حضرت حَارِثَہ بن سُراقہؓ
ایک صحابی کا ذکر ملتا ہے ان کا نام حضرت حَارِثَہ بن سُراقہ تھا۔ ان کی وفات 2ہجری میں جنگ بدر کے موقع پر ہوئی تھی۔ ان کی والدہ رُبَیّعْ بنتِ نَضْر حضرت انس بن مالک کی پھوپھی تھیں۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 1صفحہ 704 حارثہ بن سراقہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
ہجرت سے پہلے والدہ کے ساتھ یہ مشرف بہ اسلام ہوئے جبکہ آپ کے والد وفات پا چکے تھے۔ (سیر الصحابہؓ جلد 3 صفحہ 299مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اور حضرت سَائِب بن عُثْمان بن مَظْعُون کے درمیان عقد مؤاخات کیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 307 سائب بن عثمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) مؤاخات کا معاہدہ کروایا تھا، بھائی بھائی کاعقد کروایا تھا۔ ابونعیم نے بیان کیا کہ حضرت حارثہ بن سراقہ اپنی والدہ سے بہت حسن سلوک سے کام لینے والے تھے یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں حَارِثَہ کو دیکھا۔ حَبَّان بن عَرِقَہ نے بدر کے دن آپ کو شہید کیا۔ اس نے انہیں اس وقت تیر مارا جبکہ آپ حوض سے پانی پی رہے تھے۔ وہ تیر آپ کی گردن پر لگا جس سے آپ شہید ہو گئے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل رہے تھے کہ ایک انصاری جوان آپ کے سامنے آیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے حارثہ! تم نے کس حال میں صبح کی۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس حال میں صبح کی کہ مَیں یقیناً اللہ پر حقیقی ایمان رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو کیا کہہ رہے ہو کیونکہ ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ اس نوجوان نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرا دل دنیا سے بے رغبت ہو گیا ہے۔ میں رات بھر جاگتا ہوں اور دن بھر پیاسا رہتا ہوں۔ یعنی عبادت کرتا ہوں اور روزے رکھتا ہوں اور میں گویا اپنے پروردگار عزوجل کا عرش ظاہری آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور میں گویا اہل جنت کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ گویا باہم ایک دوسرے سے مل رہے ہیں اور گویا اہل دوزخ کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس میں شور مچا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسی پر قائم رہو۔ تم ایک ایسے بندے ہو جس کے دل میں اللہ نے ایمان کو روشن کر دیا ہے۔ پھر اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے شہادت کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی اور بدر کے روز جب گھڑ سواروں کو بلایا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے پہلے نکلے اور سب سے پہلے سوار تھے جو شہید ہوئے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ پہلے انصاری تھے جو غزوہ بدر میں شہید ہوئے۔ حضرت حارثہ کی شہادت کی خبر جب ان کی والدہ کو ملی تو ان کی والدہ حضرت ربیعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کو تو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا۔ بہت خدمت کیا کرتے تھے۔ اگر وہ اہل جنت میں سے ہے تو میں صبر کر لوں گی اور اگر ایسا نہیں تو پھر خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ میں کیا کروں گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اُمّ حارثہ جنت ایک نہیں بلکہ کئی جنتیں ہیں اور حارثہ تو فردوس اعلیٰ میں ہے۔ جو اعلی ترین جنت ہے اس میں ہے۔ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ میں ضرور صبر کروں گی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حارثہ تو فردوس اعلیٰ میں ہے تو اس پر آپ کی والدہ اس حال میں واپس چلی گئیں کہ وہ مسکرا رہی تھیں اور یہ کہہ رہی تھیں کہ واہ واہ اے حارثہ۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 650-651 حارثہ بن سراقہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
غزوہ بدر کے موقع پر خدا تعالیٰ نے کفار کے سرداروں کو موت کے گھاٹ اتار کر کفار کو رسوا کیا اور غزوہ بدر میں شامل ہونے والے مسلمانوں کو عزت بخشی اور خدا تعالیٰ نے اہل بدر کے متعلق خبر پائی تو فرمایا کہ تم جو مرضی کرو تم پر جنت واجب ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو کہا کہ تم جو مرضی کرو جنت واجب ہو گئی ہے۔ یہ مطلب نہیں تھا کہ جو مرضی کرو۔ اب گناہ بھی کرو تو جنت واجب ہے۔ مطلب یہ کہ اب ان سے ایسی کوئی باتیں نہیں ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف ہوں۔ اللہ تعالیٰ خود ان کی رہنمائی فرماتا رہے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حارثہ بن سراقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایا جو کہ غزوہ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے کہ وہ جنت الفردوس میں ہیں۔ (شرح زرقانی جلد دوم صفحہ 257 باب غزوہ بدر الکبریٰ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)