حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ
حضرت حرام بن ملحان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو عدی بن نجار سے تھا۔ آپ کے والد ملحان کا نام مالک بن خالد تھا۔ حضرت حرام بن ملحان کی والدہ کا نام مُلَیْکَہ بنت مالک تھا۔ آپ کی ایک بہن حضرت اُمّ سُلیم تھیں جو حضرت ابوطلحہ انصاری کی اہلیہ اور حضرت انس بن مالک کی والدہ تھیں۔ آپ کی دوسری بہن حضرت اُمّ حرام حضرت عُبَادَۃ بن صامِت کی اہلیہ تھیں۔ حضرت حرام بن ملحان حضرت انس کے ماموں تھے اور غزوہ بدر اور اُحد میں شریک تھے اور بئر معونہ کے دن شہید ہوئے تھے۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ ہمارے ساتھ ایسے آدمیوں کو بھیجئے جو ہمیں قرآن و سنت کی تعلیم دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ستّر صحابہ ان کے ساتھ بھیج دئیے جو قرآن کے قاری تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ ان میں میرے ماموں حرام بھی تھے۔ یہ لوگ قرآن کریم پڑھتے تھے۔ رات کو باہم درس دیتے اور علم سیکھتے۔ دن کو پانی لا کر مسجد میں رکھتے۔ جنگل سے لکڑیاں چنتے اور بیچ کر اہل صفّہ اور فقراء کے لئے غلّہ خریدتے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 390 حرام بن ملحان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)، (الاصابہ جلد 8صفحہ 375-376 ام حرام بنت ملحان، جلد 8 صفحہ408-409 ام سلیم بنت ملحان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) حضرت حرام بن ملحان کے بئر معونہ کے واقعہ کا کچھ بیان میں چند مہینہ پہلے خطبہ میں کر چکا ہوں۔ بئر معونہ کا باقی واقعہ ایک دو اور جگہ بھی بیان ہو چکا ہے۔ اس بارے میں بخاری کی بعض روایات ہیں جو پیش کرتا ہوں جو پہلے بیان نہیں ہوئیں۔ حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ جب حضرت حرام بن ملحان کو بئر معونہ والے دن نیزہ مارا گیا تو انہوں نے اپنا خون اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے منہ اور اپنے سر پر چھڑکا اور اس کے بعد کہا فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ کعبہ کے رب کی قسم! میں نے مراد پا لی۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع و رعل حدیث 4092)
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جب قاری لوگ شہید کئے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینہ بھر کھڑے ہو عاجزی سے دعا کی۔ اور بخاری کی دوسری روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی اس سے بڑھ کر غم کیا ہو۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب من جلس عند المصیبۃ … الخ حدیث 1300) پھر ایک روایت یہ ہے حضرت انسؓ سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے بعد کھڑے ہو کر ایک مہینے تک بنو سُلَیم کے چند قبیلوں کے خلاف دعا کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے قاریوں میں سے چالیس یا ستّر آدمیوں کو بعض مشرک لوگوں کے پاس بھیجا تو یہ قبائل آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا حالانکہ ان کے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان معاہدہ تھا۔ پھر اس میں بھی وہی بیان ہے کہ میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا کہ کسی پر اتنا غم کیا ہو جتنا کہ آپ نے ان قاریوں پر غم کیا۔ (صحیح البخاری کتاب الجزیۃ باب دعا الامام علی من نکث عھداً حدیث 3170)
پھر ایک حوالہ ہے ابن ھشام کی سیرت کا۔ جَبَّار بن سَلْمٰی جو عَمرو بن طُفَیل کے ساتھ اس موقع پر موجود تھے بعد میں یہ مسلمان ہو گئے تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ میرے اسلام قبول کرنے کی یہ وجہ ہوئی کہ میں نے ایک شخص کے دونوں کندھوں کے درمیان نیزہ مارا۔ میں نے دیکھا کہ نیزے کی اَنّی اس کے سینہ کے پار ہو گئی۔ پھر میں نے اس شخص کو یہ کہتے سنا۔ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃ۔ یعنی کعبہ کے رب کی قسم! میں نے اپنی مراد کو پا لیا۔ اس پر میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ کیسے کامیاب ہو گیا۔ کیا میں نے اس شخص کو شہیدنہیں کر دیا۔ جبار کہتے ہیں کہ میں نے بعد میں ان کے اس قول کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ اس کا مطلب شہادت پر فائز ہونا تھا۔ جبار کہتے ہیں کہ میں نے کہا وہ یقیناً خدا کے نزدیک کامیاب ہو گیا۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ 603حدیث بئر معونہ فی صفر سنۃ اربع مطبوعہ دار الکتب العلمیہ لبنان 2001ء)
دو تین صحابہ کے بارے میں اسی طرح کے واقعات ملتے ہیں۔ ملتے جلتے الفاظ ملتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا اصل مقصد سمجھتے تھے اور دنیاوی کامیابیاں ان کا اصل مقصدنہیں تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی اسی نیت کی وجہ سے ان کے بارے میں اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا۔
بئر معونہ کے موقع پر شہادت کے وقت صحابہ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ اَللّٰھُمَّ بَلِّغْ عَنَّا نَبِیَّنَا اَنَّا قَدْ لَقِیْنَاکَ فَرَضِیْنَا عَنْکَ وَرَضِیْتَ عَنَّا۔ کہ اے اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حالات سے آگاہ فرما دے کہ ہم تجھ سے جا ملے ہیں اور ہم تجھ سے اور تُو ہم سے راضی ہے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ساتھی اللہ سے جا ملے ہیں اور اللہ ان سے راضی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 267 حرام بن ملحان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اس واقعہ کے بارے میں بھی بیان کرتے ہیں کہ واقعات بئر معونہ اور رجیع سے قبائل عرب کے اس انتہائی درجہ کے بغض و عداوت کا پتہ چلتا ہے جو وہ اسلام اور متبعین اسلام کے متعلق اپنے دلوں میں رکھتے تھے۔ حتی کہ ان لوگوں کو اسلام کے خلاف ذلیل ترین قسم کے جھوٹ اور دغا اور فریب سے بھی کوئی پرہیز نہیں تھا اور مسلمان باوجود اپنی کمال ہوشیاری اور بیدار مغزی کے بعض اوقات اپنی مومنانہ حسن ظنی میں ان کے دام کا شکار ہو جاتے تھے۔ حفاظ قرآن، نماز گزار، تہجد خواں مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کا نام لینے والے اور پھر غریب مفلس فاقوں کے مارے ہوئے یہ وہ لوگ تھے جن کو ان ظالموں نے دین سیکھنے کے بہانے سے اپنے وطن میں بلایا اور پھر جب مہمان کی حیثیت میں وہ ان کے وطن میں پہنچے تو ان کو نہایت بے رحمی کے ساتھ تَہ تیغ کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان واقعات کا جتنا بھی صدمہ ہوتا کم تھا۔ مگر اس وقت آپ نے رجیع اور بئر معونہ کے خونی قاتلوں کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہیں فرمائی۔ (صدمہ ضرور ہوا لیکن ان کے خلاف جنگی کارروائی کوئی نہیں ہوئی)۔ البتہ اس خبر کے آنے کی تاریخ سے لے کر برابر تیس دن تک آپ نے ہر روز صبح کی نماز کے قیام میں نہایت گریہ و زاری کے ساتھ قبائل رِعل اور ذَکوان اور عُصَیَّہ اور بنو لَحیان کا نام لے لے کر خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی کہ اے میرے آقا! تُو ہماری حالت پر رحم فرما اور دشمنان اسلام کے ہاتھ کو روک جو تیرے دین کو مٹانے کے لئے اس بے رحمی اور سنگدلی کے ساتھ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں‘‘۔ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 520-521)
پس آج بھی دشمن کے ہاتھ کو روکنے کے لئے دعاؤں کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان لوگوں کی پکڑ کے سامان کرے اور ہمارے لئے بھی آسانیاں پیدا فرمائے۔