ارشاد نبوی کے مطابق قائم جماعت احمدیہ کا نظام اور معاندین احمدیت کا الم انگیز اور افسوسناک طرز عمل
مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کا موجودہ پرفتن دورمیں ہر مسلمان کے لئے یہ فرمان مبارک ہے کہ :
’’فان رئیت یومئذ خلیفۃ اللہ فی الارض فالزمہ و ان نھک جسمک و اخذ مالک فان لم ترہ فاھرب فی الارض ولو ان تموت ‘‘۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۴۰۳)
اگر اس وقت زمین میں خلیفۃ اللہ کو دیکھو تو اس سے وابستہ ہو جاؤ خواہ تمہارا جسم لہو لہان ہو جائے اور تیرا مال لوٹ لیاجائے اوراگرخلیفۃ اللہ کو نہ دیکھو تو زمین میں کہیں بھاگ جاؤ خواہ مر ہی جاؤ۔
نیز حدیث حذیفہ ؓ میں ہے :
’’اگر اس وقت جماعت نہ ہو نہ امام ہو تو پھرایسا کر کہ ان کل فرقوں سے الگ رہ (جنگل میں دور چلاجا) اگر وہاں(کچھ کھانے کو نہ ملے) ایک درخت کی جڑ مرنے تک چباتا رہے(تو یہ تیرے حق میں بہتر ہے)۔(بخاری کتاب الفتن باب کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ)
اس ضمن میں یہ بھی فرمایا کہ ’’انما الامام جنۃ یقاتل من وراء ہ‘‘۔ (بخاری کتاب الجہاد)
امام ڈھال ہے جس کے پیچھے قتال کیاجاتاہے ۔
الحمدللہ جماعت احمدیہ کومسلمانِ عالم میں یہ منفرد خصوصیت حاصل ہے کہ وہ خلیفۂ وقت کے زیر قیادت اشاعت دین اسلام کے عالمی جہاد میں نہایت کامیابی سے سرگرم عمل ہے ۔ چنانچہ عراق کے مشہور عالم دین اور صحافی الحاج السید عبدالوھاب عسکری ، ایڈیٹر’’السلام البغدادیہ‘‘ تحریر فرماتے ہیں:
’’وخدماتھم للدین الاسلامی من وجھۃ التبشیر فی جمیع الاقطار کثیرۃ و ان لھم دوائر منتظمۃ یدیرھا اساتذہ و علماء۔۔۔ و ھم یجتھدون بکل الوسائل الممکنۃ لاعلاء کلمۃ الدین و من اعمالھم الجبارۃ الفروع التبشیریۃ والمساجد التی اسسوھا فی مدن امریکا و افریقیا و اوربا فھی السنۃ ناطقۃ مما قاموا و یقومون بہ من خدمات و لاشک ان للاسلام مستقبل باہر علی یدھم‘‘۔(ترجمہ): دین اسلام کے لئے ان کی تبلیغی خدمات بہت زیادہ ہیں اور ان کے ہاں بہت سے انتظامی شعبے ہیں جنہیں بڑے بڑے ماہرین اور علماء دین چلاتے ہیں اور وہ دین اسلام کی سربلندی کے لئے تمام ممکن ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے کوشاں ہیں اور ان کے عظیم الشان کارناموں میں سے ایک عظیم کام یورپ، امریکہ اورافریقہ کے مختلف شہروں میں تبلیغی مراکز اور مساجد کاقیام ہے۔ اور یہ مراکز و مساجد ان کی ان عظیم خدما ت کی منہ بولتی تصویرہیں جووہ پہلے اور اب بجا لا رہے ہیں اور اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ان کے ہاتھوں اسلام کاایک تابناک مستقبل مقدر ہو چکاہے ‘‘۔ (’’مشاہداتی تحت سماء ا الشرق‘‘ تا لیف الدکتور الحاج عبدالوھاب العسکری صاحب جریدہ السلام البغدادیۃ مطبوعہ۱۹۵۱ء مطابق ۱۳۷۰ھ دارالحدیث للطباعۃ والنشر والتالیف)
مسلم ممالک کا عبرت ناک نقشہ
دوسری طرف مسلم ممالک کا عبرتناک نقشہ کیاہے ؟اس کی دردانگیز تفصیل المسجد الحرام کے خطیب الشیخ محب اللہ سبیل کی زبان سے سنئے انہوں نے بیت اللہ میں خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا :
’’ ان واقع المسلمین الیوم فی اکثر البلاد الاسلامیہ مؤلم جدا۔ انہ لمخالف ما علیہ الرسول ﷺ واصحابہ۔ الیس فی اکثر البلاد الاسلامیہ نری الرجل منتسیاً للاسلام ویقول انہ مسلم و مع ذلک فلا یمنعہ اسلامہ من ارتکاب الجرائم العظام۔ لا یمنعہ اسلامہ من الرباء واکل اموال الناس والفجور ولا من حوانیت اللھو و الخمور۔ لا یمنعہ اسلامہ من الکذب و شھادۃ الزور۔ لایمنعہ اسلامہ من الغش والتدلیس و الخداع فی معاملات المسلمین ۔لا یمنعہ اسلامہ من ترک الصلوٰۃ والصیام۔ لا یمنعہ اسلامہ من ان ینسب المتمسکین بدینھم الی الجمود والتحجر والی لرجعیۃ التأخر یشوھون الحق بالقاب المنفرۃ عند بعض السذج من الناس۔لایمنعہ اسلامہ من تفضیل طریقۃ الغربیین و مذاہب الشرقیین و افکار المنحرفین علی طریقۃ الرسول و صحبہ۔ لا یمنعہ اسلامہ من الحکم بالقوانین الوضعیۃ و نبذ القرآن والاحادیث النبویۃ۔ لایمنعہ اسلامہ من الصاق العیوب بالشریعۃ الاسلامیۃ وادخال فیھا مالیس‘‘۔
’’یتمذھبون بمذہب الاشتراکیۃ و یسخرون الاقلام والالسن بالدعوۃ الیھا و یناصرون الدھریّین و یوالون الشیوعیین و ینکرون لدین اللہ ولعباداللہ من المؤمنین‘‘۔(اخبار العالم الاسلامی ۱۵؍شعبان ۱۳۹۴ھ مطابق ۳؍ستمبر۱۹۷۴ء صفحہ ۱۳ تا۱۶)
(ترجمہ): آج اکثر بلاد اسلامیہ کے مسلمانوں کی کیفیت سخت الم انگیز ہے ۔ مسلمان آنحضرتﷺ اور حضور ؐ کے صحابہؓ کی روش کے مخالف ہو چکاہے۔ کیااکثرمسلمان ممالک میں ہمیں ایسے لوگ نظر نہیں آتے جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے اور اپنے تئیں مسلم کہتے ہیں اوربایں ہمہ ان کااسلام انہیں بڑے بڑے جرائم سے نہیں روکتا۔ ان کا اسلام انہیں سود اور لوگوں کے اموال کھانے اور فجور سے نہیں روکتا اور نہ رقص گاہوں اور شراب خانوں سے منع کرتاہے اور نہ ان کا اسلام کذب بیانی اورجھوٹی گواہی سے انہیں روکتاہے ۔ نہ ان کااسلام انہیں مسلمانوں کے معاملات میں دھوکہ ، چالبازی اور فریب دہی سے باز رکھتا ہے ۔ نہ ان کا اسلام انہیں نماز روزہ کے چھوڑنے سے روکتاہے ۔ ان کا اسلام انہیں اس بات سے بھی نہیں روکتا کہ دین کو مضبوطی سے اختیار کرنے والے لوگوں کو جمود اور بے حسی او ر قدامت پسندی اور پسماندگی کی طرف منسوب نہ کریں۔ وہ حق کو نفرت انگیز القاب کے ذریعہ بعض سادہ لوح لوگوں کے سامنے بدنما بناتے ہیں۔ ان کااسلام انہیں اس سے بھی نہیں روکتا ہے کہ عربیین کے طریقہ اور شرقیین کے مذاہب اور منحرفین کے افکار کو رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کی سنت پر فضیلت نہ دیں۔ ان کا اسلام قرآن اور احادیث نبویہ کوپس پشت ڈال کر خود ساختہ قوانین کے فیصلہ سے بھی انہیں نہیں روکتا اور ان کا اسلام اس بات سے بھی نہیں روکتا کہ شریعت اسلامیہ کو عیوب اور نقائص کا تختہ مشق بنائیں اور اس میں ایسی باتوں کو بے جا طورپر داخل کریں جو درحقیقت اس کا حصہ نہیں ہیں ۔ و ہ اشتراکی مذہب رکھتے ہیں اور اپنی قلموں اور زبانوں کو اس کی دعوت کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں ۔ وہ دہریوں کی مدد کرتے اور کمیونسٹوں کی دوستی کادم بھرتے ہیں اور خدا کے دین اور خدا کے مومن بندوں سے بیگانگی اختیار کئے ہوئے ہیں‘‘۔
خطیب کعبہ نے اپنے آخری الفاظ میں جس المیہ کی نشاندہی کی ہے ۔ معاندین احمدیت کا عدوّان محمدؐ اور صلیب پرستوں سے شرمناک گٹھ جوڑ اس کا واضح ثبوت ہے۔ دونوں ہی حضرت عیسیٰ کو غیرمشروط آخری نبی اورعالم الغیب،خالق طیور اور بجسد عنصری زندہ آسمان پر موجود مانتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے خلاف متحدہ محاذ قائم کئے ہوئے ہیں حتی کہ شاتم رسول پادری کے ۔ایل۔ ناصر نے اپنی کتاب ’’حقیقت مرزا ‘‘کا انتساب (Dedication) مولوی ثناء اللہ امرتسری ، پروفیسر الیاس برنی اورمولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی کے نام پرکیا ہے اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھاہے :
’’ میں اس مجموعہ کومندرجہ علماء کرام کے نام منسوب کرتاہوں جنہو ں نے مرزائیت کی حقیقت کو بے نقاب کر کے ہندو پاکستان میں مسیحیوں اور مسلمانوں کی ناقابل فراموش خدما ت سرانجام دی ہیں‘‘۔
ا یسے ہی معاندین احمدیت میں آج کل کراچی کے ایک صاحب اور الامارا ت العربیہ المتحدہ کے ایک ’’سید‘‘ کافی پیش پیش ہیں۔ وہ ان گھسے پٹے پرانے اعتراضات کو جن کے جواب سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں باربار دئے جا چکے ہیں اچھال کر عیسائیت کی پرجوش حمایت میں منہمک ہیں اورساتھ ہی (قرآنی تعلیم کے سراسر خلاف) اشاعت فحش کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے ۔
ان کی اسلام دشمنی کی انتہاء یہ ہے کہ وہ مسلمان کا لیبل بھی لگائے ہوئے ہیں مگر ’’سید‘‘ ہو کر آنحضرت ﷺکے اس ارشاد مبارک کو مدت سے پس پشت ڈالے ہوئے ہیں کہ فتنوں کے زمانہ میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ خلیفۃ اللہ کے دامن سے مضبوطی سے وابستہ ہو جائے اور اگر خلیفۃ اللہ موجود نہ ہو تو کہیں بھاگ جائے یہاں تک کہ گوشہ گمنامی میں موت آ جا ئے ۔
خداکے فضل سے ہر احمدی حدیث نبوی ؐ کے مطابق اپنے امام کوڈھال یقین کرتاہے ۔ اس لئے کوئی دینی قدم ان کی اجاز ت و رہنمائی کے بغیر اٹھاہی نہیں سکتا کہ یہی فرمان محمدی ہے ۔ مگر احمدیت کے معاند مُلاں اس مبارک فرمان کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے یہ چاہتے ہیں کہ کسی احمدی کی طرف سے انہیں مباہلہ وغیرہ کی کسی کارروائی کے بارے میں براہ راست خط و کتابت کا اعزاز عطاکیاجائے جس کا تصور بھی کوئی حقیقی احمد ی نہیں کر سکتا۔ شاید ایسے ہی لوگوں سے متعلق کسی نے کہا ہے کہ :
محض غوغا نہیں اسلام کا عنوانِ حیات
تو مسلمان ہے تو اسلام کو بدنام نہ کر
عراق کے ایک عالم شیخ محمد رضا شبیبی فرماتے ہیں:
الا لیت شعری ما تری روح احمد
اذا طالعتنا من علٍ اواطلّت
و اکبر ظنّی لو اتانا محمد
للاقی الذی لاقاہ من اھل مکۃ
عدلنا عن النور الذی جائنا بہ
کما عدلت عنہ قریش فضّلت
اذن لقضیٰ لا منھج الناس منھجی
ولا ملۃ القوم الاواخر ملّت
ترجمہ: اگر احمد مجتبیٰ ﷺ کی روح عالم بالا سے ہمارے حالات سے واقف ہوجائے یاہمیں جھانک کر دیکھ لے تو معلوم نہیں ہمارے متعلق کیا رائے قائم کرے ۔ میرا ظن غالب ہے کہ محمد ﷺ آج ہمارے پاس تشریف لے آئیں تو آپ کو آج بھی اس قوم کے ہاتھوں اسی قسم کے مصائب اور انکار حق سے دوچار ہونا پڑے گاجس طرح آپ اہل مکہ کے ہاتھوں دو چار ہوئے (کیونکہ ) ہم اس نور حق سے جسے آپ لے کر مبعوث ہوئے تھے اسی طرح روگردانی کر چکے ہیں جس طرح قریش نے اس سے منہ پھیرا تھا۔ اور گمراہی کے گڑھے میں جا پڑے تھے۔ پیغمبر خدا ﷺ ہماری زبوں حالی اور راہ حق سے بیزاری دیکھ کر یقیناًیہ فیصلہ کریں گے کہ لوگ جس ڈگر پر چل رہے ہیں یہ میرا بتایا ہوا راستہ نہیں ہے اور آخری زمانہ کے لوگوں نے جس مذہب کا طوق ڈال رکھاہے وہ میرامذہب ہرگز نہیں ہو سکتا ۔
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍مئی۱۹۹۹ء تا۲۰؍مئی ۱۹۹۹ء)