کیا حضرت مسیح ؑنے کہا تھا کہ وہ مرنے کےتین دن بعد پھر جی اٹھے گا
مسعود احمد خان دہلوی، جرمنی
اناجیل اربعہ میں ابن آدم یعنی ابن مریم کے متعلق اس امر کا متعدد بار ذکر آتا ہے کہ اس نے اپنے حواریوں اور درپئے جاں یہودیوں کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ لوگوں کی طرف سے اسے بہت دکھ دیا جائے گا حتی کہ دکھ جھیلنے کے دوران ہی وہ چل بسے گا لیکن مرنے کے تین دن بعد وہ پھر جی اٹھے گا۔ عیسائی حضرات اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح کی یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور ایسا ہی ظہور میں آیا یعنی مسیح مرنے کے بعد پھر جی اٹھا۔ چنانچہ وہ دوبارہ جی اٹھنے کے مزعومہ واقعہ کو ’’الوہیت مسیح‘‘ کے ایک ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
قبل اس کے کہ ہم انجیل میں مذکور پیشگوئیوں کے اصل الفاظ کے بارہ میں ایک مغربی محقق کی ریسرچ کا ماحصل پیش کریں، یہ بتانا ضروری ہے کہ گزشتہ صدی کے دوران جب عیسائی پادریوں نے ہندوستان کی پوری آبادی کو عیسائیت کا حلقہ بگوش بنانے کی غرض سے ایک زبردست مشنری مہم کا آغاز کیا تو بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہندوستان میں عیسائیت کی یلغار کو روکنے اور عیسائیت کے مشرکانہ عقائد کا پول کھولنے کے لئے عیسائیوں پر اتمام حجت کا فریضہ دو طرح سے ادا فرمایا۔ ایک تو آپؑ نے بڑے ہی محکم دلائل کے ساتھ اس امر کو بڑی شدومد اور تحدی سے پیش فرمایا کہ مسیح علیہ السلام طویل عمر پاکر طبعی موت سے فوت ہوگئے تھے اس لئے اب وہ اللہ تعالیٰ کی قدیمی سنت مستمرہ کے مطابق اسی جسد عنصری کے ساتھ واپس نہیں آئیں گے اور نہ وہ کبھی آ سکتے ہیں۔ دوسرے حضور علیہ السلام نے از روئے انجیل خود واقعاتی شہادتوں اور بیرونی شواہد کی روشنی میں اس امر کا حتمی اور یقینی ثبوت بہم پہنچایا کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ صلیب پر سے زندہ اتارے جانے کے بعد آپ اسرائیل کے گمشدہ قبائل کی تلاش میں فلسطین سے خفیہ طور پر نکل کھڑے ہوئے اور جانب شرق سفر کرتے ہوئے کشمیر پہنچے اور پھر وہاں اپنا مشن پورا کرنے کے بعد آپ نے طبعی موت سے وفات پائی اور سرینگر کے محلہ خانیار میں دفن ہوئے جہاں ان کا مزار آج تک موجود ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جب مسیح علیہ السلام صلیب پر مرے ہی نہ تھے تو پھر اس امر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ تین دن کے بعد جی اٹھتے۔ اس سے دو ہی باتیں مستنبط ہوتی ہیں ایک یہ کہ اناجیل میں مندرج مسیح کی طرف منسوب کی جانے والی یہ پیشگوئی کہ وہ مرنے کے تین دن بعد جی اٹھے گا الحاقی ہے یا پھر عین ممکن ہے کہ مسیح علیہ السلام نے پیشگوئی کے طور پر کچھ اور فرمایا ہو جسے بدل کر کچھ کا کچھ کردیا گیا ہو۔ اس عقیدہ کو گزشتہ صدی کے ایک مغربی محقق نے اپنی کتاب میں حل کیا ہے۔ اس مغربی محقق کی تحقیق کا لبّ لباب پیش کرنا ہی فی الوقت ہمارے مدّنظر ہے۔
گزشتہ صدی میں ہوگزرنے والے اس برطانوی محقق کا نام تھا Mr. Keningale Cook M.A., LLD. (کیننگیل کک ایم۔اے، ایل۔ ایل۔ ڈی)۔ مسٹر کُک نے آج سے تقریباً ایک صدی سے بھی قبل کے زمانہ میں “The Fathers of Jesus” کے نام سے دو جلدوں پر مشتمل ایک کتاب مرتب کی جس میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ مروجہ مسیحی عقائد کے اصل ماخذ کون کون سے ہیں یعنی قبل از مسیح کے زمانہ قدیم میں یورپ اور ایشیا میں جو مذہبی عقائد و نظریات رائج تھے ان کے بعض حصوں کو بعد کے مسیحیوں نے کس طرح اناجیل میں داخل کرکے مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیا اور اسے خدا کی الوہیت میں شریک ٹھہرایا۔ اس کتاب کو اس وقت کے مشہور برطانوی اشاعتی ادارے Kegan Paul, Paternoster Square, London نے ۱۸۸۶ء میں شائع کیا۔ اس کی جلد اول کے باب دوم بعنوان “An Aryan Ancestor” (ایک آریائی مورث اعلیٰ) میں اس امر پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے کہ مسیح نے اپنے مرنے کے بارہ میں پیشگوئی کے طور پر جو کچھ کہا تھا بعد میں اسے اپنے تبدیل شدہ عقائد کی روشنی میں کچھ اور ہی معانی پہنا دئے گئے۔ مسٹر کُک نے ثابت یہ کیا ہے کہ یونانی زبان میں تحریر کردہ قدیم ترین نسخہ میں جو ایک مقدس مخطوطہ کے طور پر آج بھی محفوظ ہے مسیح کا مذکورہ قول درج کرتے ہوئے ’’مر کر جی اٹھنے‘‘ کے مفہوم کے طور پر جو یونانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ مر کر جی اٹھنے کے معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوتا۔ اس یونانی لفظ کا انگریزی تلفظ ہے ANASTASY۔ مسٹر کُک کا کہنا یہ ہے کہ قدیم یونانی زبان کا یہ لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک تو اس کے معنے ہیں بیٹھی ہوئی یا لیٹی ہوئی حالت سے اٹھ کر’’سیدھا کھڑا ہونا‘‘ اور دوسرے معنے ہیں ’’بیدار ہونا‘‘۔ جب اس قدیم یونانی مخطوطہ کو انگریزی میں منتقل کیا گیا تو اس یونانی لفظ کا ترجمہ تو Raise up ہی کیا گیا جس کے لفظی معنے کھڑا ہونا ہی ہیں لیکن عیسائی مترجمین نے اپنے بدلے ہوئے عقیدہ کو درست ثابت کرنے کے لئے اس انگریزی لفظ کے معانی میں ’’جی اٹھنے‘‘ کا مفہوم بھی داخل کردیا حالانکہ اس سے پہلے یہ لفظ اس مفہوم کا متحمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔
یہ ثابت کرنے کے بعد مسٹر کُک نے انجیل کی متعلقہ آیات درج کی ہیں۔ انہوں نے متعلقہ آیات درج کرتے وقت بریکٹ میں Raise up کا اصلی لفظی ترجمہ درج کرکے اس امر کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ مسیح کا اصل مطلب کیا تھا۔ ان کی درج کردہ آیات کا متن بریکٹ میں درج کئے ہوئے الفاظ سمیت بمعہ اردو ترجمہ ہم یہاں درج کرتے ہیں:
۱۔ جب یہودیوں نے مسیح سے نشان دکھانے کا مطالبہ کیا تو اس نے انہیں مخاطب ہوکر کہا:
ترجمہ: اس ہیکل کو ڈھا دو اور میں اسے تین دن میں کھڑا کردوں گا (لفظی معنوں کی رو سے اسے ’’بیدار کردوں گا‘‘ ) ۔۔۔ اس نے یہ اپنے بدن کی ہیکل کی بابت کہا تھا۔ (یوحنا باب ۲، آیات ۱۹، ۲۱)
۲۔ جب یسوع مسیح اپنے حواریوں کے ساتھ گلیل نامی شہر میں پھرتا تھا تو اس نے ان سے کہا:
ترجمہ: انسان کا بیٹا آدمیوں کے ہاتھوں حوالہ کیا جائے گا اور وہ اسے مار دیں گے اور وہ تیسرے دن جی اٹھے گا (لفظی معنوں کی رو سے ’’وہ بیدار ہو جائے گا‘‘) ۔
(متی باب ۱۷، آیت ۲۲)
(۳) واقعہ صلیب کے بعد دوسرے روز جو تیاری کے بعد کا دن تھا سردار کاہنوں اور فریسیوں نے پیلاطوس کے پاس جمع ہوکر کہا:
ترجمہ: ہمیں یاد ہے کہ وہ دغاباز اپنے جیتے جی کہتا تھا کہ میں تین دن کے بعد جی اٹھوں گا [لفظی معنوں کی رو سے ’’میں بیدار ہو جاؤں گا‘‘] ۔ (متی باب ۲۷، آیت ۶۳)
(۴) اسی طرح مرقس نے اپنی انجیل میں لکھا ہے:
ترجمہ: اس نے اپنے شاگردوں کو سکھلایا اور انہیں کہا کہ انسان کا بیٹا آدمیوں کے ہاتھوں میں حوالہ کیا جاتا ہے اور وہ اسے مار دیں گے اور اس طرح مارے جانے کے تیسرے دن وہ جی اٹھے گا [لفظی معنوں کی رو سے ’’خود بخود اٹھ کھڑا ہوگا‘‘] وہ اس بات کو نہ سمجھے اور اس کے پوچھنے سے ڈرے‘‘۔ (مرقس باب ۹۔ آیات ۳۱، ۳۲)
اناجیل کی مندرجہ بالا انگریزی عبارتیں اور ان کے درمیان بریکٹ میں دئے ہوئے توضیحی جملے مسٹر کیننگیل کُک کی مذکورہ کتاب کے صفحہ ۹۵، ۹۶ سے یہاں نقل کئے گئے ہیں۔ مسٹر کُک کی سطور بالا میں بیان کردہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب مسیح نے یہ کہا تھا کہ وہ مرنے کے تین دن بعد بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوگا تو اس میں یہ اشارہ مضمر تھا کہ جب وہ لوگوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اسے اپنی دانست میں مار ڈالیں گے تو وہ فی الحقیقت مرے گا نہیں بلکہ اس پر نیند کی طرح کی غشی طاری ہوجائے گی اور وہ تین دن بعد اس غشی سے باہر آکر یا بالفاظ دیگر نیند سے بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوگا۔ جب مسیح خود اپنے قول کے بموجب مرا ہی نہ تھا بلکہ وہ نیند سے بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوا تھا تو اس کے جی اٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی اس بیداری کو اس کی الوہیت کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا سراسر بے معنیٰ ہے۔
مسٹر کیننگیل کک کا یہ نظریہ ۔۔۔ کہ جس قدیم یونانی لفظ کا ترجمہ مردوں میں سے جی اٹھنا کیا گیا ہے اس کے لفظی اور اصل معانی بیدار ہوکر اٹھ کھڑے ہونے کے ہیں نہ کہ مر کر جی اٹھنے کے ۔۔۔ ایک اور لحاظ سے بھی درست ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس نئے حوالہ کی جس سے یہ نظریہ سولہ آنے درست ثابت ہوتا ہے نشاندہی ازمنہ قدیم کی تاریخ اور بالخصوص تاریخ مذاہب قدیم کے برطانوی پروفیسر T. R. Glover کی کتاب “The Conflict of Religions in th Early Roman Empire” (سلطنت روما کے ابتدائی دور میں مذاہب کی آویزش باہمی) سے بھی ہوتی ہے۔ یہ کتاب لندن کے اشاعتی ادارہ Methuen & Co. Ltd. نے پہلی بار ۱۹۰۹ء میں شائع کی تھی اور ۱۹۱۸ء تک اس کے سات ایڈیشن شائع ہوچکے تھے۔ مسٹر گلوور نے اپنی اس کتاب میں ایک بات یہ بھی لکھی کہ ابتدائی صدیوں کے مسیحی ماہرین دینیات نے یہودیوں کو مسیحیت کا قائل کرنے کے لئے اس امر کو بڑی شدومد سے پیش کرنا شروع کیا کہ مسیح کی اپنی زندگی میں جو واقعات بھی پیش آئے ان میں سے ہر واقعہ کی عہد نامہ قدیم میں پہلے سے پیشگوئی موجود ہے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان سب پیشگوئیوں کا مسیح کی ذات پر چسپاں ہونا اور اس کی حیات میں عملاً پورا ہونا اس کی صداقت کی بیّن دلیل ہے۔ چنانچہ قدیم مسیحی مخطوطات اور کتب کے حوالہ سے انہوں نے اپنی مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر ۱۸۵ پر ایسی پیشگوئیوں کی ایک فہرست بھی درج کی۔ اس میں انہوں نے مسیح کے مر کر جی اٹھنے کی پیشگوئی کے طور پر زبور کے ایک حوالہ کا مفہوم غالباً اپنے الفاظ میں یوں درج کیا:
اس زبور کا ترجمہ یہ ہے کہ میں سوگیا اور محو خواب ہوا کیونکہ خدا میرا سہارا تھا اور اسی نے مجھے سنبھالا۔ زبور ۳ کی یہ آیت عہدنامہ قدیم کے پرانے نسخوں میں بایں الفاظ مذکور ہے:
ترجمہ : میں لیٹ گیا اور سو رہا ، میں جاگ اٹھا کیونکہ خدا نے مجھے سنبھال لیا۔(ترجمہ از ’’ہولی بائبل مطبوعہ کیمبرج یونیورسٹی پریس لندن۔ ۱۸۴۶ء)
لندن کے اشاعتی ادارے Darton, Longman & Todd نے “The New Jerusalem Bible” کے نام سے ۱۹۸۵ء میں بائبل کا جو جدید نسخہ شائع کیا اس میں زبور کی اس آیت کو پیشگوئی کے طور پر ان الفاظ میں درج کیا:
ترجمہ: جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے اگر میں لیٹ جاؤں اور سو جاؤں تو میں جاگ اٹھوں گا کیونکہ مجھے سنبھالنے والا میرا خدا ہے۔
بہرحال زبور کے الفاظ جو بھی ہوں خود مسیحیوں کے اعتقاد کے بموجب عہد نامہ قدیم میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مسیح پر اونگھ آئے گی اور وہ سو جائے گا اور وہ پھر بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوگا کیونکہ خدا خود اسے سہارا دے کر سنبھال لے گا اور اس کی نیند کو موت میں تبدیل نہیں ہونے دے گا۔ اندریں صورت مسیحی حضرات کا یہ کہنا کس طرح درست تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا تھا اور مرنے کے بعد پھر جی اٹھا تھا۔ زبور کی اس پیشگوئی سے بھی یہ بات دو اور دوچار کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ مسیح فی الحقیقت صلیب پر مرا نہ تھا بلکہ اس پر نیند کی طرح کی غشی طاری ہوگئی تھی جسے رومی سپاہیوں نے موت قرار دے کر مسیح کو صلیب پر سے اتار لیا اور وہ بعد میں اسی طرح اٹھ کھڑا ہوا تھا جس طرح ایک سویا ہوا شخص بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ زبور کی اس پیشگوئی سے بھی جسے مسیحی خود دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح یہ کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ مرنے کے تین دن بعد پھر جی اٹھے گا۔ اس نے تو وہی کچھ کہنا تھا جو خودمسیحیوں کے اپنے اعتقاد کی رو سے پہلے ہی بطور پیشگوئی زبور میں بیان کردیا گیا تھا اور وہ یہی تھا کہ مجھ پر صرف نیند نما غشی طاری ہوگی اور میں بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوں گا۔
(الفضل انٹرنیشنل ۴؍جولائی ۱۹۹۷ء تا۱۰؍جولائی ۱۹۹۷ء )