خدا خوش ہوگیا
فہیم احمد خادم، ٹی آئی احمدیہ سیکنڈری سکول ایسارچر۔گھانا
’’بیٹا‘‘یہ لفظ کتنا سندر اور پیارا ہے ۔ بیٹاکمسن ہوتودل بے اختیار اس پرواری ہوا جاتاہے۔ اس کی ہر ادا دلبرانہ ہوتی ہے۔ والد دن بھر کی مشقت کے بعد گھرواپس آئے تو اس کی اک مسکراہٹ ، ساری تھکان دورکر دیتی ہے ۔ والدہ کے لئے تو آنکھوں کا تارا ہوتاہے۔ دن رات کے کام کاج سے تھکی ہاری کے لئے ، اس کی توتلی زبان کے دوبول ہی راحت کا سامان ہیں۔ پھراگریہ بیٹا سب سے چھوٹا ہو تو وہ کچھ زیادہ ہی پیار لیتاہے۔ والدین کواس کے نخرے سہنا اور ضدپوری کرنا اچھا لگتاہے ۔ کبھی والدین کسی بات پرناراض ہونے لگیں تو اس کی چھوٹی سی شرارت اور معصومیت سارے غصے کو کافور کر دیتی ہے۔ یہ سب فطرتی محبت کے بے ساختہ کرشمے ہیں ۔اس محبت میں انسان بے بس اور بے اختیار ہے۔
بچے کو ذرا سی تکلیف پہنچ جائے تو والدین بے چین ہو جاتے ہیں راتوں کی نیند اور دن کا سکون چھن جاتاہے ۔ و ہ بچے کے آرام کی خاطر اپنا سکون تج کر دیتے ہیں اور اس کے لئے بیتاب ہو جاتے ہیں۔ اگرخدانخواستہ یہ بچہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو والدین کوچپ سی لگ جاتی ہے بعض تو مارے غم کے ہوش وحواس کھو بیٹھتے ہیں۔ اور بعض خدا سے شکوہ و شکایت کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسے میں بعض والدین صبر ورضا کا نمونہ دکھاتے ہیں ۔ بعض والدین اس رضا بقضاء الٰہی میں معراج کو جا پہنچتے ہیں۔ یہ والدین کونسے ہیں آئیے دیکھتے ہیں۔
حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر پیداہوئے۔ یہ کوئی عام ولادت نہ تھی۔ اس سے قبل حضور کے تین بیٹے حیات تھے۔ یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد(خلیفۃ المسیح الثانیؓ) ،حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ۔ حضورکو خدا تعالیٰ نے چوتھے بیٹے کی بشارت دی تھی۔ الہامات میں اس ہونے والے نومولود کو ’’غلاماً زکیاً‘‘ یعنی’’ پاک لڑکا‘‘ قرار دیا گیا۔ حضور آپ کی پیدائش سے قبل ، آپ کے بارہ میں اپنی رؤیا کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس لڑکے کی مجھ میں روح بولی اور الہام کے طورپر یہ کلام اس کا میں نے سنا ۔انی اسقط من اللہ واصیبہ یعنی اب میرا وقت آ گیاہے اورمیں اب خدا کی طرف سے اور خدا کے ہاتھوں سے زمین پر گروں گا۔ اور پھراسی کی طرف جاؤں گا‘‘۔(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵صفحہ ۲۱۷)
آپ ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء کو پیدا ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا س ولادت پر بے حد خوش تھے۔ اس خوشی میں مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں تعطیل کردی گئی۔ ۲۶؍جون ۱۸۹۹ء بروز سوموار آپ کا عقیقہ بڑی دھوم دھام سے ہوا اورکثیر احباب نے اس تقریب میں شرکت کی۔
حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، حضرت مسیح موعود ؑ کے بے حد لاڈلے تھے۔ آپ بڑے ذہین اور نیک سیرت تھے ۔کچھ ایسے نیک طبع تھے کہ لوگ انہیں ’ولی ،ولی ‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ طبیعت کے حلیم تھے۔ زیادہ عرصہ بیمار رہے۔ بیماری کے ایام میں کڑوی دوائی بھی بخوشی پی لیا کرتے تھے۔ قرآن مجید ختم کر لیا تھا اور اردو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ ابھی آپ کی عمر ۸سال ہوئی کہ آپ شدید بیمار پڑ گئے۔حضرت مسیح موعود ؑ دن رات آپ کی تیمارداری میں مصروف نظر آتے اور بڑے درد و الحاح سے آپ کے لئے دعائیں کرتے۔ بیماری مسلسل بڑھ رہی تھی اور کامل شفا ہونے میں نہ آتی تھی۔
ان بیماری کے ایام میں کسی شخص نے خواب دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی شادی ہو رہی ہے۔ حضور نے یہ سن کر فرمایا:’’ معبرین نے لکھاہے کہ اس کی تعبیر تو موت ہے مگر اسے ظاہری رنگ میں پورا کرنے سے بعض اوقات تعبیر ٹل جایا کرتی ہے ۔ چنانچہ ایک شفیق اور بے حد پیار کرنے والے باپ نے دعاؤں کے ساتھ ساتھ، اپنے بیٹے کی بقاء کے لئے یہ تدبیر بھی کر ڈالی۔۳۰؍اگست ۱۹۰۷ء کو حضرت صاحبزادہ مرزامبارک احمد صاحب کا نکاح عزیزہ مریم صاحبہ بنت مکرم حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب سے پڑھایا گیا۔ اس نکاح کا اعلان حضرت حکیم نورالدین صاحب بھیرویؓ (خلیفۃ المسیح الاول) نے خود کیا۔
ِ بیماری کا علاج بھی پوری توجہ سے جاری تھا۔ دعاؤں کی بھی کوئی کمی نہ تھی لیکن خدا کی تقدیر مبرم اٹل تھی ۔ وہی ہوا جس کا حضرت مسیح موعودؑ ، آپ کی پیدائش سے پہلے اور بعد میں بھی اکثر ذکر فرماتے تھے کہ :
’’لڑکا یا تو بہت خدا رسیدہ ہوگا یا بچپن میں فوت ہو جائے گا‘‘۔
آخر ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو حضرت مسیح موعود ؑ کا لخت جگر اور عزیز بیٹا حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد خدا کو پیارا ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس وقت ان کی عمر صرف آٹھ سال اور چند ماہ تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس عزیز اور پیارے بیٹے کی اس کمسنی کی وفات پر کس قدر حزیں ہوئے ، تاریخ احمدیت صرف اتنا بتاتی ہے کہ آپ نے انا للہ واناالیہ راجعون پڑھا۔ بڑے اطمینان سے بستہ کھولا اور بیرونی احباب کو اس مضمون کے خط لکھنے بیٹھ گئے کہ :
’’مبارک احمد فوت ہو گیاہے اور ہم کو اللہ کی قضاء پرراضی رہنا چاہئے۔ اور مجھے بعض الہاموں میں بتایا گیا تھا کہ یا یہ لڑکا بہت خدارسیدہ ہوگا اور یا بچپن میں فوت ہو جائے گا۔ سو ہم کو اس لحاظ سے خوش ہونا چاہئے کہ خدا کا کلام پورا ہوا‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ضمن میں اپنے ایک الہام کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا :
’’جب یہ الہام انی اسقط من اللہ و اصیبہ ہوا تھا تو میرے دل میں کھٹکا ہی تھا ۔ اسی واسطے میں نے لکھ دیا تھاکہ یا یہ لڑکا نیک ہوگا ، روبخدا ہوگا اور یا یہ کہ جلد فوت ہوجائے گا‘‘۔ (بحوالہ اصحاب احمد جلد اول ، مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے۔ صفحہ ۳۵)
حضور کا راضی برضا ہونا، صرف اپنی ذات کی حد تک محدود نہ تھا بلکہ دوسروں کو بھی اسی کی نصیحت فرماتے تھے ۔ جواحباب آپ سے اظہار ہمدردی اور افسوس ظاہر کرنے آتے تو حضور ان سے اس رنگ میں گفتگو فرماتے کہ گویا صدمہ انہیں پہنچا ہے۔ اور حضور ان کو تسلیاں دے رہے ہیں اور حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔
یہ دلی اطمینان اور طمانیت !اس کا حصول کس طرح ممکن ہے؟ یہ کتناحیران کن امرہے؟ آخر اس کی بناء کیا ہے ؟
یہ وہ خدا والے لوگ ہیں جن کی زندگی کا محور صرف خدا کی ذات ہواکرتی ہے ۔ یہی تعلق دائمی اور پختہ ہے ۔ باقی تمام تعلقات اسی کی ذیل میں آتے ہیں ۔ اسی کی رضا انہیں عزیز ہوتی ہے اگرباقی سب تعلقات کالعدم ہو جائیں تو انہیں اس کی ذرا بھی پروا نہیں ہوتی۔ ہاں انہیں تو صرف اس تعلق کا پاس ہے اوراس کی رضا ان کا مقصود و منتہاء ہے ۔
یہ وہ خدارسیدہ ہستیاں ہیں جو خدا کی بے شمار نعماء کے بالمقابل ایک چھوٹی سی نعمت کے چھن جانے پر دلبرداشتہ نہیں ہوتے، فکرمند نہیں ہوتے بلکہ ہر آن عطاء کرنے والے کی چوکھٹ پر شکروسپاس کے ساتھ سجدہ ریز رہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس عظیم سانحہ کے موقع پر فقط اتنا فرمایا:
’’ خدا تعالیٰ اتنی مد ت سے ہم پر رحم کرتا آیا ہے ۔ ہرطرح سے ہماری خواہش کے مطابق کام کرتا آیا ہے اس نے اٹھارہ برس کے عرصے میں ہم کو طرح طرح کی خوشیاں پہنچائیں اور انعام و اکرام کئے گویا کہ اپنی رضا پر ہماری رضا کو مقدم کر لیا ۔پھر اگر ایک دفعہ اس نے اپنی مرضی ہم کو منوانی چاہی تو کونسی بڑی بات ہے ۔ اگر ہم باوجود اس کے اس قدر احسانات کے پھر بھی جزع فزع اور واویلا کریں توہمارے جیسا احسان فراموش کوئی نہ ہوگا‘‘۔
حضور اس ضمن میں اوروں کو بھی رضا بہ قضاء الٰہی کا نمونہ دکھانے کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’دوستی تو اسی کو کہتے ہیں کہ کچھ دوست کی باتیں مانی جائیں اور کچھ اس کی منوائی جائیں یہ تو دوستی نہیں کہ اپنی ہی اپنی منواتے جانا اور جب دوست کی بات ماننے کا وقت آئے تو برا منانا۔ پس جبکہ ہم نے خدا تعالیٰ سے تعلق کیا ہے تو چاہئے کہ کچھ اس کی مانیں اور کچھ اس سے منوائیں‘‘۔ (’تشحیذ الاذہان‘ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲۵۔ بحوالہ اصحاب احمد جلد ۱ صفحہ ۴۱ ۔مرتبہ مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے۔)
مال کے چھن جانے پر غم تو اسے ہوگا جو مال کو اپنی ملکیت تصور کرے گا۔ جو لوگ اولاد کو پرایا مال تصور کریں تو پھر اس مال کے چھن جانے پر غم کیوں کریں؟ وہ تو ہمہ وقت سکینت میں ہیں ۔ وہ تو فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں کہ اولاد خدا کا دیا ہوا مال ہے ۔وہ جب چاہے واپس لے لے ۔ سب اس کا اختیار ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا بھی یہی شیوہ تھا۔ آپ برملا فرمایا کرتے تھے:
’’ہم نے تو اپنی اولاد وغیرہ کا پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہواہے کہ یہ سب خدا کا مال ہے اورہمارا اس میں کچھ تعلق نہیں اورہم بھی خدا کامال ہیں۔ جنہوں نے پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوتاہے ان کو غم نہیں ہوا کرتا‘‘۔ (الحکم ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۷ء ۔ بحوالہ اصحاب احمد جلد ۱ صفحہ ۴۱ ۔ مرتبہ مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے)
کیا حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات پر ، صرف ان کے والد محترم نے ہی صبر و رضا کا نمونہ دکھایا؟ نہیں ،ہر گز نہیں ۔ اس میدان میں حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ آپ بھی خدا کی رضا کے حصول میں پیش پیش رہیں۔ ایک والدہ کے لئے ، اس کا بیٹا، کتنا عزیز ہوتاہے؟ وہ تو سراپا ممتاہے ۔ پیار کی دیوی ہے۔ بچوں کے لئے محبت کا بہتا سمندر ہے۔ پھر ایسی پیار کرنے والی ہستی کی گود دیکھتے دیکھتے خالی ہو جائے اور لختِ جگر ایسا کہ جس نے ابھی زندگی کی صرف آٹھ بہاریں دیکھی ہوں۔ کتنے ارمان مچلتے ہونگے اس والدہ کے دل میں، کتنے طوفان موجزن ہونگے اس کے من میں کہ اس کا لختِ جگر ، کمسنی کی حالت میں ہی خدا کو پیارا ہو چلاہے ۔لیکن آسمان ششدرہے اور زمین انگشت بدنداں کہ اس صبرورضا کی دیوی نے فقط انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور چپ ہو رہیں اوراپنے سارے ارمان اور حسرتیں صرف اس فقرہ کی نذر کردیں۔ اور اپنی جملہ خواہشات پر اپنے مولا کی رضا کو مقدم کر لیا۔
تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ ہو۔ وہ خدا جو عرش پر اپنے ان پیاروں کی ان دلربا اداؤں کو بڑی محبت سے دیکھ رہا تھا وہ خوشی سے جھوم اٹھا اور اپنے بندوں کو ان الفاظ میں خوشی کی نوید سنائی:
’’خدا خوش ہو گیا‘‘
’’ کل والا الہام کہ ’’خدا خوش ہو گیا‘‘ ہم نے اپنی بیوی کو سنایا تواس نے سن کر کہا کہ مجھے اس الہام سے اتنی خوشی ہوئی ہے کہ اگر دو ہزار مبارک احمد بھی مرجاتا تو میں پرواہ نہ کرتی‘‘۔ (الحکم ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۷ء ۔ بحوالہ اصحاب احمد جلد ۱ صفحہ ۳۹ ۔ مرتبہ مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات پر جو چند اشعار کہے وہ بھی رضا برضاء الٰہی کا درس دیتے ہیں۔ فر ما یا :
جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا
وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر
کہا کہ آئی ہے نیند مجھ کو یہی تھا آخر کا قول لیکن
کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر
برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اسے بلایا
بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
حضور نے آخری مصرعہ میں کتنی کھری اور سچی بات فرمائی ہے اور یہی زندگی اور موت کے فلسفہ کا نچوڑ اور خلاصہ ہے ۔
بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
مراجع و مصادر:
۱۔ اصحاب احمد جلد نمبر۱۔ مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے۔
۲۔روحانی خزائن جلد ۱۵ ۔مطبوعہ لند ن
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۱۶؍اپریل۱۹۹۹ء تا۲۲؍اپریل ۱۹۹۹ء)