حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَانؓ
حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان انصاری صحابی تھے۔ ان کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نَجَّار سے تھا۔ آپؓ غزوۂ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے۔ ان کا شمار بڑے جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ حضرت حَارِثَہ کی والدہ کا نام جَعْدَہ بِنْتِ عُبَیْد تھا۔ حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان کی اولاد میں عبداللہ، عبدالرحمٰن، سَوْدَہ، عُمْرَہ اور اُمِّ ہِشَام شامل ہیں۔ ان بچوں کی والدہ کا نام امّ خَالِد تھا۔ آپ کی دیگر اولاد میں اُمِّ کلثوم جن کی والدہ بَنُو عَبْدِاللہ بن غَطَفَان میں سے تھی اور اَمَۃُ اللہ ان کی والدہ جُنْدُع میں سے تھیں۔ ایک دوسری روایت ہے اس میں آتا ہے کہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ یہ حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے۔ آپ کے پاس جبرئیلؑ بیٹھے تھے۔ ایک اَور روایت پہلے تھی وہ روایت مختصر سی یوں تھی کہ آپؓ گزرے تو آپؓ نے سلام کیا اور جبرئیلؑ نے ’وعلیکم السلام‘ کہا لیکن جو تفصیلی روایت ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے۔ آپؐ کے پاس حضرت جبرئیلؑ بیٹھے تھے اور آپؐ ان سے آہستہ آہستہ کچھ باتیں کر رہے تھے۔ حَارِثَہ نے آپؐ کو سلام نہیں کیا۔ جبرئیلؑ نے کہا کہ انہوں نے سلام کیوں نہیں کیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں حَارِثَہ سے دریافت فرمایا کہ جب تم گزر رہے تھے تو تم نے سلام کیوں نہیں کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے آپؐ کے پاس ایک شخص کودیکھا تھا۔ آپؐ ان سے آہستہ آہستہ کچھ باتیں کر رہے تھے۔ میں نے ناپسند کیا کہ میں آپؐ کی بات کو قطع کروں یعنی سلام کر کے پھر آپؐ کی توجہ پھیروں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے اس شخص کو دیکھ لیا تھا جو میرے پاس بیٹھا تھا؟ انہوں نے کہا۔ جی ہاں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ جبرئیلؑ تھے اور وہ کہتے تھے کہ اگر یہ شخص سلام کرتا تو میں اس شخص کو جواب دیتا۔ پھر اس کے بعد جبرئیل نے کہا کہ یہ اسّی لوگوں میں سے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا کہ اس کے کیا معنی ہیں ؟ جس پر جبرئیلؑ نے کہا کہ یہ ان اسّی آدمیوں میں سے ہیں جو غزوۂ حنین میں آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے تھے۔ ان کا رزق اور ان کی اولاد کا رزق جنت میں اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارثہؓ سے یہ سب کچھ بیان کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بڑا عزت اور احترام کرتے تھے اور ان کے بارے میں یہ بھی روایت میں ہے، حضرت عائشہؓ نے کہا ہے کہ اپنی والدہ کے ساتھ بہترین سلوک کیا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح کی نیکی تم سب کو کرنی چاہیے۔
حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ نظر خراب ہوگئی۔ بند ہو گئی تھی۔ آپؓ نے ایک رسی اپنی نماز کی جگہ سے اپنے کمرے کے دروازے تک باندھی تھی اور اپنے پاس ایک ٹوکری رکھا کرتے تھے جس میں کھجوریں ہوتی تھیں۔ جب کوئی مسکین آپ کے پاس آتا، کوئی سوالی آتا اور سلام کرتا یا ملنے والا آتا یا سمجھتے کہ یہ غریب آدمی ہے تو اس رسّی کو پکڑ کر اپنی نماز کی جگہ سے دروازے تک آتے اور ان کو کھجوریں دیتے۔ آپؓ کے گھر والے کہتے تھے کہ ہم آپؓ کی طرف سے یہ خدمت کر دیا کریں، ہم دے دیتے ہیں۔ آپؓ کی نظر ٹھیک نہیں۔ کیوں تکلیف کرتے ہیں ؟ مگر آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مسکین کی مدد کرنا بُری موت سے بچاتا ہے۔ روایت میں ہے کہ حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان کے مکانات مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکانات کے قریب تھے، کافی مکان تھے، جائیداد تھی اور حسب ضرورت حضرت حارِثہؓ اپنے مکان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 371-372 حَارِثَہ بن النعمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 655-656 حَارِثَہ بن النعمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء) یعنی مستقل یا شادیوں کی صورت میں یا اَور کسی ضرورت کے تحت، جب بھی رہائش کی ضرورت ہوتی تھی دے دیے بلکہ مستقل دیتے تھے۔
جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضرت فاطمہؓ سے شادی ہوئی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اپنے لئے کوئی الگ گھر تلاش کر لو۔ حضرت علیؓ نے گھر تلاش کیا اور وہیں حضرت فاطمہؓ کو بیاہ کر لے گئے۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ میں تمہیں اپنے پاس بلانا چاہتا ہوں یعنی میرے قریب آ جاؤ۔ گھر لے لو۔ حضرت فاطمہؓ نے آپؐ کو مشورہ دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ آپؐ حَارِثَہ بن نُعْمَان سے فرمائیں کہ وہ کہیں اَور منتقل ہو جائیں اور یہ جو گھر ان کا ہے وہ ہمیں دے دیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حارثہؓ ہمارے لئے کئی دفعہ منتقل ہو چکے ہیں۔ اُن کے گھر قریب ہیں وہ جو بھی قریبی گھر ہوتا ہے وہ چھوڑ کے مجھے دے دیتے ہیں۔ اب مجھے شرم آتی ہے کہ اس سے دوبارہ منتقل ہونے کا کہوں۔ یہ خبر حضرت حارِثہؓ کو پہنچی اور آپؓ گھر خالی کر کے وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپؐ حضرت فاطمہؓ کو اپنے پاس منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ میرے گھر ہیں اور یہ بنو نَجَّار کے گھروں میں آپؐ سے سب سے زیادہ قریب ہیں اور میں اور میرا مال اللہ اور اس کے رسول ہی کے لئے ہیں۔ یا رسول اللہ! آپؐ مجھ سے جو مال چاہیں لے لیں وہ مجھے اس مال سے بہت زیادہ پیارا ہو گا جسے آپؐ چھوڑ دیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا تم نے سچ کہا۔ خدا تعالیٰ تم پر برکت نازل فرمائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو حضرت حارثہؓ والے گھر میں بلا لیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 8صفحہ 18-19 فاطمۃؓ بنت رسولﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
اس کی کچھ تفصیل سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی بیان فرمائی ہے اس طرح کہ آپؓ لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ اب تک غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد کے کسی حجرے وغیرہ میں رہتے تھے مگر شادی کے بعد یہ ضروری تھا کہ کوئی الگ مکان ہو جس میں خاوند بیوی رہ سکیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا کہ اب تم کوئی مکان تلاش کرو جس میں تم دونوں رہ سکو۔ حضرت علیؓ نے عارضی طور پر ایک مکان کا انتظام کیا اور اس میں حضرت فاطمہؓ کا رخصتانہ ہو گیا۔ اسی دن رخصتانہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور تھوڑا سا پانی منگا کر اس پر دعا کی۔ پھر وہ پانی حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ ہر دو پر یہ الفاظ فرماتے ہوئے چھڑکا کہ
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْہِمَا وَبَارِکْ عَلَیْھِمَا وَبَارِکْ لَھُمَا نَسْلَھُمَا۔ یعنی ’’اے میرے اللہ! تم ان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت دے اور ان کے ان تعلقات میں برکت دے جو دوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اور ان کی نسل میں برکت دے۔ ‘‘ یعنی ذاتی تعلقات بھی اور رشتہ داروں کے تعلقات بھی، معاشرے کے تعلقات بھی۔ سب کی برکت کی دعا کی اور فرمایا کہ ان کی نسل میں برکت دے۔ پھر آپؐ اس نئے جوڑے کو اکیلا چھوڑ کر واپس تشریف لے آئے۔ اس کے بعد ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے تو حضرت فاطمہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حَارِثَہ بن نُعْمَان اَنْصَاری کے پاس چند ایک مکانات ہیں۔ آپؐ اُن سے فرما دیں کہ وہ اپنا کوئی مکان خالی کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا وہ ہماری خاطر اتنے مکانات پہلے ہی خالی کر چکے ہیں۔ اب مجھے تو انہیں کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ حارثہؓ کو کسی طرح اس کا علم ہوا تو وہ بھاگے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میرا جو کچھ ہے وہ حضورؐ کا ہے اور اللہ کی قسم! جو چیز آپؐ مجھ سے قبول فرما لیتے ہیں وہ مجھے زیادہ خوشی پہنچاتی ہے بہ نسبت اس چیز کے جو میرے پاس رہتی ہے۔ پھر اس مخلص صحابیؓ نے باصرار اپنا ایک مکان خالی کروا کے پیش کر دیا۔ اور حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ نے وہاں آ کر رہائش اختیار کر لی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 456)
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حُنَین کے دن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم میں سے کون رات کو پہرہ دے گا؟ اس پر حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان آہستہ آہستہ اطمینان سے اٹھے۔ حضرت حارثہؓ اپنے کسی بھی کام میں جلدی نہیں کیا کرتے تھے۔ صحابہؓ نے ان کے اتنے آرام سے اٹھنے پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حیا نے حارثہؓ کو خراب کر دیا ہے۔ اس موقع پر جلدی اٹھنا چاہیےتھا۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا مت کہو کہ حیا نے حارثہؓ کو خراب کیا۔ یہ نہ کہو کہ حارثہؓ کو خراب کیا بلکہ اگر تم یہ کہو کہ حیا نے حارثہؓ کو ٹھیک کر دیا ہے تو یہ سچ ہوگا۔ (المنتقی من کتاب مکارم الاخلاق للخرائطی صفحہ 68 باب فضیلۃ الحیاء و جسیم خطرہ حدیث 127 مطبوعہ دار الفکر دمشق 1988ء)
حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان کی وفات حضرت امیر معاویہ کے دور میں ہوئی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 372 حَارِثَہ بن النعمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)