حقیقی عید وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے انعامات کے ساتھ منائی جائے
خطبہ عیدالفطر فرمودہ 2 اکتوبر 2008ءبمقام بیت الفتوح مورڈن لندن کاخلاصہ
حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کی پہلی عیدالفطر کے موقع پر حضور انور کے پر معارف خطبہ عیدالفطر کا خلاصہ، وہ عید جو ہمیں رمضان کے بعد ملی ہے‘ یہ خدا تعالیٰ کی خاطر قربانیوں کا ایک اظہار ہے، سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ عیدالفطر فرمودہ 2 اکتوبر 2008ءبمقام بیت الفتوح مورڈن لندن کاخلاصہ
سیدنا حضرت اقدس خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 2اکتوبر 2008ءکو بیت الفتوح مورڈن لندن میں خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کی پہلی عیدالفطر کے موقع پرخطبہ عید ارشاد فرمایا۔ جسے متعدد زبانوں میں رواں ترجمے کے ساتھ ایم ٹی اے انٹرنیشنل پر براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ کے آغاز میں فرمایا ۔ آج عیدالفطر کا دن ہے۔ عید کے لفظی معانی بار بار لوٹ کر آنے والی کے ہیں ۔ اسلام میں اس لفظ کو یوم الفطراور یوم الاضحی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ یہ دن کھانے پینے اور خوشی منانے کا دن ہے۔ عام محاورے میں بھی یہ لفظ مستعمل ہے جیسے کہتے ہیں آج تو عید کرا دی یا عید ہو گئی وغیرہ
مومن ہر سال دو عیدیں مناتے ہیں اس میں خدا تعالیٰ نے انسان کو نفس اور مال کی قربانی کی طرف متوجہ کیا ہے اور پھر ان قربانیوں کے بعد خوشیوں کے اظہار کا بھی خدا کی طرف سے حکم ہے کیونکہ یہ عیدیں خدا کے حکم سے منائی جاتی ہیں ۔
حضور انور نے فرمایا کہ ہماری عید عام لوگوں سے ہٹ کر روحانی رزق کی فراوانی کا نام ہے۔ حقیقی عید تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے انعامات کے ساتھ ہو۔ پھر اللہ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت ہو جس کے نتیجے میں پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے بڑے بڑے انعامات ملتے ہیں ۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حقیقی عید تو احمدیوں کو ہی نصیب ہے جو بڑے بڑے انعامات کے وارث بنائے گئے ہیں ۔
حضور انور نے فرمایا کہ رمضان کی عبادات کو اپنی زندگیوں میں باقاعدگی سے جاری رکھنا یہی امر تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور قرب کا ذریعہ بنائے گا اور یہی حقیقی عید ہے اور ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔حقیقی عید کو دنیا کی مشکلیں دور نہیں کر سکتیں اللہ کی طرف سے ملنے والی خوشخبریاں نظر آ رہی ہوتی ہیں۔ خدااپنے بندوں کے اجر کو بعض اوقات دس گنا بڑھا کر دیتا ہے۔ جیسے تیس روزے رمضان کے اور پھر 6شوال کے اس کے مطابق گویا پورے سال کے روزوں کا ثواب ہے۔ اس دن خدا کہتا ہے خوشی مناﺅ میر اشکر ادا کرو عید کی نماز سے اس دن کو شکرانے سے شروع فرمایا ہے۔
خدا تعالیٰ ہر مشکل کے بعد آسانی اور پھر انعامات سے بھی نوازتا ہے۔ پس وہ عید جو ہمیں رمضان کی قربانیوں کے بعد ملی ہے یہ خدا تعالیٰ کی خاطر قربانیوں کا ایک اظہار ہے۔حضور انور نے فرمایا وہ لوگ جو دین کی خاطر قربانیاں کرتے ہیں وہ کس طرح انعام پائے بغیر رہ سکتے ہیں ۔ اس دور میں حضرت مسیح موعود کو ماننا بھی ایک نیکی ہے اس نیکی کے نتیجہ میں ہم دکھ دئیے جاتے ہیں ستائے جاتے ہیں ہمارے پیاروں کو راہ مولیٰ میں قربان کر دیا جاتا ہے تو پھر کس طرح یہ نیکی کرنے والے بغیر اجر کے رہ جائیں گے۔
حضور انور نے فرمایا کہ مشکل اور کٹھن حالات میں اور اس قربانیوں کے دور سے رمضان کی طرح ہم نے صبر اور راضی برضائے الٰہی رہتے ہوئے گزرنا ہے اور پھر رمضان کی عبادتوں کی طرح ہم نے عام دنوں میں بھی خدا کے قرب اور اس کی عبادتوں کے معیار بلند کرنے ہیں ۔
بعدازاں حضور انور نے دنیا بھر کے تمام احمدیوں کو عید مبارک کا تحفہ عطا فرمایا اور فرمایا کہ یہ خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کی پہلی عید ہے پھر حضور انور نے مندرجہ ذیل دعاﺅں کی طرف توجہ دلائی ۔ غلبہ اسلام کیلئے دعا ‘ جماعت کوہر شر سے بچانے کیلئے دعا ۔ راہ مولیٰ میں قربان ہونے والوں شہداء ان کے پیاروں اور خاندانوں کیلئے دعا کی تحریک فرمائی اسی طرح اسیران راہ مولا کی رہائی کیلئے ، واقفین زندگی اور واقفین نو کیلئے اور مجاہدین تحریک جدید و وقف جدید کیلئے بھی دعا کی تحریک فرمائی آخر پر حضور انور نے اجتماعی دعا کروائی جس میں حاضرین اور ایم ٹی اے کی وساطت سے دنیا بھر کے احمدیوں نے شرکت کی بعدازاں حضور انور نے بیت الفتوح میں موجود سب احباب کو شرف مصافحہ بخشا ۔