آئندہ آسٹریلیاکے تمام خطرناک مجرموں کا ڈی این اے ریکارڈ رکھا جائے گا
چوہدری خالد سیف اللہ خان
وسط ۱۹۹۹ء سے آسٹریلیاکی پولیس کو یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ ہر ملزم سے اس کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کر سکے تاکہ اس کا قومی سطح پر رکھے ہوئے ریکارڈ (DNA Datebase)کے ساتھ مقابلہ کر کے مجرم کو شناخت کر سکیں۔ خیال ہے کہ اس طریق سے جو مجرم اب تک نہیں پکڑے جا سکے ان کی گرفتاری ممکن ہو سکے گی۔ڈی این اے ہر انسان کے جینز کا ایک ایسا نقشہ ہوتاہے جو انگلیوں کے نشانات کی طرح ہر شخص کا اپنااپنا ہوتاہے اور اسے خون ، ہڈیوں، جنسی رطوبت، بالوں اورمنہ کے لعاب وغیرہ سے حاصل کیاجاسکتا ہے۔ اور اس کو بھی مجرموں کی شناخت کے لئے اسی طرح استعمال کیاجاسکتاہے جس طرح انگلیوں کے نشانات کو ۔
ڈی این اے کی مددسے ایک قاتل کو ڈھونڈ پکڑنے کی ایک دلچسپ مثال اخبار میں آئی ہے ۔ ۱۹۸۲ء میں ائرفورس بیس پر چیرل نامی ایک عورت کو کسی نے جنسی زیادتی کانشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ ملزم نہ پکڑا جا سکا۔ گو کہ اس وقت مشتبہ اشخاص کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرکے محفوظ کر لئے گئے تھے لیکن تب تک سائنس کے اس شعبہ نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ اس سے قاتل کی نشاندہی ہو سکتی۔ واقعۂ قتل کے چودہ سال بعد جب وہ ڈی این اے دوبارہ چیک کئے گئے اور ان کا قومی ڈی این اے ریکارڈ سے مقابلہ کیا گیا تو قاتل کا پتہ چل گیا ۔اس کا نام راڈنی ونٹر ز تھا اور اس نے چیرل کو قتل کرنے کے جرم کا اعتراف بھی کر لیاہے ۔
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍اپریل۱۹۹۹ء تا۲۲؍اپریل ۱۹۹۹ء)