حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ
مولانا عطاءالمجیب راشد، امام بیت الفضل لندن
حضر ت چو ہد ری محمد ظفر اللہ خا ن صا حب ر ضی اللہ عنہ کو اللہ تعا لی نے ا پنے فضل و کر م سے ا تنی خو بیو ں ، سعادتوں ا ورامتیازا ت سے نوازا تھاکہ ان کے بارہ میں اب تک جو لکھا جا چکا ہےآئیندہ وقتوں میں ا س سے بھی بہت زیادہ لکھا جا ۓگا ـمیں اس مضمون میں حضرت چو ہدری صا حب ؓ کے حا لا تِ زندگی ، نمایاں کامیابیوں اور خدمات کے تذکرہ سے ہٹ کر اپنے ذاتی مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں چند واقعات اور تاثرات لکھنا چا ہتا ہوں تاکہ نئی نسل کے سامنے ،جو ان کی زندگی میں انہیں دیکھ نہیں سکی ، حضرت چوہدری صاحبؓ کی سیرت اور شخصیت کا کسی حد تک ایک مکمل نقشہ ابھر سکے۔
زندگی کی سب سے بڑی سعادت
سب سے پہلے تو میں ایک نہا یت پُرلُطف اور دل پر گہرا اثر کرنے والی بات بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ پاکستان کے ایک ادبی رسالہ کے نمائندہ نے ایک دفعہ اپنے رسالہ کے خصوصی شمارہ کے لئے آپ کا انٹرویو لیتے ہوئے کچھ اس طرح کا سوال کیا کہ چوہدری صاحب! آپ نے زندگی میں کامیابیاں تو بے شمار حاصل کی ہیں ،یہ بیان فرمائیں کہ آپ کے خیال میں آپ کی زندگی کی سب سے بڑی سعادت کیا ہے ؟حضرت چوہدری صاحب ؓ نے اس بظا ہر مشکل سوال کا بہت ہی بر جستہ اور جا مع جواب اس طرح دیا کہ میری زندگی کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ میں نے زمانہ کے امام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح مو عود اور امام مہدی علیہ السلام کو شناخت کرنےاور ان کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کی توفیق پائی ۔فالحمدللہ علی ذالک
ابتدائی تعارف
جب میں نے ہوش سنبھالا تو حضرت چوہدری صاحبؓ ایک بڑے انسان اور مدبرراہنما کے طور پر دنیا میں خوب مشہور تھے ـجلسہ سالانہ کے موقع پر مجھے آپ کی تقاریر سننے کا موقع ملا ـآپ کے اندازِخطابت میں ایک جدت اور ندرت ہوتی تھی ۔آپ بات خوب کھول کر اور آسان طریق پر بیان فرماتے تاکہ سب اسے اچھی طرح سمجھ جائیں۔ یہ میرا دُور سے آپ سے ابتدائی تعارف تھا ۔ اس کے بعد مجھے پہلی بار جب آپ سےبراہ راست بات کرنے کا موقع ملا اور جس کی یاد میرے ذہن میں اچھی طرح نقش ہے وہ اس طرح ہے کہ حضرت اباجان مرحوم ومغفورنے ا پنے مکان ’’بیت ا لعطاء‘‘ (دارالرحمت وسطی ۔ربوہ)میں چند بزرگان کی دعوت کی ۔ان میں چوہدری صاحبؓ بھی شامل تھے۔ دعوت کے بعد جب چوہدری صاحبؓ واپس جانے لگے تو حضرت ابا جان نے کہا کہ میں انہیں چھوڑنے ان کے ساتھ ان کی کوٹھی واقع دارالصدر غربی تک جاؤں ۔مجھے یاد ہے کہ چوہدری صاحب اور میں دونوں پیدل روانہ ہوئے ۔میں ان کی عظیم شخصیت اور ادب کی وجہ سے بالعموم خاموش ہی رہا لیکن آپ مختلف باتیں بیان فرماتے رہے ۔میں نے محسوس کیاکہ آپ بہت شفیق ،بے تکلف اور سادہ طبیعت کے بزرگ انسان ہیں ۔باتوں کے دوران ایک بار انہوں نے میرے بازو کو کہنی کے اوپر سے پکڑا تو میرا بازو ان کی انگلیوں میں آگیا ۔اس پر مجھے یاد ہے کہ چوہدری صاحبؓ فرمانے لگےIs that all?کہ بس صرف اتنا ہی؟ہم دونوں پیدل چلتے ہوئے ان کی کوٹھی تک پہنچ گئے۔چوہدری صاحبؓ نے شکریہ ادا کیا اور میں نے دعا کی درخواست کی ۔یہ پندرہ بیس منٹ کی ملاقات میری ان سے پہلی ملاقات تھی اور اس کا حسین تاثر آج تک میرے ذہن پر نقش ہے ۔
شفقتوں کا آغاز
آپ سے زیادہ ملاقاتوں کا موقع تو تب ملا جب میں مبلغ سلسلہ اور نائب امام کے طور پر ۱۹۷۰ میں لندن آیا۔اس دور کے واقعات بغیر کسی خاص ترتیب کے بیان کرتا ہوں جن سے حضرت چوہدری صاحبؓ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے ۔جب میں لندن آیا تو یہ میرےلیے بیرون پاکستان جانے کا پہلا موقع تھا ۔ احمدیت کی برکت سے میں نے پہلی بار ہوائی جہاز کا سفر کیا ۔سکول اور کالج میں انگریزی پڑھنے کا موقع تو ملا لیکن لکھنے اور خاص طور پر بولنے کا ما حول زیادہ نہیں تھا ۔کالج اور جامعہ میں زبانی یاد کر کے چند تقاریربھی کیں لیکن عام گفتگو اور بول چال کا محاورہ نہیں تھا۔یہ بات میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ لندن آنے کے قریبادو ماہ بعد میرا انگریزی کا امتحان ہو گیا ۔اور اس کے ممتحن تھے حضرت چوہدری صاحب ؓ۔
ہوا یوں کہ محترم بشیر احمد خان رفیق صاحب نے جو اس وقت امام اور مبلغ انچارج تھے ایک دن مجھ سے کہا کہ اب کسی روز آپ نے مسجد میں خطبہ جمعہ بھی دینا ہے (جو انگریزی میں ہوتا تھا )میں نے عرض کی کہ ایسی بھی کیاجلدی ہے؟بعد میں انشاء اللہ تعالیٰ مواقع ملتے رہیں گے ۔بات ختم ہوگئی ۔لیکن ہوا یہ کہ چند دنوں بعد جمعہ کا دن آیا اور جب میں سنتوں کی ادائیگی سے فا رغ ہوا اور چند منٹوں بعد دوسری اذان ہوگئی تو خان صاحب محترم نے جو میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے کہنی کے اشارہ سے فر ما یا کہ خطبہ کے لیے اٹھیں ۔میں ذہنی طور پر با لکل تیار نہ تھا ۔لیکن موقع ایسا تھا کہ معذرت کی بھی کوئی گنجائش نہ تھی ۔مسجد نمازیوں سے بھری تھی ۔زیادہ بات بھی نہ کی جا سکتی تھی بہرحال مجھے اٹھنا پڑا ۔دعا کرتے ہوئے میں نے خطبہ کا آغاز تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ سے کیا ۔یہ سب کچھ تو آسان تھا ۔اس عرصہ میں میں نے دائیں بائیں ایک نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ حضرت چوہدری صاحبؓ حسبِ معمول پہلی صف کے دائیں کونے میں کرسی پر تشریف رکھتے ہیں۔ آپ نے نئے خطیب کی آواز سنی تو نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا ۔مجھے یقین ہے کہ دعا تو آپ نے ضرور کی ہو گی لیکن میری حالت یہ تھی کہ حضرت چوہدری صاحبؓ کی شخصیت کا رعب بلکہ خوف دل پر چھایا ہواتھا لیکن عین اس وقت مجھے حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی یہ نصیحت یاد آئی جو آپ نے الوداعی ملاقات میں فرمائی تھی کہ لندن جا کر خوب اعتماد اور بے تکلفی سے انگریزی بولنا اور ابتداءمیں کوئی غلطی بھی ہو تو ہر گز نہ گھبرانا ۔ اس نصیحت نے مجھے بہت حوصلہ دیا اور میں نے دل ہی دل میں یہ کہہ کراپنے آپ کو حوصلہ دیا کہ چوہدری صاحبؓ بیٹھے ہیں تو کوئی بات نہیں ۔آخر چوہدری صاحبؓ نے بھی تو آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے اتنی شاندار انگریزی سیکھی ہے۔
چند لمحات میں یہ سب خیالات میرےذہن سے گزر گئے اور میں نے اللہ پر توکل کرتےہوئےخطبہ دینا شروع کر دیا۔اب تو مجھے یاد بھی نہیں کہ خطبہ کس موضوع پر تھا ۔ بہرحال پندرہ بیس منٹ کا خطبہ دیا اور خطبہ ثانیہ کے بعد نماز پڑھا دی۔ اس کے بعد سنتیں ادا کیں اور قدرے لمبی ادا کیں ۔یہ بھی خیال تھا کہ اس عرصہ میں حضرت چوہدری صاحبؓ اٹھ کر جا چکے ہوں گے اور یہ مرحلہ نہیں آئے گا کہ حضرت چوہدری صاحبؓ مسجد میں ہی میرا بازو پکڑ کر سب کے سامنے یوں گویا ہوں کہ راشد صاحب! انگریزی اس طرح نہیں بولی جاتی ۔یہ لفظ یوں نہیں بلکہ اس طرح ہے وغیرہ ۔میں سنتیں ادا کرنے کھڑا ہوا تو دیکھا کہ چوہدری صاحبؓ ابھی تک نماز میں مصروف ہیں ۔میں نے اسی میں خیریت جانی کہ جلدی جلدی مسجد سے روانہ ہو جاؤں ۔ اب امتحان کے نتیجہ کا انتظار تھا۔خیال یہی تھا کہ اولین فرصت میں حضرت چوہدری صاحبؓ کی طرف سے راہنمائی ملے گی ۔ شام کو محترم بشیر رفیق صاحب ملے تو انہوں نے مبارکباد دی ۔میں نے پوچھا کس بات کی ؟ تو کہنے لگے کہ چوہدری صاحب ؓ نے آپ کو انگریزی میں پاس کر دیا ہے ۔میں نے الحمدللہ کہا اور یہی سوچا کہ چوہدری صاحب نے ازراہ مہربانی نئے خطیب کواس کی پہلی کوشش میں اپنی وسعتِ قلبی سے رعایتی نمبر دے کر پاس کر دیا ہوگا ۔الحمدللہ کہ ان کی عنایات کا سلسلہ بعد میں بھی متنوع رنگ میں جاری رہا ۔
درویشانہ اندازِ گفتگو
اللہ تعالی نے حضرت چوہدری صاحبؓ کو دنیا جہاں کی بے شمار نعمتوں اور اعزازات سے نوازا تھا ۔آپ دنیا کے عظیم محلات اور ایوانوں میں گئے عظیم شخصیات سے ملنے کے مواقع آپ کو ملے لیکن آپ طبعا ًبہت ہی منکسرالمزاج تھے اور آپ کی زندگی پر سادگی اور درویشی کا رنگ غالب تھا۔اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ اپنی ذات پر خرچ میں بہت بچت کرتے لیکن راہ ِخدا میں خرچ کرتے ہوئے اور غرباء اور طلباء کی امداد کے وقت خوب دل کھول کر خرچ کرتے تھے ۔ اپنی ذات پر بچت کے حوالہ سے آپ کا ایک معمول یہ تھاکہ جب بھی آپ اپنے کاموں کے لئے سنٹرل لندن جاتے تو ڈسٹرکٹ لا ئن (District Line)کے ایسٹ پٹنی (East Putney)سٹیشن سے آتے جاتے تھے ۔اسکی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ پیدل راستہ کے لحاظ سے وہ دوسرے سٹیشن ساؤتھ فیلڈز(Southfields) سے قدرے دور تھا ۔لیکن وہاں سے جانے کی صورت میں کرایہ غالباًایک پینس کم لگتا تھا۔عام لوگ بالعموم ساؤتھ فیلڈز سٹیشن سے سفر کرتے اور کرایہ کے اس معمولی فرق کا خیال نہ کرتے اور اپنے آرام کو مقدم رکھتے تھے۔حضرت چوہدری صاحبؓ ہر سفر میں ایک پینس کی بچت کرتے اور دوسروں کو بھی بتاتے اور اس کی تحریک فرماتے تھے۔حضرت چوہدری صاحب ؓ نے بتایا اور کئی بار یہ بات ان کی تقاریر میں سننا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بعض لوگ مجھ سے بحث کرنے لگ جاتے ہیں کہ چوہدری صاحب ایسا کرنے سے آپ کو کیا بچت ہوتی ہےمیں کہتا ہوں :ایک پینس ۔وہ پھر کہتے ہیں آخر آپ کو فا ئدہ کیا ہوتا ہے ؟میں ان سے پھر کہتا ہوں: ایک پینس۔حضرت چوہدری صاحبؓ یہ تذکرہ بہت تفصیل سے فرماتے اور اپنے مخصوص انداز میں احباب کو بتاتے کہ دیکھنےمیں تو یہ ایک پینس کی بچت ہے لیکن اسی طرح بچت کرتے رہنے سے سینکڑوں ہزاروں پاؤنڈ کی بچت کی جا سکتی ہے۔ ایسے مواقع پر آپ’’ قطرہ قطرہ می شود دریا‘‘ کا فارسی محاورہ بھی استعمال فرماتے ۔
حاجت مندوں کی امداد
آپ کا انداز نصیحت بہت موثر ہوتا۔ پھر اس نصیحت کے ساتھ ساتھ راہ ِخدا میں فراخدلی سے خرچ کرنے کا آپ کا شاندار ذاتی نمونہ سب کے سامنے تھا ۔آپ نے ضرورت مند قابل طلبہ اور حاجت مندوں کی امداد کی خاطر ساؤتھ فیلڈز ٹرسٹ کے نام سے ایک ادارہ بنایا ہوا تھا جس سے وظائف بطور قرضہ حسنہ یابطور امداد دیتے جو اپنی ذات میں عظیم خدمت اور صدقہ جاریہ تھا ۔علاوہ ازیں ضرورت مندوں کی امداد کا ایک وسیع سلسلہ تھا لیکن بالعموم ایسے رنگ میں امداد کرتے کہ کسی اور کو اس کا علم نہ ہو ۔مجھے اس ٹرسٹ کے ممبر کے طور پر کچھ عرصہ کام کرنے کا موقع ملا اور میں نے حضرت چوہدری صاحب ؓ کی سیرت کے اس پہلو کا بغور مشاہدہ کیا۔
عظیم مالی قربانی کا عاجزانہ انداز
دین کی راہ میں مالی قربانی کی ایک عظیم اور شاندار مثال یہ ہے کہ ایک وقت جماعت میں یہ تجویز چلی کہ جماعت احمدیہ بر طانیہ کے مرکز میں موجود دو عمارتوں کو(جو کافی پرانی ہو چکی تھیں ) گرا کرایک بڑاکمپلیکس بنایا جائے جس میں ایک بڑا ہال ،دفاتر ،دو بڑے رہائشی مکان اور ایک چھوٹا رہائشی فلیٹ ہو۔ اس تعمیراتی منصوبہ کے لئے جماعت کے پاس اس وقت مطلوبہ رقم نہیں تھی ۔جماعتی ضروریات کے لئے بینک سے سود پررقم لینا جماعت کا طریق نہیں ۔چوہدری صاحب سے درخواست کی گئی کہ کیا آپ یہ رقم مہیا فرما سکتے ہیں جو بعد ازاں آپ کو قسط وار واپس کر دی جائے گی ۔آپ نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔قرآنی تعلیم کے مطابق اس غرض سے ایک معاہدہ تحریر کیا گیا کہ حضرت چوہدری صاحب جماعت کو ایک لاکھ پاؤنڈ ادا کریں گے اور جماعت اس کی واپسی کی ذمہ دار ہو گی ۔ایک شام معاہدہ کی تحریر چوہدری صاحب کو دی گئی ۔انہوں نے کہا کہ میں بغور مطالعہ کرنے کے بعددستخط کر کے کل دے دوں گا ۔
اگلی صبح چوہدری صاحب نے فرمایا کہ میں نے اس بارہ میں سوچا تو میرے نفس نے مجھ سے کہا کہ ظفراللہ خان! آج تم جو کچھ ہو احمدیت کی بدولت ہو ۔تم نے جو کچھ پایا وہ سارے کا سارا اسی جماعت کا فیضان ہے ۔کیا اب تم اسی محسن جماعت کو ایک رقم قابلِ واپسی قرض کے طو ر پر دینا چاہتے ہو ؟میرے نفس نے مجھے بہت ملامت کی اور میں اپنے ارادہ پر بہت شرمسار ہوا اور بہت استغفار کی ۔اسی لمحہ میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ مطلوبہ رقم بطور قرض نہیں بلکہ ایک عاجزانہ عطیہ کے طور پر جماعت کی خدمت میں پیش کروں گا۔یہ فرماتے ہوئے آپ نے معاہدہ کی تحریر پھاڑ ی اور ایک لاکھ پاؤنڈ کا چیک اسی وقت جماعت کے حوالہ کر دیا ۔اور ساتھ یہ درخواست بھی کی کہ میری اس ادائیگی کا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور شخص سے میری زندگی میں ہر گز ذکر نہ کیا جائے ۔قربانی ،عاجزی اور اخلاص کا کیا شاندار نمونہ ہے۔
اس عمارت کے حوالہ سے ایک اور شاندارواقعہ اس جگہ ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔عمارت کا سنگ بنیاد ۱۹۶۷ میں رکھا گیا اور ۱۹۷۰ میں تکمیل ہوئی ۔ حضرت چوہدری صاحب نے جماعت سے درخواست کی کہ جب تک ان کی زندگی ہے اور انہیں لندن میں قیام کے لئے جگہ کی ضرورت ہو تو عمارت کی دوسری منزل سے ملحقہ جو چھوٹاسا فلیٹ ہے اس میں رہائش کی اجازت عطا فرمائی جائے ۔حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے بخوشی اس کی اجازت عطا فرمائی ۔یہ چھوٹا سا فلیٹ واقعی بہت چھوٹا تھا۔ مجھے کئی بار اس فلیٹ میں جانے اور اس کو بغور دیکھنے کا موقع ملا۔ فلیٹ بہت مختصر تو تھا لیکن حضرت چوہدری صاحب کی مختصر اور سادہ ضروریات کے لئے بہت کافی تھا ۔ایک چھوٹا سا بیڈ روم تھا۔مختصر سا کچن اور غسلخانہ تھا۔ایک درمیانے سائز کا سٹنگ روم تھا جو آپ کے مطالعہ اور ترجمہ کے کام کا کمرہ تھا ۔آپ کا اکثر وقت اسی میں گزرتا ۔اسی میں ایک طرف سادہ سا صوفہ رکھا ہوتا آنے والوں مہمانوں سے اسی جگہ بات چیت ہو جاتی ۔
چھوٹے بیڈ روم کا اوپر ذکر آیا ہے ۔یہ بیڈ روم اتنامختصر تھا کہ ایک سنگل بیڈ کے علاوہ کپڑوں کی چھوٹی الماری اور ایک چھوٹی سی میز اور کرسی ہوتی تھی چلنے پھرنے کی جگہ نہ ہونے کے برابر تھی ۔ اس مختصر سے بیڈ روم میں آپ نےسالہا سال بڑی سادگی اور قناعت سے گزارا کیا ۔آپ کے ایک بے تکلف عزیز نے مجھے یہ واقعہ سنایا کہ حضرت چوہدری صاحب ایک بار انہیں اپنا فلیٹ دکھانے کے لئے ساتھ لئے گئے ۔جب اس چھوٹے سے بیڈ روم میں داخل ہوئے انہوں نے بے ساختہ کہا کہ اتنے چھوٹے سے بیڈ روم میں آپ کیسے گزارہ کرتے ہیں ؟ یہ بات سن کر حضرت چوہدری صاحب نے جو بر جستہ جواب دیا وہ عجیب عارفانہ جواب تھا ۔ آپ نے فرمایا :
’’جس جگہ آگے جانا ہے وہ تو اس سے بھی تنگ ہو گی ‘‘
اللہ کے پاک بندوں کی سوچ بھی کیا نرالی ہوتی ہے ۔ قدم قدم پر آخرت یاد رہتی ہے اور ہر وقت اپنے آپ کو اس سفر ِِآخرت کے لئے تیار کرتے رہتے ہیں ۔
سادگی اور قناعت
حضرت چوہدری صاحب ؓ کی زندگی میں سادگی ،بے تکلفی ،اور قناعت کا پہلو بہت نمایاں تھا ۔آپ کا لباس بہت عمدہ ،صاف اور باوقارہوتا ۔اکثر ایسا ہوتا کہ آپ ایک ہی لباس کو لمبا عرصہ بہت احتیاط اور نفاست سے استعمال فرماتے اور اس بات کے ذ کر کرنے میں کبھی عار محسوس نہ فرماتے کہ میرا یہ سوٹ کتنا پرانا ہے بلکہ بڑے شوق اور خود اعتمادی سے بیان کیا کرتے تھے کہ میں نے یہ سوٹ یا موزے فلاں سن میں فلاں دوکان سے اتنی قیمت میں خریدے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ جو قمیص میں نے اس وقت پہنی ہوئی ہے وہ اتنے سال قبل میں نے نیویارک میں فلاںسڑک کے کنارے پر واقع ایک دوکان سے ایک ڈالر میں خریدی تھی ۔ الغرض یہ بات احباب میں بہت معروف تھی کہ چوہدری صاحب ایک لباس کو لمبا عرصہ استعمال کرتے ہیں ۔
یہ لکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ ایک عید کے موقع پر حضرت چوہدری صاحبؓ نے اس عاجز کو ایک اُونی مفلر عید کے تحفہ کے طور پر دیا ۔مفلر دیتے ہوئے آپ نے خاص طور پر فرمایا کہ یہ مفلر پُرانا نہیں، میں نے اسے صرف ایک دفعہ استعمال کیا ہے اور یہ دن وہ تھا جب میں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کی تھی ۔میں نے یہ قیمتی اور یادگار تحفہ بہت شکریہ کے ساتھ وصول کیا ۔
آپ کا مرغوب ترین موضوع
حضرت چوہدری صاحبؓ کا ا ندازِ گفتگو بھی عجیب شان رکھتا تھا ۔جماعتی اجلاسات میں آپ کا انداز ِبیان بہت پُرتاثیر اور معلوماتی ہوتا ۔موضوع کے عین مطابق ،با موقع اور ٹھوس گفتگو فرماتے ۔ایک بات جس کا ذکر میں نے آپ کی زبان سے بارہا سنا وہ اللہ تعالی کا شکر کرنا ہے ۔اس پہلو پر آپ اپنے تربیتی خطابات میں بہت زور دیتے اور اکثر آیت کریمہ
لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَأَ زِیْدَنَّکُمْ (سورہ ابراہیم 14:8)
کا حوالہ دیا کرتے تھے۔اپنی گفتگو میں بھی شکرِ نعمت کا مضمون بارہا بیان فرماتے اور اس انداز میں بیان فرماتے کہ سننے والے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے ۔ بسا اوقات میں نے یہ بات مشاہدہ کی کہ آپ کسی بے تکلف مجلس میں بیٹھے ہیں اور اپنی زندگی کے واقعات اوراللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر آنے پر آپ کی آواز بھرّا جاتی اور شکرگزاری کے جذبہ سے آنکھوں میں آنسو آجاتے ۔
میں کہہ سکتا ہوں کہ شکرگزاری آپ کا مرغوب ترین موضوعِ گفتگو تھا۔ آپ نے اسی جذبہ سے سرشا رہو کر اپنی خود نوشت سوانح عمری کا نام بھی ’’ تحدیثِ نعمت ‘‘ رکھا جو آپ کی ذات کے حوالہ سے خوب جچتا ہے ۔ اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ واقعات کے ضمن میں جہاں بھی کسی شخص کی طرف سے مدد یا حسنِ سلوک کا ذکر آتا تو آپ اس کا شکریہ ادا کرنا نہ بھولتے بلکہ دعایئہ الفاظ بھی درج فرماتے ۔ اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں کا شکر ادا کرنا اس عبدِ شکور کی مبارک زندگی کا لازمی حصہ تھا۔
دعا اور نمازوں کا اہتمام
حضرت چوہدری صاحب ؓ بہت دعا گو انسان تھے ۔دعا اور عبادت ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ۔نمازوں کا بہت اہتمام کرتے۔ نمازوں کے صحیح اوقات پر ہمیشہ بہت گہری نظر رکھتے ۔جب بھی ہالینڈ سے لندن آتے تو نمازوں کے اوقات کا ضرور دریا فت فرماتے ۔نماز بہت اہتمام ،خوبصورتی ،یکسوئی اور آرام سے اول وقت میں ادا فرماتے۔ نماز میں تلاوت سنتے وقت ایسے شخص کی تلاوت کو پسند فرماتے جو مضمون کو سمجھتے ہوئے اور اس کا لحاظ رکھتے ہوئے مناسب جگہ پر ٹھہرتے ہوئے تلاوت کرتا ہو ۔ مسجد میں آنے کے بعد اپنا وقت نماز سے قبل اور بعد تسبیحات اور ذکر الٰہی میں گزارتے۔
صبح کی سیر
صبح کی سیر کا بہت اہتمام فرماتے اوریہ سارا وقت ذکر الہی اور دعاؤں کے لئے وقف کر دیتے ۔اس غرض سے آپ نے اپنے ذہن میں دعاؤں اور ذکر الہی کا ایک نقشہ اور ترتیب بنائی ہوئی تھی ۔ اس کے مطابق آپ سارے وقت کو اس نیک کام میں گزارتے ۔ میں نے کئی دفعہ آپ سےسنا کہ جب میں سیر کرتےہوئے فلاں جگہ یا فلاں موڑ پر پہنچتا ہوں تو اس وقت تک میں نےاتنی دفعہ درود کا ورد کر لیا ہوتا ہے یا فلاں دعا مکمل کر لی ہوتی ہے ۔ اگر کسی روز فجر کے بعد بارش ہورہی ہوتی تو آپ محمود ہال کے اندر چل پھرکر سیر کا وقت پورا کر لیتے ۔ اس طرح دعاؤں اور تسبیحات کی مقررہ تعداد میں ورد پورا کرنے سے آپ کو فاصلہ کا اندازہ بھی ہوجاتاتھا۔ سیر کے حوالہ سے ایک دلچسپ بات یاد آئی جو ایک دفعہ آپ نے مجھے بتائی ۔فرمانے لگے کہ فلاں شکل وشباہت کاایک انگریز شخص ہے جو ہر روز صبح کی سیر میں ایک خاص مقام پر مجھے ملتا ہے ۔وہ آرہا ہوتا ہے اور میں جا رہا ہوتا ہوں۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو گڈ مارننگ (Good morning)کہتے ہیں ۔فرماتے تھے کہ وہ شخص وقت کا بہت ہی پابند لگتا ہے اور پھرمسکراتے ہوئے فرماتے کہ میں بھی تو اس سے کم نہیں ہوں !
دعا اور نمازوں کا اہتمام
دعاؤں کے حوالہ سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جو لوگ آپ سے دعا کی درخواست کرتے(اور ایسے لوگوں کی تعداد یقینا کئی سو ہو گی ) تو آپ ان کے نام اور ان کی ضروریات کو توجّہ سے سن کر اپنے حافظہ میں محفوظ کر لیتے ۔مجھے ایک دفعہ بتایا کہ میں نے ایسے سب لوگوں کی فہرست ایک خاص ترتیب سے ذ ہن میں بنائی ہوئی ہے اور ان کی ضروریات کے لحاظ سے مختلف گروپ بھی بنائے ہوئے ہیں ۔ اس طریق سے سب کے نام آپ کو یاد ہوتے اور سب کے لئے آپ باقاعدگی سے نا م بنام دعا کرتے تھے ۔
اس سلسلہ میں بعض لطائف بھی ہو جاتے ۔ایک مثال حضرت چوہدری صاحؓب نے خودبیان فرمائی کہ ایک نوجوان نے ایک دفعہ ان سے درخواست کی کہ دعا کریں کہ میری شادی ہو جائے ۔بس اس کا نام حضرت چوہدری صاحبؓ کے ’’کمپیوٹر‘‘ میں داخل ہو گیا اور آپ اس کے متعلق دعا کرتے رہے ۔آپ نے بیان فرمایا کہ قریبا ًتین سال کے بعد وہ نوجوان مجھے ملا تو میں نے اس سے پوچھا کہ سناؤ شادی ہو گئی ہے؟۔اس نے مسکراتے ہوئے کہاکہ چوہدری صاحب شادی ہو گئی ہے اور دو بچے بھی ہیں !چوہدری صاحب نے فرمایا کہ مجھے بتا تو دیا ہوتا ،میں تو ابھی تک تمہاری شادی کے لئے دعا کر رہا ہوں!
زبردست حافظہ
اللہ تعالی نے بے شمار علمی صلاحیتوں کے ساتھ آپ کو زبردست حافظہ بھی عطا فرمایا تھا ۔میں نے آپ کے ہاتھ میں کبھی ڈائری نہیں دیکھی ۔اپنی مصروفیات اور ملاقاتوں کے سب پروگرام ذہن میں محفوظ رکھتے اور کبھی کوئی دقت محسوس نہ کرتے تھے ۔ خاص طور پر اپنے احباب اور تعلق والوں کے فون نمبر سب آپ کو زبانی یاد تھے ۔ جن دنوں آپ کا قیام لندن میں ہوتا تو آپ کا معمول تھا کہ اکثر دس گیارہ بجے میرے دفتر میں تشریف لے آتے ۔میزکےسامنے والی کرسی پر تشریف رکھتے اور فرماتے کہ فلاں شخص سے فون ملا دیں ۔ میں فون کی کاپی کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو فرماتے کہ ان کا نمبر میں آپ کو زبانی بتا دیتا ہوں ۔جب بھی آپ تشریف لاتے ہر بار ایسے ہی ہوتا ۔اس سلسلہ میں ایک حیران کن بات آپ نے یہ بتائی کہ جب میں برطانیہ میں ہوتا ہوں تو برطانیہ کے احباب کے ٹیلیفون نمبرز میرے ذہن میں روشن ہو جاتے ہیں اور جب میں امریکہ جاتا ہوں تو وہاں کے نمبرز روشن ہو جاتے ہیں اور برطانیہ کے نمبرز اس وقت ماند پڑ جاتے ہیں ۔
اسی نوعیت کی ایک اور حیران کن بات یہ تھی کہ آپ سال کی مختلف تاریخوں کے بارہ میں زبانی بتا دیا کرتے تھے کہ اس تا ریخ کو کون سا دن ہو گا ۔پروگرام بناتے وقت ہماری نظریں تو کیلنڈر کی طرف اٹھتیں لیکن چوہدری صاحب فوراً زبانی حساب کر کے بتا دیتے کہ کون سا دن ہو گا ۔میں نے ایک بار آپ سے پوچھا کہ اس کا راز اور طریق کیا ہے؟ تو فرمایا کہ جب نیا سال چڑھتا ہے تو میں اس کی چند اہم اور بنیادی تاریخوں کا دن اچھی طرح ذہن میں نقش کر لیتا ہوں اور جب ضرورت ہوتی ہے تو انہی اہم تاریخوں سے آگے پیچھے زبانی حساب کر کے دن معلوم کر لیتا ہوں ۔
ایک حیران کن واقعہ
حضرت چوہدری صاحب ؓ نے اپنے تفصیلی حالاتِ زندگی اپنی کتاب ،تحدیث نعمت میں خود تحریر فرمائے ہیں ۔یہ کتاب معلومات کا عظیم خزانہ ہے ۔جماعتی ،سیاسی،ملکی بلکہ عالمگیر حالات پر یہ ایک جامع کتاب ہے ۔اس کتاب کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ ساری کتاب یا اس کا بیشتر حصّہ حضرت چوہدری صاحب نےاپنی یادداشت کی بناء پر لکھا یا لکھوایا ۔کتاب مکمل ہو گئی تو آپ نے کسی دوست کے ذریعہ اس کے حوالہ جات ،تاریخیں اور باقی تفاصیل احتیاطا چیک کروا لیں ۔غالباً کسی تصحیح کی ضرورت نہیں پڑی تھی ۔ جب یہ کتاب شائع ہو گئی ۔تو آپ نے اس کے کچھ نسخے میرے پاس دفتر میں رکھوادئیے تاکہ خواہش مند احباب وہاں سے حاصل کر سکیں ۔ایک روز جبکہ حضرت چوہدری صاحبؓ بھی میرے دفتر میں تشریف رکھتے تھے ،ایک دوست آئے جو چند روز قبل کتاب لیکر گئے تھے ۔کہنے لگے کہ اس نسخہ میں چند صفحات شامل نہیں ہیں ۔غالبا جلد بندی میں رہ گئے ہیں۔میں نے وہ کتاب ان سے لے کر دوسری کتاب ان کو دیدی ۔وہ جانے لگے تو حضرت چوہدری صاحبؓ نے ان سے پوچھا کہ جو کتاب آپ نے واپس کی ہے اس میں غائب صفحات سے پہلے اور بعد میں کیا بات بیان ہوئی ہے ۔اس دوست نے کتاب دیکھ کر بتایا تو حضرت چوہدری صاحب ؓ نے بیٹھے بیٹھے اس درمیانی عرصہ کی اہم باتیں ان کو بتا دیں اور فرمایا کہ میں نے خلاصتہً بیان کر دیا ہے باقی تفاصیل اب آپ گھر جا کر مطالعہ کر سکتے ہیں ۔
وقت کی پابندی
وقت کی پابندی بھی آپ کی زندگی کا ایک نمایاں وصف تھا ۔آپ زندگی کے معمولات میں ہمیشہ اس بات کا بہت خیال رکھتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے بلکہ عملی طور پر اس کی تربیت بھی دیتے تھے ۔آپ نے ایک بار لندن میں تعلیم القرآن کلاس جاری کی جس میں نوجوان طلبہ شامل ہوا کرتے تھے ۔کلاس کا ایک وقت مقرر تھا اور پہلے روز ہی آپ نے سب کو واضح طور پرہدایت کر دی کہ وقت کی پابندی کی جائے ۔چنانچہ آپ کا طریق یہ تھا کہ وقت سے چند منٹ پہلے تشریف لاتے ،وقت ہو جانے پر کمرے کا دروازہ بند کروا دیتے اور دیر سے آنے والوں کو اندر آنے کی اجازت نہ ہوتی ۔اس ڈسپلن کی وجہ سے سب طلبہ ایک دو روز میں ہی وقت کے پابند ہو گئے ۔
حضرت چوہدری صاحب ؓ جب جنرل اسمبلی کے صدر مقرر ہوئے تو وہاں بھی آپ نے اجلاس ٹھیک وقت پر شروع کرنے کی روایت قائم کی ۔اس طرح آپ نے اسمبلی کے ممبران کو جو بالعموم تاخیر سے آیا کرتے تھے ،پابندیٔ وقت کا عملی سبق سکھایا ۔وقت کی پابندی کے سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا ۔ایک دوست نے سنایا کہ ایک بار کراچی میں غالبا ً طلباء یا خدّام نے اپنے ایک اجلاس میں آپ سے درخواست کی گئی کہ ‘‘اچھے مقرر کے اوصاف ‘‘کے عنوان پر تقریر کریں ۔آپ نے بہت سے اوصاف کا ذکر کیا اور تفاصیل بیان کیں ۔آخری بات یہ بیان فرمائی کہ اچھے مقرر کی خوبی یہ ہے کہ اسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو کہ اس کی تقریر کا وقت کب ختم ہوتا ہے ۔آپ نے یہ فرمایا اور کرسی پر بیٹھ گئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ آپ کی تقریر کے لئے مقررہ وقت پورا ہو گیا تھا !
لندن قیام کے دوران میں نے آپ کا یہ معمول دیکھا کہ آپ نمازیں مسجد میں آکر ادا فرماتے ۔ہم نے باہمی طور پریہ طے کر لیا تھاکہ میں نماز کے لئے مسجدجاتے ہوئے حضرت چوہدری صاحب ؓ کے فلیٹ کی گھنٹی بجا دیا کروں تاکہ آپ کو مصروفیات کے دوران یاددہانی ہو جائے ۔آپ وضو کر کے سنتوں یا نوافل کی ادائیگی کے بعد بالعموم ٹھیک وقت پر مسجد تشریف لے آتے بلکہ نماز سے چند منٹ پہلے آکر مسجد فضل میں پہلی صف میں دائیں کونے میں کرسی پربیٹھ جاتے اور نماز شروع ہونے تک ذکر الہی میں مصروف رہتے ۔اگر دوست کم ہوتے تو نماز شروع ہونے کے وقت آپ اپنی کرسی خود اُٹھا کر صف کے کنارے پر رکھ لیتے اور نماز میں شامل ہوجاتے ۔
بعض اوقات حضرت چوہدری صاحب ؓ کے آنے میں کچھ تاخیر بھی ہو جاتی۔اس صورت میں ہم سب آپ کے آنے کا انتظار کرتے اور آپ کے آنے پر نماز پڑھی جاتی ۔ایک روز ایک بے تکلف دوست نے چوہدری صاحبؓ سے یہ سوال کر دیا کہ چوہدری صاحب!آپ تو وقت کے بہت پابند ہیں اور پابندئ وقت میں آپ کی مثال بیان کی جاتی ہے لیکن یہ کیا بات ہے کہ بعض اوقات آپ نماز کے لئے دیر سے آتے ہیں ؟حضرت چوہدری اس سوال سے ناراض نہیں ہوئے بلکہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا : بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو معاف کر دیتا ہے لیکن دنیا کے لوگ معاف نہیں کرتے !
کفایت اور بچت کی خوبی
اب میں حضرت چوہدری صاحبؓ کی زندگی کا ایک اور نادر پہلو بیان کرنے لگا ہوں جس کو خود میں نے بارہا دیکھا اور آپ کے اکثر دوست احباب بھی اس کے چشم دید گواہ ہوں گے ۔اس کا تعلق کفایت اور بچت کی خوبی سے ہے ۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب نہانے کے صابن کی ٹکیہ چھوٹی رہ جاتی ہے جس کو پنجابی زبان میں چپّر کہتے ہیں تو قریبا ًسب لوگ ہی اس کو بیکار سمجھتے ہوئے پھینک دیتے ہیں لیکن چوہدری صاحبؓ کا طریق یہ تھا کہ آپ اس چپّر کو اور صابن کی نئی ٹکیہ کو پانی لگا کر دونوں ہاتھوں سے دبا کر جوڑ لیتے اور پھر اس صابن کو استعمال کرتے۔ اگر کوئی اس بات پر کچھ تعجب یا حیرت کا اظہار کر تا تو آپ یہ سیدھی سادھی دلیل دیتے کہ جس چپّر سے کل تک تم نہاتے ہو ئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے تو آج کیوں اسے استعمال کرتے ہوئے تمہیں شرم آتی ہے ۔میں نے خود کئی بار آپ کو (بعض صورتوں میں) دو رنگ کے صابنوں کو بھی جوڑتے ہوئے دیکھا ہے ۔
اس تناظر میں ہونے والا ایک واقعہ بہت ہی دلچسپ ہے ۔ ایک روز حضرت چوہدری صاحبؓ نماز ظہر کے لئے مسجد فضل تشریف لائے تو آپ نے بالکل نئے سلیپر پہنے ہوئے تھے جو آپ کے پاؤں میں بہت اچھے لگ رہے تھے ۔ نماز سے فارغ ہو کرجاتے ہوئے جب آپ نے وہ سلیپر پہنے تو ایک بہت بے تکلّف دوست نے ان سلیپروں کو بہت حیرت سے دیکھا اور ایک خاص انداز میں کہنے لگے : ’’چوہدری صاحب ؓ ! یہ تو نئے سلیپرہیں ! ‘‘ چوہدری صاحبؓ ان کے اس تبصرہ کو خوب سمجھ گئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا :
’’نئے صابن سے پُر انا صابن تو جوڑا جا سکتا ہے لیکن نئے سلیپر کے ساتھ پُرانا سلیپر نہیں جُڑ سکتا !‘‘
سادہ طرزِ زندگی
ایک دفعہ حضرت چوہدری صاحبؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں دوپہر کے کھانے کے لئے کسی قریبی سادہ سے ریسٹورنٹ جانا چاہتا ہوں ۔ میں نے آپ کی خواہش کے مطابق مناسب جگہ تلاش کر لی جو مسجد سے قریب ہی گیرٹ لین پر تھی ۔ایک روز نماز کے بعد ہم دونوں پیدل روانہ ہوئے اور چند منٹوں میں منزل پر پہنچ گئے ۔ یہ چھوٹا سا ریسٹورنٹ بہت صاف ستھرا تھا ۔ چوہدری صاحب ؓ کو پسند آیا ۔ آپ تشریف فرما ہوئے تو میں نے کاؤنٹر پر جا کر ریسٹورنٹ کے مالک کو حضرت چوہدری صاحبؓ کا تعارف بھی کروادیا اور کھانے کا آرڈر بھی دے دیا ۔ فرائی کی ہوئی مچھلی چوہدری صاحبؓ کو بہت مرغوب تھی۔ مالک نے بڑے اہتمام سے مچھلی فرائی کی اور لوازمات کے ساتھ بہت ادب سے پیش کی ۔چوہدری صاحب کو کھانا بہت پسند آیا اور آپ نے شوق سے تناول فرمایا ۔ واپس آنے لگے تو ریسٹورنٹ کے مالک نے آپ کا شکریہ بھی ادا کیا اور پرتپاک انداز میں الوداع کہا ۔چوہدری صاحبؓ کو یہ سارا انتظام بہت پسند آیا جو آپ کی سادگی اور بے تکلّفی کا شاندار نمونہ تھا ۔ واپس بھی ہم دونوں پیدل آئے ۔ راستہ میں حضرت چوہدری صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھانا بہت مزیدار تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے موقعہ دیا تو پھر بھی کبھی یہاں آئیں گے ۔ لیکن پھر ایسا موقعہ نہ بن سکا۔
حضرت چوہدری صاحبؓ کو اردو بولتے وقت جگہ جگہ انگریزی الفاظ ملانے کی عادت نہ تھی ۔آپ حتی الامکان خوداس کا اہتمام فرماتےاور دوسروں کو اس کی تلقین فرماتے ۔مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک نوجوان نے آپ سے بات کرتے ہوئے یہی طریق اختیار کیا ۔ جب اس نے اردو انگریزی کو ملا جلا کر بات کی تو چوہدری صاحبؓ نے اسے بڑے خوبصورت انداز میں سمجھایا ۔فرمایا :دیکھو! مجھے اردو بھی آتی ہے اور انگریزی بھی ۔تم جس زبان میں بات کرنا چاہتے ہو بڑے شوق سے کرو لیکن دونوں زبانوں کو خلط ملط نہ کرو ۔میں نے دیکھا کہ سننے والوں پر وقتی طور آپ کی نصیحت کا اثر تو ضرور ہوتا لیکن جلد ہی ان کی پختہ عادت ان پر غالب آجاتی ۔مگر چوہدری صاحب اصلاح کے اس جہاد کا عَلَم ہمیشہ بلند رکھتے۔
ایک یادگار دعوت
ایک دفعہ ایک احمدی دوست نے جن کی رہائش لندن سے باہر ایک مضافاتی بستی میں تھی ،حضرت چوہدری صاحبؓ کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت پر مدعو کیا ۔چوہدری صاحبؓ عام طور پر رات گئے تک دعوتوں کے سلسلہ کو پسند نہیں فرماتے تھے کیونکہ اس سے سونے اور جاگنے کے اوقات پر اثر پڑتا تھا ۔تاہم اس دوست کے پُر خلوص اصرار پر آپ رضامند ہو گئے ۔ان دنوں جماعت کی طرف سے یہ تحریک جاری تھی کہ گھر پر دعوتوں کے موقع پرایک یا دو زیر تبلیغ دوستوں کو ضرور بُلا لیا جائے تاکہ دعوت الی اللہ کا فریضہ بھی ساتھ ساتھ ادا ہوتا رہے ۔اس روز بھی میزبان نے اپنے ایک انگریز نوجوان دوست کو بُلایا ہوا تھا ۔ان کو چوہدری صاحبؓ کے ساتھ بٹھایا گیا اور سارا وقت تعارف و اسلام احمدیت کے حوالہ سے ٹھوس بات چیت کا سلسلہ جاری رہا ۔جب کھانے اور دعا کے بعد چلنے کا وقت آیا تو میزبان دوست نے خواہش کی کہ چوہدری صاحبؓ کے ساتھ سب کی ایک اجتماعی تصویر ہو جائے ۔چوہدری صاحبؓ تصویر کھنچوانے کے شوقین نہ تھے جب بھی کوئی آپ کے ساتھ تصویر کھنچوانے کی خواہش کرتا تو آپ اکثر یہی فرماتے تھے کہ میں کھڑا ہوں یا بیٹھا ہوا ہوں۔ تم نے فوٹو کھینچنی ہے تو کھینچ لو ۔میں تکلّفات کا قائل نہیں ہوں ۔
اس روز صورت یہ تھی کہ وقت کافی ہو چکا تھا اور ابھی لندن واپسی کا سفر بھی تھا ۔آپ چاہتے تھے کہ جلد از جلد روانگی ہو ۔صاحبِ خانہ کے اصرار پر تصویر کے لئے راضی تو ہو گئے لیکن بہت جلدی میں تھے ۔ سب دوست چوہدری صاحبؓ کے گرد جمع ہوگئے ۔سب نے ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں سوائے اس انگریز مہمان کے ۔فوٹو کے بعد اُس مہمان کو احساس ہوا کہ صرف میں ہی ننگے سر ہوں ۔مجھے بھی ٹوپی کے ساتھ تصویر بنوانی چاہیے ۔اس نے اِس خواہش کا اظہار کیا تو حضرت چوہدری صاحبؓ اکرامِ ضیف کی وجہ سے انکار نہ کر سکے ۔اب اس مہمان کے لئے مناسب ٹوپی کی تلاش شروع ہوئی ۔ٹوپی سر پر رکھی ۔یہ اس بیچارے کے لئے پہلا تجربہ تھا ۔پہلے تو آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھا اور پھر صاحبِ خانہ سے پو چھنے لگے کہ کیا یہ اچھی لگتی ہے ۔آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ سارا وقت چوہدری صاحب ؓ کو بہت ہی طویل لگ رہا تھا ۔با لآ خر جب وہ انگریز نوجوان ٹوپی ٹھیک ٹھاک کرنے کے بعد چوہدری صاحب ؓ کے ساتھ کھڑا ہوا تو چوہدری صاحب ؓ نے اس نوجوان کو ایک ہی جامع فقرہ میں ساری بات سمجھا دی آپ نے بڑے مشفقانہ انداز میں فرمایا:
اس بر جستہ نصیحت سے سب بہت لطف واندوز ہوئے اور مہمان دوست نے بھی اس کو بڑے اچھے رنگ میں لیا ۔
اندازِخطابت
حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کو اللہ تعالی نے ایک پُر تاثیر زبان عطا کی تھی ۔دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں آپ نے پُر زور خطابات فرمائے اور اپنی خداداد ذہانت وفراست اور قوت استدلال کا لوہا منوایا ۔انگریزی زبان پر آپ کو بہت عبور حاصل تھا ۔بات کرنے کا انداز بہت موئثر ہوتا اور سننے والوں کے دل پر نیک اثر ہوتا ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے حضرت چوہدری صاحبؓ کو یہ ارشاد بھی فرمایا ہوا تھا کہ وہ ہالینڈ میں قیام کے دوران ہر ماہ ایک بار لندن آکر جماعت کی تربیت کے لئے کچھ وقت دیا کریں ۔چنانچہ آپ تشریف لاتے ،تربیتی اور تعلیمی کلاس بھی ہوتی اور ایک خطبہ جمعہ بھی ۔یہ خطبہ بالعموم انگریزی زبان میں ہوتا ۔احباب اور بالخصوص نوجوان خدّام اس سے بھر پُور استفادہ کرتے ۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار آپ خطبہ جمعہ کے لئے کھڑے ہوئے تو ابتدا میں فرمایا کہ میں عام طور پر تو خطبہ جمعہ انگریزی میں بیان کرتا ہوں لیکن آج میں خطبہ اردو میں دوں گا ۔وجہ یہ بتائی کہ جو خاص بات میں احباب جماعت کے ذہن نشین کروانا چاہتا ہوں وہ بات میں انگریزی میں بیان نہ کر سکوں گا ۔یہ آپ کی عاجزی اور انکساری کی ایک مثال ہے وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو انگریزی زبان میں یدِطولیٰ عطا فرمایا تھا۔ غالبًا ایک وجہ یہ بھی ہو گی کہ انگریزی میں الفاظ کا ذخیرہ اتنا وسیع نہیں جتنا عربی یااردو میں ہے ۔حضرت چوہدری صاحب ؓ کئی بار ہلکے پھلکے انداز میں یہ بھی فرمایا کرتے تھےکہ انگریزی روحانیت کی زبان نہیں اور بہت سے ایسے روحانی معارف اور دقیق مضامین ہیں جن کے بیان کے لئے انگریزی میں مناسب اورصحیح الفاظ نہیں ملتے ۔
حضرت چوہدری صاحبؓ کی مجالس بہت مفید اور پُر لُطف ہوتی تھیں۔ علمی نکات ،معرفت کی باتیں اور موقع کی مناسبت سے ہلکے پھلکے لطائف اور واقعات بھی بیان فرماتے اور بڑے پُر لُطف انداز میں ۔ایک بار چوہدری صاحبؓ نے بتایا کہ انہیں مشرقی افریقہ کے سفر میں نیروبی جانے کا اتفاق ہوا ۔آپ کو دعوت ملی کہ وہاں کی پنجابی ادبی انجمن کے اجلاس میں شامل ہوں اور تقریر بھی کریں ۔چوہدری صاحبؓ نے بیان فرمایاکہ اس دعوت پر جاتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ یہ لوگ ہیں تو پنجابی لیکن انگریزی کی چھاپ سے آزاد نہ ہوں گے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس پنجابی ادبی انجمن کے اجلاس میں ہر مقرر نے انگریزی میں تقریر کی ۔آپ نے فرمایا کہ جب آخر میں میری باری آئی اور میں نے تقریر کا آغاز پنجابی زبان میں کیا تو حاظرین کی آنکھوں میں چمک آگئی ۔چوہدری صاحبؓ نے ٹھیٹھ پنجابی زبان میں اپنا پُر لُطف خطاب مکمل کیا تو ایک سکھ دوست نے بر ملا کہا کہ’’ اج تے سواد آگیا!‘‘
بیان کردہ ایک لطیفہ
حضرت چوہدری صاحبؓ کا بیان کردہ ایک دلچسپ واقعہ ذہن میں آیا ہے وہ بھی بیان کر دیتا ہوں ۔چوہدری صاحبؓ ایک موقعہ پرجب تاشقند تشریف لے گئے تو وہاں کے مسلمانوں نے آپ کو دعوت پر مدعو کیا ۔مدعو یین میں مفتی تاشقند بھی تھے جو بہت عظیم الجثہ تھے۔ کھانا شروع ہوا تو بعض شرکاء نے محسوس کیا کہ مفتی صاحب موصوف تو میدانِ ضیافت کے بڑے تیز رفتار شاہسوار ہیں ۔اس تیزی کو دیکھ کر حاضرین ضیافت میں سے کسی نے طنزً ا مفتی صاحب سے مسئلہ کے رنگ میں دریافت کیا کہ جناب مفتی صاحب! یہ ارشاد فرمائیں کہ جب یہ کہنا ہو کہ فلاں شخص پوری طرح سیر ہو گیا ہے تو یہ کون سا موقع ہوتا ہے؟ یا کیسے اس بات کا پتہ لگ سکتا ہے کہ کوئی شخص واقعی اب سیر ہو گیا ہے ؟مفتی صاحب بڑے تجربہ کار اور جہاں دیدہ انسان تھے ۔طنزیہ سوال کا اشارہ خوب سمجھ گئے اور بڑے اعتماد سے جواب دیا کہ اس بارہ میں لوگوں کے اپنے اپنے تجربات ہو سکتے ہیں ۔میں تواپنے طویل تجربہ کی روشنی میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی شخص کے بارہ میں سیر ہونے کا لفظ صرف اس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے جب یا تو اس کے سامنے کا کھانا پوری طرح ختم ہو جائے یا وہ خود ختم ہو جائے ! چوہدری صاحب یہ واقعہ کچھ اس دلچسپ انداز میں بیان فرماتے کہ ہر بار سننے کا ایک نیا لُطف آتا تھا ۔
باقاعدگی
حضرت چوہدری صاحبؓ کی زندگی کا ایک عنوان باقاعدگی تھا۔ ہر کام بہت سلیقہ سے اور خوبصورت انداز میں کرتے ۔ آپ کا دستخط کرنے کا انداز بھی بہت منفرد تھا ۔بہت آہستگی اور عمدگی سے دستخط کرتے جس کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا کہ اس شخص کی ساری زندگی بھی اسی خوبی اور عمدگی سے بسر ہو رہی ہے ۔ہالینڈ سے جب اختتام ہفتہ پر آپ لندن آتے تو آپ کا معمول یہ تھا عالمی عدالتِ انصاف میں اپنے دفتر سے چلتے ہوئے ایک بہت مختصر سا فون کرتے اور سلام کے بعد فرماتے :راشد صاحب !میں روانہ ہونے لگا ہوں ۔آپ بھی روانہ ہو جا ئیں ،یہ فون سن کر میں بالعموم اسی وقت یا چند منٹ بعد مطار کے لئے روانہ ہو جاتا ۔میرے وہاں پہنچتے ہی آپ اپنا مختصر ترین بریف کیس اٹھائے باہر تشریف لے آتےاور بعض اوقات تو یوں ہوتا کہ میرے مطار پر پہنچنے سے پہلے ہی چوہدری صاحب ؓ تشریف لا کر انتظار فرما رہے ہوتے۔ مطار سے آتے یا جاتے وقت چوہدری صاحب کا دل پسند راستہ رچمنڈ پارک ہوا کرتا تھا ۔ یہ ایک قدرتی طرز کا خوبصورت اور پُر فضا پارک ہے جو مسجد فضل سے زیادہ دور بھی نہیں اور مطار کے راستہ میں واقعہ ہے ۔چوہدری صاحبؓ کو اس رچمنڈ پارک سے گزرنا بہت مرغوب تھا ۔فرمایا کرتے تھے کہ اس پارک کی تازہ ہوا اور پارک میں آزادانہ گھومنے پھرنے والے ہزاروں ہرنوں اور بارہ سنگوں کا نظارہ بہت اچھا لگتا ہے ۔سیر بھی ہو جاتی ہے اور سفر بھی طے ہو جاتا ہے ۔
بے تکلف اندازِگفتگو
حضرت چوہدری صاحبؓ کے ساتھ بے تکلف گفتگو کی مجالس بھی کیا عجب مجالس تھیں ۔بہت شفقت سے محبت بھری گفتگو فرماتے ۔آپ کی باتوں میں دینی اور روحانی امور کا تذکرہ بھی ہوتا ،پُر مغز علمی گفتگو بھی ہوتی ۔اپنے ذاتی واقعات بھی بیان فرماتے جو بہت نصیحت آموز اور معلوماتی ہوتے ۔لطائف بھی سناتے ۔واقعات بیان کرتے ہوئے ان کی معین تفصیلات حیرت انگیز وضاحت سے بیان فرماتے۔ تاریخ ،دن،مقام،جہاز اور مو سم تک کا ذکرہوتا۔آج بھی سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ آپ یہ سب تفاصیل کس طرح یاد رکھتے تھے ۔کئی واقعات مختلف مجالس میں بیان فرماتے تو ان میں کبھی ا عادہ بھی ہو جاتا لیکن تفاصیل میں تضاد نہ ہوتا ۔آپ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ کسی کے سوال پوچھنے پر ناراض نہ ہوا کرتے تھے بلکہ موقع کے مطابق اس کا مختصر یا مفصل جواب بہت خوش دلی سے دیتے ۔
مجھے یاد ہے کہ ایک روز جبکہ ہم دونوں ہی کھانے کی میز پر بیٹھے تھے تو اچانک میرے ذہن میں ایک عجیب سوال آیا اور میں نے فورا ًہی پوچھ لیا ۔میں نے عرض کیا کہ چوہدری صاحبؓ !اللہ تعالی نے آپ کو بہت نوازا ہے ۔بہت علوم عطا کئے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو کیا نہیں آتا ! میرا یہ سوال سن کر حضرت چوہدری صاحبؓ مسکرائے اور فرمایا کہ آپ نے خوب سوال سوچا ہے ۔ایسا سوال اس سے پہلے کسی نےمجھ سے نہیں پوچھا ۔
ذرا سا توقف کرنے کے بعد فرمایا کہ آپ کی یہ بات بالکل سچ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے اس عاجز نا چیز کو بہت نوازا ہے اور میرے وجود کا ذرہ ذرہ ہمیشہ اس کے حضور شکر گزاری میں جھکا رہتا ہے ۔لیکن چند باتیں ایسی بھی ہیں جو مجھے نہیں آتیں ۔ان میں سے ایک تو ڈرائیونگ ہےاور دوسری ٹائیپنگ ہے ۔ان دو باتوں کا آپ نے جلدی سے ذکر فرمایا اور ساتھ ہی فورًا یہ بھی فرمایا کہ میرے مولا کا مجھ پر یہ احسان ہے کہ ان دونوں باتوں کے نہ جاننے کےباوجود مجھے ساری زندگی کبھی کوئی دقّت یا کام میں روک پیدا نہیں ہوئی ۔ پھر بڑی تفصیل سے بیان فرمایا کہ میری زندگی سفروں میں گزری اور گزر رہی ہے جب بھی، جہاں بھی، مجھے کسی جگہ جانے کی ضرورت پڑی تو میرے مولا نے اپنے اس بندہ کو نہ صرف کار مہیا فرمادی بلکہ اس کے ساتھ ڈرائیور بھی ۔مجھے ڈرائیونگ نہ جاننے کی وجہ سے کبھی بھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی ۔ پھر فرمایا کہ اسی طرح مجھے ساری زندگی لکھنے لکھانے کا کام رہا اور یہ میری زندگی کی اہم ترین مصروفیت رہی ہے ۔میرے مولا نے مجھ پر یہ فضل کیا اور اس کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے کہ جب بھی میں نے کوئی خط یا مضمون ٹائپ کروانا ہوتا تو نہ صرف مجھے کوئی نہ کوئی ٹائپسٹ مل جاتا بلکہ اکثر صورتوں میں تو پوری دفتری سہولیات میسر آجاتیں اور میری ہر ضرورت اللہ تعالی کے فضل سے بغیر کسی دقّت کے پُوری ہوتی رہی اور آج بھی میرے ساتھ اللہ تعالی کا یہ محبت بھرا سلوک جاری ہے ۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ سب کچھ بیان کرتے وقت آپ کی آواز بار بار بھرّا جاتی اورآپ جذباتِ شکر سے مغلوب ہوکرآبدیدہ ہو جاتے !
سیرت کے مخفی گوشے
اب میں حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی سیرت کا ایک ایسا پہلو بیان کرنا چاہتا ہوں جس سے شاید بہت ہی کم لوگ واقف ہوں ۔میں تو اللہ تعالی کے فضل سے ان باتوں کا چشم دید گواہ ہوں ۔یہ واقعات زیادہ تر 1971اور 1972 کے ہیں ۔حضرت چوہدری صاحبؓ کا قیام ایک مختصر سے فلیٹ میں ہوتا تھا جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ۔میرا قیام اسی منزل پر ساتھ والےدوسرے فلیٹ میں تھا (میری فیملی پاکستان میں تھی)۔پروگرام کچھ اس طرح طے کیا ہوا تھا کہ چوہدری صاحب ایک معین وقت پر درمیانی دروازہ سے تشریف لائیں گے اور پھر ہم ایک ہی میز پر اکٹھے ناشتہ بھی کریں گے۔ میں مقررہ وقت سے ذرا پہلے درمیانی دروازے کو کھول دیتا اور چوہدری صاحبؓ رات کے گاؤن میں ملبوس عین وقت پر تشریف لے آتے ۔میں نے بھی گاؤن پہنا ہوتا ۔ہم دونوں کچن میں جا کر ناشتہ کی تیاری میں مصروف ہو جاتے ۔
یہاں یہ ذکر کر دوں کہ پہلے روز ہی میں نے نہایت ادب سے اور پُر زور اصرار سے یہ درخوا ست کی کہ ناشتہ کی تیاری کی خدمت میرے سپرد رہنے دیں ۔یہ بات میرے لئے بہت باعث برکت وسعادت ہو گی ۔آپ تشریف رکھیں اور میں ناشتہ تیار کر کے آپ کے سامنے لے آوں گا لیکن حضرت چوہدری صاحبؓ نے بڑی قطعیت سے فرمایا کہ نہیں ایسے نہیں بلکہ میں بھی ناشتہ کی تیاری میں پوری طرح شامل ہوں گا ۔میرے لئے اس ارشاد کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔چنانچہ حضرت چوہدری صاحبؓ میرے ساتھ ناشتہ کی تیاری میں بھر پُور شامل ہوتے پھر کپ ، پرچیں، اور پلیٹیں وغیرہ اٹھا کر ساتھ والے کمرے میں لے جاتے ۔وہاں ہم دونوںمل کر ناشتہ کرتے۔ بعد میں میرے اصرار کے باوجود آپ برتن دھونے میں بھی میرے ساتھ شریک ہوتے ۔یہ لمحات میرے لئے بہت مشکل ضرور ہوتے لیکن الامر فوق الادب کے مطابق کچھ اور ممکن نہ تھا۔
قصہ ایک مالٹے کا
ایک روز بہت دلچسپ واقعہ ہوا ۔میں بازار گیا تو ایک دوکان پر کافی بڑے سائز کے خوشنما مالٹے نظر آئے ۔میں نے خرید لئے اور ناشتہ کی میز پر رکھ دئیے ۔ اگلے روز حسب معمول حضرت چوہدری صاحبؓ تشریف لائے تو ناشتہ شروع کرنے سے پہلے آپ نے ایک مالٹا اپنے ہاتھ میں لیا اور مجھ سے دریافت فرمایا : راشد صاحب ! کیا آپ آدھا مالٹاکھائیں گے ؟میں نے نا سمجھی اور ایک گونا بے تکلفی سے کہہ دیا کہ نہیں ۔اس پر چوہدری صاحب ؓ نے یہ کہتے ہوئے مالٹا واپس رکھ دیا کہ پھر میں بھی نہیں کھاتا کیونکہ اس طرح باقی آدھا مالٹا ضائع ہو جائے گا ۔وجہ دراصل یہ تھی کہ چوہدری صاحبؓ کو شوگر کے مرض کی وجہ سے ڈاکٹری ہدایت یہ تھی کہ ایک چھوٹا مالٹا صبح کے وقت کھا سکتے ہیں یا مالٹا بڑا ہو تو اس کا نصف کھا لیا کریں ۔مجھے اس ہدایت کا علم نہ تھا ۔بہرحال اس روز تو لا علمی میں یہ غلطی ہو گئی ۔اگلے روز ناشتہ پر چوہدری صاحبؓ نے پھر ایک مالٹا اٹھا کر بالکل وہی بات دہرائی تو میں نے فوراً کہا کہ جی ضرور کھاؤں گا ۔فرمایا کہ اچھا پھر اس مالٹے کو کاٹ لیتے ہیں آدھا خود لیا اور آدھا مجھے دے دیا ۔مجھے آپ کے ہاتھ سے آدھا مالٹا بھی مل گیا اور ایک مستقل سبق بھی !
ڈاکٹری ہدایات کی پابندی
جس دور میں میں نے حضرت چوہدری صاحب ؓ کو دیکھا آپ کی غذا بہت تھوڑی اور منتخب ہوا کرتی تھی۔ آپ کو شوگر کا عارضہ تھا جو کم و بیش چالیس سال تک لا حق رہا لیکن آپ علا ج کے سلسلہ میں ڈاکٹری ہدایا ت کی بہت سختی سے پابندی کرنے والے تھے ۔پُوری پُو ری احتیاط فرماتے اورکسی کے زور دینے پر بھی ہدایت کے بر خلاف کو ئی چیز استعمال نہ کرتے تھے ۔یہی آپ کی صحت کا راز تھا اور اللہ تعالی نے آپ کو لمبی اور فعال زندگی سے نوازا ۔ آپ کے ڈسپلن اور ڈاکٹری ہدایات کی سختی سے پابندی کو دیکھتے ہوئے آپ کے بعض بے تکلف ساتھی یہ تبصرہ بھی کر جاتے کہ چوہدری صاحب ؓ کو شوگر نہیں ہوئی بلکہ چوہدری صاحبؓ شوگر کو ہو گئے ہیں ! یہ تبصرہ بعض اوقات آپ کے کانوں میں بھی پڑ جاتا۔ یہ سن کر آپ کے چہرہ پر ایک ہلکی اور با وقار مسکراہٹ پھیل جاتی لیکن آپ کے طریق عمل میں کو ئی فرق نہ آتا ۔
خلیفہ اوّل کی نصیحت
آپ کو گرم دودھ میں COCOAپاؤڈر ڈال کر پینا بہت مر غوب تھا ۔اس کی وجہ آپ یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ جب میں پہلی بار یورپ کے لئے روانہ ہونے والا تھا تو میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی خدمتِ اقدس میں ملاقات ،دعا اور عمومی راہنمائی کے لئے حاضر ہوا ۔اس موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح اوّل ؓ نے آپ کو جو نصائح فرمائیں ان میں سے ایک کوکو کے استعمال کے بارہ میں تھی۔ آپ ؓ نے فرمایا کہ تم انگلستان جا رہے ہو جو ایک سرد ملک ہے ۔لوگوں کا خیال ہے کہ وہاں کی سردی سے محفوظ رہنے کے لئے شراب پینے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ہم طبیب ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے ۔فرمایا کہ اگر تمہیں سردی کا دفاع کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو کوکو استعمال کرنا ۔اس میں غذائیت بھی ہے اور سردی کے بد اثرات سے بھی بچاتی ہے ۔یہ نصیحت ہمیشہ آپ نے یا د رکھی اور اس سے بہت فائدہ اٹھایا۔
ناشتہ خود بنایا
ایک روز آپ ناشتہ کے لئے تشریف لائے تو فرمایا آج میں چاہتا ہوں کہ سارے کا سارا ناشتہ خود تیار کروں ۔میں نے عرض کیا کہ آپ کی یہ خواہش ہے تو ضرور بنائیں ۔چنانچہ چوہدری صاحبؓ نے دودھ گرم کرنے والے برتن میں دودھ ڈالا ۔پھر ایک ڈبل روٹی لے کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کئے اور دودھ میں ڈال دئیے ۔پھر اس میں دو انڈے توڑ کر ڈالے اور آخر میں حسب پسند شہد ڈالا اور ان سب چیزوں کو اچھی طرح پکا لیا ۔آج بھی یہ بات لکھتے ہوئے یہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ چوہدری صاحبؓ نے ہاتھ میں ایک چمچہ پکڑا ہوا ہے اور اس کو آہستہ آہستہ برتن میں ہلا رہے ہیں کہ کہیں کھانا نیچے نہ لگ جائے ۔چند منٹوں میں حلوہ کی طرح کا کھانا تیار ہو گیا اورپھر ہم دونوں نے مل کر ایک ہی برتن سے کھایا ۔واقعی کھانا بہت مزیدار تھا ۔
ایک برتن سے ناشتہ
ایک روز بڑا ہی دلچسپ واقعہ ہوا ۔حضرت چوہدری صاحبؓ اور میں کچن میں ناشتہ تیار کر رہے تھے ۔جب میں نے انڈے فرائی کر لئے اور ان کو ایک پلیٹ میں ڈالنے لگا تو چوہدری صاحبؓ جو میرے بائیں طرف ساتھ ہی کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے آپ نے میرا بازو کہنی کے اُوپر سے پکڑا اور فرمایا :راشد صاحب ! کیا کرنے لگے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ انڈے فرائی ہو گئے ہیں ان کو پلیٹ میں ڈالنے لگا ہوں تاکہ دوسرے کمرے میں جا کر ہم ان سے ناشتہ کریں۔آپ نے فرمایا : لیکن اس پلیٹ کو دھونا کس نے ہے ؟ میں نے عرض کی کہ خود ہی دھونا ہے اس پرآپ نے فرمایا :پلیٹ کو جو دھونا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگاکہ ہم فرائینگ پین (FRYING PAN)میں سےہی انڈا کھا لیں ! میں نے عرض کیا کہ جیسے آپ پسندفرمائیں۔ چنانچہ میں وہ فرائینگ پین اسی طرح اُٹھا کر ڈائیننگ روم (DINING ROOM)میں لے آیا اوریوں یہ سعادت ایک بار پھر میرے حصہ میں آئی کہ میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ایک بزرگ صحابی کے ساتھ ایک ہی برتن سے ناشتہ کیا۔
بھرپورزندگی
اللہ تعالی کے فضل وکرم سے حضرت چوہدری صاحبؓ نےاللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سایہ نہایت کامیاب ،بھر پُور اور مصروف زندگی گزاری۔ دنیاوی اور سیاسی مصروفیات میں بھی دینی پہلو کو ہمیشہ مقدم رکھتے ۔نمازوں کی بر وقت ادائیگی کا غیر معمولی تعہد سے اہتمام فرماتے ۔وقت سے بھر پُور فائدہ اُٹھاتے ۔ذکر الہی سے اپنے اوقات کو سجاتے ۔آپ نے زندگی بھر قلمی اور لسانی جہاد کیا۔ قرآن مجید کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جو بہت مقبول ہوا ۔ متعدد کتب تصنیف کیں ۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ اور اپنی والدہ ماجدہ مر حومہ کے بارہ میں نہایت ایمان افروز کتب لکھیں ۔اپنے سوانح حیات بھی انتہائی عاجزی اور خاکساری کے انداز میں نہایت تفصیل سے لکھے ۔حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی تحریرات کا بھی انگریزی میں ترجمہ کیا ۔ زندگی کے آخری سالوں میں تو آپ نے دنیاوی مناصب سے معذرت کرتے ہوئے اپنے آپ کو کلیتًہ دینی خدمات کے لئے وقف کر دیاتھا اور یہ سلسلہ زندگی کے آخر تک جاری رہا ۔آپ کی یہ خدمات ایک مستقل صدقہ جاریہ کا حکم رکھتی ہیں ۔ جن دنوں آپ تالیف وتصنیف اور ترجمہ کے کاموں میں مصروف تھے اورآپ کا بیشتر وقت اسی کام میں صرف ہوتا تھا۔آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ میں دن بھر کام میں مصروف رہتا ۔رات کو بھی دیر تک اس کا سلسلہ جاری رہتا اور بالآ خرجب تھک کر سونے کا ارادہ کرتاہوں تو میں اپنا قلم رکھ دیتا ہوں اور اپنے آپ سے یوں مخاطب ہو تا ہوں : ’’ظفر اللہ خان ! اب تُو بہت تھک گیا ہے ۔اب توکچھ آرام کر لے ۔ آج تمہیں اللہ تعالی نے جو ہمت دی اس کے مطابق تو نے کام کر لیا ۔اب سو جاؤ ۔اگر اللہ تعالی نے تمہیں مزیدمہلت دی تو باقی کام کل کر لینا ۔ فرمایا کرتے تھے کہ یہ کہتے ہوئے میں بستر پر دراز ہو جاتا ہوں ۔کیا ہی صوفیانہ اور ایمان افروز انداز ہے سونے کا!
ایک فارسی مصرعہ آپ بہت کثرت سے اپنی گفتگو میں استعمال فرمایا کرتے تھے کہ،،کارِ دنیا کسے تمام نکرد،، کہ دنیا کے کام تو اتنے ہیں کہ کبھی بھی کسی نے سب کام مکمل نہیں کئے ۔ یہ بات بالکل درست ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے حضرت چوہدری صاحبؓ نے وقت کو بھر پُور طور پر استعمال کرنے اور نفع رساں کاموں میں خرچ کرنے میں ایک قابلِ تقلید مثال قائم کی ہے۔ آپ زندگی کے ہر دن کو اور وقت کے ہر لمحہ کو اللہ تعالی کی نعمت یقین کرتے اور بہترین رنگ میں صرف کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ۔ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے آپ اکثر اوقات ’’ مہلت‘‘کا لفظ استعمال فرماتے جو اس عارفانہ بیان میں خوب سجتا تھا ۔سونے کے حوالہ سے ایک اور بات یاد آئی ۔حضرت چوہدری صاحب ؓؓ کی گفتگو میں شکرِ نعمت کا مضمون بہت کثرت سے آتا تھا سونے کے حوالہ سے آپ بارہا ذکر فرمایاکرتے تھے کہ اللہ تعالی نے مجھ پر جوبے شماراحسانات فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ سر تکیہ پر رکھتے ہی مجھے نیند آجاتی ہے ۔اور اس طرح میرا کوئی وقت ضائع نہیں جاتا ۔کئی بار یہ بھی بیان فرمایا کہ جب میں کار میں سفر کر رہا ہو تا ہوں اور کا ر ٹریفک لائٹ پر ذرا سی دیر کے لئے رُکتی ہے تو بسا اوقات اتنی دیر میں بھی میری آنکھ لگ جاتی ہے اور کار چلنے پر بیدار ہو جاتا ہوں۔
سفرِِ آخرت کا بیان
اب مضمون کے آخر میں میں حضرت چوہدری صاحبؓ سے اپنی دو آخری ملاقاتوں کا ذکر کرتا ہوں ۔ایک آپ کی زندگی میں ہوئی اور ایک وفات کے بعد ۔جب میں 1983 میں دوسری بار لندن آیا تو اس وقت آپ لندن میں ہی قیام پذیر تھے لیکن یہ پروگرام پُوری طرح طے کر چکے تھے کہ اب میں نے اپنی زندگی کے بقیہ دن پاکستان میں گزارنے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں چلتے پھرتے پاکستان جانا چاہتا ہوں تابوت میں بند ہو کر نہیں ۔میرے لندن آنے کے چند روز بعد 19 نومبر 1983 کو آپ کی پاکستان واپسی کا پروگرام بن چُکا تھا اور احباب سے الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ محترم چوہدری صاحب بالعموم ہر کسی سے محبت اور شفقت سے پیش آتے ۔الو د ا عی ملاقاتوں میں تو یہ کیفیت اور بھی نمایاں تھی ۔بڑی عمر کے احبابِ جماعت اور نوجوانوں کے علاوہ بچوں سے بھی بہت شفقت سے پیش آتے تھے ۔لیکن عام طور پر بچوں کو گود میں بٹھانے کی صورت میں نے نہیں دیکھی ۔ ہمارا بیٹا عزیزم عطاء المنعم راشد ان دنوں گیارہ ماہ کا تھا میں اسے اُٹھا کر چوہدری صاحبؓ سے ملوانے لے گیا کہ پھر نہ معلوم زندگی میں ایسا موقع دوبارہ مل سکے یا نہ ۔ حضرت چوہدری صاحبؓ نے اسے اُٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا اوراس کی خوش قسمتی کہ وہ کچھ دیر آپ کی شفقت اور دعاؤں سے فیضیاب ہوتا رہا ۔اس نادر موقع کی ایک تصویر کسی دوست نے لے لی لیکن افسوس کہ اب معلوم نہیں کہ وہ کون دوست تھے اور یہ تصویر اب کہاں ہے ۔
19 نومبر 1983 کو آپ نے لندن کے مطار ہیتھرو(Heathrow) سے پی آئی اے کے ذریعہ لاہور کی پرواز پر سفر کیا ۔مطار کا لفظ میں نے اس مضمون میں کئی بار خاص طور پر اس وجہ سے بھی لکھا ہے کہ حضرت چوہدری صاحبؓ کا یہ ایک پسند یدہ لفظ تھا ۔ ائیر پورٹ کی بجائے آپ ہمیشہ مطار کا لفظ استعمال فرماتے تھے ۔ آپ کو الوداع کہنے والوں میں یہ عاجز بھی شامل تھا ۔ اس موقعہ پر آپ سے معانقہ کی سعادت ملی جو ایک الوداعی معانقہ بن گیا ۔خوش قسمتی سے اس موقع پر لی گئی تصویر اب بھی موجود ہے ۔
آپ کی وفات یکم ستمبر 1985 کو لاہور میں ہوئی ۔جماعت احمدیہ برطانیہ نے ، جو چوہدری صاحبؓ مرحوم ومغفور کی از حد ممنون احسان جماعت ہے، حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی منظوری سے اس موقعہ پر تین افراد جماعت پر مشتمل ایک وفد جنازہ میں شمولیت کے لئے پاکستان بھیجا ۔یہ عاجز بھی اس وفد میں شامل تھا ۔آپ کا جسدِخاکی محترم چوہدری حمید نصراللہ خان صاحب کے مکان میں تھا جہاں آپ کی وفات ہوئی تھی ۔تعزیت کے لئے آنے والے احبابِ جماعت و غیر از جماعت احباب کا تانتا بندھا ہوا تھا ۔ہم اس کمرے میں داخل ہوئے جہاں آپ کا جسدِ خاکی رکھا ہوا تھا ۔سفید چادروں میں ملبوس یہ مردِ درویش ایک عجیب شان کے ساتھ آسودۂ خواب تھا ۔سینہ پر کلمہ طیبہ لا الہ الّا اللہ محمّد رسول اللہ کا بیج اس وقت بھی بڑی شان سے جگمگا رہا تھا جس کی عظمت کی خاطر آپ نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو زندگی بھر وقف کئے رکھا ۔
اس نفسِ مطمئنہ کے پُر نور چہرے کے دیدار کے بعد ہم نے لاہور اور ربوہ میں دوبارآپ کی نماز جنازہ میں شمولیت کی تو فیق پا ئی ۔بعد ازاں جب حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی خصوصی اجازت سے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ کے اندر قطعۂ خاص میں ہوئی تو اس موقع پر بھی اس عاجز کو تدفین میں حصّہ لینے کی سعادت نصیب ہوئی اور قبر تیار ہونے پرمٹی دی اور آخری دُعا میں بھی شریک ہوا ۔حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ ایک نہایت بابرکت اور کامیاب زندگی گزار کر اس دُنیا سے رُخصت ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے قربِ خاص میں مقام ِمحمود عطا فرمائے۔آپ ؓ خود تو رُخصت ہوگئے لیکن آپؓ کی یادیں آج بھی زندہ ہیں اور ان کا نیک تذکرہ ہمیشہ جاری و ساری رہے گا ۔