جان بوجھ کرچھپاتاہے تووہ گنہگار ہے ۔ ہماری جماعت کا اصول ہی بے تکلفی ہے ۔
پس آنے والے مہمانوں کو میں حضور کی یہ نصیحت اس لئے سنا رہا ہوں کہ اس خیال سے کہ تکلیف نہ ہو، اپنی ضرورت کی جس کی ان کو عادت ہو،جماعت کے سامنے اس کاذکرکردیا کریں اور ورنہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے تنبیہ کی ہے کہ اگر وہ اس کو تکلّف سے چھپائیں گے تویہ گنہگاری ہے۔ ہماری جماعت کا اصول ہی بے تکلفی ہے۔
واپسی پرسفر کی دعا ضرورملحوظ رکھیں:
حضرت ابن عمر نے اپنے باپ عمر سے بیان کیا ہے رضی اللہ عنھما۔کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سفر کے ارادے سے جب اونٹ پر بیٹھ جاتے تھے تو تین بار تکبیر کہتے اور پھر یہ دعا مانگتے۔پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع فرمان کیا۔ ’’سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذا وَمَاکُنَّالَہ‘مُقْرِنِیْنَ‘‘ حالانکہ ہم میں اسے قابو رکھنے کی طاقت نہیں تھی ہم اپنے رب کی طرف ہی جانے والے ہیں۔ اے ہمارے خدا ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں بھلائی اورتقویٰ چاہتے ہیں ۔ توُ ہمیں ایسے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جو تجھے پسند ہوں ۔ اے ہمارے خدا تو ہی ہمارا یہ سفر آسان کر دے اور اس کی دُوری کو لپیٹ دے۔ رستے میں کوئی تکلیف نہ ہو کہ سفر لمبا محسوس ہو۔ آتی دفعہ تو آپ کو یہ دعا یاد نہیں تھی لیکن جاتی دفعہ تو یاد ہوگی۔ اسلئے جاتی دفعہ کی تکلیفوں سے بچنے کے لئے بھی یہ دعا کریں۔ تو محض گھروالوں کے لئے اچھی تبدیلیوں کی نہیں بلکہ اپنے اہل وطن کے لئے بھی اچھی تبدیلیوں کی دعاکرتے ہوئے جائیں۔
میزبانوں کو ہدایات
جہاں تک آنے والوں کا تعلق ہے ہر دوسرے پہلو سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ ہمارے مہمان ہیں اور اس لئے مہمان ہیں کہ وہ اللہ کے مہمان ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں اور ہم ہر پہلو سے ان کی عزت کرتے ہیں اور عز ت کریں گے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی مہمان نوازی:
سیدحبیب اللہ صاحب کو مخاطب کرکے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا آج میری طبیعت علیل تھی اور میں باہر آنے کے قابل نہ تھا مگر آپ کی اطلاع ہونے پر میں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتاہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آگیاہوں۔ حضور ایدہ اللہ نے اس موقعہ پر فرمایاکہ:قطع نظر اس کے کہ میں علیل ہوں یا نہ ہوں میں بھی ہمیشہ یہ پوری کوشش کرتاہوں کہ آنے والے مہمانوں کی خاطر ان کے لئے ملاقات کا وقت نکالوں ۔
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ :’’اگر کوئی مہمان آوے اور سب و شتم تک بھی اس کی نوبت پہنچے، تو تم کو چاہئے کہ چپ کر رہو۔ جس حال میں کہ وہ ہمارے حالات سے واقف نہیں ہے نہ ہمارے مریدوں میں داخل ہے تو کیا حق ہے کہ ہم اس سے وہ ادب چاہیں جو ایک مرید کو کرنا چاہئے‘‘۔
بعض دفعہ جلسے کے دنوں میں موسم بھی خراب ہو جاتاہے۔ اس خراب موسم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیا توقع رکھتے ہیں ۔ فرمایا: ’’آج کل موسم بھی خراب ہے اور جس قدر لوگ آئے ہوئے ہیں یہ سب مہمان ہیں اور مہمان کا احترام ہونا چاہئے‘‘۔ اس میں احمدی اور غیر احمدی مہمان کا فرق نہیں کیا گیا۔ مسلم غیر مسلم کا فرق نہیں کیا گیا۔
آپؑ کی ہدایت تھی کہ کھانے وغیرہ کا انتظام عمدہ ہو اگر کوئی دودھ مانگے تو دودھ دو، چائے مانگے توچائے دو۔ ایک موقع پر آ پ نے میاں
نجم الدین جو مہتمم لنگر خانہ تھے ان کو بلا کر فرمایا،’’دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو‘‘۔ خواہ پہچانو یا نہ پہچانو، ہو سکتاہے کہ کسی قوم کا کوئی معزز شخص بھی ہو ۔ ہر ایک سے ایسا سلوک کرو گویاہر ایک شخص صاحب اکرام ہے۔
مولوی حسن علی صاحب مرحوم نے اپنے واقعہ کا خود اپنے قلم سے ذکر کیا جو ان کی کتاب ’’تائید حق‘‘ میں چھپاہے ۔ آپ فرماتے ہیں:’’ مرزا صاحب کی مہمان نوازی کو دیکھ کر مجھ کو بہت تعجب سا گزرا ۔ ایک چھوٹی سی بات لکھتا ہوں جس سے سامعین ان کی مہمان نوازی کا انداز ہ کرسکتے ہیں۔ مجھ کو پان کھانے کی بُری عادت تھی امرتسر میں تو مجھے پان ملا مگر بٹالہ میں مجھ کو کہیں پان نہ ملا۔ ناچار الائچی وغیرہ کھا کر صبر کیا ۔ میرے امرتسر کے دوست نے کمال کیا کہ حضرت مرزا صاحب سے نامعلوم کس وقت میری اس بُری عادت کا تذکرہ کر دیا ۔ جناب مرزا صاحب نے گورداسپور ایک آدمی روانہ کیا ۔ دوسرے دن گیارہ بجے دن کے جب کھانا کھا چکا تو پان موجود پایا۔ سولہ کوس سے پان میرے لئے منگوایا گیا‘‘۔ یہ تھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مہمان نوازی۔
حضر ت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ شروع میں جب مہمانوں کی زیادہ کثرت نہیں تھی اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صحت بھی نسبتاً بہتر تھی آ پ اکثر مہمانوں کے ساتھ اپنے مکان کے مردانہ حصہ میں اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اورکھانے کے دوران میں ہرقسم کی بے تکلفانہ گفتگو جاری رہتی گویا ظاہری کھانے کے ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا دسترخوان بھی بچھ جاتا تھا ۔ ایسے موقعوں پر آ پ عموماً ہرمہمان کا خود ذاتی خیال رکھتے تھے۔بعض اوقات اگرآپ کو معلوم ہوتا کہ کسی مہمان کو اچار کا شوق ہے اور اچار دسترخوان پر نہیں ہوتا تھا توخود کھانا کھاتے کھاتے اٹھ کر اندرون خانہ تشریف لے جاتے اور اندرسے اچار لا کرایسے مہمان کے سامنے رکھ دیتے ۔
ایک روایت الحکم میں۔۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی تھی منشی عبدالحق صاحب جب تک یہاں رہے حضرت کی مہمان نوازی کے معترف رہے اور اس کا ان کے قلب پر خاصا اثر تھا ۔ میں نے ان ایام میں دیکھا کہ حضرت قریباً روزانہ منشی عبدالحق صاحب کو سیر سے واپس لوٹتے وقت یہ فرماتے کہ آپ مہمان ہیں آ پ کو جس چیز کی تکلیف ہو مجھے بے تکلف کہیں کیونکہ میں تواندررہتاہوں اور نہیں معلوم ہوتاکہ کسی کو کیا ضرورت ہے ۔ آ ج کل مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے بعض اوقات خادم بھی غفلت کرسکتے ہیں ۔ آپ اگر زبانی کہنا پسند نہ کریں تو مجھے لکھ کر بھیج دیا کریں ۔ مہمان نوازی تو میرا فرض ہے۔
حضور ایدہ اللہ نے فرمایا:۔اب کسی کو یہ خیال گزرے کہ میں تو آرام سے الگ رہتاہوں اور سارے لوگ مہمان نوازی میں جتے ہوئے ہیں ۔ اب یہ زمانہ بدل چکاہے ۔ ہزاروں لاکھوں مہمان سلسلہ کے آتے رہے ہیں ۔ قادیان میں بھی یہاں بھی ہزارہاآتے ہیں ، انڈونیشیا میں بھی۔ مگر میرے لئے ممکن نہیں ہے کہ ہر آنے والے کے لئے اٹھ کر خود پیش کروں اور اس طرح خدمت کروں مگر اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت پر عمل کرنے کی بیحد کوشش کیاکرتاتھا۔مجھے یاد ہے ہمارے گھر بہت کثرت سے مہمان آ کرمجلس لگایا کرتے تھے اور غالباً حضر ت مرزا صاحب(مکرم مرزا عبدالحق صاحب مراد ہیں۔مرتب) بھی کبھی ان کی مجلس میں شامل ہوتے ہوں ۔ اس وقت جہاں تک ممکن تھا ان کے لئے خود اندر سے چیزیں لاکرکھانا پیش کیا کرتاتھا ، مشروب پیش کیا کرتا تھا اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ بیوی کی طبیعت خراب تھی یا نوکرانی گھر پہ نہ ہوتی تو میں خود ان کے لئے روٹی پکاتا اوروہ روٹی لے کر ان کے سامنے پیش کیا کرتاتھا ۔ یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ اب میرے اور حالات ہیں اب آپ سب لوگ جو خدمت کررہے ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام ہیں اور میری نمائندگی میں ہی ایسا کررہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آ پ سب کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے ۔
میزبانی کے ساتھ جلسہ بھی سنیں:
انگلستان کے احمدیوں کوچاہئے کہ وہ ذوق شوق کے ساتھ اس جلسہ میں شریک ہوں ۔بغیر کسی عذر کے کوئی غیر حاضر نہ رہے۔ بعض لوگ تین دن کی بجائے صر ف دو دن یا آخری دن کے لئے آجاتے ہیں اور ان کے آنے کامقصد صرف میل ملاقات ہوتاہے ۔ اس جلسہ کی برکات کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے تینوں دن حاضر رہیں اورہرلحاظ سے مستفید ہوں۔جو میزبان ہیں ان کو اپنے گھر اپنے دل کی فراخی کی طرح کھلے کرنے چاہئیں اور خدمت کرنی چاہئے لیکن جلسے سے محروم نہ رہیں کیونکہ مہمانی کا مقصد یہ تو نہیں کہ ان کو کھانا کھلایا جائے۔ اصل مہمانی کا مقصد ہے کہ روحانی مائدہ دیا جائے اور روحانی کھانا خود بھی کھائیں اور ان کو بھی کھلائیں۔
شعبہ مہمان نوازی کا فرض:
جہاں تک جماعت کے دوستوں کا تعلق ہے جو انگلستان میں رہتے ہیں یا مختلف مہمان نوازی کے شعبوں میں خصوصیت کے ساتھ متعلق ہیں ان کو میں یہ بتانا چاہتاہوں کہ مہمانوں کے دل نازک ہوا کرتے ہیں ۔ بہت سے ایسے ہیں جو اپنے رشتہ داروں یا عزیزوں کے گھر ٹھہریں گے اور وہ دیر سے ان کو جانتے ہیں ، ان کا معاملہ الگ ہے لیکن کچھ ایسے بھی جو محض خدا کی خاطر آئے ، کسی کو جانتے نہیں ، ان کی مہمان نوازی شعبے نے کرنی ہے۔ اور وہ ذاتی مہمان نوازی نہیں مگر اللہ کی خاطر ہے۔
توفیق کے مطابق مہمان نوازی کریں:
بعض لوگ دھوکے میں کہ نیکی پر خرچ کرو جتنے مرضی قرضے اٹھاؤ سب جائز ہے وہ ضرورت سے بڑھ کر خرچ کر دیں۔ ایسے نیک نیت لوگ جو حقیقت میں غلطی خوردہ ہیں، ان کے لئے نصیحت ہے کہ ایسا نہ کرنا ورنہ یہ شیطانی کام ہوگا جو تمہیں نقصان پہنچائے گا۔
پس مہمان نوازی میں توفیق ضروری ہے۔ ایسی توفیق جو کھینچ کر لمبی تو کی جا سکتی ہے مگر اس کی حدود سے باہر نہیں نکلا جا سکتا۔تو مہمان کے لئے اس حد تک آپ اپنی وسعتوں کو بڑھائیں کہ آپ کی مہمان نوازی کی وسعت تو بڑھے لیکن اپنی ذات پر بے شک تنگی آئے۔ لیکن ایسی وسعت نہ کریں جیسے دکھاوے والے دنیا کو دکھانے کی خاطر خرچ کیا کرتے ہیں اور اپنی توفیق سے بڑھ کرخرچ کر دیتے ہیں ۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہاں کی مہمان نوازی اسی رنگ کی ہوگی۔
نازک مزاج لوگوں سے دلداری:
ایک بات جو جلسے کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ جلسے پر بہت سے لوگ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نازک مزاج بن کر آتے ہیں اور اس میں کچھ ان کا حق بھی شامل ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اتنی دور سے آئے ہیں ، محض خدا کی خاطر آئے ہیں اس لئے ہمارا پورا خیال رکھنا چاہئے۔ اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بعض دفعہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ اس موقع پر میزبان کا یہ کام نہیں ہے کہ ناراض ہو۔
اعلیٰ اخلاق سے بدانتظامی کا خاتمہ:
اگر انتظامی طور پر کچھ مشکلات پیش آتی ہیں تو اخلاق فاضلہ کو بڑھ جانا چاہئے نہ کہ کم ہونا چاہئے۔ غالب کہتاہے
بہرہ ہوں میں تو چاہئے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرّر کہے بغیر
کہ میں بہرا ہوں لیکن اے بولنے والے دو دفعہ کہہ دیا کرو اونچی بولا کرو۔ سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر ۔ میں دوبارہ بات کہے بغیر سن نہیں سکتا۔ تو قاعدہ سے ہٹی ہوئی بات ہے کہ ایک عام انسان ایک عام آواز میں کسی سے مخاطب ہو اور وہ نہ سنے۔ لیکن اس کا دوبارہ کہنا اور زور سے کہنا یہ قاعدہ سے ہٹی ہوئی بات نہیں۔ یہ دستور کے مطابق بات ہے۔ پس اگر کسی موقعہ پر کسی دوسری طرف سے بدانتظامی ہو تو اعلیٰ اخلاق سے آپ اس بد انتظامی کا قلع قمع کر سکتے ہیں یا اس کو زائل کر کے ایک نظام جماعت کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔تو انتظام کو کہاں برقرار رکھنا ہے، کہاں اعلیٰ انتظام کی خاطر جو اخلاقی نظام ہے ، جو جماعت کی اولین ذمہ داری ہے وہاں نظام کی چھوٹی چیزوں کو قربان کرنا ہے یہ حکمت کا بھی معاملہ ہے اور اخلاقِ فاضلہ کا بھی ہے ۔
مہمان نوازی میں سنت ابراہیمی کو رواج دیا جائے:
جو مہمان حضرت ابراہیمؑ کے گھر میں داخل ہوئے و ہ دراصل فرشتے تھے لیکن انسانی روپ میں، اس لئے حضرت ابراہیم ؑ نے ان کو پہچانا نہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ مُکْرَمِیْنَ مہمان تھے، بہت معزز مہمان تھے باوجود اس کے کہ حضرت ابراہیمؑ نے ان کو پہچانا نہیں مگر اتنا کہا کہ ہیں اجنبی اور اس پہلو سے اجنبی ہوتے ہوئے بھی ان کی مہمانی کا پورا حق ادا کیا۔
جلسے پر بہت سے جانے پہچانے بھی آئیں گے اور بہت سے اجنبی بھی ہونگے ۔ جو اجنبی ہوں ان کا بھی ایک حق ہے اور جو کوئی کسی کے گھر آتا ہے اور گھروں کے علاوہ جو جماعت کا مہمان بن کر جلسے پر آتاہے اس کے حضور کچھ پیش کرنا بغیر یہ پوچھے کہ آپ کھا چکے ہیں یا نہیں کھا چکے ، یہ سنت ابراہیمی ہے ۔
مہمان نوازی کا عظیم اجر:
مسند احمد کی روایت ہے جو حضرت شُرَیح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان ہوئی ہے ۔ آپؓ نے کہا کہ حضور ﷺنے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے۔ ’اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہے‘ یہ بہت گہرامضمون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کی بھی ایک مہمان نوازی ہونی ہے۔ جو اللہ نے کرنی ہے۔ تو جو اللہ کے بندوں سے اعلیٰ مہمان نوازی کا برتاؤ کرے وہ یہ توقع رکھ سکتاہے کہ میرا اللہ بھی میری اعلیٰ مہمانی فرمائے گا۔
مہمان سے خندہ پیشانی کاسلوک:
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بھی نیکی ہے ۔تو یہ بھی مہمان نوازی کی قسمیں ہیں خواہ آپ کا براہ راست مہمان ہو یا نہ ہو اس سے خندہ پیشانی سے پیش آئیں۔ اور سار ے جلسے پر یہ ماحول ہو کہ ہر شخص مسکرا کر اور خندہ پیشانی سے ہر ایک کااستقبال کر رہا ہو۔
مہمان کی حیثیت کے مطابق عزت و تکریم :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے پاس کسی قوم کا سردار یا معزز آدمی آئے تو اس کی حیثیت کے مطابق اس کی عزت و تکریم کرو۔ یہ میں نے اس لئے بیان کرنا ضروری سمجھا ہے کہ ہمارے بہت سے ایسے مہمان ہیں جو جماعت سے تعلق نہیں رکھتے اور مختلف دنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے ہیں۔ ان کاجو الگ انتظام ہوتاہے اور غیرمعمولی توجہ دی جاتی ہے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ بعض مہمانوں کو تو عام مہمانوں میں شامل کیا گیا ہے بعض سے خاص سلوک ہو رہا ہے۔ یہ خاص سلوک حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہوتاہے اور یہ حدیث اس پہ گواہ ہے ۔
متفرق ہدایات:
یہ بھی ایک سنت ہے کہ مہمانوں کو نماز کے لئے بیدار کرنا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب آپؐ آتے تو لوگوں کو نماز کے لئے اٹھاتے ۔
اگر کسی مہمان کو اپنی کار وغیرہ میں بٹھائیں تو ہرگز کرایہ کے طورپر نہ ایساکریں ان سے کسی قسم کے کرایہ کا مطالبہ جائز نہیں۔ مہمانوں کی خدمت اپنا شعار بنائیں اورمحبت،خلوص و قربانی کے جذبہ سے ان کی خدمت کریں ۔
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍جولائی و ۲۶؍جولائی ۲۰۰۲ء)