حدیث ”لا نبی بعدی“ کی وضاحت
اس حدیث کی غلط تشریح کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی بھی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔ اس حدیث کے مطابق آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ایک جنگ پر جاتے ہوئے مدینہ میں اپنا قائم مقام بنا کر چھوڑتے ہوئے یہ کہا کہ تم مجھ سے ایسے ہی ہو جیسا کہ ہارون ؑ موسیٰ ؑ کے ساتھ تھے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ہارون تو موسیٰ ؑ کے ساتھ نبی تھے لیکن اس وقت میرے سوائے نبی کوئی نہیں۔ عربی زبان میں ”بعد“ کا لفظ ”سوائے“ یعنی “EXCEPT” کے معنوں میں بھی لیا جاتا ہے۔ چنانچہ مندرجہ ذیل آیات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں جن میں اللہ کے بعد کا ذکر ہے حالانکہ اللہ کا نہ کوئی شروع ہے نہ بعد۔ یہاں واضح مطلب ہے اللہ کے علاوہ۔
پس اللہ اور اس کی آیات کے بعد پھر اور کس بات پر وہ ایمان لائیں گے؟ (الجاثیہ۔45:7)پس اللہ کے بعد اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ (الجا ثیہ۔ 45:24)
چنانچہ آنحضرت ﷺ نے بھی ” لانبی بعدی“ انہی معنوں میں ارشاد فرمایا۔ کیونکہ حضرت علی ؓ اور آپ کا دور ایک دوسرے کے بعد نہیں بلکہ اکٹھا جاری تھا جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ ایک ہی دور میں زندہ تھے اور بیک وقت نبی تھے۔ لہذا حضرت علی ؓ کو حضرت ہارون ؑ سے مشابہت دیتے وقت اس غلط فہمی کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم فرمادیا کہ حضرت علی ؓ حضرت ہارون ؑ کے مشابہہ تو ضرور ہیں لیکن وہ ان کی طرح نبی نہیں ہیں اور اس وقت یعنی یہ بات کہے جانے کے وقت آنحضرت ﷺ کے علاوہ کوئی نبی نہیں۔
”مِن بعدی“ کی وضاحت
میں بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہوگا (الصف۔61:7)
اس آیت میں حضرت عیسٰی ؑ جس رسول کے آنے کی بشارت دے رہے ہیں وہ یا تو ان کے زمانہ نبوت کے بعد آئے گا یا زندگی کے بعد۔ اگر ان کی نبوت آنحضرتﷺ کے دور نبوت کے شروع ہونے سے ختم ہوگئی تو پھر ان کی زندگی بھی ختم ہوگئی ۔ کیونکہ مندرجہ ذیل آیت بتاتی ہے کہ وہ جب تک زندہ ہیں اور جہاں کہیں بھی ہیں نبی ہیں۔
“اس نے کہا یقینًا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ نیز مجھے مبارک بنایا ہے جہاں کہیں میں ہوں اور مجھے نماز کی اور زکوٰة کی تلقین کی ہے جب تک میں زندہ رہوں۔” ( سورہ مریم۔[19:31, 19:32])۔
اگر یہ مانا جائے کہ وہ زندہ تو ہیں لیکن نبی نہیں ہیں تو یہ قرآن کریم کی اس واضح آیت کے خلاف ہے اور اگر ان کا بحیثیت نبی کے تشریف لانے کا عقیدہ رکھا جائے تو غیر احمدیوں کا ختم نبوت کا سارا استدلال ختم ہوجاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی طرح کا اور کسی مفہوم کا کوئی نبی نہیں آسکتا۔ ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی زندگی اور نبوت لازم و ملزوم ہیں اور سورہ صف کی اس آیت میں ”بعدی“ کا لازمی مطلب ان کے دورِ نبوت کے خاتمہ اور وفات کے بعد ہی ہے۔
نفی جنس اور نفی کمال میں فرق
حدیث ”لا نبی بعدی“ کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ میرے بعد میری شان کا نبی نہیں آئے گا۔ جو بھی ہوگا مجھ سے کم درجے کا ہوگا۔ عربی زبان میں ”لا“ کو نفی جنس کے ساتھ ساتھ نفی کمال کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی ”لا“ کا صرف یہی مطلب نہیں ہوتا کہ کوئی چیز یا شخص موجود نہیں ہے بلکہ اس کا یہ مطلب بھی ہوتا ہے کہ اُس چیز یا شخص جیسا دوسرا کوئی اور نہیں ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “اِذا ھَلَکَ کِسرٰی فَلَا کِسرٰی بَعدَہ وَ اِذَا ھَلَکَ قَیصَرُ فَلَا قَیصَرَ بَعدَہ” بخاری کتاب الایمان۔ یعنی جب کسریٰ ہلاک ہوگا تو پھر اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا۔ حالانکہ نبی اکرم ﷺ کے زمانے والے کسریٰ اور قیصر کے بعد کسریٰ اور قیصر ہوتے رہے ہیں لیکن وہ ان جیسی شان و شوکت کے مالک نہیں تھے۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لَا اِیمَانَ لِمَن لَا اَمَانَةَ لَہ وَ لَا دِینَ لِمَن لَا عَھَدَ لَہ۔ یعنی اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا۔ ظاہر ہے یہاں مکمل دین و ایمان کی نفی نہیں کی جارہی بلکہ کامل دین و ایمان کی نفی کی جارہی ہے۔ اسی طرح حضرت علیؓ کے بارے میں کہا جاتا ہے لَا فَتٰی اِلَّا عَلِی لَا سَیف اِلَّا ذُوالفِقَار۔ یعنی علی جیسا جوان کوئی نہیں اور ذوالفقار جیسی تلوار کوئی نہیں۔