حضرت حمزہ ابن عبدالمطلب ؓ
آج حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کا ذکر کروں گا۔ ان کا ذکر خاص طور پہ جس طرح یہ مسلمان ہوئے تفصیل سے تاریخ اور احادیث میں بیان ہے۔ اسی طرح ان کی شہادت کا واقعہ بھی۔ یہ سید الشہداء کے لقب سے مشہور ہیں اور اسی طرح اَسد اللہ اور اَسد رسول بھی ان کا لقب ہے۔ حضرت حمزہؓ سردار قریش حضرت عبدالمطلب کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ حضرت حمزہ کی والدہ کا نام ہالہ تھا اور یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ حضرت آمنہ کی چچازاد بہن تھیں۔ حضرت حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال اور ایک روایت کے مطابق چار سال عمر میں بڑے تھے۔ (استیعاب جلد اوّل صفحہ 369 حمزہ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)، (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 67 حمزہ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
حضرت حمزہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ ایک لونڈی تھی ثوبیہ انہوں نے دونوں کو دودھ پلایا تھا۔ (شرح زرقانی جلد 4 صفحہ 499 باب ذکر بعض مناقب العباسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت1996ء۔ از مکتبۃ الشاملۃ)
حضرت حمزہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی نبوت کے بعدچھ نبوی میں دارِاَرقم کے زمانہ میں اسلام قبول کرنے کی توفیق پائی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 6 حمزہ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت حمزہ کے قبول اسلام کا واقعہ حضرت مصلح موعودنے تاریخی واقعات کی روشنی میں اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کا کچھ خلاصہ میں بیان کروں گااور کچھ تفصیل بھی۔ اس کو سن کے انسان جب تصور میں لاتا ہے کہ کس طرح حضرت حمزہ نے اسلام قبول کیا اور اس کی کیا وجہ بنی اور کس طرح ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غیرت آئی جب ابو جہل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر زیادتی کی تھی۔ بہرحال اس واقعہ کا ذکر اس طرح ہے کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان ایک پتھر پر بیٹھے تھے اور یقیناً یہی سوچ رہے تھے کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو کس طرح قائم کیا جائے کہ اتنے میں ابوجہل آ گیا۔ اس نے آتے ہی کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم اپنی باتوں سے باز نہیں آتے۔ یہ کہہ کر اس نے آپ کو سخت غلیظ گالیاں دینی شروع کیں۔ آپ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیوں کو سنتے رہے اور برداشت کیا۔ ایک لفظ بھی آپ نے منہ سے نہیں نکالا۔ ابوجہل جب جی بھر کے گالیاں دے چکا تو اس کے بعد وہ بدبخت آگے بڑھا اور اس نے آپ کے منہ پر تھپڑ مارا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی اسے کچھ نہیں کہا۔ آپ جس جگہ بیٹھے تھے اور جہاں ابوجہل نے گالیاں دی تھیں وہاں سامنے ہی حضرت حمزہ کا گھر تھا۔ حضرت حمزہؓ اس وقت تک ابھی ایمان نہیں لائے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ روزانہ صبح تیر کمان لے کر شکار پہ چلے جایا کرتے تھے اور شام کو واپس آتے تھے اور پھر قریش کی جو مجالس تھیں ان میں بیٹھا کرتے تھے۔ اس دن جب ابوجہل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور بڑا بُرا سلوک کیا تو وہ شکار پر گئے ہوئے تھے لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ جب ابوجہل یہ سب کچھ کر رہا تھا تو حضرت حمزہ کے خاندان کی ایک لونڈی دروازے میں کھڑی ہو کر یہ نظارہ دیکھ رہی تھی۔ ابوجہل جب بار بار آپ پر حملہ کر رہا تھا اور بے تحاشا گالیاں آپ کو دے رہا تھا۔ آپ خاموشی اور سکون سے اس کی گالیوں کو برداشت کر رہے تھے۔ وہ لونڈی دروازے میں کھڑی ہو کر یہ سارا نظارہ دیکھتی رہی۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ وہ بیشک ایک عورت تھی اور کافرہ تھی لیکن پرانے زمانے میں جہاں مکّہ کے لوگ اپنے غلاموں پر ظلم کرتے تھے وہاں یہ بھی ہوتا تھا کہ بعض شرفاء اپنے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتے تھے اور آخر کافی عرصہ کے بعد وہ غلام اسی خاندان کا ایک حصہ سمجھے جاتے تھے۔ اسی طرح وہ بھی حضرت حمزہؓ کے خاندان کی لونڈی تھی۔ جب اس نے یہ سارا نظارہ دیکھا۔ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا اپنے کانوں سے سب کچھ سنا تواس پر بہت اثر ہوا مگر کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ دیکھتی رہی سنتی رہی اور اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتی رہی، کڑھتی رہی، جلتی رہی۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو وہ بھی اپنے کام کاج میں لگ گئی۔ شام کوجب حضرت حمزہ اپنے شکار سے واپس آئےاور اپنی سواری سے اترے اور تیر کمان کو ہاتھ میں پکڑے اپنی بڑی بہادری کا، ایک فخر کا اندازدکھاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے تو وہ لونڈی اس وقت اٹھی۔ اس نے بڑی دیر سے اپنے غصے اور غم کے جذبات اس وقت دبائے ہوئے تھے۔ اس نے بڑے زور سے حضرت حمزہ کو کہا کہ تمہیں شرم نہیں آتی بڑے بہادر بنے پھرتے ہو۔ حمزہ یہ سن کر حیران ہو گئے اور تعجب سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ لونڈی نے کہا کہ معاملہ کیا ہے۔ تمہارا بھتیجا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) یہاں بیٹھا تھا کہ ابوجہل آیا اور اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر دیا اور بے تحاشا گالیاں دینی شروع کر دیں اور پھر ان کے منہ پر تھپڑ مارا۔ مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے سے اُف تک نہیں کی اور خاموشی کے ساتھ سنتے رہے۔ ابوجہل گالیاں دیتا گیا اور دیتا گیا اور جب تھک گیا تو چلا گیا۔ مگر میں نے دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کسی بات کا جواب نہ دیا۔ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو۔ بڑے اکڑتے ہوئے شکار سے واپس آئے ہو تو تمہیں شرم نہیں آتی کہ تمہاری موجودگی میں تمہارے بھتیجے کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے۔ حضرت حمزہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اس وجہ سے بھی کہ سرداران قریش میں ان لوگوں کا شمار ہوتا تھا اور ریاست کی وجہ سے اسلام کو ماننے کو تیار نہیں تھے حالانکہ سمجھتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں مگر حمزہ اس وقت اپنی شان اور جاہ و جلال کو ایمان پر قربان کرنے کے لئے تیار نہیں تھے مگر جب انہوں نے اپنی لونڈی سے یہ واقعہ سنا تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور ان کی خاندانی غیرت جوش میں آئی۔ چنانچہ وہ اسی طرح بغیر آرام کئے غصہ سے کعبہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ پہلے انہوں نے کعبہ کا طواف کیا اور اس کے بعد مجلس کی طرف بڑھے جس میں ابوجہل بیٹھا ہوا اپنی بڑیں مار رہا تھا لاف زنی کر رہا تھا اور اس واقعہ کو بڑا مزے لے لے کر سنا رہا تھا اور تکبر کے ساتھ یہ بیان کر رہا تھا کہ آج میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یوں گالیاں دیں اور آج میں نے یہ سلوک کیا۔ حمزہ جب اس مجلس میں پہنچے تو انہوں نے جاتے ہی کمان بڑے زور کے ساتھ ابوجہل کے سر پر ماری اور کہا کہ تم اپنی بہادری کے دعوے کر رہے ہو اور لوگوں کو سنا رہے ہو کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح ذلیل کیا اور محمدنے اُف تک نہیں کی۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اب میں تجھے ذلیل کرتا ہوں اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو میرے سامنے بول۔ ابوجہل اس وقت مکہ کے اندر ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ قوم کا سردار تھا۔ فرعون والی حالت تھی اس کی۔ جب اس کے ساتھیوں نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ جوش کے ساتھ اٹھے اور انہوں نے حمزہ پر حملہ کرنا چاہا۔ مگر ابوجہل جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کے ساتھ گالیاں برداشت کرنے کی وجہ سے اور پھر اب حمزہ کی دلیری اور جرأت کی وجہ سے مرعوب ہو گیا تھا بیچ میں آگیا اور ان لوگوں کو حملہ کرنے سے روکا اور کہا تم لوگ جانے دو۔ دراصل بات یہ ہے کہ مجھ سے ہی زیادتی ہوئی تھی اور حمزہ حق بجانب ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے انداز میں پھر لکھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جس وقت صفا اور مروہ کی پہاڑیوں سے واپس گھر آئے تھے اپنے دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ میرا کام لڑنا نہیں ہے بلکہ صبر کے ساتھ گالیاں برداشت کرنا ہے مگر خدا تعالیٰ عرش پر کہہ رہا تھا کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تُو لڑنے کے لئے تیار نہیں مگر کیا ہم موجودنہیں ہیں جو تیری جگہ تیرے دشمنوں کا مقابلہ کریں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اسی دن ابوجہل کا مقابلہ کرنے والا ایک جانثار آپ کو دے دیا اور حضرت حمزہ نے اسی مجلس میں جس میں کہ انہوں نے ابوجہل کے سر پر کمان ماری تھی اپنے ایمان کا اعلان کر دیا اور ابوجہل کو مخاطب ہو کر کہا کہ تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی ہیں صرف اس لئے کہ وہ کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں اور فرشتے مجھ پر اترتے ہیں۔ ذرا کان کھول کر سن لو کہ میں بھی آج سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر قائم ہوں اور میں بھی وہی کچھ کہتا ہوں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں اگر تجھ میں ہمت ہے تو آ میرے مقابلے پر۔ یہ کہہ کر حمزہ مسلمان ہو گئے۔ (ماخوذ از رسول کریمﷺ کی زندگی کے تمام اہم واقعات … الخ۔ انوار العلوم جلد 19 صفحہ 137 تا 139)
روایات میں ہے کہ حضرت حمزہ کے مسلمان ہونے کے بعد مکہ کے جو مسلمان تھے ان کے ایمان کو بڑی تقویت ملی (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 6 حمزہ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) بلکہ انگریز مؤرخ سر ولیم میور نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد کو حضرت حمزہ اور حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے سے تقویت ملی۔ (The life of Mohammad by sir William Muir, heading the Prophet Insulted pg 89 Edition 1923) حضرت حمزہ نے دیگر مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو حضرت کلثوم بن ھِدم کے مکان پر قیام کیا۔ اور ایک روایت کے مطابق آپ نے حضرت سعد بن خَیثمہ کے ہاں قیام کیا۔ بہرحال مدینہ ہجرت کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ اور حضرت زید بن حارثہ کے درمیان رشتہ اخوت قائم فرمایا۔ اسی بناء پر غزوۂ اُحد پر جاتے ہوئے حضرت حمزہ نے حضرت زید کے حق میں وصیت فرمائی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 6 حمزہ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
مدینہ ہجرت کے بعد بھی کفار کی ریشہ دوانیاں ختم نہیں ہوئیں۔ ان کی چھیڑ چھاڑ مسلمانوں کو تنگ کرنا ختم نہیں ہوا اس لئے مسلمانوں کو بڑا ہوشیار رہنا پڑتا تھا اور کفار کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی پڑتی تھی۔ روایت میں ہے قریش کی نقل و حرکت اور ریشہ دوانیوں سے باخبر رہنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مہمات کی ضرورت پیش آئی جن میں حضرت حمزہ کو غیر معمولی خدمت کی توفیق ملی۔ ربیع الاول دو ہجری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ کی قیادت میں تیس شُتر سوار مہاجرین پر مشتمل ایک دستہ عِیص کی طرف روانہ فرمایا۔ حمزہ اور ان کے ساتھی جلدی جلدی وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کا رئیس اعظم ابوجہل تین سو سواروں کا ایک لشکر لئے ان کے استقبال کو موجود تھے۔ مسلمانوں کی تعداد سے یہ تعداد دس گنا سے زیادہ تھی مگر مسلمان خدا اور اس کے رسول کے حکم کی تعمیل میں گھر سے نکلے تھے اور موت کا ڈر انہیں پیچھے نہیں ہٹا سکتا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے مقابل میں ہو گئے۔ صف آرائی شروع ہو گئی اور لڑائی شروع ہونے والی تھی کہ اس علاقے کے رئیس مَجد ی بن عمرو الجُھنی نے جو دونوں فریق کے ساتھ تعلقات رکھتا تھا درمیان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کروایا اور لڑائی ہوتے ہوتے رک گئی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 329)
یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ جو پہلا لواء تھا یا جھنڈا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ کو عطا کیا تھا۔ جبکہ بعض روایتیں یہ ہیں کہ حضرت ابوعبیدۃ اور حضرت حمزہ کے سریہ ایک ساتھ روانہ ہوئے تھے اس سے شبہ پڑتا ہے (کہ جھنڈا کس کو عطا فرمایا) لیکن بہرحال دو ہجری میں غزوہ بنو قینقاع میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تھا وہ حضرت حمزہ ہی اٹھائے ہوئے تھے۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 283 باب سریۃ حمزۃ الیٰ سیف البحر مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےاس ارشاد پر حضرت حمزہ نے ہمیشہ عمل کیا اور قائم رہے کہ اپنی خودداری اور اپنی عزت نفس کو قائم رکھنا بہتر ہے اور یہ ہمیشہ قائم رکھنی چاہئے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ہجرت مدینہ کے بعد دیگر مسلمانوں کی طرح حضرت حمزہ کے مالی حالات بھی بہت خراب ہو گئے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ انہی ایام میں ایک روز حضرت حمزہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کوئی خدمت میرے سپرد فرما دیں تا کہ ذریعہ معاش کی کوئی صورت پیدا کر لوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ اے حمزہ اپنی عزت نفس قائم اور زندہ رکھنا زیادہ پسند ہے یا اسے مار دینا۔ حضرت حمزہ نے عرض کیا میں تو اسے زندہ رکھنا ہی پسند کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اپنی عزت نفس کی حفاظت کرو۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 624 حدیث 6639 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دعاؤں پر زور دینے کی تحریک فرمائی اور بعض خاص دعائیں سکھائیں۔ چنانچہ حضرت حمزہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس دعا کو لازم پکڑو کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِاسْمِکَ الْاَعْظَمِ وَرِضْوَانِکَ الْاَکْبَر (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2 صفحہ 106 حمزۃ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء) یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے اسم اعظم اور رضوان اکبر کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں اور ہمیشہ پھر آپ نے اس کے پھل کھائے۔ چنانچہ حضرت حمزہ کو دعاؤں پر کتنا ایمان اور یقین تھا ان باتوں کا بھی روایتوں سےاظہار ہوتا ہے اور کیوں نہ ہوتا جبکہ ان دعاؤں ہی کی برکت سے بظاہر اس تہی دست اور تہی دامن مہاجر کو اللہ تعالیٰ نے گھر بار اور ضرورت کا سب کچھ عطا فرمایا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت حمزہ نے بنی نجار کی ایک انصاری خاتون خولہ بنت قیس کے ساتھ شادی کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حضرت خولہ بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دور کی محبت بھری باتیں سنایا کرتی تھیں۔ فرماتی تھیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا کہ اے خدا کے رسول مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن آپ کو حوض کوثر عطا کیا جائے گا جو بہت وسعت رکھتا ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہ سچ ہے اور یہ بھی سن لو کہ مجھے عام لوگوں سے کہیں زیادہ تمہاری قوم انصار کا اس حوض سے سیراب ہونا پسند ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 822 حدیث 27859 مسند خولہ بنت حکیمؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) کیسی محبت تھی انصار سے صرف اس لئے کہ جب اپنی قوم نے آپ کو نکالا تو انصار تھے جنہوں نے آپ پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا۔
تاریخ میں غزوۂ بدر کے حوالے سے ایک روایت یہ بھی ملتی ہےکہ دو ہجری میں بدر کا مشہور معرکہ پیش آیاتو غزوہ بدر کے موقع پر کفار کی طرف سے اسود بن عبدالاسد مخزومی نکلا۔ یہ نہایت ہی شریر اور برا شخص تھا۔ اس نے عہد کیا تھا کہ مسلمانوں نے جو پانی کی جگہ رکھی تھی میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےاس حوض میں سے جا کر پانی پیوں گا۔ یا اسے ڈھاؤں گا، خراب کروں گا یا اس کے پاس مر جاؤں گا۔ وہ اس ارادے سے نکلا۔ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب اس کا مقابلہ کرنے آئے۔ جب ان دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو حضرت حمزہ نے تلوار کا وار کر کے اس کی آدھی پنڈلی کاٹ دی۔ وہ حوض کے پاس تھا۔ وہ کمر کے بل گرا اور اپنی قسم پوری کرنے کے لئے حوض کی طرف بڑھا تا کہ اپنی قسم پوری کرے۔ حضرت حمزہ نے اس کا پیچھا کیا۔ ایک اور وار کر کے اسے ختم کر دیا۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 298-299 باب مقتل الاسود بن عبد الاسد المخزومی مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء) وہ حوض کے قریب مر تو گیا لیکن یہ جو تھا کہ پانی پیوں گا یا خراب کروں گاوہ اسےبہر حال نہ کر سکا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ بدر کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اس میں کفار کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی۔ رات بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حضور عاجزانہ دعاؤں اور تضرعات میں مصروف رہے۔ جب کفار کا لشکر ہمارے قریب ہوا اور ہم ان کے سامنے صف آراء ہوئے تو ناگاہ ایک شخص پر نظر پڑی جو سرخ اونٹ پر سوار تھا اور لوگوں کے درمیان اس کی سواری چل رہی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے علی! حمزہ جو کفار کے قریب کھڑے ہیں انہیں پکار کر پوچھو کہ سرخ اونٹ والا کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے؟ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ان لوگوں میں سےکوئی شخص انہیں خیر بھلائی کی نصیحت کر سکتا ہے تو وہ سرخ اونٹ والا شخص ہے۔ اتنی دیر میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آ گئے۔ انہوں نے آ کر بتایا کہ عتبہ بن ربیعہ ہے جو کفار کو جنگ سے منع کر رہا ہے جس کے جواب میں ابوجہل نے اسے کہا ہے کہ تم بزدل ہو اور لڑائی سے ڈرتے ہو۔ عتبہ نے جوش میں آ کر کہا کہ آج دیکھتے ہیں کہ بزدل کون ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد اول صفحہ 338-339 حدیث 948 مسند علی بن ابی طالبؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ عتبہ بن ربیعہ اور اس کے پیچھے اس کا بیٹا اور بھائی بھی نکلے اور پکار کر کہا کہ کون ہمارے مقابلہ کے لئے آتا ہے تو انصار کے کئی نوجوانوں نے اس کا جواب دیا۔ عتبہ نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے بتا دیا کہ ہم انصار میں سے ہیں۔ عتبہ نے کہا کہ ہمیں تم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ہم تو صرف اپنے چچا کے بیٹوں سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے حمزہ! اٹھو۔ اے علی! کھڑے ہو۔ اے عبیدۃ بن حارث! آگے بڑھو۔ حمزہ تو عتبہ کی طرف بڑھے اور حضرت علی کہتے ہیں کہ میں شیبہ کی طرف بڑھا اور عبیدۃ اور ولید کے درمیان جھڑپ ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کو سخت زخمی کیا اور پھر ہم ولید کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کو مار ڈالا اور عبیدۃ کو ہم میدان جنگ سے اٹھا کر لے آئے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی المبارزۃ حدیث 2665) حضرت علی اور حمزہ ان دونوں نے تو اپنے اپنے مخالفین کو مار دیا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے حمزہ! اٹھو۔ اور اے علی! کھڑے ہو۔ اے عبیدۃ بن حارث !آگے بڑھو۔ اس موقع پر جب تینوں کھڑے ہوئے اور عتبہ کی طرف بڑھے تو عتبہ نے کہا کہ کچھ بات کرو تا کہ ہم تمہیں پہچان لیں کیونکہ وہ خَود پہنے ہوئے تھے۔ ان کے منہ ڈھانکے ہوئے تھے۔ اس موقع پر حضرت حمزہ نے کہا کہ میں حمزہ ہوں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شیر ہے تو عتبہ نے کہا اچھا مقابل ہے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ 12 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) حضرت حمزہ کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ غزوہ بدر میں کفار میں دہشت ڈالنے کے لئے آپ شتر مرغ کا پر بطور نشان جنگ لگائے ہوئے تھے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ اُمیّہ بن خلف سردار قریش میں سے تھا جو کہ مکہ میں حضرت بلال کو تکالیف دیتا تھا۔ غزوہ بدر میں انصار کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جس کے سینہ میں شتر مرغ کا پر لگا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ حمزہ بن عبدالمطلب ہیں۔ اُمیّہ کہنے لگا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے آج ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 302 باب مقتل امیہ بن خلف مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
انگریز مؤرخ سر ولیم میور غزوہ بدر کے ذکر میں حضرت حمزہ کی موجودگی کے بارہ میں لکھتا ہے کہ حمزہ لہراتے ہوئے شتر مرغ کے پَر کے ساتھ ہر جگہ نمایاں نظر آتے تھے۔ (The life of Mohammad by sir William Muir, heading Battle of Ohod pg 260 Edition 1923)
اور بھی کئی سرداروں کو آپ نے جنگ میں قتل کیا۔
غزوہ اُحد میں بھی حضرت حمزہ نے شجاعت کے کمالات دکھائے۔ آپ کی یہ بہادری قریش مکہ کی آنکھوں میں سخت کھٹکی تھی۔ بخاری میں اس کی تفصیل اس طرح درج ہے کہ
حضرت جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری کہتے ہیں کہ میں عبید اللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ سفر میں گیا۔ جب ہم حمص جو ملک شام کا مشہور شہر ہے اس میں پہنچے تو عبیداللہ بن عدی نے مجھ سے کہا کہ کیا آپ وحشی بن حرب حبشی سے ملنا چاہتے ہیں۔ حضرت حمزہ کے قتل کی بابت اس سے پوچھیں گے۔ اس نے کہا کہ اچھا اور وحشی حمص میں رہا کرتا تھا۔ چنانچہ ہم نے اس کا پتہ دریافت کیا۔ ہم سے کہا گیا کہ وہ اپنے محل کے سائے میں بیٹھا ہے جیسے بڑی مشک ہو۔ جعفر کہتے ہیں کہ ہم اس کے پاس جا کر تھوڑی دیر کھڑے رہے۔ ہم نے السلام علیکم کہا۔ اس نے سلام کا جواب دیا۔ کہتے تھے: عبیداللہ اس وقت پگڑی اور سر اور منہ لپیٹے ہوئے تھے۔ وحشی صرف ان کی آنکھیں اور پاؤں ہی دیکھ سکتا تھا۔ عبیداللہ نے کہا وحشی کیا مجھے پہچانتے ہو؟ کہتے تھے کہ اس نے غور سے انہیں دیکھا تو اس نے کہا اللہ کی قسم نہیں۔ سوائے اس کے کہ مَیں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ایک عورت سے شادی کی تھی جسے اُمّ قتال بنت ابی لیس کہتے تھے۔ مکہ میں عدی کے لئے اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ اور میں اسے دودھ پلوایا کرتا تھا اور بچے کو اٹھا کر اس کی ماں کے ساتھ لے جاتا تھا اور وہ بچہ اس کی ماں کو دے دیتا تھا۔ میں نے تمہارا پاؤں دیکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی ہے۔ یعنی اس نے پاؤں سے پہچان لیا۔ یہ سن کر عبیداللہ نے اپنا منہ کھول دیا۔ تو پھر انہوں نے کہا کہ حضرت حمزہ کے قتل کا واقعہ ہمیں بتاؤ۔ اس نے کہا کہ حضرت حمزہ نے طُعَیمہ بن عدی بن خیار کو بدر میں قتل کیا تھا۔ میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا کہ اگر تم میرے چچا کے بدلہ میں حمزہ کو قتل کرو تو تم آزاد ہو۔ اس نے کہا جب لوگوں نے دیکھا کہ جنگ اُحد ہونے والی ہے اور عینین اُحد کی پہاڑیوں میں سے ایک پہاڑی ہے۔ اُحد کے اور اس کے درمیان ایک وادی ہے۔ میں بھی لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لئے نکلا۔ جب لوگ لڑنے کے لئے صف آراء ہوئے تو سِباع میدان میں نکلا اور اس نے پکارا کہ کیا کوئی مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں نکلے گا۔ یہ سن کر حضرت حمزہ بن عبدالمطلب اس کے مقابل نکلے اور کہنے لگے اے سباع! کیا تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلہ کرتے ہو۔ یہ کہہ کر حضرت حمزہ نے اس پر حملہ کیا اور وہ ایسا ہو گیا جیسے کل کا گزرا ہوا دن۔ یعنی فوراً ہی اس کو زیر کر لیا اور ختم کر دیا۔ وحشی کہتا ہے کہ میں ایک چٹان کے نیچے حضرت حمزہ کے لئے گھات میں بیٹھ گیا جب وہ میرے قریب پہنچے تو میں نے اپنابرچھا مارا اور اس کو ان کے زیر ناف رکھ کر جو زور سے دبایا تو آر پار نکل گیا اور یہی ان کی آخری گھڑی تھی۔ جب لوگ لَوٹے تو میں بھی ان کے ساتھ لوٹا اور مکہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ جب اس میں اسلام پھیلا تو میں وہاں سے نکل کر طائف چلا گیا۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایلچی بھیجے اور مجھ سے کہا گیا کہ آپ ایلچیوں سے تعارض نہیں کرتے۔ انہیں یعنی ایلچیوں کوکچھ نہیں کہتے۔ میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ تم ہی وحشی ہو۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا۔ تم نے حمزہ کو قتل کیا تھا؟ میں نے کہا ٹھیک بات ہے جو آپ کو پہنچی ہے۔ آپ نے فرمایا تم سے ہو سکے تو میرے سامنے نہ آیا کرو۔ وہ کہتے ہیں یہ سن کر میں وہاں سے نکل گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے اور مسیلمہ کذاب نے بغاوت کی تو میں نے کہا میں مسیلمہ کی طرف ضرور جاؤں گا شاید میں اسے قتل کروں اور اس طرح حضرت حمزہ کے گناہ کا کفارہ ادا کروں۔ کہتے ہیں کہ میں بھی لوگوں کے ساتھ جنگ میں نکلا۔ پھر جنگ کا حال جو ہوا وہ ہوا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص دیوار کے ایک شگاف میں کھڑا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے گندمی رنگ کا اونٹ ہے۔ سر کے بال پراگندہ ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ میں نے اس کو اپنا برچھا مارا اور اس کی چھاتیوں کے درمیان رکھ کر زور سے جو دبایا تو دونوں کندھوں کے درمیان سے پار نکل گیا۔ اس کے بعد ایک انصاری نے بھی اس کی گردن کاٹ دی۔ توبعد میں یہ انجام اس کا ہوا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل حمزۃ بن عبد المطلبؓ حدیث 4072)
عمیر بن اسحاق سے اس طرح مروی ہے کہ اُحد کے روز حمزہ بن عبدالمطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے دو تلواروں سے جنگ کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں اسد اللہ ہوں۔ یہ کہتے ہوئے کبھی آگے جاتےاور کبھی پیچھے ہٹتے۔ وہ اسی حالت میں تھے کہ یکایک پھسل کر اپنی پیٹھ کے بل گرے۔ انہیں وحشی اسودنے دیکھ لیا۔ ابواسامہ نے کہا کہ اس نے انہیں نیزہ کھینچ کر مارا اور قتل کر دیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 8 حمزہ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) اور حضرت حمزہ ہجرت نبوی کے بعد بتیسویں مہینہ میں جنگ اُحد میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر اس وقت انسٹھ سال تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 6 حمزہ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) روایت یہ ہے کہ ابوسفیان کی بیوی ہند غزوہ اُحد کے دن لشکروں کے ہمراہ آئی۔ اس نے اپنے باپ کا انتقام لینے کے لئے جو بدر میں حضرت حمزہ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تھا یہ نذر مان رکھی تھی کہ مجھے موقع ملا تو میں حمزہ کا کلیجہ چباؤں گی۔ جب یہ صورتحال ہو گئی اور حضرت حمزہ پر مصیبت آ گئی تو مشرکین نے مقتولین کو مُثلہ کر دیا۔ ان کی شکلیں بگاڑ دیں ناک کان وغیرہ عضو کاٹے۔ وہ حمزہ کے جگر کا ایک ٹکڑا لائے۔ ہند اسے لے کر چباتی رہی کہ کھا جائے مگر جب وہ اس کو نگل نہ سکی تو پھینک دیا۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے آگ پر ہمیشہ کے لئے حرام کر دیا ہے کہ حمزہ کے گوشت میں سے کچھ بھی چکھے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 8حمزہ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ کی نعش کے پاس آ کر جن جذبات کا اظہار کیا اور آپ کو بلند مقام کی جو خوشخبری دی اس کے بارہ میں روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت حمزہ کی نعش کو دیکھا تو ان کا کلیجہ نکال کر چبایا گیا تھا۔ ابن ہشام کہتے ہیں تاریخ میں یہ لکھا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں جب حضرت حمزہ کی نعش پر آ کر کھڑے ہوئے تو فرمانے لگے کہ اے حمزہ تیری اس مصیبت جیسی کوئی مصیبت مجھے کبھی نہیں پہنچے گی۔ میں نے اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آج تک نہیں دیکھا۔ پھر آپ نے فرمایا جبریل نے آ کر مجھے خبر دی ہے کہ حمزہ بن عبدالمطلب کو سات آسمانوں میں اللہ اور اس کے رسول کا شیر لکھا گیا ہے۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 395باب وقوف النبیؐ علیٰ حمزۃ و حزنہ علیہ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ اُحد کے دن اختتام پر ایک عورت سامنے سے بڑی تیزی کے ساتھ آتی ہوئی دکھائی دی۔ قریب تھا کہ وہ شہداء کی لاشیں دیکھ لیتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اچھا نہیں سمجھا کہ کوئی خاتون وہاں آئے اور لاشوں کی جو بہت بری حالت تھی وہ دیکھ سکے۔ اس لئے فرمایا کہ اس عورت کو روکو۔ اس عورت کو روکو۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غور سے دیکھا کہ یہ میری والدہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ چنانچہ میں ان کی طرف دوڑتا ہوا گیا اور شہداء کی لاشوں تک پہنچنے سے قبل ہی میں نے انہیں جا لیا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر، میرے سینے پر مار کر مجھے پیچھے کو دھکیل دیا۔ وہ ایک مضبوط خاتون تھیں۔ اور کہنے لگیں کہ پرے ہٹو میں تمہاری کوئی بات نہیں مانوں گی۔ میں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو روکنے کا کہا ہے کہ آپ ان لاشوں کو مت دیکھیں۔ یہ سنتے ہی وہ رک گئیں اور اپنے پاس موجود دو کپڑے نکال کر فرمایا یہ دو کپڑے ہیں جو میں اپنے بھائی حمزہ کے لئے لائی ہوں کیونکہ مجھے ان کی شہادت کی خبر مل چکی ہے۔
تو یہ تھی اطاعت اس زمانے کی۔ یعنی کہ وہ یہ سنتے ہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اسے روکو توجہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سناباوجود غم کی حالت کے، باوجود اس کے کہ وہ بڑی جوش کی حالت میں تھیں فوری طور پر اپنے جذبات کو کنٹرول کیا اور رک گئیں۔ یہ کامل اطاعت ہے۔ اور کہنے لگیں کہ اپنے بھائی کے لئے کپڑے لائی ہوں۔ شہادت کی خبر مجھے مل چکی ہے۔ تم انہیں ان کپڑوں میں کفن دے دینا۔ جب ہم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان دو کپڑوں میں کفن دینے لگے تو دیکھا کہ ان کے پہلو میں ایک انصاری شہید ہوئے پڑے ہیں ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا تھا جو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوئی کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو کپڑوں میں کفن دیں اور اس انصاری کو ایک کپڑا بھی میسر نہ ہو۔ اس لئے ہم نے یہ طے کیا کہ ایک کپڑے میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور دوسرے میں اس انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کو کفن دیں۔ اندازہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوا کہ ان دونوں حضرات میں سے ایک زیادہ لمبے قد کا تھا۔ ہم نے قرعہ اندازی کی اور جس کے نام جو کپڑا نکل آیا اسے اسی کپڑے میں دفنا دیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد اوّل صفحہ 452 حدیث 1418 مسند زبیر بن العوامؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) حضرت حمزہ کو ایک ہی کپڑے میں کفن دیا گیا تھا۔ جب آپ کا سر ڈھانکا جاتا تو دونوں پاؤں سے کپڑا ہٹ جاتا اور جب چادر پاؤں کی طرف کھینچ دی جاتی تو آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹ جاتا۔ تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کا چہرہ ڈھانک دیا جائے اور پاؤں پر حَرمل یا اِذخر گھاس رکھ دی جائے۔ حضرت حمزہ اور حضرت عبداللہ بن جحش جو کہ آپ کے بھانجے تھے ایک ہی قبر میں دفن کئے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے حضرت حمزہ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 6-7 حمزہ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)، (مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 72 حدیث 21387 مسند خباب بن الارتؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ کی نعش کو سامنے رکھ کر ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ایک انصاری صحابی کی نعش کو ان کے پہلو میں رکھا گیا اور آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر اس انصاری کی میّت اٹھا دی گئی تاہم حضرت حمزہ کی میت وہیں رہنے دی گئی۔ یہاں تک کہ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روز حضرت حمزہ کی نماز جنازہ دوسرے باقی شہداء کے ساتھ ستّر دفعہ پڑھائی کیونکہ ہر دفعہ حضرت حمزہ کی نعش وہیں پڑی رہتی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 11 حمزہ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت ابوہریرۃ سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور تمام نیک کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ چنانچہ شہادت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ کی لاش کو مخاطب ہو کر فرمایا اللہ کی رحمتیں تجھ پر ہوں۔ آپ ایسے تھے کہ معلوم نہیں کہ ایسا صلہ رحمی کرنے والا اور نیکیاں بجا لانے والا کوئی اور ہو۔ اور آج کے بعد آپ پر کوئی غم نہیں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 9 حمزہ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور مسلمانوں کے اس بہادر سردار حضرت حمزہ کی تدفین جس بے کسی اور کسمپرسی کے عالم میں ہوئی صحابہ بڑے دکھ کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ بعد میں فراخی کے دَور میں حضرت خباب وہ تنگی کا زمانہ یاد کر کے کہا کرتے تھے کہ حضرت حمزہ کا کفن ایک چادر تھی وہ بھی پوری نہ ہوتی تھی۔ چنانچہ سر کو ڈھانک کر پاؤں پر گھاس ڈال دی گئی تھی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 71-72 حدیث 21387 مسند خباب بن الارتؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
اسی طرح حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف کا بھی اسی قسم کا واقعہ ہےکہ ایک دفعہ روزے سے تھے تو افطاری کے وقت پُرتکلّف کھانا پیش کیا گیا جسے دیکھ کر انہیں عُسرت کا زمانہ یاد آ گیا۔ تنگی کا زمانہ یاد آ گیا۔ کہنے لگے کہ حمزہ بھی شہید ہوئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے۔ انہیں کفن کی چادر بھی میسر نہ آ سکی تھی۔ پھر ہمارے لئے دنیا کی کشائش ہوئی۔ ہمیں دنیا سے جو ملا ملا اور ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا ثواب ہمیں جلدی سے نہ دے دیا گیا ہو۔ یعنی دنیا میں نہ مل گیا ہو۔ پھر وہ رونے لگے اور اتنا روئے کہ انہوں نے کھانا چھوڑ دیا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد حدیث 4045)
یہ وہ لوگ تھےجن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ جو کشائش میں اپنے بھائیوں کو یاد کیا کرتے تھے۔ اپنی جو گزشتہ حالت تھی اس کو سامنے رکھتے تھےتو فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جنتوں کی خوشخبریاں دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے۔
ایک روایت میں آتا ہےاور یہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اُحد سے واپس لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ انصار کی عورتیں اپنے خاوندوں پر روتیں اور بَین کرتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا بات ہے حمزہ کو کوئی رونے والا نہیں؟ انصار کی عورتوں کو پتہ چلاتو پھر وہ حضرت حمزہ کی شہادت پر بَین کرنے کے لئے اکٹھی ہو گئیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ لگ گئی اور جب بیدار ہوئے تو وہ خواتین اسی طرح رو رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج حمزہ کا نام لے کر روتی ہی رہیں گی۔ انہیں کہہ دو کہ واپس چلی جائیں۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی مرنے والے کا ماتم اور بَین نہ کریں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 418-419 حدیث 5563 مسند عبد اللہ بن عمروؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
تو اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مُردوں پر نوحہ کرنا ناجائز قرار دے دیا اور کسی بھی قسم کا جونوحہ ہے اور بَین ہے وہ ختم کر دیا۔ بڑی حکمت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں کے جذبات کا خیال رکھا۔ انہیں اپنے خاوندوں اور بھائیوں کی جدائی پر ماتم سے روکنے کی بجائے پہلے ان کی توجہ حضرت حمزہ کی طرف پھیری، عظیم قومی صدمہ کی طرف توجہ دلائی جو سب سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوغم تھا اور پھر حمزہ پر ماتم اور بَین نہ کرنے کی تلقین فرما کر اپنا نمونہ پیش کر دیا اور انہیں صبر کی تلقین کی، ایسی تلقین جو پُر اثر تھی۔ جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حمزہ کی جدائی کے غم کا تعلق ہے وہ آخر تک آپ کو رہا۔
کعب بن مالک نے حضرت حمزہ کی شہادت پر اپنے مرثیہ میں کہا تھا کہ میری آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور حمزہ کی موت پر انہیں رونے کا بجا طور پر حق بھی ہے مگر خدا کے شیر کی موت پر رونے دھونے اور چیخ و پکار سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ وہ خدا کا شیر حمزہ کہ جس صبح وہ شہید ہوا دنیا کہہ اٹھی کہ شہید تو یہ جوانمرد ہواہے۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 69 حمزہ بن عبد المطلبؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات کو بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے اور انہوں نے اپنی قربانیوں کی جو مثالیں قائم کی ہیں وہ رہتی دنیا تک مسلمان یاد رکھیں اور انہوں نے جو اُسوہ قائم کیا اور جو نیکیاں کر کےہمیں دکھائیں ان کو کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔