حضرت خالد بن بُکَیْر ؓ
حضرت خالد بن بُکَیْر حضرت عاقل حضرت عامر، حضرت ایاس نے اکٹھے دارارقم میں اسلام قبول کیا تھا اور ان چاروں بھائیوں نے دارارقم میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن بُکَیْر اور حضرت زید بن دَثِنَہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ آپ غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد میں موجود تھے اور رجیع کا واقعہ جو پہلے بیان ہوا ہے جہاں دھوکے سے دس مسلمانوں کومارا گیا تھاوہاں آپ بھی شہید ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 297 عاقل بن ابی البکیرؓ، خالد بن ابی البکیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر سے پہلے ایک سریہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں قریش کے قافلہ کے لئے روانہ فرمایا اس میں حضرت خالد بن بُکَیْربھی شامل تھے۔ آپ صفر 4 ہجری کو 34سال کی عمر میں جنگ رجیع میں عاصم بن ثابت اور مَرْثَد بن ابی مَرْثَد غَنَوِی کے ساتھ قبائل عَضَل و قَارَہ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ (اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 647 خالد بن بکیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
اس بارہ میں ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب قبیلہ عَضَل اور قَارَہ کے لوگ ان صحابہ کو لے کر مقام رجیع میں پہنچے جو قبیلہ ھُذَیل کے ایک چشمہ کا نام ہے۔ رجیع جو جگہ ہے یہ جو قبیلہ ھُذَیل کے ایک چشمہ کا نام ہے اور حجاز کے کنارے پر واقعہ ہے تو ان لوگوں نے اصحاب کے ساتھ غداری کی۔ یعنی جو لوگ لے کر گئے تھے انہوں نے صحابہ کے ساتھ غداری کی۔ دھوکہ دیا اور قبیلہ ھُذَیل کو ان کے خلاف بھڑکا دیا۔ صحابہ اس وقت اپنے خیمہ میں ہی تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ چاروں طرف سے لوگ تلواریں لئے چلے آ رہے ہیں۔ یہ بھی دلیرانہ جنگ کے لئے تیار ہو گئے۔ ان لوگوں نے(یعنی کافروں نے) کہا واللہ! ہم تم کو قتل نہیں کریں گے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم کو پکڑ کر مکہ والوں کے پاس لے جائیں گے اور ان سے تمہارے معاوضہ میں کچھ لے لیں گے۔ حضرت مَرْثَد بن ابی مَرْثَد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خالد بن بُکَیْر نے کہا کہ خدا کی قسم! ہم مشرک کے عہد میں داخل نہیں ہوتے۔ آخر یہ تینوں اس قدر لڑے کہ شہید ہو گئے۔‘‘ (سیرت ابن ہشام صفحہ 591-592 ذکر یوم الرجیع فی سنۃ ثلاث مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
حضرت حسانؓ بن ثابت نے ان لوگوں کے بارے میں اپنے ایک شعر میں کہا ہے کہ
اَلَا لَیْتَنی فِیْھَا شَھِدْتُ ابْنَ طَارِقٍ
وَزَیْدًا وَمَا تُغْنِی الْاَمَانِی وَمَرْثَدَا
فَدَافَعْتُ عَنْ حِبِّی خُبَیْبٍ وَ عَاصِمٍ
وَکَانَ شِفَاءً لَوْ تَدَارَکْتُ خَالِدَا
(اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 647 خالد بن بکیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
کہ کاش میں اس (واقعہ رجیع) میں ابن طارق اور زید اور مَرثَد کے ساتھ ہوتا۔ اگرچہ آرزوئیں کچھ کام نہیں آتیں۔ تو میں اپنے دوست خُبیب اور عاصم کو بچاتا اور اگر میں خالد کو پا لیتا تو وہ بھی بچ جاتا۔
تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دین کی حفاظت کے لئے، اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے قربانیاں دیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنے۔