حضرت حَارِث بن اَصِمَّہؓ
حضرت حَارِث بن اَصِمَّہ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو نجار سے تھا اور بئرِ معونہ کے روز یہ شہید ہوئے تھے۔ (استیعاب جلد 1صفحہ 292 حارث بن اصمہ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث اور حضرت صُہَیْب بن سِنَان کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ (اصابہ جلد 1صفحہ 673 حارث بن صمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت حارث بن اصِمّہ غزوۂ بدر کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب الرَّوْحَاء کے مقام پر پہنچے تو آپؓ میں مزید سفر کی طاقت نہ رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو مدینہ واپس بھیج دیا لیکن اموال غنیمت میں آپؓ کا حصہ بدر میں شامل ہونے والوں کی طرح مقرر فرمایا۔ یعنی عملاً شامل نہیں ہوئے تھے لیکن ایک جذبہ کے تحت نکلے تھے لیکن صحت نے اجازت نہیں دی یا اس وقت زیادہ بیمار ہو گئے ہوں گے اس لئے واپس بھجوا دئے گئے لیکن آپ کی نیت اور جذبے کو دیکھ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ میں شمار فرمایا۔ آپ غزوۂ احد میں شریک تھے۔ اُس دن جب لوگ منتشر ہو گئے تو اُس وقت حضرت حارث ثابت قدم رہے۔ حضرت حارث نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر بیعت کی۔ آپؓ نےعثمان بن عبداللہ بن مُغِیرہ مَخْزُومی کو قتل کیا یعنی حضرت حارثؓ نے اور سلب لے لیا یعنی جو اس کا جنگی لباس اور سامان تھا وہ لے لیا جس میں اس کی زرہ اور خَود اور تلوار تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سامان آپؓ کو ہی عطا کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب عثمان بن عبداللہ کی ہلاکت کی خبر ہوئی تو فرمایا کہ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اسے ہلاک کیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 386 حارث بن صمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 615 حارث بن صمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
عثمان بن عبد اللہ بڑا خطرناک دشمن تھا۔ یہ ایک مشرک تھا اور غزوۂ احد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانے کی غرض سے پورے ہتھیاروں سے لیس ہو کر آیا تھا۔ غزوۂ احد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ میرے چچا حمزہؓ کے ساتھ کیا ہوا؟ حضرت حارثؓ ان کی تلاش میں نکلے۔ جب آپ کو دیر ہو گئی تو حضرت علیؓ روانہ ہوئے اور حارث کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حضرت حمزہؓ شہید ہو چکے ہیں۔ دونوں صحابہ نے واپس آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شہادت کی خبر دی۔
حضرت حارثؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھاٹی میں تھے فرمایا کہ کیا تم نے عبدالرحمٰن بن عوف کو دیکھا ہے؟ میں نے عرض کی۔ جی ہاں میں نے انہیں دیکھاہے۔ وہ پہاڑی کے پہلو میں تھے اور ان پر مشرکین کا لشکر حملہ آور تھا۔ میں نے ان کی طرف رخ کیا تا کہ ان کو بچاؤں مگر پھر میری نظر آپؐ پر پڑی اور میں آپؐ کے پاس آ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے اس کی حفاظت کر رہے ہیں یعنی عبدالرحمٰن بن عوف کی فرشتے حفاظت کر رہے ہیں۔ ایک اَور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے اس کی معیت میں لڑ رہے ہیں۔ حضرت حارثؓ کہتے ہیں کہ میں عبدالرحمن بن عوف کے پاس گیا۔ پھر واپس ہو کے گیا۔ جب جنگ خاتمے کو پہنچی تو مَیں نے دیکھا ان کے سامنے سات آدمی قتل ہوئے پڑے ہیں۔ میں نے کہا کہ کیا آپؓ نے ان سب کو قتل کیا ہے؟اس پر عبدالرحمٰن نے کہا کہ ان تین کو تو مَیں نے قتل کیا ہے مگر باقیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ ان کو کس نے قتل کیا ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا۔ یعنی کہ فرشتے اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 615 حارث بن صمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
حضرت حارث واقعہ بئرِ َمعُونہ میں شریک ہوئے۔ جس وقت یہ واقعہ ہوا اور صحابہ کو شہید کیا گیا اُس وقت حضرت حارث اور عمرو بن اُمَیَّہ اونٹوں کو چرانے گئے ہوئے تھے۔ سیرت ابن ہشام میں دو اصحاب عمرو بن امیہ اور حضرت مُنْذِر بن محمد کا درج ہے۔ بہرحال بعض کتابوں کی روایت میں یہ تھے جو اونٹوں کو چرانے والےتھے۔ بہرحال اس روایت کے مطابق جو یہ کہتی ہے کہ یہ تھے، جب واپسی پر یہ اپنے پڑاؤ کی جگہ پر پہنچے تو دیکھا کہ پرندے وہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو انہوں نے سمجھ لیا کہ ان کے ساتھی شہید ہو چکے ہیں۔ حضرت حارث نے حضرت عمرو سے کہا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ عمرو نے کہا کہ میرا خیال تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے اور واپس جا کے خبر کی جائے۔ حضرت حارثؓ نے کہا کہ میں اس جگہ سے پیچھے نہیں رہوں گا جہاں مُنذِر کو قتل کیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ آگے بڑھے اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 615 حارث بن الصمۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء) (سیرت ابن ہشام صفحہ 439 حدیث بئر معونۃ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ کہتے ہیں کہ حَارِث کی شہادت دشمنوں کی طرف سے مسلسل پھینکے جانے والے نیزوں کی وجہ سے ہوئی تھی جو ان کے جسم میں پیوست ہو گئے تھے اور آپؓ شہید ہو گئے تھے۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 615 حارث بن الصمۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)